
عقلیت (Rationalism) اور فطریت (Naturalism) یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گزشتہ دو صدیوں سے مغربی تہذیب بڑے زور شور سے دے رہی ہے۔اشتہار کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے؟جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے اس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا۔ بالآخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسرعقلیت اور فطرت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعہ سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے نہ اصولِ فطرت کی متابعت پر‘ بلکہ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھچر حس، خواہش اور ضرورت پر قائم ہے اور مغربی نشاۃ جدید دراصل عقل اور فطرت کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس نے معقولات کو چھوڑ کر محسوسات اور مادیت کی طرف رجوع کیا۔ عقل کے بجائے حس پر اعتماد کیا۔ عقلی ہدایات اور منطقی استدلال اور فطری وجدان کو رد کرکے محسوس مادی نتائج کو اصلی و حقیقی معیار قرار دیا۔ فطرت کی رہنمائی کو مردود ٹھہراکر خواہش اور ضرورت کو اپنا رہنما بنایا ہر اس چیز کو بے اصل سمجھا جوناپ تول میں نہ آسکتی ہو۔ ابتداء میں یہ حقیقت خود اہل مغرب سے چھپی ہوتی تھی اس لیے وہ عقل اور فطرت کے خلاف چلنے کے باوجود یہی سمجھتے رہے کہ انھوں نے جس روشن خیالی کے دور جدید کا افتتاح کیا ہے اس کی بنیاد ’’عقلیت ‘‘ اور ’’فطرت‘‘ پر ہے۔ بعد میں اصل حقیقت کھلی مگر اعتراف کی جرأت نہ ہوئی۔ مادہ پرستی اور خواہشات کی غلامی اور مطالبات نفس و جسد کی بندگی پر منافقت کے ساتھ عقلی استدلال اور ادعائے فطریت کے پردے ڈالے جاتے رہے۔ لیکن اب انگریزی محاورے کے مطابق ’’بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے‘‘ غیر معقولیت اور خلاف ورزی فطرت کی لے اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس پر کوئی پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔اس لیے اب کھلم کھلا عقل اور فطرت دونوں سے بغاوت کا اعلان کیا جارہاہے۔ علم اور حکمت کی مقدس فضا سے لے کر معاشرت‘ معیشت اور سیاست تک ہر جگہ بغاوت کا علم بلند ہوچکا ہے اور ’’قدامت پرست ‘‘ منافقین کی ایک جماعت کو مستثنیٰ کرکے دنیائے جدید کے تمام رہنما اپنی تہذیب پر صرف خواہش اور ضرورت کی حکمرانی تسلیم کررہے ہیں۔
مشرقی مستغربین و متفرنجین اپنے پیشوائوں سے ابھی چند قدم پیچھے ہیں۔ ان کی دماغی نشوونما جس تعلیم اور جس ذہنی فضا اور جن عوامل تہذیب و تمدن کے زیر اثر ہوئی ہے ان کا اقتضایہی ہے کہ وہ محسوس و مادیات کی پرستش اور خواہشات و ضروریات کی غلامی ان میں بھی پیدا ہو اور فی الواقع ایسا ہی ہورہا ہے۔ مگر ابھی تک یہ اس منزل پر نہیں پہنچے ہیں جہاں بلی تھیلے سے باہر آجائے۔ اپنی تحریر و تقریر میں یہ اب بھی کہے جارہے ہیں کہ ہم صرف عقل اور فطرت کی رہنمائی تسلیم کرتے ہیں‘ ہمارے سامنے صرف عقلی استدلال پیش کرو ہم کسی ایسی چیز کو نہ مانیں گے جو عقلی دلائل اور فطری شواہد سے ثابت نہ کردی جائے۔ لیکن ان تمام بلند آہنگیوں کے تھیلے میں وہی بلی چھپی ہوئی ہے جو نہ عقلی ہے اور نہ فطری۔ ان کے مقالات کا تجزیہ کیجیے تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ معقولیت اور فطری وجدانیات کے ادراک سے ان کے ذہن عاجز ہیں۔ جس کو یہ ’’عقلی فائدہ‘‘ کہتے ہیں‘ اس کی حقیقت پوچھئے تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد ‘ تجربی فائدہ ‘‘ ہے اور تجربی فائدہ وہ ہے جو ٹھوس ہو‘ وزنی ہو‘ شمار اور پیمائش میں آسکے۔
کوئی چیز جس کا فائدہ ان کو حسابی اعداد سے گن کر ‘ یا ترازو کے پلڑوں سے تول کر یا گز سے ناپ کر نہ بتایا جاسکے۔ اس کو یہ مفید نہیں مان سکتے اور جب تک اس معنی خاص میں اس کی افادیت ثابت نہ کردی جائے اس پر ایمان لانا اور اس کا اتباع کرنا ان کے نزدیک ایسا فعل ہے جس کو یہ ’’غیرمعقولیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ فطرت کی رہنمائی جس کی پیروی کا ان کا دعویٰ ہے اس کی حقیقت بھی تھوڑی سی جرح میں کھل جاتی ہے۔ فطرت سے مراد ان کے نزدیک انسانی فطرت نہیں بلکہ حیوانی فطرت ہے۔ جو وجدان اور شہادت قلبیہ سے خالی ہے اور صرف حس‘ خواہش اور مطالبات نفس و جسد ہی رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک اعتبار کے قابل صرف وہی چیزیں ہیں جو حواس کو متاثر کرسکیں‘ خواہشات کو تسکین دے سکیں‘ جسمانی یا نفسانی مطالبات کو پورا کرسکیں جن کا فائدہ مشاہدہ میں آجائے اور جن کا نقصان نظروں سے اوجھل ہو یا فائدہ کے مقابلہ میں ان کو کم نظر آجائے۔ باقی رہیں وہ چیزیں جو فطرت انسانی کے مقتضیات سے ہیں جن کی اہمیت کو انسان اپنے وجدان میں پاتا ہے جن کے فوائد یا نقصانات مادی اور حسی نہیں بلکہ نفسی اور روحانی ہیں وہ اوہام اور خرافات ہیں‘ ہیچ اور ناقابل اعتنا ہیں ان کو کسی قسم کی اہمیت دینا بلکہ ان کے وجود کو تسلیم کرنا بھی تاریک خیالی‘ وہم پرستی اور دقیانوسیت ہے ایک طرف عقل و فطرت سے یہ انحراف ہے دوسری طرف عقلیت و فطریت کا دعویٰ ہے اور عقل کے دیوالیہ پن کا حال یہ ہے کہ وہ اس اجتماع ضدین کو محسوس تک نہیں کرتی۔
Leave a Reply