
یہ بات تشنۂ وضاحت ہرگز نہیں کہ کسی بھی ملک کی حقیقی ترقی میں ایک اہم کردار قدرتی وسائل کا ہوتا ہے، کیونکہ قدرتی وسائل ہی کو بروئے کار لاکر بہت سی اشیا و خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ امر انتہائی بدنصیبی کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے کی دخل اندازی اور بنگلا دیشی بیورو کریسی میں اس کے ایجنٹوں کے سرگرم رہنے سے اب تک بنگلا دیش کی کوئی بھی حکومت معدنی وسائل سے کماحقہٗ مستفید نہیں ہوسکی ہے۔ اگر یہ معدنی وسائل بہتر انداز سے بروئے کار لائے جاسکیں تو بنگلا دیش کی بیشتر معاشی مشکلات ختم کرنا کچھ زیادہ دشوار نہ رہے۔ بھارت کا خفیہ ادارہ بنگلا دیش کے معدنی وسائل کو بروئے کار لانے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے تو اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ اول تو یہ کہ کہیں بنگلا دیش تیل کی تلاش کے نام پر کھدوائے جانے والے کنووں کے ذریعے بھارتی ریاست آسام میں موجود تیل بھی نہ نکال لے اور دوم یہ کہ اگر بنگلا دیش اپنے معدنی وسائل سے بخوبی مستفید ہونے کے قابل ہوگیا تو بنگلا دیش کو پسماندہ رکھنے اور بالآخر دباؤ ڈال کر اسے اپنے میں ضم کرنے کا بھارتی خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔
۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کے بعد اس کے پہلے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن نے ملک کو ۶ سیکٹر میں تقسیم کرکے غیر ملکی کمپنیوں کو تیل اور گیس کی تلاش کے ٹھیکے دے دیے تھے۔ غیر ملکی کمپنیوں نے کام شروع کیا مگر کچھ ہی مدت کے بعد وہ کوئی ٹھوس سبب بتائے بغیر اپنے تمام منصوبوں کو ختم کرکے بنگلا دیش چھوڑ گئیں۔ حکومت نے کسی بھی غیر ملکی آئل اینڈ گیس کمپنی سے وضاحت طلب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بتایا جاتا ہے کہ غیر ملکی آئل کمپنیوں نے سابق سوویت یونین کے خفیہ ادارے کے جی بی اور بھارت کے خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے دباؤ پر اپنے تمام منصوبے ختم کرکے بنگلا دیش کی سرزمین کو الوداع کہا تھا۔ روزنامہ ’’روپالی‘‘ کی ۲ مارچ ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں پروفیسر ابو سید نے اپنی کتاب ’’فیکٹز اینڈ ڈوکیومنٹز‘‘ میں بتایا ہے کہ بریسال کے علاقے میں تیل اور گیس کی تلاش میں مصروف کمپنی کے اہلکاروں پر دن کی روشنی میں بھارتی گن بوٹس نے حملہ کیا اور پورا بنیادی ڈھانچا تباہ کردیا۔
روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۲ جون ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ فینی گیس فیلڈ اس امر کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیش کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور نہیں چاہتا کہ بنگلا دیش کے عوام کو معدنی وسائل کے بہتر استعمال کے ذریعے بلند معیارِ زندگی نصیب ہو۔ سابق صدر جنرل ضیاء الرحمن کے دور میں فینی گیس فیلڈ دریافت کی گئی تھی۔ مگر جنرل ضیاء الرحمن کے قتل کے بعد یہ کہتے ہوئے اس گیس فیلڈ کو بند کردیا گیا کہ اس پر کام کرنا معاشی اعتبار سے زیادہ سودمند نہیں۔ مگر یہ بات ماہرین نے تسلیم نہیں کی۔ دس سال بعد اس منصوبے پر کام پھر شروع کیا گیا۔ اب اس گیس فیلڈ سے پیداوار حاصل ہو رہی ہے اور قومی ترقی میں اس کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہے۔ اسی طور کئی دوسرے منصوبے بھی بہت جوش و خروش اور طمطراق سے شروع کیے گئے مگر کچھ ہی عرصے کے بعد بعض نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر ختم کردیے گئے۔
جنرل ارشاد کے زمانے میں ایک بار پھر تیل اور گیس کے تلاش کے کئی منصوبوں کا افتتاح ہوا۔ چند بڑی کمپنیوں کو ٹھیکے دیے گئے۔ ان ہی میں Scimitar بھی شامل تھی، جسے سلہٹ میں تیل کی تلاش کا ٹھیکہ دیا گیا۔ جیسے ہی اس کمپنی نے کام شروع کیا، بھارتی خفیہ ادارے کی ایما پر بنگلا دیش کی چند سیاسی جماعتوں نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ شمیٹر کے ہاتھوں ملک کے مفادات کا سودا کردیا گیا ہے۔ جب اس کمپنی نے دیکھا کہ احتجاج کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے تو اس نے منصوبے پر کام روک دیا اور ملک سے رخصت ہونا غنیمت جانا۔ بھارتی خفیہ ادارے نے پروپیگنڈے کے ذریعے بنگلا دیش میں تیل اور گیس کی تلاش کے کئی منصوبوں کی بساط ہی نہیں لپیٹی بلکہ ان منصوبوں سے وابستہ غیر ملکی آئل کمپنیوں کو ڈرا بھی دیا تاکہ وہ آئندہ ایسے کسی بھی منصوبے کا سوچ سمجھ کر حصہ بنیں۔
فرانس کی آئل کمپنی بی فسٹل نے دیناج پور میں شال بہان کے مقام پر تیل کی تلاش کے کام میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور تیل نکالنے کا کام شروع ہی ہونے والا تھا کہ اچانک اس نے بھی بساط لپیٹی اور چل دی۔ یہ سب کچھ بہت سوں کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھا۔ کچھ ہی دن بعد معلوم ہوا کہ بھارت نے فرانس کو میراج ۲۰۰۰ لڑاکا طیاروں سمیت جنگی ساز و سامان کا ایک بڑا ٹھیکہ دیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ بی فسٹل کو دیناج پور سے کچھ ہی فاصلے پر، سرحد کے دوسری طرف، بھارتی ریاست مغربی بنگال میں جمیدار پاڑا کے مقام پر تیل اور گیس کی تلاش کا ایک بڑا ٹھیکہ دیا تھا۔ یہ بات روزنامہ ’’بنگلا‘‘ نے ۲۳؍اگست ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتائی۔
بنگلا دیش کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر بھارتی خفیہ ادارہ تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہے۔ چٹا گانگ کے کوہستانی علاقے میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں مگر ’’را‘‘ نے مکتی باہنی کے ذریعے اس علاقے میں تیل اور گیس کی پیداوار کبھی شروع نہیں ہونے دی۔ جس علاقے میں حالات خراب رہتے ہوں، وہاں کوئی بھی غیر ملکی کمپنی تیل اور گیس کی تلاش کی ذمہ داری سنبھالنا کیوں قبول کرے گی؟ ۱۹۰۸ء میں سلہٹ کے علاقے پت بڑیا میں تیل کی تلاش میں کامیابی ملی تھی مگر اس وقت کی برطانوی حکومت نے پیداوار حاصل کرنا اس لیے ضروری نہیں سمجھا کہ آسام میں ڈبرو گرب اور ڈگبوائے کے مقام پر تیل دریافت ہوچکا تھا۔ واضح رہے کہ سلہٹ اس دور میں آسام کا حصہ تھا۔ ۱۹۴۷ء میں سلہٹ کو آسام سے الگ کرکے پاکستان کا حصہ بنادیا گیا۔
بنگلا دیش کی حکومت نے ۱۹۸۷ء میں سعودی ترقیاتی فنڈ کی مدد سے پتھریا نامی علاقے میں تیل کی تلاش کا کام شروع کیا۔ اچھی خاصی محنت یعنی کھدائی اور تقریباً ۴۰ کروڑ ٹاکا خرچ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ طریقِ کار کی پیچیدگی کے باعث چند ایک مشکلات ہیں اور یوں اس منصوبے کو بھی ترک کردیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اگر مکمل ہوتا تو بنگلا دیش کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتا۔ گمان یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے نے معاملات کو الجھا دیا اور ایسے حالات پیدا کیے کہ اس منصوبے کو بالآخر ترک ہی کرنا پڑا۔ اسی طور ہری پور اور کیلاش ٹیلا کے مقام پر تیل کی تلاش کا کام بھی پُراسرار حالات میں روکنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ ہری پور ایشیا میں سب سے بڑی آئل فیلڈ ہے۔ یہ تمام واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیش میں تیل اور گیس کی تلاش کے کسی بھی منصوبے کو کامیاب دیکھنا نہیں چاہتا اور بالخصوص سلہٹ میں تو وہ اس نوعیت کا کوئی بھی منصوبہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ اسے یہ خوف لاحق ہے کہ آسام میں موجود تیل کے ذخائر کا بڑا حصہ بنگلا دیش کی آئل فیلڈ کے ذریعے نکال نہ لیا جائے۔ بھارتی خفیہ ادارے نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے بنگلا دیش کے کرپٹ اور غیر محب وطن بیورو کریٹس کو استعمال کیا ہے۔ بعض ماہرین بھی بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے ۱۹۹۳ء میں ایک خبر شائع کی تھی جس کے مطابق بنگلا دیش کے جیالوجیکل سروے ڈائریکٹوریٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر حبیب الرحمن کو بھارت کا دورہ کرایا گیا، تمام اخراجات اور اضافی رقوم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی گئی۔ اور یہ سب کچھ بنگلا دیش کے معدنی وسائل سے متعلق جامع اور مصدقہ رپورٹس کے عوض تھا۔
معاملہ صرف تیل اور گیس تک محدود نہیں۔ بنگلا دیش میں دیگر معدنی وسائل کی تلاش اور ان سے پیداوار حاصل کرنے کی راہ میں بھی بھارت نے ہمیشہ روڑے اٹکائے ہیں۔ مدھیہ پاڑا اور دوسرے بہت سے علاقوں میں معدنی وسائل کی تلاش کا کام اس لیے روکنا پڑا کہ بھارت کی ایما پر بنگلا دیش کے چند اعلیٰ بیورو کریٹس نے مشکلات پیدا کیں۔ کسی نہ کسی تکنیکی پیچیدگی کو بہانہ بناکر معدنی وسائل کی تلاش روکی جاتی رہی ہے۔ باڑا پکریا میں کوئلے کی تلاش کے کام میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب حکومت نے کوئلے کی تلاش کے لیے کھدائی شروع کی تو بھارتی خفیہ ادارے کی ایما پر اس علاقے کے کسانوں کو احتجاج کے لیے کھڑا کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئلے کی تلاش میں کھدائی سے ان کی زرعی زمینیں متاثر ہو رہی ہیں مگر معقول معاوضہ نہیں دیا جارہا۔ جوئے پور ہٹ، سلہٹ میں یورینیم اور پوٹاشیم کی تلاش کا کام بھی ایسی ہی وجوہ کی بنیاد پر روکنا پڑا ہے۔
معدنیات کی تلاش کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر جی ڈبلیو گیبل مین نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بنگلا دیش کی سرزمین بہت سی معدنیات سے بھری پڑی ہے۔ یہاں یورینیم کے ذخائر بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس حوالے سے باضابطہ رپورٹس موجود ہیں۔ بہت سے علاقوں میں مصدقہ ذخائر ہیں مگر ان سے پیداوار کے حصول کی گنجائش پیدا نہیں ہو پارہی۔ یہ بات انہوں نے ۱۹۷۶ء میں مولوی بازار، فلٹالا اور سلہٹ میں شروع کیے جانے والے منصوبوں کی بنیاد پر کہی۔ کھدائی سے معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں یورینیم کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر بھارتی خفیہ ادارے کی سازشوں کے باعث تمام منصوبے اچانک ختم کردیے گئے۔ دوسری طرف بھارت سلہٹ سے کچھ دور اپنی شمال مشرقی ریاست میگھالے سے بڑی مقدار میں یورینیم نکال رہا ہے۔
۲۷ فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے لکھا کہ بوگلی بازار کے علاقے میں کم و بیش ایک کروڑ ۷۰ میٹرک ٹن کے مساوی لائم اسٹون موجود ہے۔ ۱۸؍لاکھ ٹن لائم اسٹورن تکیر ہاٹ، ۲۰ لاکھ ٹن بھنگر گھاٹ اور ۴۰ ہزار ٹن لائم اسٹورن بالا پونجی میں ہے۔ یہ تمام ذخائر اب تک یونہی پڑے ہیں، پیداوار حاصل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان معدنی وسائل سے استفادہ نہیں ہو پارہا تو اس کی پشت پر بھارتی خفیہ ادارہ ہی ہے۔ وہ معدنیات سے متعلق بنگلا دیش کے اعلیٰ افسران کو رشوت کے طور پر خطیر رقوم دیتا ہے تاکہ وہ معدنیات کے ذخائر سے استفادے کی اجازت ہی نہ دیں۔
روزنامہ ’’المجدد‘‘ ہی نے ۱۶؍مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ بنگلا دیش کی جنوب مشرقی ساحلی پٹی اور چند جزائر کے پاس ۵۰ لاکھ ٹن سے زائد کالا سونا ہے۔ زکرون، روٹیل، لیوکوکزین، کیا نائٹ، میگنے ٹائٹ، گارنیٹ اور مینا زائٹ میں مٹی کے مل جانے سے جو ملغوبہ بنتا ہے، اسے عرفِ عام میں کالا سونا کہا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت اس حوالے سے ہمیشہ کچھ بھی نہ کرنے کے موڈ میں دکھائی دی ہے۔ کاغذ، الیکٹراڈ ویلڈنگ، ایئر کرافٹس، اسپیس ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر فشن جیسی صنعتوں کے لیے کالا سونا بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
فنڈ اور بنیادی سہولتوں کی کمی کے باعث بنگلا دیشی حکومت تیل، گیس اور عمومی معدنیات دریافت کرنے کے معاملے میں غیر ملکیوں پر انحصار پذیر رہی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارہ بھرپور کوشش کرتا رہا ہے کہ اس شعبے میں غیر ملکی کمپنیوں کے لیے سرمایہ کاری کی راہ ہموار نہ ہو اور وہ بنگلا دیش میں معدنیات کی تلاش سے دور رہیں۔ سیاسی دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ افسران اور حکام کو اچھی خاصی رشوت بھی دی جاتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں ’’را‘‘ نے کئی طریقے آزمائے ہیں۔ مثلاً:
٭ یہ پروپیگنڈا زور و شور سے کیا جاتا رہا ہے کہ بنگلا دیش میں معدنیات کے ذخائر نہیں، اس لیے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنا کسی طور سودمند ثابت نہیں ہوگا۔
٭ مقامی اور غیر ملکی انجینئر و دیگر متعلقہ عملہ کو بھاری رقوم پیش کی جاتی ہیں تاکہ وہ بھارت کے مفادات سے ہم آہنگ فزیبلیٹی رپورٹس تیار کریں، یعنی ایسی رپورٹس سامنے لائیں جن میں درج ہو کہ بنگلا دیش میں معدنیات کی تلاش لاحاصل عمل ہے۔
٭ بنگلا دیش میں معدنیات کی تلاش اور پیداوار سے متعلق وزارت اور ڈائریکٹوریٹ کے حکام کو خطیر رقوم دی جاتی ہیں تاکہ وہ تمام منصوبوں کو زیادہ سے زیادہ تاخیر کی نذر کریں اور ایسے حالات پیدا کریں کہ ان پر کام کرنا یا تو ممکن نہ ہو یا پھر سودمند نہ رہے۔ حکام کے ہتھکنڈوں ہی کے باعث بہت سے منصوبے زیر التوا رہتے ہیں اور بالآخر انہیں ترک ہی کرنا پڑتا ہے۔
٭ اگر کوئی غیر ملکی کسی نہ کسی طور تمام رکاوٹیں عبور کرکے کام شروع بھی کردے تو اس کی راہ میں دوسرے طریقوں سے روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹس متعلقہ کمپنی کے اہلکاروں اور حکام کو دھمکانے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ کام روکنے اور پھر ختم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بنگلا دیش میں تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل کی تلاش کے لیے آنے والی بہت سی غیر ملکی کمپنیوں نے اپنا کام ادھورا چھوڑ کر بوریا بستر لپیٹنا غنیمت جانا ہے۔ ان کا انجام دیکھ کر دوسری بہت سی مشہور غیر ملکی کمپنیوں کی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ آگے بڑھیں اور کچھ کر دکھائیں۔ اگر ہم بنگلا دیش کے قدرتی وسائل سے کماحقہٗ مستفید ہونا چاہتے ہیں اور قابلِ رشک حد تک پیداوار یقینی بنانے کے خواہش مند ہیں تو ناگزیر ہے کہ بیورو کریسی میں ’’را‘‘ کے ایجنٹس کو ختم کردیں۔ جب تک ہم ایسا نہیں کرسکیں گے، تب تک ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لانے میں بھرپور طور پر کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے کے ایجنٹس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کام کرے گا کون یا یہ عمل شروع کیسے ہوگا۔
Leave a Reply