
معاشی استحصال
بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان آزاد تجارت کا معاملہ ویسا ہی رہا ہے جیسا نوآبادیاتی دور میں طاقتور اور کمزور ممالک کے درمیان رہا کرتا تھا۔ طاقتور ممالک کسی بھی ملک پر حملہ کرکے اس کی پوری تجارت کنٹرول کرتے تھے۔ مفتوح ملک سے خام مال نکال کر اسے تیار شدہ اشیا فراہم کی جاتی تھیں جس کے نتیجے میں اس کی معیشت ہمیشہ خسارے میں رہا کرتی تھی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان تجارت کا بھی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے اپنے کارندوں کی مدد سے بنگلا دیش کو بھارتی اشیا کی منڈی میں تبدیل کردیا ہے۔ بنگلا دیش پر براہِ راست اور حقیقی قبضہ یقینی بنائے بغیر ہی اسے فتح کرلیا گیا ہے۔ ایک طرف تو بنگلا دیشی حکومت نے اس حوالے سے کوئی بھی حفاظتی اقدام نہیں کیا اور دوسری طرف انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس اہم ترین علاقائی مسئلے کے حوالے سے بے حسی پر مبنی طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں تو سیاسی جماعتیں اس خطے میں معاشی استحصال کے حوالے سے بہت شور مچایا کرتی تھیں اور جب موجودہ بنگلا دیش پاکستان کا حصہ تھا تب بھی اس خطے کی سیاسی جماعتوں نے معاشی استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے بنگلا دیش کا معاشی استحصال یقینی بنانے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت نے بنگلا دیش کی بیورو کریسی، سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں اپنا اثر و رسوخ اس حد تک بڑھا لیا ہے کہ اب کوئی بھی بنگلا دیشی معیشت کا گلا دبوچنے کی بھارتی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی جسارت نہیں کرتا۔ اس معاملے میں حکومت مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ انتہائی طاقتور تاجروں کا ایک گروہ (ضروری نہیں کہ وہ بھارتی خفیہ ادارے کے ایجنٹس پر مشتمل ہو) اپنے مذموم مقاصد کے لیے بھارت کو ترجیح دیتا ہے اور یوں قومی معیشت کے لیے خسارے کا باعث ثابت ہو رہا ہے۔
ایک طرف تو بھارت نے بنگلا دیشی معیشت کو باضابطہ طور پر گرفت میں لے رکھا ہے۔ بنگلا دیش سے خام مال بھارت بھیجا جاتا ہے اور وہاں سے تیار شدہ اشیا منگوائی جاتی ہیں۔ بنگلا دیش اپنے خام مال سے بہت کچھ آسانی سے اور کم لاگت میں تیار کرسکتا ہے مگر معاملات کو اس منزل تک آنے نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف یہ بات بھی انتہائی خطرناک ہے کہ بھارت کی اشیا بڑے پیمانے پر بنگلا دیش اسمگل کی جاتی ہیں۔ اسمگلنگ کے باعث ہی بنگلا دیش میں صنعتی شعبہ انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ جو اشیا بنگلا دیش میں آسانی سے تیار کی جاتی رہی ہیں، اب وہ بھی بھارت سے اسمگل ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں بنگلا دیش کا صنعتی شعبہ زوال کی طرف جارہا ہے۔ اعلیٰ سرکاری افسران اور ریاستی مشینری کے چھوٹے پُرزوں کے اشتراکِ عمل کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ بھارت سے تیار شدہ اشیا اسمگل کی جائیں۔ سرحدوں پر تعینات افسران کی ملی بھگت سے بنگلادیشی معیشت کو قبر میں لِٹانے کی بھرپور تیاری کی جارہی ہے۔ بنگلادیشی معیشت کو ویسے ہی گوناگوں مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور ایسے میں بھارت کی طرف سے استحصال کی بھرپور کوشش معاملات کو یقینی تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس صورت حال کے خلاف اعلیٰ ترین سطح پر کوئی بھی آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مقتدر حلقوں کی نظر میں یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ بھارتی خفیہ ادارے کے کارندے ریاستی مشینری کا حصہ ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے مذموم مقاصد اور مفادات کو اس قدر تحفظ فراہم کرتے رہتے ہیں کہ خرابیوں کی نشاندہی کیے جانے تک بھی نوبت نہیں پہنچتی۔ نشاندہی کا مرحلہ گزرے گا تو اقدامات کی گنجائش پیدا ہوگی۔ بنگلا دیشی معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے مگر حکومت غیر قانونی کاروباری سرگرمیاں روکنے کے حوالے سے کچھ بھی کرنے سے اجتناب برت رہی ہے۔
ناقص اور غیر متوازن پالیسیوں کے باعث بنگلا دیش اب بھارتی اشیا کی منڈی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بھارت اپنا بہت کچھ بنگلا دیش میں دھکیلتا ہے اور بنگلا دیش سے چند ایک اشیا ہی منگوانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ادائیگیوں کا توازن خطرناک حد تک بھارت کے حق میں ہے۔ بنگلا دیشی معیشت کسی بھی اعتبار سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ بھارت کی طرف سے ۹۷ فیصد اشیا کی برآمد یقینی بنائی جاتی ہے جبکہ بنگلا دیش صرف ۳ فیصد اشیا برآمد کر پاتا ہے۔ بنگلا دیش کے طول و عرض میں بھارتی اشیا عام ہیں۔ عوام بھی اس صورت حال کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ انہیں بھارتی اشیا استعمال کرنے میں بظاہر کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ ایک طرف تو بنگلا دیشی معیشت کمزور ہے اور اسے گوناگوں مسائل کا سامنا ہے اور دوسری طرف بھارت کو ایسی رعایتوں سے نوازا جارہا ہے جو کسی بھی حال میں نہیں دی جانی چاہئیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بنگلا دیشی معیشت کا گراف دن بہ دن گرتا ہی جارہا ہے۔ ایسی حالت میں بنگلا دیش کے لیے تو یہ سوچنا بھی محال ہے کہ وہ کسی بھی حوالے سے معاشی میدان میں بھارت کا مقابلہ کرسکتا ہے یا اپنی معیشت کو بچانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرسکتا ہے۔
روزنامہ ’’نیونیشن‘‘ نے ۲۹؍اگست ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ پانچ سال قبل بنگلادیش اور بھارت کے درمیان تجارت سات کروڑ ڈالر تھی جو اب ساٹھ کروڑ ڈالر کی منزل تک پہنچ گئی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ بنگلا دیش کی معیشت کو کمزور کرنے کا عمل بھارت نے اس ملک کے قیام کے ساتھ ہی شروع کردیا تھا۔ بنگلادیش کی اولین حکومت نے بھارت کو غیر معمولی رعایتوں سے نوازا۔ بعد میں آنے والی حکومتیں بھی ناقص پالیسیوں کے ذریعے بھارتی مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کا وسیلہ ثابت ہوتی رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بھارتی خفیہ ادارے کے کارندوں نے بنگلا دیش کے اعلیٰ ترین حلقوں میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے بھارتی مفادات کو اس قدر مستحکم کردیا کہ بنگلا دیش کے لیے کسی بھی معاملے میں سر اٹھاکر جینے کی گنجائش ہی نہ رہی۔
بنگلادیش کو پہنچنے والے معاشی نقصانات کے حوالے سے چند حقائق کا جائزہ لینا لازم ہے۔
٭ ۱۹۷۱ء میں ۱۰۰؍پاکستانی روپوں کے عوض ۱۱۰؍بھارتی روپے آتے تھے۔ بنگلا دیش کے قیام کے فوراً بعد پہلی حکومت نے کرنسی کو ڈی ویلیو کیا، جس کے نتیجے میں بھارتی کرنسی کے مقابلے میں بنگلا دیشی کرنسی کی قدر ۶۶ فیصد رہ گئی۔
٭ بھارتی معیشت کی برتری کو تسلیم کرنے کی پالیسی باضابطہ طور پر اپنائی گئی، جس کے نتیجے میں بنگلا دیشی معیشت بھارت کے مقابلے میں محض طفیلی نوعیت کی رہ گئی۔
٭ جب مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا، تب پٹ سن بھارت کو برآمد کرنے پر پابندی عائد تھی، جس کے نتیجے میں پورے مشرقی بنگال میں پٹ سن کی صنعت غیر معمولی فروغ سے ہمکنار رہی۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد پٹ سن بھارت کو برآمد کرنے پر عائد پابندی اٹھالی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ پٹ سن غیر قانونی طور پر بھی بھارت بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ چند ہی برسوں میں بھارت پٹ سن کی بڑی صنعت میں تبدیل ہوا۔ دوسری طرف بنگلا دیش کے پاس صرف تیار شدہ پٹ سن درآمد کرنے کا آپشن بچا۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد سے پٹ سن کی صنعت کو جو دھچکا لگا ہے، اُس کے ازالے کی اب تک کوئی صورت نہیں نکلی۔
٭ بھارت نے ۱۹۷۲ء میں بنگلا دیش کو مجبور کیا کہ آزادانہ سرحدی تجارت کا معاہدہ کرے۔ اس معاہدے کے تحت بھارتی مصنوعات کو بنگلا دیش سرحد کے اندر دس کلو میٹر تک کے علاقے میں کسی بھی ڈیوٹی کے بغیر لانے کی آزادی مل گئی۔ جب بھارتی مصنوعات بنگلا دیش کے سرحدی علاقوں میں داخل کردی جاتی تھیں تو وہاں سے آگے پورے ملک میں انہیں پھیلانا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بنگلا دیش بھارتی مصنوعات کی منڈی میں تبدیل ہوکر رہ گیا۔ بنگلا دیشی صنعتوں کے لیے یہ بہت برا وقت تھا۔ بہت سے صنعتی یونٹس راتوں رات بند ہوگئے۔ لاگت کے معاملے میں بھارت سے مقابلہ کرنا بنگلا دیشی صنعتی یونٹس کے لیے ممکن نہ رہا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بھارتی اشیا کو بھی بنگلا دیش کی سرزمین پر آزادانہ لانے کی اجازت دے دی گئی مگر بنگلا دیشی مصنوعات کو کسی نہ کسی بہانے بھارتی سرزمین تک پہنچانے کی راہ میں دیوار کھڑی کی جاتی رہی۔ یہ دو طرفہ تجارت ہرگز نہیں تھی بلکہ اسے یک طرفہ استحصال ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بنگلا دیشی معیشت کو کمزور سے کمزور تر کرنا بھارت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ کسی بھی مرحلے پر ایسا ماحول پنپنے نہیں دیا گیا جس میں بنگلا دیش کی صنعتیں پروان چڑھیں اور بھارت سے کسی بھی معاملے میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آسکیں۔ بنگلا دیش میں قائم کی جانے والی حکومتوں نے ہر دور میں ایسے حالات پیدا کیے جن میں قومی معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی ہی گئیں اور بھارت کے لیے آسانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
مارچ ۱۹۷۳ء میں طے پانے والے معاہدے میں یہ بھی درج تھا کہ بھارت جتنی مالیت کی اشیا بنگلا دیش کو فراہم کرے گا، اُتنی ہی مالیت کی اشیا بنگلا دیش سے خریدے گا بھی۔ یہ شِق اس لیے داخل کی گئی تھی کہ بنگلا دیشی معیشت خسارے کی زد میں نہ آئے مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر اس شِق پر عمل سے گریز کیا ہے اور اس کا نتیجہ تجارتی عدم توازن کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔ بھارتی مصنوعات کو تو بنگلا دیشی سرزمین پر آزادانہ رسائی حاصل ہوگئی مگر دوسری طرف بنگلا دیشی مصنوعات کے لیے بھارتی سرزمین اجنبیت کی زد ہی میں رہی۔ بھارت اگر اس معاہدے پر پوری طرح عمل کر بھی لیتا تو اس کے لیے زیادہ بری صورت حال نہ ہوتی کیونکہ بھارت سے مصنوعات کی اسمگلنگ بھی بڑے پیمانے پر ہوتی رہی ہے۔ بھارتی مصنوعات اس قدر سستی ہیں کہ بنگلا دیشی مصنوعات ان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آہی نہیں سکتیں۔
بھارت کے لیے بنگلا دیش کی معیشت کا گلا گھونٹنا ممکن ہی نہ ہوتا اگر اس نے بنگلا دیش کے چند اعلیٰ سرکاری افسران کی مدد نہ پائی ہوتی۔ بنگلا دیش کے چند اعلیٰ بیورو کریٹس نے بھارت کو غیر معمولی ’’فیور‘‘ میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ بھارت نواز پالیسیاں ترتیب دی جاتی رہی ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے کام کرسکے۔ بھارت کے لیے بنگلا دیشی معیشت کو پیچھے چھوڑنا مشکل کبھی نہ تھا مگر اس کام کو آسان تر بنانے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نواز افسران نے قومی مفادات کا اس بری طرح سودا کیا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ اس کے عوض انہیں بھارت کی طرف سے بھرپور طور پر نوازا بھی جاتا رہا ہے۔ بھارت نواز پالیسیاں ترتیب دینے والے اور بھارتی مفادات کا خاص خیال رکھنے والوں کو بھی بھارت کی حکومتوں نے ہمیشہ نوازا ہے۔
تجارت کے معاملے میں بنگلا دیش کو ویسے تو بھارت کے مقابل ہمیشہ ہی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر اب کیفیت بہت ابتر ہے۔ ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۶ء کے دوران بنگلا دیش کو بھارت کے مقابل تجارت میں ۲۶۹ کروڑ ٹاکا کے خسارے کا سامنا تھا۔ ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۲ء کے دوران یہ فرق ۳۱۵ ٹاکا تک جا پہنچا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا ہے، اُس کی کہانی بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ مچکند دوبے نے بیان کی ہے جو بنگلا دیش کے ہفت روزہ جریدے ’’ہالیڈے‘‘ نے اپنی ۱۷؍فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں نقل کی ہے۔ تجارت میں خسارہ اب ہزار کروڑ ٹاکا سے زائد ہوچکا ہے۔ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان تجارتی خسارے کا فرق بڑھتا ہی جارہا ہے۔ بنگلا دیش کے لیے ممکن نہیں کہ بھارت سے تجارت میں ڈٹ کر مقابلہ کرسکے۔ ایک طرف تو لاگت میں اضافے کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف چند اپنوں کی ’’مہربانی‘‘ ہے کہ وہ ملک کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔
یہ بات انتہائی حیرت انگیز اور پُراسرار ہے کہ بھارت کے مقابلے میں بنگلا دیش کا تجارتی خسارہ بڑھتا ہی جارہا ہے مگر اس کے باوجود اب تک متعلقہ حکام کو کچھ خیال ہی نہیں آیا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں بنگلا دیش کی معیشت کا گراف بلند کرنے کا اختیار ہے وہ اس حوالے سے کچھ کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کرتے۔ یہ اس امر کی طرف واضح اشارہ بھی ہے کہ بنگلا دیش کی اعلیٰ بیورو کریسی میں بھارت نواز عناصر کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ بنگلا دیش کو ایسے افسران کی ضرورت ہے جو بھارت کے مقابلے میں قومی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ بھارت نے ہمیشہ بنگلا دیشی مصنوعات کی درآمد سے گریز کیا۔ کسٹم ڈیوٹی کا نرخ اس قدر رکھا جاتا ہے کہ بنگلا دیشی مصنوعات کے لیے بھارتی منڈی میں مقابلہ کرنا ممکن ہی نہیں ہو پاتا۔ بنگلا دیشی بیورو کریسی کے بعض اعلیٰ عہدیداروں نے ہر دور میں بھارت کو دل کھول کر نوازا ہے۔ بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ چند ایک آئٹم کے حوالے سے تو بھارت کو ڈیوٹی اور سرچارج کی مد میں ۲۰ تا ۹۵ فیصد رعایت دی گئی ہے۔ دوسری طرف بھارت نے زیادہ طلب کی حامل بنگلا دیشی مصنوعات پر ۸۵ فیصد تک ڈیوٹی لگا رکھی ہے۔ بنگلا دیش میں بھارتی مصنوعات پر اوسط ٹیرف ۲۳ فیصد جبکہ بھارت میں بنگلا دیشی مصنوعات پر اوسط ٹیرف ۴۰ فیصد تک ہے۔ اس تفاوت کے باعث بنگلا دیشی مصنوعات بھارتی منڈی میں جگہ نہیں بنا پاتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بنگلا دیشی بیورو کریسی نے خود کو بھارتی خفیہ ادارے کے سامنے رہن رکھ دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارت کی معاشی جارحیت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانا بنگلا دیش کے لیے بظاہر ممکن نہیں رہا۔ یہ صورتحال بنگلا دیشی معیشت کو دن بہ دن کمزور سے کمزور تر کرتی جارہی ہے۔ بھارت بہت سی غیر معیاری مصنوعات پر ٹیرف میں کمی بھی کردیتا ہے جس کے نتیجے میں بنگلا دیشی تاجر دوسرے ممالک سے اعلیٰ معیار کی اشیاء برآمد کرنے کے بجائے بھارت سے غیر معیاری اشیا منگوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک طرف تو بھارت اپنی غیر معیاری مصنوعات بنگلا دیش میں ڈمپ کر رہا ہے اور دوسری طرف بہت سی بھارتی مصنوعات اسمگل بھی کی جارہی ہیں۔ بنگلا دیش کو بھارتی مصنوعات کا ڈمپنگ گراؤنڈ بنانے سے اب بنگلا دیشی مصنوعات کے لیے بھارت سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ بنگلا دیشی صنعت کار بہت سے معاملات میں رعایتیں چاہتے ہیں تاکہ لاگت کو کم سے کم رکھ کر اپنی مصنوعات کو بھارتی مصنوعات کے سامنے ڈٹ کر رکھ سکیں۔ بعض پالیسیوں کے باعث ایسا کرنا اب تک ممکن نہیں بنایا جاسکا۔
باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ بنگلا دیش کی وزارتوں اور محکموں میں بھارتی خفیہ ادارے کے بہت سے ایجنٹس بھارت کے لیے تجارت کے معاملے میں رعایتوں کا ایسی خوبصورتی اور نفاست سے اہتمام کرتے ہیں کہ ایک عام بنگلا دیشی کو کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ کم ہی لوگ یہ جان پاتے ہیں کہ بھارت کو دی جانے والی پُرکشش مراعات دراصل دو طرفہ ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔ سب کچھ پہلے سے طے شدہ طریقِ کار اور اصولوں کے مطابق ہو رہا ہے۔ بنگلا دیش کی ریاستی مشینری کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ بھارت سے اسمگلنگ جاری رہے تو بنگلا دیشی معیشت کے لیے پنپنا تو دور کی بات ہے، اپنی جگہ قائم رہنا بھی ناممکن ہوجائے گا مگر اس کے باوجود اسمگلنگ روکنے کے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ اگر وزارتیں، محکمے اور سرکاری ادارے بھارتی اشیا کی اسمگلنگ روکنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوتے تو آج بنگلادیش میں ہر طرف بھارتی اشیا کی بہار دکھائی نہ دے رہی ہوتی۔ کوئی بھی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری افسران اور اہلکاروں کی مرضی اور اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
بھارت کے متعلقہ ادارے بھی اسمگلنگ روکنے کے معاملے میں کچھ نہیں کرتے۔ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس اسمگلنگ روکنے کے حوالے سے اب تک ذرا سا بھی موثر کردار ادا نہیں کرپائی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے بی ایس ایف کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ بنگلا دیش کو اسمگلنگ ہونے دینی ہے اور کنسائمنٹس دیکھ کر آنکھیں بند کرلینی ہیں۔ اسی طور جب بنگلا دیش سے سونا، چاندی، پٹ سن، نیوز پرنٹ اور مچھلی بھارت اسمگل کی جاتی ہے، تب بھی انڈین بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکار آنکھیں موند لیتے ہیں کیونکہ یہ تمام اشیا بھارتی معیشت کے لیے بہت سودمند ہیں۔ بھارت کی مرکزی حکومت کے ساتھ مغربی بنگال، آسام، تری پورہ اور میگھالیہ کی حکومتیں بھی بنگلا دیشی معیشت کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے درپے رہی ہیں اور ان کے اقدامات کے باعث بنگلا دیشی معیشت کے لیے مستحکم رہنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ بنگلا دیش کے روزنامہ ’’المجدد‘‘ کی ۲۹ جنوری ۱۹۹۵ء کی اشاعت کے مطابق بھارت سے ہر سال کم و بیش آٹھ تا دس کروڑ ٹاکا مالیت کی اشیا بنگلادیش اسمگل کی جاتی ہیں۔
بنگلا دیش کے معروف ہفت روزہ ’’دی ہالیڈے‘‘ نے ۱۹؍فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ ’’بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان باضابطہ تجارت سے کم و بیش ۲۰۰ فیصد زائد حجم اسمگلنگ یا غیر رسمی تجارت کا ہے۔ اور اس معاملے میں بھارت کا پلہ بھاری رہا ہے یعنی بنگلا دیشی معیشت کو بیشتر معاملات میں خسارے ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیش کو بھارتی مصنوعات کا ڈمپنگ گراؤنڈ بنانے کے لیے سرکاری مشینری کو بڑے پیمانے پر رشوت دینے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے چند دوسرے اقدامات بھی کرتا ہے، جن کی تفصیل یہ ہے۔
٭ بنگلا دیشی تاجروں کو ایک بڑی سہولت یہ دی گئی ہے کہ وہ بھارت سے کچھ بھی ادھار خرید سکتے ہیں۔ پیاز سے ٹرک تک کوئی بھی چیز، کچھ بھی دیے بغیر حاصل کی جاسکتی ہے۔ بنگلا دیشی درآمد کنندگان کے لیے اس سے زیادہ پُرکشش بات کیا ہوسکتی ہے؟ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی منگوا سکتے ہیں اور وہ بھی کسی طرح کی سرمایہ کاری کیے بغیر۔ اس صورت میں ان کے لیے منافع کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ ایسا کرکے بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
٭ بنگلا دیش میں بھارتی مصنوعات کی طلب بڑھانے کے لیے ایجنٹس کو غیر معمولی حد تک پُرکشش کمیشن کی پیشکش کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارتی مصنوعات کے لیے مارکیٹ مستحکم کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ ایسے میں بنگلا دیشی مصنوعات کے لیے پنپنے کی زیادہ گنجائش باقی نہیں رہتی۔
٭ بھارتی مصنوعات کو بہت سے ممالک کی مصنوعات سے مقابلہ بھی درپیش ہے۔ اس کا بھی حل تلاش کرلیا گیا ہے۔ بھارت نے بنگلا دیش میں اپنی مصنوعات کے لیے منڈی مستحکم کرنے کی غرض سے کمتر معیار کی سستی اشیا بھیجنے کو ترجیح دی ہے۔ بنگلا دیش اپنی ضرورت کی اشیا بہت سے ممالک سے منگواتا ہے۔ سیمنٹ ہی کی مثال لیجیے۔ برما، ملائیشیا، انڈونیشیا، چین، روس، شمالی کوریا، ایران اور عراق سے سیمنٹ درآمد کیا جاتا رہا ہے۔ ان ممالک کا تیار کردہ سیمنٹ برطانوی معیار کے مطابق ہوتا ہے۔ بھارت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ وہ غیر معیاری سیمنٹ تیار کرکے بنگلادیش میں اس کی مارکیٹ مستحکم کرنے کی غرض سے ایسی پیکنگ میں بھیجتا ہے کہ وہ انڈونیشیا کا مال محسوس ہو۔ چین کے سیمنٹ بیگ بھی بازار سے خرید کر ان میں بھارت کا غیر معیاری سیمنٹ بھر کر بیچا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ناخواندہ خریدار کو دھوکا دینے کے لیے ہے۔ بنگلا دیشی تاجروں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش بات یہ ہے کہ بھارتی سیمنٹ نہ صرف یہ کہ بہت سستا ہوتا ہے بلکہ اسے منگوانے کے اخراجات بھی خاصے کم ہوتے ہیں۔ اور پھر یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دوسری بہت سی بھارتی مصنوعات کی طرح سیمنٹ بھی ادھار ملتا ہے۔ بنگلا دیشی تاجر اپنی سہولت کے مطابق مال منگواتے ہیں اور اسے بیچ کر اپنا منافع رکھنے کے بعد بھارتی برآمد کنندہ کو ادائیگی کرتے ہیں۔
٭ بھارتی خفیہ ادارے نے بھارتی مصنوعات کی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ اس کے ایجنٹس بنگلا دیشی تاجروں کے ساتھ مل کر ایسے ادارے قائم کریں جو صرف بھارتی مصنوعات فروخت کرتے ہوں۔ ان تجارتی اداروں کے لیے فنڈنگ کا اہتمام بھی بھارتی خفیہ ادارہ ہی کرتا ہے۔
بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیشی معیشت کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کے لیے وہ سب کچھ کر رہا ہے جو کیا جاسکتا ہے۔ بنگلا دیش میں صنعتی ڈھانچا انتہائی کمزور ہوچکا ہے۔ بھارتی مصنوعات ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بنگلا دیشی صنعت کار دن بہ دن شدید مشکلات سے دوچار ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے لیے کھلی منڈی میں مقابلہ کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ حکومت بھی ان کی مدد کے لیے تیار نہیں۔ سرکاری سطح پر انہیں جو مراعات ملنی چاہئیں، وہ نہیں مل رہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ صنعتی یونٹس کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ بھارت ہر معاملے میں بنگلا دیش کو دباکر، غلام بناکر رکھنا چاہتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور بنگلا دیش کی بنیادیں کمزور ہوتی چلی گئیں تو وہ دن دور نہیں، جب بنگلا دیش کا بھی وہی انجام ہوگا جو سابق سوویت یونین کا ہوا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply