
کسی بھی معاشرے میں رائے عامہ کی تشکیل کے حوالے سے پرنٹ میڈیا اور بالخصوص اخبارات و جرائد کا جو کردار ہوتا ہے، وہ کسی بھی نوع کی تشریح یا وضاحت کا محتاج نہیں۔ دنیا بھر میں آج بھی رائے عامہ کی تشکیل میں سب سے اہم کردار پرنٹ میڈیا ہی کا ہے اور اس معاملے میں اخبارات سب سے اہم شمار ہوتے ہیں۔ بھارت کا خفیہ ادارہ ’’را‘‘ اچھی طرح جانتا ہے کہ پرنٹ میڈیا کو اپنا بنائے بغیر کسی بھی اجنبی معاشرے میں اپنی مرضی کے کام نہیں کیے جاسکتے، اس لیے اُس نے پرنٹ میڈیا کے حوالے سے جامع اور ہمہ جہت حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے تاکہ اپنے مفادات کو پروان چڑھانا اور انہیں بھرپور تحفظ فراہم کرنا آسان ہو۔
بنگلا دیش کے کئی اخبارات بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ’’را‘‘ کے کنٹرول میں ہیں۔ ان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے ’’را‘‘ مختلف ہتھکنڈے اپناتا ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ اہم حربہ مالی ترغیب ہے۔ بھارت کی مرضی کا راگ الاپنے والے بنگلا دیشی اخبارات کو مختلف طریقوں اور ذرائع سے بھرپور مالی مدد ملتی ہے۔ جہاں مالی ترتیب سے بات نہ بنے وہاں دھمکیوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ صفِ اول کے بہت سے بنگلا دیشی اخبارات میں ’’را‘‘ نے باضابطہ اپنے کارندے بھرتی کرائے ہیں تاکہ ان اخبارات کی پالیسی کو بھارت نواز بنایا جاسکے۔ جن اخبارات میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، ان اخبارات کے ذریعے بنگلا دیش میں بھارت نواز خیالات کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں رائے عامہ تشکیل دینا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ اخبارات بنگلا دیشی ثقافت کے نام پر ہندو ثقافت اور سیکولر ازم کو بھی خوب پروان چڑھاتے ہیں۔ ان اخبارات میں ’’را‘‘ کے پے رول پر کام کرنے والے صحافی بھارت کے مفادات کو تقویت بہم پہنچانے والے اداریے، تبصرے، تجزیے، کالم اور مضامین لکھتے ہیں۔ یہ اخبارات بنگلا دیشی قوم پرستی کے جذبات کو کچلنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور بھارت کی طرف سے دی جانے والی پالیسی لائن کے مطابق کام کرتے ہیں تاکہ بھارتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھایا جاسکے۔
بہت سے معیاری اخبارات و جرائد پر براہ راست اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ’’را‘‘ کئی اخبارات و جرائد پس پردہ چلا رہا ہے۔ ان میں بہت سے اخبارات و جرائد سابق صدر جنرل (ر) حسین محمد ارشاد اور بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے دور میں زیادہ تیزی سے ابھرے۔ ’’را‘‘ نے ایسا اس لیے کیا کہ بھارتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے چند بڑے اخبارات و جرائد کی ضرورت تھی۔ ان کی پالیسی پر اثر انداز ہوئے بغیر مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے تھے۔ بھارت نواز اخبارات و جرائد بنگلا دیشی شہریوں ہی کی ملکیت میں کام کرتے ہیں مگر ان کی پشت پر ’’را‘‘ ہوتا ہے جو پالیسی اور طریق کار، دونوں کے حوالے سے واضح ہدایات دیتا ہے۔ ان مطبوعات کی سرکولیشن معمولی اور یہ کسی بھی اعتبار سے کچھ کماکر دینے والے ادارے نہیں مگر اس کے باوجود یہ ادارے کام کر رہے ہیں اور ان کے لیے بظاہر مالی مشکلات نہیں۔ ان تمام مطبوعات کو ’’را‘‘ نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ مالی معاونت باقاعدگی سے کی جاتی ہے۔ یہ تمام اخبارات و جرائد بھارت نواز پالیسی کے تحت کام کرتے ہیں اور وہی کچھ شائع کرتے ہیں جس کی ہدایت انہیں ’’را‘‘ کی طرف سے کی گئی ہو۔ یہ اخبارات و جرائد بنگلا دیشی قوم پرستی کی بات کرنے والوں کے خلاف بھی کام کرتے ہیں۔
’’را‘‘ کے پے رول پر یا اس کے دباؤ کے تحت کام کرنے والے اخبارات و جرائد بھارت کی تقسیم کی انتہائی بے شرمی سے مذمت کرتے ہیں اور بالواسطہ یا بلا واسطہ طور طریقے سے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بھارت اور بنگلا دیش کی کنفیڈریشن ہوجانی چاہیے یعنی انہیں ایک ہو جانا چاہیے۔ یہ اخبارات و جرائد غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، تنازعات کو ہوا دیتے ہیں اور معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان عدم ہم آہنگی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، بالخصوص ۱۹۷۱ء کی جنگِ آزادی کے حوالے سے۔ ان تمام افعال کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ بنگلا دیش میں قومی ہم آہنگی ممکن نہ ہو پائے اور معاشرے کے مختلف طبقات باہم دست و گریباں رہیں۔ یہ اخبارات و جرائد اسلامی دنیا سے بنگلا دیش کے تعلقات کی واضح طور پر مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
یہ تمام اخبارات و جرائد اسلامی نظریات کے خلاف مضامین اور خبریں شائع کرنے کے ساتھ ساتھ سیکولراِزم کو پروان چڑھانے والا مواد بھی شائع کرتے ہیں۔ ان اخبارات و جرائد کا مواد اور اندازِ بیان خاصا غیر معیاری اور بہت حد تک اہانت آمیز ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ’’را‘‘ کی ایما پر بھارتی مفادات کو پروان چڑھانے والے بنگلا دیشی اخبارات اور جرائد میں کام کرنے والے صحافی باصلاحیت ہیں، نہ تجربہ کار۔ ان کی اکثریت غیر جانبدار نہیں ہوتی۔ صحافی برادری میں ان نام نہاد صحافیوں کی ساکھ بھی اچھی نہیں۔ ’’را‘‘ کی ایما پر کام کرنے والے یہ صحافی اپنی برادری میں بھی کچھ خاص وقعت نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’را‘‘ ان کمزور اور بے وقعت اخبارات و جرائد کے ذریعے سے نام نہاد دانشوروں اور کوئی وقعت نہ رکھنے والے صحافیوں کو مستحکم کر رہا ہے، انہیں قبول عام سے ہمکنار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اخبارات و جرائد ’’را‘‘ کے لیے ایجنٹ بھرتی کرنے اور انہیں کور فراہم کرنے والے بزنس ہاؤس کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
’’را‘‘ نے بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے والے بنگلا دیشی اخبارات و جرائد کی مالی اعانت کے لیے مختلف طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔ ایک نمایاں طریقہ تو نقد ادائیگی کا ہے۔ دوسرا اہم طریقہ یہ ہے کہ بڑے کاروباری اداروں سے اشتہارات اور دیگر مدوں میں خطیر رقوم ادا کرنے کا اہتمام۔ بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے والے اداروں کو مالی امداد یا اشتہارات فراہم کرنے والے کاروباری ادارے دراصل ’’را‘‘ کی معاونت سے بھرپور فوائد بٹور رہے ہیں اور اُسی کے پے رول پر کام کر رہے ہیں۔ یہ کاروباری ادارے دراصل بھارتی مصنوعات کے گوداموں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ بہت سے بنگلا دیشی تاجر تو ایسے ہیں جن کا اپنا سرمایہ کہیں بھی لگا ہوا نہیں۔ وہ بھارتی مصنوعات ادھار خریدتے ہیں اور جب مال بیچ چکتے ہیں تب ادائیگی کی جاتی ہے۔ یہ تاجر بہت حد تک مڈل مین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی آمدنی کا ایک حصہ ان بنگلا دیشی اخبارات و جرائد کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، جو بھارتی مفادات پروان چڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک تاجروں کو ’’مشورہ‘‘ دیا جاتا ہے کہ اپنے ہاں ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کو ملازمت فراہم کریں۔ ان ملازمین کو تنخواہیں یا معاوضہ ’’را‘‘ کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ سابق سوویت یونین کے دور میں مرکزی خفیہ ادارہ کے جی بی بھی اسی طور بہت سے دشمن ممالک میں اخبارات و جرائد چلایا کرتا تھا۔
ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمیشن ان تمام چھاپہ خانوں کی سرپرستی کرتا ہے، جہاں بھارت نواز اخبارات و جرائد کی طباعت ہوتی ہے۔ یہ پریس بھارتی ہائی کمیشن سے اسٹیشنری اور دیگر مواد کی طباعت کے ٹھیکے پاتے ہیں۔ معمولی سے کام کا بھی اچھا خاصا معاوضہ دیا جاتا ہے تاکہ بھارت کے حق میں شائع کیے جانے والے مواد کی اشاعت پر اٹھنے والے اخراجات ادا کیے جاسکیں۔
’’را‘‘ نے ریاستی ملکیت میں شائع ہونے والے اخبارات و جرائد میں بھی اپنے ایجنٹ داخل کر رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں دو سرکاری جرائد ہفت روزہ ’’بچترا‘‘ اور ہفت روزہ ’’آنند بچترا‘‘ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ ان دونوں جرائد میں کام کرنے والے چند سینئر صحافیوں کی سرگرمیوں کا ذرا باریکی سے جائزہ لیجیے تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ جرائد کس طور بھارتی مفادات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ یہ دونوں جرائد عمومی طور پر بھارتی ثقافت کو پروان چڑھانے کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں بھارتی شعراء، افسانہ نگار اور فنکاروں ہی کے بارے میں مواد شائع کیا جاتا ہے۔ بھارتی لابی کی ایما پر بھارتی ثقافت کو فروغ دینے اور اسلامی تعلیمات و اقدار کا تمسخر اڑانے میں ہفت روزہ ’’بچترا‘‘ زیادہ بے باک ہے۔ اس ہفت روزہ نے ۷ جنوری ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں ایک رپورٹ ’’بیکر‘‘ کے عنوان سے شائع کی جس میں انتہائی قابلِ اعتراض مواد تھا۔ ایک مضمون ’’فتویٰ باز‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا، جس کا واضح مقصد اسلامی تعلیمات کا تمسخر اڑا کر آبادی کے ایک بڑے حصے کے جذبات مجروح کرنا تھا۔ یہی ہفت روزہ ’’را‘‘ کے طے کردہ طریق کار کے مطابق کام کرنے والی تنظیم ’’نرمول کمیٹی‘‘ کو تحفظ فراہم کرنے اور پروان چڑھانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ نرمول کمیٹی کی صدر جہاں آراء امام کے انتقال پر اس جریدے نے ان کے بارے میں ایک خصوصی شمارہ شائع کیا۔ جہاں آراء امام کے خلاف بنگلا دیشی حکومت نے غداری کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ ایسی خاتون کے بارے میں ایک سرکاری جریدے کا یوں خصوصی شمارہ شائع کرنا، اس جریدے کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ ہفت روزہ بچترا ’’را‘‘ کی چھتری تلے کام کرنے والی ایک اور تنظیم ’’سمی لیتا سنگری تیکا پریشد‘‘ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ یہ ہفت روزہ ’’را‘‘ کے آشیرباد سے کام کرنے والی چند دوسری تنظیموں کو تحفظ فراہم کرنے اور انہیں مقبولیت سے ہمکنار کرنے کے لیے بھی کام کرتا ہے۔
ہفت روزہ ’’آنند بچترا‘‘ میں بھارتی فلمی اداکارائوں کی نیم عریاں تصاویر شائع ہوتی رہی ہیں۔ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے تاکہ بھارتی فلموں کی مقبولیت میں کمی واقع نہ ہو۔ اور ساتھ ہی ساتھ بنگلا دیش کی نئی نسل کے اخلاق خراب کرنے کا بھی اہتمام ہو جاتا ہے! ڈھاکا سے شائع ہونے والے روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۲۰ جون ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں لکھا کہ ہفت روزہ ’’آنند بچترا‘‘ عریانیت کو فروغ دے رہا ہے۔ اس جریدے کا کوئی بھی شمارہ ایسا نہیں ہوتا جس میں بھارت کی فلمی اداکارائوں کی نیم عریاں تصاویر نہ ہوں۔ ’’آنند بچترا‘‘ ہر سال خوبصورت تصویری مقابلے کا انعقاد بھی کرتا ہے۔ اس مقابلے میں نوجوان لڑکیوں کو حصہ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس نوعیت کے مقابلے سراسر غیر اسلامی ہیں۔ اگلا مرحلہ یقینی طور پر ’’مس بنگلا دیش‘‘ منتخب کرنے کا ہوگا۔ اور یوں بنگلا دیشی لڑکیوں کے لیے ’’عالمی مقابلہ حسن‘‘ میں حصہ لینے کی راہ ہموار کی جائے گی۔ حال ہی میں ایک ہوٹل میں نام نہاد مس بنگلا دیش بیوٹی کونٹیسٹ منعقد ہوا تھا۔ اس مقابلے کے ججوں میں سے چند کے ’’را‘‘ سے گہرے تعلقات ہیں۔
’’بچترا‘‘ اور ’’آنند بچترا‘‘ میں جو لوگ انتظامی امور کے حوالے سے واضح اختیارات رکھتے ہیں، انہوں نے ان دونوں جرائد کو بھارت نواز سیاسی و ثقافتی تنظیموں کے کلب میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ ان دونوں جرائد میں کام کرنے والوں میں ایک شخص سوادھین ’’بنگا بھومی تحریک‘‘ کے ترجمان اخبار ’’سوادھین بھومی‘‘ (کلکتہ) کا بنگلا دیش میں نمائندہ ہے۔ ایک اسسٹنٹ سب ایڈیٹر ’’را‘‘ کی سرپرستی میں کام کرنے والی تنظیموں ہندو بدھا کرسچین اوئکیا پریشد اور سوسائٹی فار کرشنا کونسل کا رکن ہے۔ اسی طور ایک اور اسسٹنٹ ایڈیٹر ’’را‘‘ کی چھتری تلے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیم شانتی باہنی سے روابط کا حامل ہے۔ نرمول کمیٹی کے جن چوبیس ارکان کے خلاف حکومت نے غداری کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے، ان میں سے ایک ہفت روزہ ’’بچترا‘‘ میں اہم منصب پر کام کر رہا ہے۔
سب سے حیرت انگیز اور انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ واضح الزامات کے باوجود یہ تمام افراد اب تک ہفت روزہ ’’بچترا‘‘ اور ہفت روزہ ’’آنند بچترا‘‘ میں کام کر رہے ہیں۔ ان کی پوزیشن ذرا بھی متاثر نہیں ہوئی۔ ان کے کام کرنے کا ڈھنگ ایسا ہے جیسے انہیں بظاہر کسی کا خوف لاحق نہ ہو۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ جس شخص پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ ۲۲ برس سے ملازمت کر رہا ہے بلکہ دونوں جرائد کا ایڈیٹر بھی بن بیٹھا ہے۔ اس کی پوزیشن ایسی مضبوط دکھائی دیتی ہے کہ کوئی اس کی کرسی ہلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جب شکایات کا انبار لگ گیا تو حکومت نے اسے ہٹاکر منصور احمد کو ہفت روزہ ’’بچترا‘‘ کا ایڈیٹر اور احمد زمان چوہدری کو ہفت روزہ ’’آنند بچترا‘‘ کا ایڈیٹر مقرر کیا، مگر پھر یہ ہوا کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے اس قدر دباؤ پڑا کہ صرف دو دن میں اسے بحال کردیا گیا۔
’’را‘‘ نے بنگلا دیش میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کا منظم اور جامع طریقہ اپنا رکھا ہے۔ سرکاری اور نجی، ہر دو طرح کے اخبارات و جرائد میں ’’را‘‘ نے اپنے کارندے داخل کر رکھے ہیں، جو اس کی طرف سے ملنے والے ’’رہنما اصولوں‘‘ کی روشنی میں کام کرتے ہوئے بھارت کے مفادات کو تقویت بہم پہنچاتے ہیں۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ جن صحافیوں کو قوم کی آنکھیں، کان اور ضمیر ہونا چاہیے، وہ معمولی سے دنیوی فوائد کے لیے ’’را‘‘ کے آغوش میں جا گِرتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ سبھی کچھ داؤ پر لگ چکا ہے اور اب کہیں سے کسی اچھی خبر کی امید نہیں۔ یہ بات خاصی حوصلہ افزا ہے کہ بہت سے صحافیوں کو اب ’’را‘‘ کے منصوبوں اور ارادوں کا اندازہ ہوچکا ہے اور وہ اس کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کرکے ناکام بنانے میں خاطر خواہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ جو لوگ ’’را‘‘ کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے لیے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ ان کے پاس مالی وسائل زیادہ نہیں اور ان کی منصوبہ بندی بھی مستحکم نہیں۔ ایسے میں ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے عزائم بلند ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی چاہتے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply