
بنگلا دیشی نئی نسل نشانے پر!
کسی بھی قوم کے لیے اصل قوت اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔ نئی نسل کا ولولہ ہی کسی بھی قوم کو بھرپور ترقی سے ہم کنار کرتا ہے۔ کسی بھی ملک میں نئی نسل کو ملک کی بہتر خدمت کے لیے بھرپور انداز سے تیار کرنے پر توجہ دی جاتی ہے تاکہ ملک کا مستقبل محفوظ رہے۔ بنگلا دیش بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ نئی نسل محض معاشی ترقی کے لیے ناگزیر نہیں ہوا کرتی بلکہ ملک کے دفاع میں بھی اس کا بھرپور کردار ہوا کرتا ہے۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو سرحدوں پر رات دن جاگ کر ملک کو دشمنوں سے بچاتے ہیں۔ ملک کی آزادی اور خود مختاری کا حقیقی تحفظ نئی نسل ہی کی بدولت ممکن ہو پاتا ہے۔ اگر نئی نسل متحد اور چوکس ہو تو دشمن اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ کسی بھی طور نہیں پہنا سکتا۔
’’را‘‘ بنگلا دیش کی آزادی اور خود مختاری کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اسے اندازہ ہے کہ اس کے عزائم کی راہ میں اگر کوئی حقیقی رکاوٹ ہوسکتی ہے تو وہ بنگلا دیش کی نئی نسل ہے۔ یہی سبب ہے کہ ’’را‘‘ نے بنگلا دیش کی نئی نسل کے اذہان کو متاثر اور منتشر کرنے کے کئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رکھا ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ جب تک نئی نسل کا ذہن متاثر نہیں ہوگا، اس کے ارادے بھرپور کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکیں گے۔ ’’را‘‘ کے منصوبہ سازوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ بنگلا دیش کی آزادی اور خود مختاری کا تصور اُسی وقت غیرفعال کیا جاسکتا ہے یا مٹایا جاسکتا ہے، جب نئی نسل کو آزادی و خودمختاری کے حقیقی تصور سے نابلد کردیا جائے۔ جب تک نئی نسل کے ذہن میں اپنی ثقافت اور اَقدار زندہ ہیں، وہ بھٹک نہیں سکتی۔ بنگلا دیش کی نئی نسل کے ذہن سے بھی ثقافتی ورثے کا تصور ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ ’’را‘‘ کے منصوبہ ساز جانتے ہیں کہ ایسا کیے بغیر بنگلا دیش کی نئی نسل کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا کسی بھی طور ممکن نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ بنگلا دیش کی نئی نسل کے اذہان سے انقلابی افکار اور آزادی کا تصور کُھرچ کر پھینکنے میں کامیاب ہوگئے تو بنگلا دیش کے وجود کے خلاف تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ایسا آسان ہوجائے گا، جیسے بچوں کا کھیل۔
’’را‘‘ نے بنگلا دیش کی نئی نسل کے ذہنوں کو انتشار کی نذر کرنے کے لیے جو منصوبے شروع کر رکھے ہیں، آیئے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
نشے کی لت میں مبتلا کرنا!
ایک زمانے سے ’’را‘‘ نے اپنے ایجنٹس اور تاجروں کے ذریعے بنگلا دیش کے طول و عرض میں نئی نسل کو مختلف نشوں کی عادت میں مبتلا کرنا اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارہ اس معاملے میں بہت احتیاط اور توجہ سے کام کرتا ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ اگر کسی ملک کی نئی نسل منشیات کی عادی ہوجائے تو بہت سے کام آسان ہوجاتے ہیں۔
ایک طرف تو دنیا بھر میں منشیات کے خلاف بھرپور مہم یا تحریک چلائی جارہی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کو ہر طرح کی منشیات سے بالکل پاک کرکے نوجوانوں کو مکمل تباہی سے بچایا جائے اور دوسری طرف ’’را‘‘ ہے کہ بنگلا دیش کی نئی نسل کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور اس نے منشیات کی غیر قانونی تجارت سے کروڑوں ٹاکا بھی کمائے ہیں۔ بھارتی خفیہ ادارہ کو منشیات کے حوالے سے عالمی رجحانات اور مساعی کی چنداں پروا نہیں۔ چند برسوں کے دوران ’’را‘‘ نے بنگلا دیش کے نوجوانوں کو ہیروئن، کوکین، چرس، گانجا، افیم اور بھنگ کے نشے میں مبتلا کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بیشتر منشیات بھارت میں اُگتی ہیں یا تیار کی جاتی ہیں اور پھر انہیں ’’را‘‘ کے افسران کی ملی بھگت سے بنگلا دیش اسمگل کردیا جاتا ہے۔
بنگلا دیشی ڈائریکٹوریٹ آف نارکوٹکس کے ایک اعلیٰ افسر نے اعتراف کیا ہے کہ بیشتر منشیات بھارت سے اسمگل ہوتی ہیں اور یہ کہ ان کی اسمگلنگ روکنا انتہائی دشوار ہے۔ سرحد طویل اور دشوار گزار ہے، اس لیے منشیات کے اسمگلر منشیات کی بڑی کھیپ آسانی سے بنگلا دیش میں داخل کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سڑک کے علاوہ ریل اور آبی راستوں سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ بنگلا دیش کی حدود میں لائی جانے والی منشیات کا صرف پانچ فیصد ہی ضبط کیا جاسکتا ہے۔ (روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی۔ ۲۱ جنوری ۱۹۹۵ء)
بھارتی خفیہ ادارہ گانجا سے بھرے ہوئے سگریٹ بھی بڑے پیمانے پر بنگلا دیش اسمگل کر رہا ہے۔ بنگلا دیشی ڈائریکٹوریٹ آف نارکوٹکس نے ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۴ء میں مجموعی طور پر ۱۵؍ہزار گانجا سے بھرے ہوئے سگریٹ پائپس ضبط کیے تھے۔ یہ مال بھارت سے لایا گیا تھا۔
’’را‘‘ نے بنگلا دیش کی نئی نسل کو کچی شراب اور دیگر سیال منشیات کا عادی بنانے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔ بنگلا دیشی ڈائریکٹوریٹ آف نارکوٹکس نے بھارت سے اسمگل کی جانے والی کچی شراب، پیتھیڈائن، آئی سی لکور، اسپرٹ، ونچرڈ اسپرٹ، تاڑی، بیکر، پٹوی، ہلی وائن، ٹی ڈی، جینیسوک اور دیگر منشیات ضبط کی ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں بنگلا دیشی حکام کو معلوم ہوا کہ بھارتی خفیہ ادارہ فینسیڈل بھی اسمگل کر رہا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ کتنے بڑے پیمانے پر منشیات اسمگل کرکے بنگلا دیش کی نئی نسل کو ٹھکانے لگانا چاہتا ہے۔
بنگلا دیش کے ڈائریکٹوریٹ آف نارکوٹکس نے ۱۹۹۳ء میں شراب کے ۲۹ ہزار سے زائد کین ضبط کیے تھے۔ ۱۹۹۴ء میں جنوری سے اکتوبر کے دوران ۵۶ ہزار سے زائد بوتلیں اور ایک ہزار سے زائد لیٹر کین ضبط کیے تھے۔ دوسری طرف بنگلا دیش رائفلز نے ۱۹۹۳ء اور ۱۹۹۴ء میں بالترتیب ۲۰۸۷ اور ۳۲۸۲۹ بوتل شراب ضبط کی۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۵ء کو روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے بتایا کہ اب تک بھارت نے بنگلا دیش میں فینسیڈل کی ایک کروڑ سے زائد بوتلیں اسمگل کی ہیں۔ اس کی مالیت کم و بیش ۹۰ کروڑ ٹاکا ہے۔ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ فینسیڈل انتہائی مضر نشہ ہے۔ اس کا عادی شخص خون کے سفید خلیوں سے بہت تیزی سے محروم ہوتا جاتا ہے۔ خون کے نئے خلیوں کی پیدائش اور افزائش رک جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں موت یقینی ہوتی جاتی ہے۔
