
سمندر سے خوراک کے وسائل حاصل کرنے کے معاملے میں بنگلا دیش پر قدرت کی خاص عنایت ہے۔ بنگلا دیش میں سمندری پانی کی مچھلی بھی پائی جاتی ہے اور میٹھے، یعنی دریائی پانی کی بھی۔ اور دونوں ہی معاملات میں وہ سمندری غذا (Sea-food) سے مالا مال ہے۔ بنگلا دیش میں دریا بھی کئی ہیں۔ بہت سی نہریں اور تالاب بھی ہیں۔ زمین کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ ماہی پروری پر توجہ دی جائے تو ملک کو خطیر زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سمندر کے پانیوں سے بھی بڑے پیمانے پر مچھلی پکڑی جاسکتی ہے۔ بنگلا دیش جیسے ملک کے لیے سمندری غذا کے معاملے میں خود کفالت حاصل کرکے عالمی منڈی میں مال بھیجنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ سوال صرف توجہ دینے اور محنت کرنے کا ہے۔ اگر بنگلا دیش کی حکومت پوری توجہ مرکوز کرے تو سمندری غذا ملک کے لیے زر مبادلہ کماکر دینے والا سب سے بڑا شعبہ بن سکتا ہے۔ زرمبادلہ کمانے کے معاملے میں یہ شعبہ ملبوسات کے شعبے کو بھی پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کی ’’مہربانی‘‘ سے بنگلا دیش میں اب تک ماہی گیری اور ماہی پروری کا شعبہ بھی اس حد تک پنپ نہیں سکا، جس حد تک یہ آسانی سے پنپ سکتا تھا۔
مشترکہ دریاؤں پر فرخا بیراج اور چالیس دوسرے چھوٹے بڑے ڈیم بناکر بھارت نے بنگلا دیش میں ماہی پروری کی صنعت کے پنپنے کی گنجائش تقریباً ختم کردی ہے۔ اب بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلا دیش کے سمندری پانیوں میں بھی ماہی پروری اور ماہی گیری کی صنعت کو تباہ کرنے کی بھرپور تیاری کرلی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بنگلا دیش کا نام سنتے ہی ذہن میں سب سے پہلے مچھلی اور چاول کا تصور ابھرتا تھا۔ وہ زمانہ ہوا ہوچکا ہے۔ اب ان دونوں چیزوں کو بھول جائیے۔ معاملہ کس حد تک بگڑ چکا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جو ملک کبھی مچھلی برآمد کرکے خطیر زر مبادلہ کمایا کرتا تھا، وہ اب بھارت سے مچھلی اسمگل کر رہا ہے!
روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۳۱ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبۂ حیوانیات کے تحت کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ خلیج بنگال میں واقع ملک کے حقیقی معاشی زون میں (جو ایک لاکھ ۴۵ ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے) عام مچھلیوں کی ۴۷۵؍اقسام اور دیگر آبی حیات کی ۲۴؍اقسام پائی جاتی ہیں۔ ساحلی علاقوں میں ۴۰ میٹر کی گہرائی تک کم و بیش ۲ لاکھ ٹن مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ اسی معاشی زون میں ۲۰۰ کی گہرائی پر ۴۲؍اقسام کی ۲۰ لاکھ ٹن مچھلی پائی جاتی ہے جبکہ مزید گہرائی پر مزید ۲۰ لاکھ ٹن مچھلی پائی جاتی ہے۔
بنگلا دیش کے ساحلی علاقوں میں پائی جانے والی مچھلیوں میں ٹیونا، سالمن، میکرل، جانکز، سورڈ، شرمپ، لوبسٹر، روپ چندا، روپن، ہلشا اور لیٹیا سمیت ۴۷۵؍اقسام شامل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالکلام آزاد کے مطابق بنگلا دیش ہر سال ۴ لاکھ ٹن مچھلی برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سمندری حیات بنگلا دیش کے لیے اللہ کی طرف سے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔ مچھلی کے ذریعے زرمبادلہ کمانے پر بہت زیادہ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ سمندر میں ماہی پروری نہیں کرنی پڑتی۔ صرف ماہی گیری پر کچھ خرچ ہوتا ہے۔ بہتر جال اور بڑی کشتیاں ہوں تو زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑنا ممکن ہوجاتا ہے۔ ملبوسات کے بعد سمندری حیات بنگلا دیش کے لیے زرمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنگلا دیش کی حکومت اگر متوجہ ہو تو جھینگوں کی افزائش کے ذریعے خطیر زرمبادلہ کماسکتی ہے۔ بنگلا دیش کے بیشتر ساحلی علاقے جھینگوں کی افزائش کے لیے بالکل موزوں ہیں۔ اگر حکومت جھینگوں اور مچھلیوں کی افزائش کو ترجیحات میں شامل کرے تو یہ شعبہ بہت تیزی سے فروغ پاسکتا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں منجمد جھینگوں کی قیمت اتنی ملتی ہے کہ بنگلا دیش میں ایک برآمدی شعبہ پنپ سکتا ہے۔ اس صورت میں ہزاروں افراد کو روزگار بھی ملے گا۔ روزنامہ ’’المجدد‘‘ کی ۲۷ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت کے مطابق ۱۹۷۲ء میں بنگلا دیش کی سمندری غذا کی برآمد سے ہونے والی آمدنی کم و بیش دو کروڑ ۳۸ لاکھ ٹَکا تھی جو ۹۵۔۱۹۹۴ء میں گیارہ کروڑ ٹَکا تک جا پہنچی ہے۔ روزنامہ ’’اتفاق‘‘ کے ۳جون ۱۹۹۵ء کے ایک اداریے کے مطابق بنگلادیش کی حکومت پوری توجہ دے تو صرف لوبسٹر (بڑا جھینگا) کی برآمد سے کم و بیش ۲۴ ہزار کروڑ ٹَکا سالانہ کماسکتی ہے۔ منجمد سمندری غذا (Frozen Sea-food) کی برآمد کے شعبے میں بھارت کو سب سے زیادہ مقابلہ بنگلادیش سے درپیش ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے نے اس شعبے کو تباہ کرنے پر بھرپور توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ ویسے تو خیر سمندر میں ایسے اقدامات کی راہ ہموار کی جارہی ہے جن سے ہر طرح کی سمندری حیات کی افزائش داؤ پر لگ جائے مگر خاص طور پر جھینگوں کی پیداوار کی راہ میں دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔
بھارت کے حکام اپنے ماہی گیروں کو بنگلا دیش کے پانیوں میں چوری چھپے مچھلیاں اور جھینگے پکڑنے کی اجازت دیتے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بنگلا دیش کی سمندری حیات کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے۔ بھارتی ماہی گیر ہر سال کروڑوں ٹَکا مالیت کی مچھلی اور جھینگے لے جاتے رہے ہیں۔ اب بھارت بنگلا دیشی پانیوں میں مچھلی اور جھینگے پکڑنے کے لیے طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ بنگلا دیشی ماہی گیروں کے مچھلی اور جھینگے سے بھرے ہوئے ٹرالرز لوٹنے کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ بھارتی ماہی گیروں کی کشتیاں بنگلا دیشی سمندری حدود کی خلاف ورزیاں کرتی رہی ہیں۔ پسور، ہریا بھنگا، رائے منگل اور تلپاٹی کے علاقوں میں بھارتی ماہی گیر بنگلا دیشی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں۔ روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۲۱ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ بھارتی ماہی گیروں نے صرف مچھلیاں اور جھینگے لوٹنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ بنگلا دیشی ماہی گیروں کے جال اور دیگر متعلقہ اشیا بھی لوٹ کر لے گئے۔ روزنامہ ’’جن کنٹھا‘‘ نے ۲۰ دسمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ بنگلا دیشی ماہی گیر عام طور پر اس بدمعاشی کا سامنا بہتر ڈھنگ سے نہیں کر پاتے کیونکہ انہیں یہ معلوم ہے کہ بھارتی ماہی گیروں کی حفاظت کے لیے بھارتی بحریہ موجود رہتی ہے اور یہ سب کچھ اسی کی شہ پر ہو رہا ہوتا ہے۔
بنگلا دیشی پانیوں میں مچھلی اور جھینگوں سے بھرے ہوئے ٹرالرز لوٹنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیات سے متعلق ادارے کی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی ٹرالرز بنگلا دیشی پانیوں سے جو مچھلی اور جھینگا لوٹتے ہیں، عالمی مارکیٹ میں اس کی سالانہ مالیت کم و بیش ۴۰ کروڑ ٹَکا بنتی ہے۔ ۱۰؍فروری ۱۹۹۵ء کو بنگلا دیشی کوسٹل گارڈز نے ۳ بھارتی ٹرالرز کو پکڑا جن پر ۳۳؍افراد سوار تھے۔ ۱۳؍فروری کو بنگلا دیشی کوسٹل گارڈز نے ایک بار پھر کارروائی کی اور ۵ بھارتی ٹرالرز پکڑے جن پر ۵۴؍افراد سوار تھے۔ رزنامہ ’’المجدد‘‘ کی ۱۴؍فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت کے مطابق بھارتی ٹرالرز کے نام ایف بی مدر گنگا دھن، ایف بی مدر کملا، ایف بی مدر کٹوانی، ایف بی مدر مونوسا اور ایف بی مدر سرودا ہیں۔
روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے بگیر ہاٹ سے ایک رپورٹ میں بتایا کہ بنگلادیشی بحریہ نے ستمبر ۱۹۹۴ء کے آخری اور اکتوبر ۱۹۹۴ء کے پہلے نصف کے دوران بھارت کے ۲۷ ٹرالرز ضبط کرکے ۲۲۳ ماہی گیروں کو تحویل میں لے لیا۔ ۱۹۹۱ء سے مئی ۱۹۹۶ء کے دوران بنگلا دیشی حکام نے ۵۲ غیر ملکی ٹرالرز ضبط کیے جن میں سے ۴۳ بھارتی تھے۔ یہ نکتہ واضح کردینا ضروری ہے کہ بنگلا دیشی بحریہ کے پاس جہازوں اور ساز و سامان کی کمی ہے جس کے باعث بنگلا دیش کی سمندری حدود میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے ہر جہاز یا کشتی کو ضبط کرنا یا تحویل میں لینا ممکن نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بہت سے ٹرالرز کی ضبطی کا معاملہ ذرائع ابلاغ تک پہنچ نہیں پاتا۔
بھارت ایک طرف تو بنگلا دیشی سمندری حدود میں بڑے پیمانے پر ماہی گیری کر رہا ہے اور بنگلا دیشی ماہی گیروں کی مچھلی اور جھینگوں سے بھری کشتیاں لوٹی جارہی ہیں تو دوسری طرف بنگلا دیش کی سمندری حیات کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جارہی۔ بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلا دیش کی سمندری حدود میں جھینگوں اور چھوٹی مچھلیوں کی افزائش گاہوں کو تباہ کرنا بھی شروع کردیا ہے۔ جن مقامات پر مچھلیاں انڈے دیتی ہیں اور جہاں جھینگے بڑی تعداد میں پروان چڑھتے ہیں، وہاں بھارتی خفیہ ادارے کی طرف سے لہسن کے ۸۶۰۰ سے زائد تھیلے پھینکے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ لہسن کی یہ کھیپ آر جے ٹریڈنگ کے ذریعے منگوائی گئی تھی اور ایک چینی جہاز کے ذریعے اسے بنگلا دیشی سمندری حدود میں لاکر ڈمپ کیا گیا۔ بہانہ یہ تراشا گیا کہ یہ انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے بھارتی خفیہ ادارہ چاہتا تھا کہ سڑے ہوئے لہسن کی بدبو سے مچھلیاں بنگلا دیشی سمندری حدود سے بھاگ کر بھارت کی طرف چلی جائیں۔ کسی خفیہ ادارے کی طرف سے کسی پڑوسی ملک کے قدرتی وسائل کو ضائع کرنے کی یہ ایک انوکھی اور نمایاں مثال ہے۔ کیا اب بھی اس امر میں کوئی شبہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیش کی معیشت کو تباہ کرنے کے درپے ہے؟
۶ فروری ۱۹۹۵ء کو ماہرین کے ایک گروپ نے بنگلا دیش کے ساحلی علاقوں میں کئی میل تک تگ و دو کے بعد محض ۱۷؍مادہ جھینگے پکڑنے میں کامیابی حاصل کی۔ بنگلا دیشی سمندری پانیوں میں سڑے ہوئے لہسن کی بدبو سے جھینگے اور مچھلیاں بھاگ کر بھارتی سمندری حدود میں چلی گئیں۔ یہ گویا بنگلادیشی سمندری حدود میں آبی حیات کو شدید نقصان پہنچانے کی کامیاب کوشش تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلا دیش کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارت کس حد تک جاسکتا ہے۔
بنگلا دیش کو سمندری غذا کی برآمد سے روکنے کے لیے بھارت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں ایک طرف تو تصادم ہوا ہے اور دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں بنگلا دیش کا نام بدنام ہوا ہے۔ اپنے قیام کے وقت بنگلا دیش کے پاس کوئی ایسا ٹرالر نہ تھا جس کی مدد سے مچھلیاں اور جھینگے برآمد کیے جاسکتے۔ پہلی بار جب بنگلا دیشی حکومت نے مچھلیاں اور جھینگے برآمد کیے، تب شپمنٹ پہلے کولکتہ کی بندر گاہ پر رُکی۔ وہاں جھینگوں اور مچھلیوں میں لوہے کے کانٹے چبھوئے گئے تاکہ وہ خراب ہوجائیں اور بنگلا دیش عالمی منڈی میں بدنام ہو۔ بنگلادیش کے جن علاقوں میں چاول کی کاشت ہوا کرتی تھی، وہاں مچھلیوں کی افزائش کرنے والوں اور کاشتکاروں کو آپس میں لڑادیا گیا۔ بھارتی خفیہ ادارہ مختلف شعبوں کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا رہا ہے۔ بنگلادیشی پانیوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہوکر بنگلا دیشی ماہی گیروں کو اغوا کرکے تاوان طلب کرنے کے بھی متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جو غریب ماہی گیر تاوان کی رقم ادا نہیں کرپاتے، انہیں قتل کرکے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا رہا ہے کہ بنگلا دیشی ماہی گیر سہمے رہیں اور اپنی صلاحیت اور سَکَت کے مطابق مچھلی یا جھینگے نہ پکڑسکیں۔ بنگلا دیش کے ساحلی علاقوں میں بھارتی بحری قزاق بھی بڑی تعداد میں سرگرم رہے ہیں۔ مئی ۱۹۹۵ء میں بحری قزاقی کے ۲۴ واقعات رونما ہوئے۔ روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۵ جون ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ بھارتی بحری قزاقوں نے ۱۰؍بنگلا دیشی ماہی گیروں کو اغوا کیا اور ان سے جھڑپ میں ۳۰ ماہی گیر زخمی ہوئے۔ اس عذاب سے نجات کے لیے بنگلا دیشی حکومت نے ایک کوسٹ گارڈ رجمنٹ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ۱۹۹۳ء میں جاتیہ سنگسد (قومی اسمبلی) کی مجلس قائمہ میں وزارت داخلہ نے کوسٹ گارڈ رجمنٹ قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ ۱۹۹۴ء میں کوسٹ گارڈ ایکٹ ۱۹۹۴ء کے تحت قومی پالیسی اپنائی گئی۔ بھرتیوں اور تربیت سے متعلق اخراجات کا خاکہ بھی تیار کرلیا گیا مگر یہ معاملہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔ ۱۴؍فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے بتایا کہ اب تک معلوم نہیں ہوسکا کہ کوسٹ گارڈ رجمنٹ کا کیا بنا۔ یہ منصوبہ کیوں سرد خانے کی نذر ہوگیا؟
باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ کوسٹ گارڈ رجمنٹ کے قیام کا معاملہ بھی بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلا دیشی بیورو کریسی میں اپنے اثر و رسوخ کی بنیاد پر اٹکا دیا ہے۔ بنگلا دیش کی اشرافیہ میں اعلیٰ سطح پر بیٹھے ہوئے لوگ بھارتی مفادات کے لیے قومی مفادات کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔
بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) سرحدی دریاؤں میں بنگلادیشی ماہی گیروں کو ہراساں کرنے سے باز نہیں آتے۔ روزنامہ ’’بنگلا دیش آبزرور‘‘ نے ۱۳؍اگست ۱۹۹۵ء کو رپورٹ دی کہ بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس نے دو بنگلادیشی ماہی گیروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ یہ واقعہ ضلع ستکھیرا میں ایک سرحدی دریا میں ماہی گیری کے دوران رونما ہوا۔ بنگلا دیش رائفلز کے دستوں کی آمد پر بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے علاقہ چھوڑ دیا۔ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس بنگلا دیشی ماہی گیروں کو آئے دن ہراساں کرتی رہتی ہے تاکہ وہ سرحدی دریاؤں میں ماہی گیری سے اجتناب برتیں اور یوں بنگلا دیش کو آبی وسائل سے خوراک کے اپنے حصے کے ذخائر میسر نہ ہوسکیں۔
سمندر میں سڑا ہوا لہسن پھینکنا، ماہی گیروں کو لوٹنا، اغوا کرنا اور قتل کرنا بھارت کے وہ ہتھکنڈے ہیں جن کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ بنگلا دیشی ماہی گیر سمندر اور دریاؤں میں ماہی گیری ترک یا محدود کردیں۔ اسی صورت بنگلا دیش میں ماہی گیری کا شعبہ تباہ ہوسکتا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیشی معیشت کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی غرض سے کسی بھی حد تک جانے کے لیے آمادہ رہتا ہے۔ جو کچھ بھارت کر رہا ہے، اسے سمجھنا کچھ دشوار نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بھارتی ہتھکنڈوں کا بنگلا دیشی ریاستی مشینری کی طرف سے خاطر خواہ جواب نہیں دیا جارہا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply