ہم جمہوریت اور استحکام چاہتے ہیں!

تیونس کی النہضہ پارٹی الیکشن جیتنے کی صورت میں صرف حکومت کرنا نہیں چاہتی بلکہ ملک کو بہتر انداز سے چلانے اور اس کی تعمیر نو سے متعلق سرگرمیوں میں تمام شہریوں کو شریک کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ تیونس کے عوام نے سال رواں کے اوائل میں زین العابدین بن علی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ (پہلے جمہوری الیکشن ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو منعقد ہونے جارہے ہیں)۔

النہضہ پارٹی کے قائد راشد الغنوشی کہتے ہیں کہ اگر عام انتخابات میں ان کی پارٹی واضح اکثریت سے کامیاب ہو جائے تب بھی وہ قومی اتفاق رائے پر مبنی حکومت قائم کرنا چاہیں گے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم اپنی اجتماعی شناخت کے ایک بڑے حصے (اسلام) کو حکومتی امور سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتے۔ اسلام کو الگ تھلگ رکھنے سے سیاسی اور اقتصادی امور میں تنازعات، عدم اتفاق اور ناکامی کو راہ ملی ہے۔ ہم اپنی شناخت کے ساتھ مصالحت اور موافقت یقینی بنانے کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں جمہوریت اور جدیدیت کے ساتھ اسلام کے تال میل کو یقینی بنانے کی راہیں تلاش کرنا ہیں۔‘‘

ترک اخبار ’’ٹوڈیز زمان‘‘ کی اسماء باش بیدار سے لندن میں ایک انٹرویو میں راشد الغنوشی نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی الیکشن جیتنے کی صورت میں ملائیت پر مبنی حکومت قائم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ہو یا لبرل ازم، کسی بھی حوالے سے لوگوں پر کوئی خاص طرزِ زندگی یا عقائد مسلط کرنا درست نہیں۔

راشد الغنوشی کا استدلال ہے کہ انیسویں صدی میں ترکی میں جس طرح تنظیمات کے تحت اصلاح کی تحریک چلی تھی، کچھ ویسا ہی معاملہ تیونس کا بھی ہے۔ وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ معاشی، ثقافتی اور علمی سطح پر ترکی سے روابط گہرے اور مستحکم کیے جائیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ترکی پورے خطے کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ ترکی میں جو کچھ ہوا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بدعنوانی، پسماندگی، اِفلاس، سماجی ناانصافی اور آزادی سے محرومی، جو بیشتر عرب ممالک کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، ہمارا مقدر اور ناگزیر نہیں۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تیونس سمیت کوئی بھی معاشرہ جمہوریت اور ترقی کی طرف اپنے طور پر بڑھ سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جمہوریت اور خوشحالی یا تو حاصل ہی نہیں کی جاسکتیں یا پھر کوئی انہیں باہر سے لاکر ہم پر تھوپے گا۔

ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے حال ہی میں مصر، لیبیا اور تیونس کا دورہ کیا۔ النہضہ کے قائد کہتے ہیں کہ طیب ایردوان کا تیونس میں بھی بھرپور استقبال کیا گیا اور ہزاروں افراد ان کے خیر مقدم کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ غزہ کے مسئلے پر اسرائیل کے خلاف ان کے ٹھوس موقف کو تیونس میں بھی کھل کر سراہا گیا ہے۔

تیونس میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی تو مصر اور لیبیا سمیت کئی ممالک کو متاثر کرتی گئی۔ عوامی بیداری کی لہر ہی سے تیونس میں زین العابدین بن علی کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ تیونس میں ۲۳ اکتوبر کو عام انتخابات منعقد کیے جارہے ہیں۔ فتح کے امکانات، ممکنہ حکومت کی تشکیل اور دیگر امور پر ’’ٹوڈیز زمان‘‘ سے راشد الغنوشی نے جو گفتگو کی ہے وہ ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:


٭ عرب دنیا میں بیداری کی جو لہر اٹھی ہے، اس کے لیے ہراول دستے کا کردار تیونس کے معاملات نے ادا کیا ہے۔ تیونس میں النہضہ کا کیا کردار رہا؟

راشد الغنوشی: بدعنوانی، پسماندگی، اِفلاس اور آزادی سے محرومی کے خلاف تیونس میں ہر طبقے، عمر اور مزاج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ عشروں تک النہضہ کو کچلنے کی کوشش کی گئی مگر حکومت اس میں ناکام رہی اور النہضہ معاشرے کا لازمی جز بن گئی۔ تیونس کا عوامی انقلاب کسی پارٹی کا برپا کیا ہوا نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی ایک پارٹی کے بینر تلے تھا۔ سب کے ساتھ النہضہ نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ تیونس کا عوامی انقلاب کسی خلا کا نتیجہ نہیں تھا۔ اسلام نواز عناصر، بائیں بازو کے لوگوں، لبرلز، ٹریڈ یونین سے وابستہ افراد اور قوم پرستوں نے کئی عشروں تک حقوق کے لیے جدوجہد کی تو یہ دن دیکھنے کو ملا۔ سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے متحرک رہنے والوں اور سول سوسائٹی کے باعمل افراد نے عشروں تک بدعنوانی، پسماندگی، اِفلاس، سماجی نا انصافی اور آزادی سے محرومی کے خلاف اور حقوق کے لیے جدوجہد کی تو آمریت کی راہ مسدود ہوئی اور عوام کی رائے کو مقدم گرداننے کی راہ ہموار ہوئی۔ ان تمام لوگوں کی مشترکہ کوششوں ہی سے عوامی انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔

٭ زین العابدین بن علی کے رخصت ہونے کے بعد کیا واقعی تیونس میں سیاسی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہوگیا ہے؟ کیا حقیقی تبدیلی رونما ہوئی ہے؟

راشد الغنوشی: طاقت کا توازن مکمل طور پر تبدیل نہیں ہوا۔ سرکاری امور، عدالتی نظام، میڈیا، سیکورٹی سروسز اور دیگر اہم شعبوں میں اب بھی پرانی انتظامیہ کا عمل دخل ختم نہیں ہوا۔ تبدیلی یہ آئی ہے کہ افق پر ایک نئی طاقت ابھری ہے۔ عوام ابھرے ہیں۔ انہیں یقین ہوگیا ہے کہ وہ معاملات کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے خوف کا چولا اتار پھینکا ہے۔ اب عوام کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے نہ خوف زدہ کیا جاسکتا ہے۔ عوام نے جس جمہوری انداز سے ملک میں سابق انتظامیہ کو چلتا کیا، اُسی طرح کے جذبے سے ملک کی تعمیر و ترقی چاہتے ہیں تاکہ حقیقی ترقی کی راہ ہموار ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ احترام سب کے لیے ہو اور ترقی کا موقع سب کو ملے۔

ایسے لوگ اب بھی ہیں جو ہمیں پرانے نظام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں مگر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ کسی بھی انقلاب میں بنیادی اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ عوام جاگ اٹھے ہوں اور انہیں اچھی طرح معلوم ہو کہ کیا ہو رہا ہے۔ تیونس میں یہی کیفیت ہے۔ لوگ پوری طرح ہوش میں ہیں۔ یہ انقلاب عوام کا برپا کیا ہوا تھا اور وہی اس کی حفاظت کریں گے۔ عوامی انقلاب میں نوجوانوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ پہلے انہوں نے زین العابدین بن علی کی رخصتی کا اہتمام کیا۔ پھر انہوں نے سابق انتظامیہ کو رخصت کرنے پر بھی زور دیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان آمریت اور جبر کے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہیں تاکہ اسلام، لبرل ازم یا کسی اور نام پر آمریت کی راہ روکی جاسکے۔

٭ یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ النہضہ کی واپسی سے تیونس کی ’’اسلامائزیشن‘‘ ہوگی۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

راشد الغنوشی: اس نوعیت کے خدشات النہضہ کے خلاف عشروں تک چلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم کا نتیجہ ہیں۔ زین العابدین بن علی نے اس قسم کے خدشات کو بنیاد بناکر ہی ملک میں لوگوں کو خوفزدہ رکھا اور بیرون ملک النہضہ کے خلاف کارروائی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔ زین العابدین بن علی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ہمارے چند مخالفین نے پرانی انتظامیہ کے ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کیے ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ عام انتخابات میں النہضہ اپنی قوت منوائے گی۔ النہضہ کہتی آئی ہے کہ وہ اسلام، سیکولر ازم، لبرل ازم یا کسی اور نظریے کے نام پر آمرانہ اور جابرانہ نظام مسلط کرنے کے خلاف ہے اور مکمل آزادی کی ضمانت بننے والے نظام حکومت پر یقین رکھتی ہے۔ تیونس کی عرب اسلامی شناخت قومی اتفاق رائے کی بنیاد ہے جس کی آئین میں تصریح موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اسلام پر اجارہ قائم کرے، عوام پر کوئی بھی طرز زندگی یا عقائد مسلط کرے کیونکہ اسلام میں کوئی چرچ نہیں۔ زندگی کے تمام اہم امور میں عوام کی آزادی ہمارا بنیادی اصول ہے اور کسی کے ذہن میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم آزادی کے خلاف جائیں گے۔

٭ النہضہ نہیں چاہتی تھی کہ جولائی میں متوقع انتخابات کو اکتوبر تک موخر کیا جائے۔ انتخابات موخر کرنے کا اصل سبب کیا تھا اور یہ تبدیلی النہضہ نے کیوں قبول کی؟

راشد الغنوشی: ہم انتخابات کو موخر کرنے کے خلاف اس لیے تھے کہ انتخابی عمل ہی کے ذریعے انتشار کی کیفیت ختم کی جاسکتی تھی اور نئے نظام کو قانونی جواز فراہم کیا جاسکتا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ جو بھی تبدیلی رونما ہوئی ہے اس پر تصدیق کی مہر لگ جائے۔ ہماری رائے یہ تھی کہ انتخابات موخر کرنے سے عدم استحکام طول پکڑے گا اور مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔ بہر حال، ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ عبوری حکومت اور سیاسی جماعتوں نے نئے انتخابات کی جو تاریخ قبول کی ہے اسے قبول کرلیا جائے۔

٭ کیا آپ کو یقین ہے کہ تیونس کے آئندہ عام انتخابات مکمل طور پر جمہوری ہوں گے؟

راشد الغنوشی: ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ غیر ملکی مبصرین بھی انتخابی عمل کا جائزہ لیں تاکہ اس پر لوگوں کا اعتبار قائم ہو۔ ہم خاص طور پر چاہتے ہیں کہ ترکی مبصرین بھیجے کیونکہ غیر جانبدار اور شفاف انتخابات کی ان کے ہاں مستحکم روایت ہے۔

٭ اگر النہضہ عام انتخابات میں کامیاب ہوئی تو یہ ملک میں جمہوری تبدیلیوں کے جاری عمل کو کس طرح آگے بڑھائے گی؟ کیا وہ اندرونی منقسم اور بدعنوانی سے عبارت نظام کو درست کرنے میں کامیاب ہوسکے گی؟

راشد الغنوشی: ہم نے بارہا کہا ہے کہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کی صورت میں بھی ہم تنہا حکومت نہیں کریں گے بلکہ قومی اتفاق رائے کی حکومت تشکیل دیں گے تاکہ ملک کی سیاسی اور سماجی تبدیلی میں تمام سیاسی عناصر شریک ہوں۔ اس صورت میں ملک کو تبدیلی کے عمل سے بہتر طور پر گزارا جاسکے گا۔ ایسا کرنے کی صورت میں جنوبی افریقا کی طرز پر مصالحت کا عمل شروع کرنا ممکن ہوگا جس کے ذریعے ماضی کی تلخیوں کو بھی بہتر ڈھنگ سے ختم کیا جاسکے گا۔ میرے خیال میں ایسی حکومت کی آئندہ پانچ سال تک ضرورت پڑے گی تاکہ ملک میں جمہوریت کی جڑیں گہری ہوسکیں اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار ہوسکے۔

٭ بیروزگاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تیزی سے خراب ہوتی ہوئی سیاسی اور معاشی صورت حال کے تدارک کے حوالے سے النہضہ کی منصوبہ بندی کیا ہے؟

راشد الغنوشی: ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ استحکام کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں۔ جائز اور مستحکم حکومت کے نہ ہونے سے ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ایسی مستحکم حکومت معرض وجود میں آئے گی جو ملک کو مستحکم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔

غیر معمولی بد عنوانی کے باعث پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ ہم چاہیں گے کہ بدعنوانی ختم کرنے پر خاص توجہ دی جائے۔ قدرتی وسائل سے تیونس زیادہ مالا مال نہیں۔ جغرافیائی طور پر ملک اچھی حیثیت کا مالک ہے۔ پڑھی لکھی اور محنتی افرادی قوت موجود ہے۔ ثقافتی اعتبار سے ملک مضبوط ہے۔ سیاحت کو زیادہ فروغ دیا جاسکتا ہے۔ مگر سیاحت کے فروغ کے لیے سیکورٹی کی صورتحال بہتر بنانا لازمی ہے۔ ملک مضبوط ہوگا تو لوگ آئیں گے۔ ہائی ٹیک انڈسٹریز کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ زراعت بھی اب تک تیونس کی معیشت کا اہم جز ہے۔ ملک کو سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی ترقی دی جاسکتی ہے۔ خطے کے بہت سے بڑے سرمایہ کار تیونس میں نجی سرمایہ کاری کے حوالے سے دلچسپی لے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بہتر ہوم ورک کی ضرورت ہے تاکہ پرکشش پیکیجز تیار کیے جاسکیں۔ تیونس کو شمالی افریقا اور بحیرہ روم کے خطے میں اپنے پڑوسی اور دیگر قریبی ممالک سے بہتر تعلقات استوار رکھنا ہوں گے تاکہ ترقی کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ترکی ہمارا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ ہم اس کی کامیابی سے بہت کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنے انتخابی منشور میں جو اقتصادی منصوبہ پیش کیا ہے، اس پر عمل کی صورت میں امید ہے کہ ۲۰۱۶ء تک معاشی نمو کی رفتار ۸ فیصد سالانہ ہو جائے گی اور اس مدت میں ۵ لاکھ ۹۰ ہزار نئی ملازمتیں بھی فراہم کی جاسکیں گی۔

٭ انتخابات میں کامیابی حاصل نہ ہونے کی صورت میں النہضہ کی منصوبہ بندی کیا ہے؟

راشد الغنوشی: کامیابی یا ناکامی سے کیا مراد ہے؟ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہم لوگوں پر حکومت کرنے کے بجائے انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک کو بہتر ڈھنگ سے چلایا جاسکے۔ انتخابی نتائج خواہ کچھ ہوں، ہم اعلان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے مختلف ذرائع سے کام کرتے رہیں گے۔ اگر شفاف اور غیر جانبدار الیکشن میں ہمیں زیادہ ووٹ نہ مل سکے تو ہم اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے اور عوام میں اپنی جڑیں مستحکم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔ جمہوریت اسی کا نام ہے کہ شفاف انتخابات کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔

٭ آپ نے کئی بار کہا ہے کہ آپ کی پارٹی اور ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے) میں خاصی اقدار مشترک ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اے کے کی طرز پر آپ حکومتی اداروں کی تشکیل میںکس طور کامیاب ہوسکیں گے؟

راشد الغنوشی: میری کئی کتابوں اور مضامین کا ترک زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اے کے پارٹی کی سوچ پر اس کا اثر مرتب ہوا ہو۔ ہم نے ہمیشہ کہ کہا ہے کہ اسلام اور جدیدیت ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ کسی بھی اسلامی ملک میں معاشرے کو اس کی اجتماعی شناخت کے ایک بڑے اور اہم جز یعنی اسلام سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ اسلام کو الگ تھلگ رکھنے سے سیاسی اور اقتصادی امور میں تنازعات، عدم اتفاق اور ناکامی ہی کو راہ ملی ہے۔ ہم اپنی شناخت کے ساتھ مصالحت اور موافقتی یقینی بنانے کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں جمہوریت اور جدیدیت کے ساتھ اسلام کے تال میل کو یقینی بنانے کی راہیں تلاش کرنا ہیں۔ سماجی اعتبار سے ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ترقی کے مواقع سب کو ملنے چاہئیں۔ کسی ایک طبقے کے ہاتھ میں سب کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ امیر اور غریب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں تو زیادہ اچھی طرح ملک کو چلایا جاسکے گا۔ ہم چاہیں گے کہ امیر امیر تر ہوں مگر غریب بھی، حکومت اور معاشرے کی مدد سے، غربت کے منحوس دائرے سے باہر آئیں۔ ہم ترک ماڈل اپنانا چاہیں گے کیونکہ آٹھ برسوں میں معیشت کو آزاد کرکے اے کے پارٹی نے قومی آمدنی کو تین گنا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

٭ یہ بات پورے زور و شور سے بیان کی جاتی ہے کہ عوامی بیداری کی لہر کے دوران مصر اور تیونس میں ترکی ہی ماڈل تھا۔ ان دونوں ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کے حوالے سے ترک ماڈل کا کیا کردار رہا؟

راشد الغنوشی: کسی بھی معاشرے میں لوگ آزادی اور احترام چاہتے ہیں۔ تیونس اور مصر میں عوامی انقلاب کی بنیاد بھی یہی دونوں خواہشات تھیں۔ اس حوالے سے اپنے حقوق منوانے کے لیے کئی نسلوں نے جدوجہد کی۔ ترکی اس لیے ماڈل ہے کہ اس نے ثابت کیا ہے کہ بدعنوانی، پسماندگی، اِفلاس، سماجی ناانصافی اور آزادی سے محرومی، جو بیشتر عرب ممالک کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، ہمارا مقدر اور ناگزیر نہیں۔ ان تمام برائیوں کو ختم کرکے ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہوا جاسکتا ہے۔ ہم جمہوریت اور ترقی کی راہ پر خود چل سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ کوئی بیرونی قوت ہمیں اس طرف لائے۔

٭ ترکی اور تیونس کے تعلقات کا مستقبل آپ کو کیسا دکھائی دیتا ہے؟

راشد الغنوشی: دونوںممالک کے درمیان صدیوں سے گہرے دوستانہ اور برادرانہ مراسم ہیں۔ تیونس کے پرچم کو دیکھیے، یہ ترک پرچم سے کس حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ ہم چاہیں گے کہ یہ تعلقات مزید مستحکم ہوں اور بالخصوص اسٹریٹجک اعتبار سے دونوں ممالک ایک دوسرے سے زیادہ تعاون کریں۔ ہم معاشی، علمی اور ثقافتی تعلقات کا دائرہ بھی وسیع تر کرنا چاہیں گے۔ ترک وزیر اعظم کے تیونس کے دورے کا بھی ہم خیرمقدم کرتے ہیں اور امید ہے کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ تیونس کے عوام فلسطینیوں کے کاز کی غیر معمولی حمایت پر ترک وزیر اعظم کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی جرأت کو سلام کرتے ہیں۔ ہم بھی فلسطینی بھائیوں کی آزادی اور احترام پر یقین رکھتے ہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی۔ ۲۵ ستمبر ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*