منشیات کی اسمگلنگ اور منتقلی اب بنگلا دیش میں انتہائی پریشان کن مسئلے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ صرف ڈھاکا میں غیر قانونی شراب اور دیگر منشیات کی فروخت کے ۵۰۰ سے زائد اڈّے ہیں۔ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ڈھاکا میں منشیات کے عادی افراد کی تصدیق شدہ تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ غیر سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈھاکا میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد چار لاکھ سے کم نہیں۔ معروف فزیشن پروفیسر نورالاسلام کہتے ہیں کہ نئی نسل کا منشیات کی لَت میں مبتلا ہونا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں آگے چل کر ملک کو افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوال صرف معاشی نقصان کا نہیں۔ ’’را‘‘ کا منصوبہ یہ ہے کہ نئی نسل کو منشیات کی لت میں مبتلا کرکے کسی کام کا نہ رہنے دیا جائے۔ جب نئی نسل منشیات کی عادی ہوگی تو معاشرتی خرابیاں بھی پیدا ہوں گی اور اس کے نتیجے میں پورے معاشرے میں بگاڑ پھیلے گا۔ ’’را‘‘ کا اصل منصوبہ بھی یہی ہے کہ ایک طرف تو بنگلا دیش کی نئی نسل معیشت کے محاذ پر کچھ کرنے کے قابل نہ رہے اور دوسرے معاشرے میں اتنا بگاڑ پیدا کردیا جائے کہ متوازن معاشرے کا تصور محض سراب ہوکر رہ جائے۔
کون نہیں جانتا کہ بنگلا دیش ایک غریب ملک ہے۔ اس کی معیشت اب تک استحکام سے ہم کنار نہیں ہوسکی ہے۔ ایسے میں اگر نئی نسل کو منشیات کی راہ پر گامزن کردیا جائے گا تو یقینی طور پر معیشت بھی متاثر ہوگی اور معاشرت بھی۔ بھارتی خفیہ ادارہ چاہتا ہے کہ بنگلا دیش کا کوئی مستقبل نہ ہو اور وہ مکمل طور پر بھارت کا دست نگر ہوکر رہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارتی خفیہ ادارہ ہر سال بنگلا دیش کی نئی نسل کو تباہی سے دوچار کرنے کی خاطر کم و بیش ۵۰۰ کروڑ ٹاکا خرچ کرتا ہے۔ یہ رقم محض منشیات کی اسمگلنگ پر خرچ کی جاتی ہے۔ اتنی بڑی فنڈنگ سے جو نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں وہ تو خیر بہت حد تک کیے ہی جارہے ہیں مگر دوسری طرف خود بھارتی حکومت کو بھی سوچنا چاہیے کہ اس کا مرکزی خفیہ ادارہ انتہائی بدنامی کما رہا ہے جو ملک کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوگی۔
دہشت گردی کی سرپرستی
بھارتی خفیہ ادارہ چاہتا ہے کہ بنگلا دیشی معاشرے کا تانا بانا مکمل طور پر بکھر کر رہ جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے غیر معمولی فنڈنگ کرتے رہنے کو ترجیح دی ہے۔ ہر سال اربوں روپے کے ہتھیار اور گولہ بارود بنگلا دیش اسمگل کیا جاتا رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے معاشرے کو غیر متوازن رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تاکہ بھارت کے پڑوس میں کوئی ایسا ملک نہ ابھرے جو ہر اعتبار سے متوازن اور مستحکم ہو۔
’’را‘‘ نے اسلحے کی اسمگلنگ جاری رکھی ہے، اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب بنگلا دیش میں دہشت گردی ایک بڑی حقیقت بن کر سامنے آئی ہے۔ تعلیمی اداروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ ملک کے بہتر مستقبل کی ضامن بن کر ابھرنے والی نئی نسل بہت سے معاملات میں کمزور ہو اور اس کے ارادے متزلزل ہوچکے ہوں۔ ’’را‘‘ نے طلبہ تنظیموں کو آپس میں لڑاکر اپنے مقاصد بہت حد تک حاصل کرلیے ہیں۔ مزدور انجمنوں کے درمیان بھی تصادم کی راہ ہموار کی جاتی رہی ہے۔ مگر اصل کامیابی اسی وقت ممکن ہوسکتی تھی جب سیاسی تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان بھرپور تصادم کی راہ ہموار کی جاتی اور اس معاملے میں ’’را‘‘ نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بنگلا دیش میں سیاسی قوتوں کو باہم متصادم رکھنے میں ’’را‘‘ بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔ بنگلا دیش میں سیاسی قوتیں ایک زمانے سے متصادم ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی نے پورے معاشرے کو متاثر کیا ہے اور معیشت کو بھی غیر معمولی یا ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ بعض سیاسی قوتیں بھارت کے اشاروں پر ناچتی ہیں اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کے لیے فعال رہتی ہیں۔
روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے ۷؍اگست ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ بھارت سے بڑے پیمانے پر ہتھیار بنگلا دیش اسمگل کیے جارہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے اسمگل کیے جانے والے اسلحے میں بارودی سرنگوں اور مارٹر گولوں کے علاوہ ہائی فریکوئنسی والے وائر لیس سیٹ بھی شامل ہیں۔ یہ سامان بھارت ہی میں تیار کیا جاتا ہے۔ بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان سرحد بہت سے مقامات پر ایسی نہیں کہ بھرپور نگرانی کی جاسکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارتی ایجنٹ بہت آسانی سے اسلحہ بنگلا دیش اسمگل کردیتے ہیں۔ شانتی باہنی بھی بھارت سے اسلحہ منگواتی رہی ہے۔
۱۹؍جنوری ۱۹۹۵ء کو روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے بتایا کہ بنگلادیشی سرحد سے متصل بھارتی قصبوں میں اسلحہ بنانے کے کئی کارخانے کام کر رہے ہیں اور انہیں بھارتی خفیہ ادارے کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان کارخانوں میں تیار کیے جانے والے اسلحے کا بڑا حصہ ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کے ذریعے بنگلا دیش اسمگل کردیا جاتا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں بنگلا دیش میں بھی اسلحہ تیار کرنے کے کئی غیر قانونی کارخانوں کا سراغ لگایا گیا تھا۔ یہ کارخانے چاٹگام، میمن سنگھ اور راجشاہی میں تھے۔ یہ کارخانے ’’را‘‘ کی معاونت ہی سے کام کر رہے تھے اور ان کے لیے خام مال بھی بھارت سے آتا تھا۔
بنگلا دیشی سرحد سے متصل بھارتی علاقوں میں اسلحہ تیار کرنے کے غیر قانونی کارخانے اب بھی قائم ہیں اور ’’را‘‘ کی سرپرستی میں دن رات کام کر رہے ہیں۔ پرگنا، بنگاؤں، رانا گھاٹ، ڈالیاں، ناڈیا اور اورنگ آباد میں قائم ان کارخانوں کے حوالے سے بھارت کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے پُراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اعلیٰ ترین حکام کی منظوری اور رضامندی سے ہو رہا ہے۔
۸ مارچ ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے لکھا کہ بھارت سے اسلحہ باقاعدگی سے اسمگل کیا جاتا ہے اور ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کا کردار ادا کرنے والوں میں سیاسی کارکن، طلبہ، جرائم پیشہ افراد اور مزدور انجمنوں سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔
روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے لکھا کہ ۶ جنوری ۱۹۹۵ء کو ڈاک لے جانے والی ٹرین سے پولیس نے بھارتی خفیہ ادارے کے ایجنٹ گنیش بسواس کو بھارتی ساختہ ہتھیاروں کی کھیپ کے ساتھ پکڑا۔ وہ یہ اسلحہ بھارتی خفیہ ادارے کے ایک اور ایجنٹ دلیپ بوشک کے لیے لے جارہا تھا۔ گنیش بسواس نے بتایا کہ وہ کئی سال سے بھارتی اسلحہ بنگلا دیش اسمگل کر رہا ہے۔
ان تمام رپورٹس سے اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیش کے حالات خراب کرنے کے لیے کس حد تک جاچکا ہے۔ ایک طرف تو بنگلا دیش کی نئی نسل کو منشیات کی لت سے دوچار رکھنا ہے اور دوسری طرف بنگلا دیشی معاشرے میں غیر قانونی اسلحے کی ایسی فراوانی کرنی ہے کہ جو لوگ حالات خراب کرنا چاہیں، انہیں کسی بھی طرح کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ثقافت کی تباہی
بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلا دیشی معاشرے کی بنیاد ہلانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس کی پوری کوشش رہی ہے کہ بنگلا دیش میں ہر طرف بھارتی ثقافت کا راج ہو اور بنگلا دیش کی اپنی ثقافت اور اسلامی شناخت یکسر ختم ہوکر رہ جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارتی فلموں اور گانوں کی کیسٹیں بڑے پیمانے پر اسمگل کی جاتی رہی ہیں۔ بنگلا دیش کے طول و عرض میں بھارتی فلموں کی وڈیو کیسٹس آسانی سے دستیاب ہوا کرتی تھیں۔ ان بے ہودہ فلموں کو دیکھنے والوں کے دل و دماغ کس حد تک متاثر ہوئے ہوں گے، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز اور افسوسناک ہے کہ جس قوم نے اردو تھوپے جانے کا الزام لگاکر اس کی شدید مخالفت کی مگر اب ہندی فلموں کی رسیا ہے اور ہندی گانے بہت شوق سے سنتی ہے۔ جن لوگوں نے پاکستان کی آمر حکومتوں کے خلاف جدوجہد کی، وہ اب بھارت کی ثقافتی یلغار کے سامنے محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھارت ایک زمانے سے ہندی فلموں کے نام پر انتہائی واہیات فلمیں بنگلا دیش اسمگل کر رہا ہے۔ ان فلموں کو دیکھنے والی نئی نسل کی ذہنی سطح پست سے پست ہوتی گئی ہے۔ یہ گندی فلمیں بنگلا دیشی معاشرے کے لیے انتہائی سنگین خطرہ ثابت ہوتی رہی ہیں۔ دو عشروں کے دوران ان گندی بھارتی فلموں نے بنگلا دیش کے طول و عرض میں وہ مقاصد بڑی حد تک حاصل کیے جو بھارتی خفیہ ادارہ چاہتا تھا۔
معاملہ منشیات کا ہو، اسلحے کا یا پھر ثقافتی یلغار کا، بھارتی خفیہ ادارہ ہر معاملے میں مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ بھارت کے اعلیٰ ترین حکام اور فیصلہ ساز چاہتے ہیں کہ بنگلا دیشی معاشرے کا تانا بانا بکھر کر رہ جائے۔ نئی نسل کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بنگلا دیش افرادی قوت کے معاملے میں شدید بحران کا شکار ہو اور دوسری طرف نئی نسل میں وہ دم خم بھی باقی نہ رہے۔ آج بنگلا دیشی معاشرہ بہت سے معاملات میں غیر معمولی پستی کا شکار ہوچکا ہے۔ اس کا ’’کریڈٹ‘‘ بھارتی خفیہ ادارے کے ساتھ ساتھ اس کے بنگلا دیشی ایجنٹوں کو بھی جاتا ہے! ان سب نے مل کر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کو طرح طرح کی برائیوں کے جال میں پھانس لیا ہے۔ اب معاملات ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اصلاحِ احوال کے لیے انقلابی اقدامات درکار ہیں۔ ’’را‘‘ نے اپنے ایجنٹس اور ہم خیال افراد کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ ایک طرف تو انہیں فلمیں وغیرہ دیکھنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور دوسری طرف ان کی بھرپور عیاشی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ بنگلا دیش میں بہت سے مقامات پر ’’را‘‘ کے سیف ہاؤسز ہیں جن میں ان کے ایجنٹوں کو پُرتعیش زندگی سے متعلق تمام اسباب فراہم کرنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ بہت سے ایجنٹ اور دیگر ہم خیال افراد کو عیاشی کا سامان مہیا کرنے کے بعد خفیہ وڈیو بنالی جاتی ہے تاکہ مستقبل میں بلیک میلنگ آسان ہو۔ جو لوگ ’’را‘‘ کے جال میں پھنس جاتے ہیں وہ بلیک میل ہوتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ ہر اس کام کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، جس سے ملک کو نقصان پہنچتا ہو۔ بہت سے خفیہ ادارے اس نوعیت کے ہتھکنڈے بھی اختیار کرتے ہیں مگر ’’را‘‘ کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ اس نے مخربِ اخلاق مواد کے ذریعے پورے بنگلا دیشی معاشرے کو نشانے پر لیا ہے اور بالخصوص نئی نسل کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، اُس کی بنیاد پر یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اپنے مذموم عزائم کی بھرپور تکمیل کے لیے ’’را‘‘ کی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی اور اس بات کی چنداں پروا نہیں کی جاتی کہ متعلقہ معاشرے کا کیا بنے گا۔
Leave a Reply