
فی زمانہ ابلاغ کے جتنے بھی ذرائع پائے جاتے ہیں، اُن میں ریڈیو اور ٹی وی سے زیادہ مؤثر کوئی نہیں۔ ان دونوں ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کی تفریح کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی انہیں تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھانے کی طرف بھی مائل کیا جاسکتا ہے۔ بنگلا دیش میں ریڈیو اور ٹی وی، دونوں ہی سرکاری تحویل میں کام کرتے ہیں۔ روزنامہ ’’سنگم‘‘ نے ۱۹؍جون ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں بتایا تھا کہ بنگلا دیش کے سرکاری ٹی وی میں ۴۳۱ ڈراما نگار اور دوسرے مصنفین، ۱۱۷۱؍ڈراما آرٹسٹ، ۱۸۱؍ڈانس آرٹسٹ، ۳۵ ڈانس ڈائریکٹر، ۴۳۱ سازندے، ۱۲۰۲؍گلوکار اور ۱۹۸؍موسیقار (کمپوزر) کام کرتے ہیں۔ ۱۹۸۸ء میں صرف بنگلا دیش ٹی وی سے وابستہ فنکاروں کے اعزازیوں اور بہبود کی مد میں ایک کروڑ ۴۶ لاکھ ٹاکا خرچ کیے گئے۔
بنگلا دیش میں آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے، وہ پڑھ سکتی ہے نہ لکھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ایسے میں ریڈیو اور ٹی وی تفریح طبع کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے معلومات تک رسائی کا بھی مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ دنیا بھر میں ٹی وی کو انتہائی مؤثر ذریعۂ ابلاغ کا درجہ حاصل ہے۔ آج اربوں افراد معلومات اور بالخصوص تازہ ترین خبروں تک رسائی کے لیے ٹی وی ہی کا رخ کرتے ہیں۔
بنگلا دیش میں بھی ریڈیو اور ٹی وی لوگوں کو معلومات اور تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی اور ثقافتی اقدار کے حوالے سے مستحکم رویہ اپنانے میں غیر معمولی حد تک معاونت فراہم کرسکتے ہیں مگر بدقسمتی سے ایسا اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ بھارت کے خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے ذرائع ابلاغ کے معاملے میں بھی اپنا جال اس طور پھیلایا ہے کہ بنگلا دیشیوں کی اکثریت کو اب تک تفریح سے ہٹ کر کچھ ڈھنگ کا مواد مل ہی نہیں سکا ہے۔ ’’را‘‘ کے پروردہ افسران ریڈیو اور ٹی وی کو بھی بھارتی مفادات کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ بنگلا دیش کی قومی شناخت اور ثقافتی ورثے کو اب تک سرکاری ریڈیو اور ٹیلی وژن پر وہ مقام نہیں مل سکا، جو ملنا چاہیے تھا۔ ’’را‘‘ کی ایما پر کام کرنے والے بنگلا دیشی ریڈیو اور ٹی وی میں بھی اپنی جڑیں اتنی گہری کرچکے ہیں کہ ان کی مرضی کے مطابق کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہی سبب ہے کہ بنگلا دیشی ریڈیو اور ٹی وی قومی شناخت کے استحکام اور قومی ثقافت کے فروغ کے حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بنگلا دیشی ریڈیو اور ٹی وی میں ’’را‘‘ کے لیے کام کرنے والے افسران کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کے بغیر کوئی بھی بڑا یا بنیادی نوعیت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر آج سے ’’را‘‘ کے ایجنٹس کو ریڈیو یا ٹی وی پر بھرتی کرنے کا عمل مکمل طور پر روک دیا جائے تب بھی دس سال تک ’’را‘‘ کے اثرات سے بچنا ریڈیو اور ٹی وی، دونوں کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ خبروں کے شعبے سمیت بنگلا دیشی ٹی وی کا کوئی بھی شعبہ ’’را‘‘ کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ بہت سے ذرائع نے جو اعداد و شمار بتائے ہیں، ان کی روشنی میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بنگلا دیشی ٹی وی کے ۹۰ فیصد افسران ’’را‘‘ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہفت روزہ ’’سینک‘‘ نے ۱۷؍جولائی ۱۹۹۱ء کی اشاعت میں بتایا کہ بنگلا دیشی کے ان تمام افسران کو ’’را‘‘ کی طرف سے باقاعدگی سے ماہانہ ’’الاؤنس‘‘ دیا جاتا ہے۔
بنگلا دیش میں ٹی وی کے لیے جو ضابطۂ اخلاق تیار کیا گیا ہے اس کے ۲۷ نکات ہیں، جن میں قومی شناخت کا فروغ، قوم پرستی کے جذبے کو مستحکم کرنا، سرکاری پالیسیوں کو عام کرنا، روایتی اسلامی اقدار بہتر انداز سے پیش کرکے عوام کو اسلامی شناخت کی طرف لانا، بدعنوانی کا انسداد، ضبطِ تولید، بنگلا دیش کی ثقافت اور روایات کو زیادہ سے زیادہ بڑھاوا دینا، اخلاقی اقدار کو لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنا، انہیں تعلیم کی طرف متوجہ کرنا اور عمومی معاملات میں ذہنوں کی بیداری یقینی بنانا شامل ہے۔ روزنامہ ’’سنگم‘‘ نے ۱۹؍جون ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں لکھا کہ بنگلا دیشی ٹی وی کے لیے جو ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا ہے اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ عریانی کو کسی بھی طور فروغ نہیں دیا جائے گا اور کسی بھی پروگرام میں کوئی بھی ایسا منظر یا مواد شامل نہیں کیا جائے گا جو عوام کے عمومی اخلاق پر بُرے اثرات مرتب کرسکتا ہو۔ بنگلا دیش کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ضابطۂ اخلاق پر عمل اب تک ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔ بنگلا دیشی ٹی وی کی انتظامیہ، منصوبہ بندی سے متعلق عملہ، پروڈکشن اور پریزنٹیشن کا شعبہ، سبھی بھارتی خفیہ ادارے کے واضح اثرات کے تحت کام کرتے ہیں۔ اسلامی اَقدار کو فروغ دینے کے بجائے بھارتی ثقافت کا پرچار اس طور کیا جارہا ہے جیسے بنگلا دیشی ٹی وی اسی مقصد کے لیے معرضِ وجود میں لایا گیا ہو۔ معاملہ اس حد تک بگڑا ہوا ہے کہ بنگلا دیشی ٹی وی کے پروگراموں میں عمومی سطح پر اللہ کی ذات پر ایمان اور اسلامی اقدار کو سب سے بڑا اثاثہ سمجھنے کی بات بھی ڈھنگ سے بیان نہیں کی جاتی۔ یعنی مجموعی طور پر بنگلا دیشی ٹی وی ایسا کچھ بھی نہیں کرتا جس کی بنیاد پر اسے ایک اسلامی ملک کا ٹی وی گردانا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیشی ٹی وی کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے اسلامی ملک کا ٹی وی ہے۔ مکالموں، تبصروں، خبروں، لباس اور دیگر امور کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پہلو اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بنگلا دیشی ٹی وی سے پیش کیے جانے والے بیشتر ڈراموں میں اسلامی اقدار کا بھول کر بھی تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ اسی طور ان ڈراموں میں بنگلا دیشی کی ثقافت کا بھی زیادہ کھل کر ذکر نہیں کیا جاتا۔ سب کچھ سرسری نوعیت کا ہے۔ جب کوئی برا کردار پیش کرنا ہوتا ہے تو اس کی داڑھی ہوتی ہے اور سر پر ٹوپی بھی۔ مولوی، حاجی یا پیر کو برے کردار ہی میں پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی بنگلا دیشی ٹی وی کے ڈراموں میں اسلام کا تمسخر اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ (روزنامہ ’’سنگرام‘‘ ۱۸؍جون ۱۹۸۹ء)
بنگلا دیشی ٹی وی پر گہری نظر رکھنے والے اس بات کا مشاہدہ کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس پر کولکتہ کی ثقافت چھائی ہوئی ہے۔ ڈراموں کے موضوعات، ان کی ٹریٹمنٹ، کردار کا لباس، ان کا اندازِ گفتگو، سبھی کچھ ہندو ثقافت کی ترجمانی کرتا ہے۔ بنگلا دیش کی قومی شناخت کو ایک طرف ہٹادیا گیا ہے۔ قومی وحدت کو پنپنے سے روکنے کے لیے ٹی وی پر رضا کاروں اور البدر کے درمیان تصادم سے متعلق ڈرامے تواتر سے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ قوم میں کسی نہ کسی اعتبار سے تفرقہ پڑا رہے۔ عوام کے ذہنوں کو جنگِ آزادی کے حوالے سے الجھائے رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایسے خصوصی پروگرام پیش کیے جاتے رہے ہیں جنہیں دیکھنے سے ناظرین مزید الجھ جاتے ہیں کہ کس کی بات کو سچ جانیں اور کسے جھوٹا سمجھیں۔ علاوہ ازیں بنگلا دیشی ٹی وی کے بہت سے ڈراموں میں لبرل ثقافت کو بھی فروغ دیا جارہا ہے۔ جوان لڑکے اور لڑکیوں کو والدین سے بغاوت کرتے دکھایا جاتا ہے۔ اسی طور بیویوں کو شوہروں کے خلاف آواز بلند کرتے دکھایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ محض اس لیے پیش کیا جارہا ہے کہ بنگلا دیش کی بنیادی ثقافتی روایات اور خاندانی نظام کا تیا پانچا ہوجائے۔ بہت سے ڈراموں میں محبت کے مناظر اس کثرت سے اور اتنے بھونڈے انداز سے پیش کیے جاتے ہیں کہ معاشرہ ان کے مضر اثرات سے محفوظ رہ ہی نہیں سکتا۔ اسمگلر، بھتہ خور، کرائے کے قاتل اور دیگر جرائم پیشہ ٹی وی کے ڈراموں میں اس طور پیش کیے جاتے ہیں کہ عوام کی نظر میں ان کی وقعت بڑھ جاتی ہے! بنگلا دیش کی قومی شناخت کو دھندلانے اور خرابیاں پیدا کرنے میں جن ٹی وی ڈراموں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے، اُن میں سنگساپتھ، شوکترا، پربو دن پربو راتری، ایوموئے، جوناکی جالے، روپ نگر، تتھاپی، فریے داؤ ارونیہ اور کوتھاؤ کیو نائے نمایاں ہیں۔
بنگلا دیشی ٹی وی کے اعلیٰ افسران نے بھارتی خفیہ ادارے کی حاشیہ برداری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ ڈراموں میں ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور کا اس قدر حوالہ دیا جاتا ہے کہ یقین نہیں آتا یہ بھارت کے ڈرامے ہیں یا بنگلا دیش کے۔ ہر ڈرامے میں کہیں نہ کہیں رابندر ناتھ ٹیگور کا ذکر آجاتا ہے۔ ان کا لکھا ہوا کوئی جملہ یا گیت ڈراموں میں جھلک ہی جاتا ہے۔ اسی طور بہت سے اشتہارات میں بھی ٹیگور کی انٹری لازم سمجھی جاتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے جو کچھ لکھا ہے وہ ہندو تاریخ، ثقافت اور روایات کا آئینہ دار ہے۔ اب اگر کوئی بھی شخص کسی ڈرامے یا کسی اور تخلیق میں ٹیگور کی تخلیقات سے استفادہ کرے گا تو لازمی طور پر ہندو ثقافت کو فروغ دے گا۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ٹیگور کی تخلیقات میں مسلم کردار نہیں ملتا سوائے کابلی والا کے۔ اور یہ کردار بھی اس خطے کا نہیں بلکہ افغانستان کا ہے۔
بنگلا دیشی ٹی وی سے وابستہ افسران، پروڈیوسر، آرگنائزر اور فنکار بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے اس قدر وفادار ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحٰی جیسے مواقع پر پیش کیے جانے والے پروگراموں میں بھی ایسا کچھ شامل نہیں کرتے جس سے ملک و قوم کی اسلامی شناخت نمایاں ہوتی ہو اور عوام کو اندازہ ہو کہ وہ ایک اسلامی ملک کے ٹی وی پروگرام دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عیدین کے موقع پر بھی بنگلا دیشی ٹی وی ایسے پروگرام پیش کرتا ہے جو موقع سے ذرا بھی مناسبت نہیں رکھتے اور انہیں دیکھ کر محض افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی مفادات کی پاسبانی کی جارہی ہے۔ کسی بھی خاص موقع پر پیش کیے جانے والے پروگراموں میں کئی فنکاروں کو پیش کرتے وقت اس نکتے پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ دونوں بنگال میں مقبول ہیں۔ کئی بار یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کوئی فنکار نذرالاسلام اور دوسرے بہت سے اعلیٰ معیار کے بنگلا دیشی شعراء کو نظر انداز کرکے ٹیگور کے بھگتی گیت گاتے ہیں۔ یہ گیت ٹیگور نے خالص ہندوانہ جذبات کے ساتھ لکھے ہیں۔ ان میں بھگتی کا رنگ نمایاں ہے۔ ٹیگور کی ان تخلیقات کو کسی بھی طور کسی عمومی تھیم پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے مواقع پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب تک ٹیگور کی کسی تخلیق کا حوالہ شامل نہ ہو، بنگلا دیشی ٹی وی کا کوئی بھی پروگرام مکمل نہیں ہوسکتا۔
بہت سے پروگراموں میں ہندی گانے شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ تو سراسر المیہ ہے۔ جس قوم نے اردو کے خلاف جنگ لڑی، اس کے ٹی وی پر پیش کیے جانے والے پروگراموں میں ہندی گانے شامل کیے جائیں! ایک زمانہ تھا کہ لوگ اردو کو گوارا کرنے پر راضی نہ تھے۔ اردو سے مکمل قطع تعلق کرلیا گیا۔ تو پھر اب ٹی وی اور ریڈیو کے پروگراموں میں ہندی گانے شامل کرنے کی کیا توجیہ کی جاسکتی ہے؟ بنگلا دیشی ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ڈراموں اور دیگر پروگراموں میں ہندی گانے شامل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ (روزنامہ ’’ملت‘‘ ۱۴؍مئی ۱۹۹۵ء)
’’را‘‘ نے بنگلا دیشی ٹی وی اس حد تک اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کہ اب ڈراموں اور دیگر پروگراموں میں صرف ہندو بنگالی ادیبوں کی تخلیقات ہی کے حوالے ملتے ہیں۔ گویا یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بنگلا زبان میں شاعری اور فکشن کے حوالے سے کچھ ڈھنگ کا کام کیا ہے تو صرف ہندو ادیبوں نے کیا ہے۔ بنگلا دیشی سرزمین سے تعلق رکھنے والے شعراء اور ادیبوں نے ہر دور میں بنگلا زبان کو غیر معمولی حد تک زرخیز بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ مگر ان تمام شعراء اور ادیبوں کو بنگلا دیشی ٹی وی پر پیش کیے جانے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ بنگلا زبان کے ابتدائی دور کے شعراء الاول، سید سلطان اور عبدالحکیم وغیرہ کا ذکر بنگلا دیشی ریڈیو اور ٹی وی پر خال خال ملتا ہے۔ اسی طور جدید شعراء اور ادیبوں میں سید اسماعیل حسین سراجی، کائیکوباد، میر مشرف حسین، سید لطف الرحمن، غلام مصطفی، ڈاکٹر شاہد اللہ، ابوالفضل، فرخ احمد، جسیم الدین، سید مجتبیٰ علی اور شہادت حسین وغیرہ کی تخلیقات کا ذکر بھی بنگلا دیشی ریڈیو اور ٹی وی پر کبھی کبھار اور وہ بھی یوں ملتا ہے جیسے کوئی احسان کیا جارہا ہو۔ شمس الرحمن جیسے بھارت نواز شعراء کو بنگلا دیشی ٹی وی پر صلاحیتوں کے اظہار کا بھرپور موقع دیا جاتا ہے اور دوسری طرف علی احسن اور المحمود جیسے بنگلا دیشی قوم پرست اور اسلام پر یقین رکھنے والے شعراء کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
۱۹۵۲ء میں بنگلا زبان کے حق میں تحریک چلانے والوں کی یاد منانے کے معاملے میں بھی جانب داری سے کام لیا جاتا ہے۔ بھارت مخالف ادیبوں اور شعراء کا تذکرہ گول کردیا جاتا ہے اور صرف ان شعراء کو نوازا جاتا ہے جو بھارت کے حق میں بات کرتے ہیں۔ ابوالقاسم، جسٹس عبدالرحمن چوہدری، قاضی غلام محبوب ایڈووکیٹ، علی احد، ڈاکٹر نورالحق بھویان اور پروفیسر عبدالغفور جیسے اصحاب کی خدمات کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ جنہیں ہوش سنبھالے ابھی کچھ ہی وقت ہوا ہے، وہ دانشور بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کی حاشیہ برداری کرنے والے نوجوانوں کو دانشوروں کے سے انداز سے پیش کیا جارہا ہے جبکہ حقیقی دانش کے حامل افراد کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دانستہ کیا جارہا ہے۔ ثابت یہ کرنا ہے کہ بنگلا دیش کے پاس ذہنی اثاثے نہیں۔ بنگلا دیش کے اہل علم و حکمت کو نظر انداز کرکے دنیا کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس ملک میں اہل علم کی کمی ہے اور یہ ثقافتی اعتبار سے کچھ خاص کرنے کے قابل نہیں۔ یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بنگلا دیشی ڈراموں میں ہندوانہ نام آزادانہ رکھے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ بنگلا دیشی معاشرے کے لیے یکسر اجنبی ہے۔ مسلم اکثریتی ملک ہونے کے ناطے ڈراموں میں کرداروں کے نام بھی مسلم ہی ہونے چاہئیں۔ ڈراموں سے متاثر ہوکر بنگلا دیشی نوجوانوں نے کسی نہ کسی ہندوانہ نام کو عرفیت کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ساون، ساگر، سجان، اونتیکا، سورو، شینتو، راجیو، تورن، سمدر، گگن، نادی، انیتا، بپاشا، شناتا، شانتی، امیت، اجیت وغیرہ وہ نام ہیں، جو اب بنگلا دیشی معاشرے میں عام ہوچلے ہیں۔ بنگلا دیش کے جن مسلم گھرانوں میں یہ نام پائے جاتے ہیں، وہ بھارت کی تقسیم سے قبل اقلیت کے طور پر زندگی گزارتے ہوئے بھی ایسے نام رکھنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ اسی طور ’’را‘‘ کی ہدایات کے تحت بنگلا دیشی ٹی وی نے السلام علیکم، صبح بخیر، شب بخیر وغیرہ کہنے کے بجائے شبھ پربھات، شبھ سندھیا اور شبھ راتری کہنا شروع کردیا۔ مقصود صرف یہ تھا کہ لوگ اسلامی طریقے سے ایک دوسرے کو مبارک باد دینے اور رسمی گفتگو میں اسلامی انداز اختیار کرنے سے دور رہیں۔ بنگلا دیشی معاشرے میں آج بھی لوگ رسمی گفتگو میں سیکولر انداز اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں اور السلام علیکم اور خدا حافظ کہنے کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔
بنگلا دیش اور بھارت کے درمیان بیسیوں معاملات پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ فرخا ڈیم، تلپاتی، چکما بغاوت، بنگا بھومی تحریک، بھارتی شہریوں کا بنگلا دیشی سرزمین سے انخلا، اسمگلنگ، سرحدی جھڑپیں، بنگلا دیشی باشندوں کا بھارتی فورسز کے ہاتھوں اغوا، آبی وسائل کی چوری، سرحد پر خار دار تاروں کی باڑ اور واچ ٹاوروں کی تنصیب وہ متنازع معاملات ہیں جن کا بنگلا دیشی ٹی وی پر شاذ و نادر ہی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ بنگلا دیشی عوام کو ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دی جاتی ہے یعنی بھارت کے ساتھ کسی بھی تنازع پر کوئی بھی ایسی دستاویزی فلم یا رپورٹ پیش نہیں کی جاتی جس کی مدد سے وہ بنگلا دیشی عوام حقیقت کا اندازہ لگاسکیں۔
بنگلا دیش پر ’’را‘‘ کا کنٹرول کس حد تک ہے، اس کا اندازہ ۵ مئی ۱۹۹۵ء کو ہوا۔ بنگلا دیشی ٹی وی نے اعلان کیا تھا کہ اس دن رات ساڑھے آٹھ بجے فرخا ڈیم پر بھارت سے تنازع کے بارے میں دستاویزی فلم ’’بیراج آف سوروز‘‘ پیش کی جائے گی مگر اس کے بجائے مقررہ وقت پر الف لیلیٰ سیریز کی ایک قسط پیش کی گئی! اس سے قبل اپریل میں بھی ایسا ہی اعلان کیا گیا تھا مگر فرخا ڈیم پر کوئی چشم کشا رپورٹ پیش کرنے کے بجائے ایک ادبی پروگرام پیش کردیا گیا۔ بنگلا دیشی ٹی وی پر ایسا کوئی بھی پروگرام پیش نہیں کیا جاتا جس سے بھارت کا امیج بنگلا دیشی عوام کی نظر میں گرے۔ بھارت میں اقلیتوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور کشمیریوں سمیت انہیں جس طور موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، اس کے بارے میں بنگلا دیشی ٹی وی اگر کوئی رپورٹ پیش بھی کرتا ہے تو بہت مختصر اور برائے نام یعنی محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے۔
بنگلا دیشی ریڈیو کی پوزیشن بھی بنگلا دیشی ٹی وی سے زیادہ مختلف نہیں۔ ریڈیو پر بھی ’’را‘‘ کے پروردہ افسران کا کنٹرول ہے۔ بنگلا دیشی ریڈیو سے ایسے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں جن کا بنیادی مقصد ملک کی اسلامی شناخت کے بجائے بنگالی ثقافت کو فروغ دینا ہے۔ ریڈیو پر بھی ہندوانہ اثرات نمایاں ہیں۔ بنگلا دیشی عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر داخل کیا جارہا ہے کہ بنگالی ثقافت ہی ان کی زندگی کی بنیاد ہے، اسلامی شناخت کچھ نہیں۔ ایسے ڈرامے کثرت سے پیش کیے جاتے ہیں جن میں زبان وہی استعمال کی جاتی ہے جو بنگالی ہندو استعمال کرتے ہیں۔ بہت سے مکالمے اور ان میں استعمال کیے جانے والے الفاظ بنگلا دیش کے مسلمانوں کے لیے قطعی یا بہت حد تک اجنبی ہوتے ہیں۔ ۲ نومبر ۱۹۹۴ء کو رات دس بجے بنگلا دیشی ریڈیو سے نشر کیے جانے والے ایک ڈرامے میں پانچ کرداروں کے نام سنگیتا، الو، اننت، آنند اور جبون تھے۔ یہ تمام نام ہندو بنگالیوں میں عام تھے۔ اس ڈرامے میں اللہ کے بجائے ’’بداتا‘‘ استعمال کیا گیا۔
بنگلا دیشی عوام اب تازہ ترین اور قدرے غیر جانب دارانہ خبروں کے لیے غیر ملکی نشریاتی ادارے سنتے ہیں۔ بی بی سی، وائس آف امریکا، وائس آف جرمنی اور دیگر بہت سے نشریاتی اداروں کی پیش کردہ خبروں میں بنگلا دیشی عوام زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
بنگلا دیش میں ریڈیو اور ٹی وی دونوں ہی عوام کے پیسوں سے چلتے ہیں۔ ان دونوں اہم ترین ابلاغی اداروں کی کارکردگی کا گراف بلند کرنا حکومت کا فرض ہے۔ بنگلا دیش کی قومی اور اسلامی شناخت مستحکم کرنا سرکاری ذرائع ابلاغ کا بنیادی فرض ہے۔ بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے کے اثرات ریڈیو اور ٹی وی پر سے ختم کرنا بنگلا دیشی حکومت کا فرض ہے اور یہی عوام کا ایک بنیادی مطالبہ بھی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply