
بنگلا دیش کی معیشت کو مضبوط بنانے اور خاص طور پر صنعتوں کو مستحکم رکھنے میں ملبوسات کی صنعت نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ بنگلا دیش میں ملبوسات کی صنعت نے بہت تاخیر سے مضبوط ہونا شروع کیا۔ ۱۹۷۶ء سے بنگلا دیش میں گارمنٹ انڈسٹری نے جڑ پکڑنی شروع کی۔ اِس وقت بنگلا دیش کے طول و عرض میں بارہ سو سے زائد ملبوسات کی فیکٹریاں کام کر رہی ہیں۔ ان میں ملازمت کرنے والوں کی تعداد کم و بیش بارہ لاکھ ہے۔ جن میں ۸۵ فیصد خواتین ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بنگلا دیش کی خواتین کو مالی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور انہیں معاش کا بہتر ذریعہ فراہم کرنے میں ملبوسات کی صنعت نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
جنوبی ایشیا میں ملبوسات کی صنعت کو پروان چڑھانے میں جن ممالک نے پہل کی اور کامیابی پائی، اُن میں سری لنکا نمایاں رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سری لنکا میں ملبوسات کی صنعت بہت مستحکم ہوگئی اور بھارت کو اس سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بھارت کے خفیہ ادارے نے سری لنکا میں تامل نسل کے باشندوں کو بغاوت پر اکسایا۔ جب خانہ جنگی شروع ہوئی تو سری لنکا میں ملبوسات کی صنعت نے دم توڑ دیا۔ ملبوسات کے غیر ملکی خریداروں اور سرمایہ کاروں نے سری لنکا کے حالات سے مایوس ہوکر بنگلادیش کی طرف متوجہ ہونا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں بنگلادیش میں ملبوسات کی صنعت تیزی سے فروغ پانے لگی۔ بہت سے لوگ راتوں رات کچھ سے کچھ بن گئے۔ مالی سال ۹۵۔۱۹۹۴ء میں بنگلا دیش نے صرف ملبوسات کے شعبے سے کم و بیش ۶,۱۰۰ ٹاکا کمائے۔ یہ سب کچھ بھارت کے لیے انتہائی پریشانی اور تشویش کا باعث تھا۔ بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بنگلا دیش کبھی کسی بھی صنعت کو پروان نہ چڑھاسکے یعنی کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو۔ اسی صورت بنگلا دیش ہر معاملے میں بھارت کا دست نگر رہ سکتا ہے۔ بھارت نے اس سلسلے میں اپنا تمام اثر و رسوخ استعمال کیا۔ عام طور پر بہت سے ادارے صنعتی اداروں کی پیداوار کے خریدار کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ان اداروں کا طریق کار ایک دوسرے سے تھوڑا مختلف ہوسکتا ہے۔ بھارت نے اپنے زیر اثر بائنگ ہاؤسز پر دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں انہوں نے بنگلا دیش کے ملبوسات فیکٹری مالکان سے مال خریدنا ترک کردیا۔ اگر یہ ادارے ایسا نہ کرتے تو بھارت سے ملنے والے خطیر رقوم کے آرڈر کسی اور کو دیے جانے لگتے۔ بھارت نے اور اس کی ایما پر ’’را‘‘ کے ایجنٹس نے بنگلا دیش کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا۔ سب سے پہلے تو یہ بات کہی گئی کہ بنگلا دیش اس قابل ہے ہی نہیں کہ اعلیٰ معیار کے ملبوسات تیار کرنے کی فیکٹریاں قائم کرسکے۔ دوسرے نمبر پر یہ بات تھی کہ بنگلا دیش میں ملبوسات فیکٹریوں کے مالکان اور محنت کش بے ایمان ہیں، یعنی معیار کے معاملے میں ڈنڈی مار جارتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ پروپیگنڈا بھی کیا گیا کہ بنگلا دیش میں تیار کیے جانے والے کپڑے پست معیار کے ہوتے ہیں، یعنی امریکا اور یورپ کی منڈیوں کے طے کردہ معیار پر پورے نہیں اترتے۔
بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلا دیش کی ملبوسات کی صنعت میں اپنے ایجنٹس بھرتی کیے، جن کے بنیادی فرائض میں بہت کچھ شامل تھا۔ مثلاً وہ یہ دیکھتے کہ معاہدہ سے مطابقت نہ رکھنے والی فیبرکس کہاں کہاں استعمال کی جارہی ہے۔ یہ لوگ ایسے کپڑے فراہم کرتے تھے جو برائے نام سِلے ہوئے ہوں یا بالکل نہ سِیے گئے ہوں۔ کوشش کی جاتی تھی کہ معاہدے میں دی ہوئی تعداد کے مطابق کپڑے فراہم نہ کیے جائیں تاکہ بنگلا دیش کی ساکھ خراب ہو۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بہت سے پیکٹوں میں تیار شدہ ملبوسات کے بجائے کپڑے کے ٹکڑے پیک کردیے جاتے تھے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹس بنگلا دیش سے شپمنٹ کی روانگی میں تاخیر بھی یقینی بناتے تھے تاکہ معاہدے کی خلاف ورزی ہو اور جرمانہ بنگلا دیشی ملبوسات کی فیکٹریوں کو ادا کرنا پڑے۔
’’را‘‘ کے ایجنٹوں کی کارستانیوں سے عالمی منڈی میں بنگلا دیشی ملبوسات فیکٹریوں کی ساکھ خراب ہوئی اور اسے ملنے والے آرڈر دوسرے ممالک، بالخصوص بھارت کو ملنے لگے۔ بنگلا دیشی ملبوسات کی صنعت سے وابستہ سرمایہ کاروں کو بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ بھارت ان سے کھلواڑ کر رہا ہے۔ انہوں نے سازش کو بھانپتے ہوئے تدارک کی خاطر اقدامات کیے اور مسائل کو بہت حد تک حل کرلیا۔ مگر یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ’’را‘‘ کی کوئی بھی سازش کسی خاص مدت یا شعبے تک محدود نہ تھی۔ اسے تو ہر حال میں بنگلا دیش کو غیر مستحکم رکھنا تھا۔ یہی سبب ہے کہ سازشیں جاری رہیں اور دوسری طرف بنگلا دیش میں انہیں ناکام بنانے والے بھی متحرک رہے۔
کسی بھی شعبے کی صنعت کو برباد کرنے میں غیر صحت مند رجحانات کی حامل مزدور انجمنیں مرکزی کردار ادا کیا کرتی ہیں۔ مزدوروں کو ان کے حقوق دلانے کے نام پر غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کے لیے اکسانے والوں کی کہیں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ’’را‘‘ نے بھی بنگلا دیش کی ملبوسات انڈسٹری کو برباد کرنے کے لیے مزدور انجمن راہنمائوں کا سہارا لیا۔ ملبوسات انڈسٹری کے اہم یونٹس میں مزدوروں کی انجمنوں کی مداخلت بڑھنے لگی تو معاملات بگڑتے گئے، پیداوار متاثر ہونے لگی اور نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل ناممکن سی ہوگئی۔ یوں شپمنٹس میں تاخیر سے بنگلا دیشی ملبوسات انڈسٹری کی ساکھ بگڑتی گئی۔ ’’را‘‘ کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ شپمنٹس میں تاخیر ہو، معیار بگڑ جائے، معاہدے کے مطابق فراہمی نہ ہو اور یوں بنگلا دیشی ملبوسات کی صنعتوں کو آرڈرز حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹوں نے ایسی بے دِلی اور بیزاری پھیلائی کہ بنگلا دیش کی ملبوسات کی صنعت کے لیے پنپنا تو دور کی بات ہے، اپنے پیروں پر کھڑا رہنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ ’’را‘‘ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ امریکا اور یورپ کے خریدار بنگلا دیش کی ملبوسات انڈسٹری سے منہ موڑ لیں اور یہ مقصد بخوبی حاصل کرلیا گیا۔
بنگلا دیش میں ملبوسات کی صنعت سے متعلق مزدوروں کی انجمنیں جو کچھ کہتی ہیں، مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے جو پروپیگنڈا یا احتجاج کرتی ہیں، ان کی پوری رپورٹ ’’را‘‘ مغربی دنیا کو دیتی ہے۔ پمفلٹس کی نقول اور تقریروں کی ریکارڈنگ یورپی خریداروں کو سنائی جاتی ہیں تاکہ وہ بھی یہ ماننے لگیں کہ بنگلا دیش میں مزدوروں کا غیر معمولی استحصال کیا جارہا ہے اور وہ بہت پست معیار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یورپ اور امریکا میں بنیادی حقوق اور مزدوروں کے حقوق پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ بنگلا دیشی ملبوسات فیکٹریوں کے بارے میں ’’را‘‘ کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں مغربی خریداروں نے ایسے مطالبات رکھنا شروع کردیے جنہیں بنگلا دیشی ملبوسات انڈسٹری کے لیے پورا کرنا تقریباً ناممکن تھا۔
’’را‘‘ نے بنگلا دیش سے غیر معیاری کپڑوں کی شپمنٹ یقینی بنانے پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ جعلی تاجروں، برآمد کنندگان اور سرمایہ کاروں کو تعینات کرکے ’’را‘‘ نے انہیں بعض رشوت خور سرکاری افسران کی مدد سے اجازت نامے بھی دلائے ہیں تاکہ غیر معیاری مال برآمد ہو۔ جعلی سرٹیفکیٹس کے ذریعے ’’را‘‘ نے کروڑوں ٹاکا کمائے ہیں۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے ۲۲؍اکتوبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ اس مالی سال کے دوران امریکا کے لیے چار سو کروڑ ٹاکا کی ایک کنسائنمنٹ کا سراغ لگایا گیا تھا، جس کے لیے ایکسپورٹ پروموشن بیورو سے جعلی اجازت نامہ جاری کرایا گیا تھا۔ اس جعلی اجازت نامے کی مدد سے بھارت نے انتہائی ناقص کپڑے فراہم کیے جن کے لیے بدنام بنگلا دیش ہوا۔ کئی دوسرے واقعات میں بھی یہ سامنے آیا کہ سرٹیفکیٹ تو بنگلا دیشی اتھارٹی کا تھا مگر ناقص مال بھارت سے فراہم کیا گیا۔
۹۴۔۱۹۹۳ء میں ایسے ہی جعلی سرٹیفکیٹ کے ذریعے بھارت نے ڈھائی کروڑ ڈالر کی ایک سِلے ہوئے کپڑوں کی شپمنٹ امریکا بھیجی۔ امریکی کسٹم افسران نے مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ فراڈ پکڑلیا۔
۲؍اکتوبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے بتایا کہ بھارت کی سازشوں کے باعث بنگلا دیشی معیشت کو غیر معمولی نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں۔ ’’را‘‘ کے ہتھکنڈے کامیاب رہے ہیں اور بنگلا دیشی برآمدات خاصی کم ہوچکی ہیں۔ مالی سال ۹۳۔۱۹۹۲ء میں امریکا کے لیے بنگلا دیش کی ملبوسات کی برآمدات ۶۵ کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر سے زائد تھیں جو اگلے ہی مالی سال کے دوران ۵۴ کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئیں۔ یہ سب بھارت کی فریب کاری کا نتیجہ تھا۔ بھارت نے غیر معیاری مصنوعات جعلی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر برآمد کرکے بنگلا دیش کو شدید نقصان پہنچایا۔ ۹۳۔۱۹۹۲ء میں بنگلا دیش نے برآمدی ہدف ۱۶۵؍کروڑ ڈالر سے زائد مقرر کیا تھا جو حاصل نہ کیا جاسکا۔ بھارتی سازشوں کے باعث ہدف سے ۲۲ فیصد کم برآمدات ممکن ہوسکیں۔ بھارتی ایجنٹوں نے جعلی جی ایس پی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر گھٹیا اشیا یورپ کے متعدد ممالک بالخصوص اٹلی اور جرمنی کو برآمد کیں۔ یہ سب کچھ بنگلا دیش کی ساکھ خراب کرنے کے لیے انتہائی کافی تھا۔ جن اشیا کے باعث بنگلا دیش کا نام بدنام ہوا، وہ بنگلا دیشی سرزمین پر تیار ہی نہیں کی گئی تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کئی یورپی ممالک بنگلا دیش کے نام سے برگشتہ ہوگئے۔ اٹلی نے بنگلا دیش سے کچھ برآمد کرنے کو ترجیح دینا چھوڑ دیا۔ یہ سب کچھ بنگلا دیش کی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی جیسا تھا مگر سرکاری سطح پر کسی بھی نوعیت کی تفتیش کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہی محسوس ہی نہیں کی گئی۔ جن افسران نے ’’را‘‘ کے اشارے پر جعلی برآمدی سرٹیفکیٹ اور لائسنس جاری کیے تھے، وہ اب بھی اپنے عہدوں پر ہیں اور بیرونی قوتوں کے مفادات کی تکمیل میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
بنگلا دیشی ملبوسات کی صنعت میں بچوں سے مشقت لیے جانے کے معاملے کی بنیاد پر امریکا میں چلائی جانے والی مہم کے پیچھے بھی بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ ہی کا ہاتھ ہے۔ ’’را‘‘ کے بنگلا دیشی ایجنٹوں نے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کے لیے ایک دستاویزی فلم بھی تیار کی جس میں بنگلا دیشی ملبوسات کی صنعت میں بچوں سے مشقت لیے جانے کو مرکزی موضوع کے طور پر برتا گیا ہے۔ ’’را‘‘ نے اس دستاویزی فلم کی وڈیو کانگریس کے ارکان اور پالیسی تیار کرنے والوں کو بھیجیں تاکہ بنگلا دیشی ملبوسات کی صنعت کو پنپنے سے روکنے کے اقدامات کی راہ ہموار ہو۔ بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر سینیٹر ٹام ہارکنز نے ایوان میں ایک بل پیش کیا گیا، جس میں سفارش کی گئی کہ جو ممالک اپنے صنعتی یونٹس میں بچوں سے مشقت لیتے ہیں، ان سے کوئی بھی مال خریدنے سے گریز کیا جائے اور انہیں اپنا مال امریکا بھیجنے سے روکا جائے۔ ٹام ہارکنز نے اپنا بل پیش کرتے ہوئے جب بچوں سے لی جانے والی مشقت کا ذکر کیا تو بنگلا دیش کا خاص طور پر ذکر کیا۔
’’را‘‘ کی سازشوں کا سفر بنگلا دیش کے خلاف بل پیش کیے جانے پر ختم نہیں ہوا۔ ۴۰ بنگلا دیشی بچوں اور چند مذہبی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر ’’را‘‘ نے امریکا میں چائلڈ لیبر کولیشن کے نام سے ایک محاذ بھی تشکیل دیا۔ اس محاذ کی کوئی مقامی بنیاد نہیں۔ امریکی اتھارٹیز نے اس کے قیام کی اب تک باضابطہ منظوری بھی نہیں دی۔ یہ لوگ بنگلا دیش کی ملبوسات کی صنعت میں بچوں سے مشقت لینے کا معاملہ اٹھاکر بنگلا دیشی ملبوسات کی برآمدات کا دائرہ محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارتی ایجنٹوں نے بنگلا دیشی ملبوسات کی صنعت کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے امریکا میں گھر گھر جاکر بھی مہم چلائی ہے اور لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ بنگلا دیش کی مصنوعات ہرگز نہ خریدیں۔ یہ رپورٹ ہفت روزہ ’’سونار بنگلا‘‘ نے ۲۶ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں شامل کی۔
ٹام ہارکنز کے متعارف کرائے ہوئے قانون کے تحت اب تک بنگلا دیش میں ملبوسات کی صنعت سے کم و بیش پچاس ہزار کم عمر مزدوروں کو فارغ کیا جاچکا ہے۔ یہ بچے اپنے گھر کی کفالت کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے تھے۔ ایک سازش کے تحت انہیں کام سے الگ کرکے معاشرتی خرابیوں کی بھی راہ ہموار کی گئی ہے۔ اس بات سے کون واقف نہیں کہ بھارت سمیت کئی ممالک میں اب بھی صنعتی شعبے سے لاکھوں بچے وابستہ ہیں۔ کم اجرت پر کام کرنے والے ان نوعمر مزدوروں ہی کی بدولت بہت سے صنعتی یونٹس اس قابل ہیں کہ عالمی منڈی میں مقابلہ کرسکیں۔ بھارت نے اپنی صنعتوں میں بچوں سے مشقت لیے جانے کا سلسلہ اب تک ترک نہیں کیا، مگر سارا زور اس بات پر لگادیا گیا ہے کہ بنگلا دیش بچوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ غیر جانب دارانہ تحقیقات سے بھی اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بنگلا دیش کی ملبوسات کی صنعت کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ ’’ڈیلی اسٹار‘‘ نے ۳۱ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ بھارت نے چائلڈ لیبر فیڈریشن کو بنگلا دیش کے خلاف بہت عمدگی سے استعمال کیا ہے جبکہ خود بھارت میں پانچ کروڑ سے زائد بچے ملبوسات کی اور دیگر صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ مگر یہ سب کچھ نظر انداز کرکے صرف بنگلا دیش کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ٹام ہارکنز اور چائلڈ لیبر فیڈریشن نے حقائق پر نظر ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور بنگلا دیش کو نشانے پر لے لیا۔ اس کے نتیجے میں بنگلا دیشی معیشت کو غیر معمولی خسارے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
بنگلا دیشی کی ملبوسات کی صنعت کو برباد کرنے سے متعلق ’’را‘‘ کی بیشتر کوششیں اب تک کامیاب رہی ہیں۔ عالمی برادری کو بچوں سے لی جانے والی مشقت کے حوالے سے خوب ورغلایا جاتا رہا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply