
کسی بھی قوم کی ثقافت، فُنون اور تعلیم کے فروغ میں اِشاعت کی صنعت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جو ملک اِشاعتی صنعت کے حوالے سے پسماندہ ہوگا، وہ علمی سرگرمیوں میں بھی لازمی طور پر پسماندہ ہوگا۔ بنگلا دیش کی ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی اشاعتی صنعت پر بھارت کے زیرِ اثر ناشرین کا نمایاں کنٹرول ہے۔ بھارت سے ہر طرح کے جرائد اور کتابیں بڑی تعداد میں درآمد کی جارہی ہیں۔ کے جی کی سطح سے اعلیٰ درجوں تک بہت سے معیاری اسکولوں میں بھارت کی شائع کردہ درسی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ بھارت کی درسی اور غیردرسی کتب بنگلا دیشی معاشرے کو خرابی سے دوچار کر رہی ہیں کیونکہ ان کا واضح منفی اثر بنگلا دیش کے ثقافتی ورثے اور اخلاقی اَقدار پر دیکھا جاسکتا ہے۔
۱۹۷۱ء میں قیام کے بعد سے بنگلا دیش میں کتب و جرائد کی اِشاعت کا شعبہ خاطر خواہ رفتار سے ترقی نہیں کرسکا اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت سے غیر معمولی مسابقت کا سامنا ہے۔ اس بات کو اب ایک طے شدہ امر کا سا درجہ دے دیا گیا ہے کہ بنگالیوں کا ثقافتی دارالحکومت کلکتہ ہے۔ اس بات کا بھرپور اندازہ کسی کو نہیں کہ بنگالیوں کے نام نہاد دارالحکومت سے آنے والی کتب اور جرائد ہماری قومی شناخت اور معاشرے کی عمومی روش کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ کلکتہ سے آنے والی کتب اور جرائد دراصل سیکولراِزم اور لبرل اِزم کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بنگالیوں کو قوم پرستی میں الجھاکر دراصل مسلمانوں کی تاریخ اور علمی ورثے کو مسخ کرنا بھی اِن کتب اور جرائد کا ایک بنیادی مقصد ہے۔
بھارتی کتب، جرائد اور اخبارات اب پورے بنگلا دیش میں بک شاپ، نیوز پیپر اسٹینڈ اور عوامی کتب خانوں میں دستیاب ہیں۔ منافع کے بھوکے تاجروں کے لیے تو یہ معاملہ پانچوں انگلیاں گھی اور سَر کڑھائی میں جیسا ہے۔ ان کا کاروبار تو نام نہاد دانشوروں اور منافع کے بھوکے تاجروں کی مدد سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ ان مذموم سرگرمیوں کو روکنے کے حوالے سے محب وطن حلقوں نے اب تک کوئی باضابطہ اور سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ یہ بات کس قدر حیرت انگیز ہے کہ جس قوم نے مغربی پاکستان کی طرف سے ثقافت تھوپے جانے کا الزام عائد کیا تھا، وہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی ثقافتی یلغار پر یکسر خاموش ہوکر بیٹھ گئی ہے۔ بھارت سے کتابیں اور جرائد بڑے پیمانے پر بھیجے جارہے ہیں اور یہ سب کچھ بنگلا دیشی نوجوانوں کے ذہنوں میں انڈیلا جارہا ہے۔ ’’را‘‘ کا منتخب اداروں میں اثر و رسوخ اس قدر ہے کہ علمی اور ثقافتی سطح پر یلغار کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ بھارتی خفیہ ادارے کی ایما پر کام کرنے والے دانشور بھارت نواز باتیں کرتے رہتے ہیں اور کوئی نہیں جو اِن سے پوچھے کہ وہ بھارت مفادات کو تقویت بہم پہنچانے کے لیے کیوں کوشاں ہیں۔ حد یہ ہے کہ بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کو بھی کچھ اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں صرف بھارت کی توصیف ہی کا پہلو نکلتا ہے۔ یہ نام نہاد دانشور اور مصنفین صرف ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے بھارتی ایجنڈے کو فروغ دینے کی غرض سے میدان میں اترے ہیں۔
بھارت کے دانشوروں کی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی غرض سے ’’را‘‘ نے بنگلا دیش میں ہم خیال پبلشروں، کتب فروشوں اور تقسیم کنندگان کا گروپ تشکیل دیا ہے۔ مٹھی بھر بکاؤ بنگلا دیشی دانشوروں اور تاجروں کی مدد سے ’’را‘‘ بنگلا دیش میں کتابوں کی مارکیٹ پر بھارتی مال کا غلبہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری شعبے میں کام کرنے والی بہت سی بااثر شخصیات بھی اس گروپ کی مدد کر رہی ہیں۔ یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ دوسری بہت سی بھارتی مصنوعات کی طرح بھارتی کتابیں بھی بنگلا دیش کے تاجروں کو اُدھار پر فراہم کی جاتی ہیں۔ یعنی کتابیں سجا کے رکھیے، جیسے جیسے فروخت ہوتی جائیں، اُن کی قیمت چُکاتے رہیے۔ اس معاملے میں چونکہ ’’را‘‘ بھی ملوث ہے، اِس لیے فریقین میں سے کوئی بھی کسی کو دھوکا دے سکتا ہے، نہ اُس کا مال ڈوب سکتا ہے۔ اس معاملے میں بینک گارنٹی کی بھی کچھ خاص ضرورت نہیں پڑتی۔ بھارتی کتابوں کا کوئی بھی درآمد کنندہ جتنی بھی کتابیں چاہے، بینک کو ایک دھیلہ ادا کیے بغیر بھی حاصل کرسکتا ہے۔
بھارت سے کوئی بھی پبلشر محض بھروسے کی بنیاد پر کتابیں بھیج دیتا ہے۔ اگر درآمد کنندہ مقررہ مدت کے بعد ادائیگی نہ کر پائے یا ادائیگی کرنے سے انکار کردے تو بینک یا بھارتی برآمد کنندہ میں سے کوئی بھی کسی طرح کی قانونی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بہت عجیب لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی سرکاری ادارہ پسِ پردہ کام کر رہا ہے تاکہ معاملات درست رہیں اور تمام ادائیگیاں وقت پر ہوتی رہیں۔ کوئی بھی تاجر اپنا سرمایہ داؤ پر کیوں لگانا پسند کرے گا؟ بنگلا دیش میں کتابیں بیچنے والوں کے لیے اس سے بڑی سہولت کیا ہوسکتی ہے کہ انہیں بڑے پیمانے پر مال ادھار ملتا رہے۔ یہ مستقل نوعیت کی سہولت ہے۔
بھارت کے بیشتر پبلشر چاہتے ہیں کہ ان کی کتابیں بنگلا دیش میں بڑے پیمانے پر فروخت ہوتی رہیں۔ اس کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ کمیشن دینے کو تیار رہتے ہیں۔ بنگلا دیشی پبلشر چونکہ کسی خفیہ ایجنڈے کے تحت کام نہیں کرتے، اس لیے وہ بالعموم ۲۵ فیصد سے زیادہ کمیشن نہیں دے پاتے۔ دوسری طرف بھارتی پبلشر کو ’’را‘‘ کی بھرپور حمایت اور سرپرستی حاصل ہے، اس لیے وہ اپنے درآمد کنندہ کو ۵۰ فیصد تک عمومی کمیشن دیتے ہیں اور خاص صورت میں کمیشن ۸۵ فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔
یہ پورا معاملہ ’’کیا خوب سودا نقد ہے، اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے‘‘ کے اصول کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ بنگلا دیشی تاجر سرمایہ لگائے بغیر جی بھر کے منافع کما رہے ہیں اور دوسری طرف بھارتی پبلشر اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہ بات کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ بھارتی پبلشر ’’را‘‘ سے مدد پائے بغیر بنگلا دیش میں کتابیں بیچنے والوں کو اتنا زیادہ کمیشن دے ہی نہیں سکتے۔
بنگلا دیش نے اب تک کتابوں کی درآمد پر خاصی لبرل پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ’’را‘‘ کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔ اس نے بھارتی پبلشر کو بنگلا دیشی مارکیٹ کنٹرول کرنے کی تحریک دی ہے۔ کوئی بھی کتب فروش امپورٹ رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرکے بھارت سے کوئی سی بھی کتاب درآمد کرسکتا ہے۔ ساتھ چیف کنٹرولر آف امپورٹس اینڈ ایکسپورٹس سے ایک پاس بک بھی جاری کی جاتی ہے۔ بہت سے بھارتی پبلشر اپنی کتابیں پرنٹنگ کے بعد کھلی شکل میں بھیجتے ہیں۔ ان کی بائنڈنگ بنگلا دیش میں ہوتی ہے۔ اس صورت میں بنگلا دیشی تاجروں کو زیادہ منافع کمانے کا موقع ملتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بغیر بائنڈنگ کی کتابیں درآمد کرنے کا رجحان دن بہ دن توانا ہوتا جارہا ہے۔
’’را‘‘ نے پُرکشش مراعات دینے کا سلسلہ اپنے پبلشروں تک محدود نہیں رکھا بلکہ بنگلا دیش میں بھی جو پبلشر اُن کے اشاروں پر چلتے ہیں، انہیں مختلف مَدَوں میں غیر معمولی فوائد ملتے ہیں۔
بنگلا دیشی مصنفین کی جو کتابیں بھارت میں فروخت کے لیے دی جاتی ہیں، اُن پر ’’صرف بھارت میں فروخت کے لیے‘‘ لکھا ہوتا ہے مگر یہ کتابیں بھی مکمل یعنی ’’فنشڈ پروڈکٹ‘‘ کی حالت میں بنگلا دیش پہنچا دی جاتی ہیں۔ بنگلا دیشی مصنفین کی جو کتابیں صرف بھارت میں فروخت کے لیے ہوتی ہیں، اُن کی قیمت کم ہوتی ہے۔ بنگلا دیش میں یہی کتاب مہنگی ہوتی ہے۔ بھارتی ایڈیشن جب بنگلا دیشی مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے تو لوکل ایڈیشن ناکامی کا منہ دیکھتا ہے یعنی مقامی پبلشر خسارے کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بنگلا دیشی مصنفین کی بہت سی کتابوں کے بھارتی ایڈیشن بھی بنگلا دیشی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ بنگلا دیشی کتب فروش اب بنگلا دیشی ایڈیشن کے بجائے بھارتی ایڈیشن فروخت کرتے ہیں کیونکہ اس میں انہیں زیادہ منافع ملتا ہے اور پھر یہ بات بھی ہے کہ بنگلا دیشی پبلشر اپنا پورا مال ادھار نہیں دیتے۔ کوئی بھی شخص تھورا سا غور کرنے پر اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس صورتحال سے بنگلا دیش میں پبلی کیشن انڈسٹری کو کس قدر نقصان پہنچ چکا ہے۔
اس وقت بنگلا دیش میں ایسے کئی ادارے ہیں جو صرف بھارتی مصنفین کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۱۹۸۹ء میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بنگلا دیش میں کئی ادارے اب اپنے یعنی بنگلا دیشی مصنفین کو گھاس نہیں ڈالتے اور صرف بھارتی مصنفین کی کتابیں شائع کرنے ہی میں دلچسپی لیتے ہیں۔ کئی مشہور بھارتی مصنفین کے کتابوں کے بنگلا دیشی ایڈیشن خاصے اہتمام سے شائع کیے جاتے ہیں۔ مکت دھرا بنگلا میں پبلشنگ کا ایک بڑا ادارہ ہے۔ یہ ادارہ بھارت سے تعلق رکھنے والے آنند شنکر رائے جیسے معروف مصنف سے شانتی موئے گھوش جیسے غیر معروف مصنف تک سبھی کی کتابیں بڑے اہتمام سے شائع کرتا ہے۔ اس ادارے نے بھارت کے ڈاکٹر نہر کمار سرکار کی دو کتابیں ’’چلڈرن پالیٹکس‘‘ اور ’’چلڈرن اکنامکس‘‘ شائع کی ہیں۔ دونوں کتابیں کمیونزم کا پرچار کرتی ہیں۔ اسی ادارے نے مارکسسٹ مصنفین گوپال ہلڈر اور نارائن چوہدری کی کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ اس ادارے کے تحت جن دوسرے بھارتی مصنفین کی کتابیں بھی شائع کی جاتی ہیں، ان میں شُواس مکھرجی، گوجیندر کمار مترا، پروطت چندر گپتا اور شت پرساد سین گپتا بھی شامل ہیں۔ ان تمام مصنفین کی کتابیں شائع کرنے والوں کی مغربی بنگال میں کمی نہیں۔ مگر اس کے باوجود ان تمام بھارتی مصنفین کی تخلیقات بنگلا دیش سے شائع کی جارہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بنگلا دیشی مصنفین اپنی دھرتی پر اجنبی ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان کی کتابیں پورے اہتمام کے ساتھ اور مناسب قیمت پر شائع کرنے والے اشاعتی ادارے بنگلا دیش میں خال خال ہیں۔ بنگلا دیشی مصنفین کمزور مالی حالت کے باعث اپنی تخلیقات خود شائع کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ بنگلا دیش میں باصلاحیت لکھنے والوں کی کمی نہیں مگر سچ یہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے والوں کی شدید کمی ہے۔
باضابطہ تجارت کے ساتھ ساتھ بنگلا دیش میں بھارتی کتب کی اسمگلنگ بھی جاری ہے۔ بھارت سے ہزاروں کتابیں بنگلا دیش اسمگل کی جاتی ہیں۔ ان میں وہ کتابیں نمایاں ہیں جو بنگلا دیشی حکومت نے تجویز کی ہوں۔ کتابوں کی اسمگلنگ میں ’’را‘‘ غیر معمولی حد تک فعال ہے۔ ساتھ ہی بنگلا دیش کی نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ اخلاق باختہ بنانے کے لیے بھارت سے فحش مواد اور عریاں تصاویر والے جرائد کی اسمگلنگ بھی جاری ہے۔ کلکتہ سے شائع ہونے والے ہفت روزہ جریدے ’’دیش‘‘ پر بنگلا دیش میں پابندی عائد ہے۔ مگر ’’را‘‘ کو دی جانے والی آزادی کی بدولت یہ جریدہ بنگلا دیش بھر میں آسانی سے دستیاب ہے۔ دکانداروں کے علاوہ ہاکر بھی یہ جریدہ دھڑلّے سے فروخت کرتے ہیں۔ کوئی روکنے والا ہے نہ ٹوکنے والا۔
بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے نے بنگلا دیش میں بہت سے اشاعتی اداروں کو مالی معاونت اور سرپرستی فراہم کی ہے جس کے نتیجے میں بنگلا دیشی مصنفین کی کتابیں شائع کرنے والے ادارے کمزور پڑتے گئے ہیں۔ ’’را‘‘ سے مدد پانے والے ادارے صرف بھارتی مصنفین کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ’’را‘‘ نے ایسے بک سینٹر بھی قائم کرنے میں مدد کی ہے جہاں صرف بھارتی مصنفین کی کتابیں دستیاب ہیں۔ بیشتر معاملات میں یہ اشاعتی ادارے صرف ’’را‘‘ کے حمایت یافتہ مصنفین کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ تسلیمہ نسرین اور اسی قبیل کے دیگر مصنفین کی کتابوں کی طباعت و اشاعت ’’را‘‘ کے زہر اہتمام ہوتی ہے۔
آنند شنکر رائے بھارت کے فرزندِ زمین ہیں۔ گوپال ہلڈر نے ۱۹۴۷ء میں مشرقی بنگال کو چھوڑ کر بھارتی سرزمین پر بسنا منظور کیا۔ شایتین سین ۱۹۷۱ء میں، شانتی موئے گھوش ۱۹۷۴ء میں بنگلا دیش چھوڑ کر بھارت گئے۔ مگر ان کی کتابیں اب تک بنگلا دیشی سرزمین پر شائع کی جارہی ہیں۔ مکت دھرا نے گوپال ہلڈر کی ’’دی ہسٹری آف بنگالی لٹریچر‘‘ دو جلدوں میں شائع کی۔ اسی ادارے نے شُواس مکھرجی کی ہسٹری اور بنگالی اور شتّا پرساد سین گپتا کی ’’بایو گرافی آف شیکسپیئر‘‘ شائع کی۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی باشندے کے قلم سے تیار ہونے والی بنگالی ادب کی تاریخ کیوں شائع کی جارہی ہے۔ کیا بنگالی ادب کی تاریخ مرتب کرنے کا کام بنگلا دیش کے کسی باصلاحیت ادیب کو سونپا نہیں جاسکتا تھا؟ کیا بنگلا دیش میں ایسے باصلاحیت افراد کی کمی ہے جو بنگالی زبان، نسل اور ثقافت کی تاریخ قلم بند کرسکیں؟ کیا بنگلا دیش کی سرزمین پر کوئی ایک بھی ایسا اہل قلم نہیں جو ولیم شیکسپیئر کی سوانح لکھ سکے۔
خسروز کتابستان کا شمار بنگلا دیش کے چند بڑے اور مسلم نواز کردار ادا کرنے والے پبلشروں میں ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے اب یہ پبلشنگ ہاؤس بھی اپنوں کو بھول کر دوسروں کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ اس ادارے کے شائع ہونے والی اسلامی مطبوعات کی تعداد پریشان کن حد تک کم ہوچکی ہے۔ اب یہ ادارہ بھی بھارتی کتابوں کی تقسیم کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ خسروز کتابستان نے ستیہ جیت رائے کی کتابوں کو نمایاں طور پر تقسیم کیا ہے۔ کئی بھارتی مصنفین کی کتابوں کے مجموعے بھی اس ادارے نے تقسیم کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔
خسروز کتابستان نے بوئیموچ پبلشر کے تحت شائع ہونے والے شُکانتا کے مجموعوں، اور بیوٹی بک ہاؤس کے تحت شائع ہونے والی اپیندر کشور رائے چوہدری کی گوپی گاین باگھا باین کی تقسیم کی ذمہ داری بھی سنبھال رکھی ہے۔ کاکولی پروکاشنی نے اب تک چار درجن کتابیں شائع کی ہیں، جن میں سے بیشتر کے مصنف بھارتی ہیں۔ اس نئے پبلی کیشن ہاؤس نے آشوتوش مکھرجی کی مختصر کہانیوں کے بارہ مجموعے شائع کیے ہیں۔ بنگلا دیش میں کہانیاں اور ناول لکھنے والوں کی کمی نہیں مگر ایسا لگتا ہے کاکولی پروکاشنی نے بھارتی مصنفین کی کتابیں شائع کرنے کا فیصلہ کسی اور وجہ سے کیا۔
مغربی بنگال میں کمیونزم کا غلغلہ ہے، اس لیے وہاں مارکس اور لینن کے نظریات کی تبلیغ کرنے والے مصنفین کی کمی نہیں۔ ان مصنفین میں نمائے بھٹاچاریہ اور پریمیندر مترا بھی شامل ہیں۔ نوبو پرکاش بھون نے چند ایسی بھارتی کتابیں شائع کی ہیں، جو کمیونزم کی طرف آنے والے نوجوانوں کی ذہنی تیاری کے لیے ہیں۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۱۴؍جون ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں لکھا کہ راہل سنسکریتیان اور نہار سرکار کی لکھی ہوئی خالص مادّہ پرستی پر مبنی کتابیں بھی بنگلا دیش میں دھڑلّے سے شائع کی جارہی ہیں۔ بھارتی مصنفین کی کتابیں سوچے سمجھے بغیر شائع کرنے والے اداروں کی نشاندہی کو برسوں بیت گئے مگر اب تک کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی۔
بھارتی خفیہ ادارے نے اپنی سرگرمیاں طباعت و اشاعت تک محدود نہیں رکھیں بلکہ وہ تعلیمی اداروں میں بھی اپنی مرضی کے لوگ بٹھانے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ بنگلا دیش کے بہت سے تعلیمی اداروں میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ تعلیم دے رہے ہیں۔ معلم کی حیثیت سے کام کرنے والے یہ ایجنٹ بنگلا دیش کی نئی نسل کے ذہن میں ہندو ثقافتی اثرات ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت سے مرعوب ہوکر جینے کی ذہنیت بنگلا دیش کی نئی نسل کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے، اس کا اندازہ لگانا کسی کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ شہری علاقوں میں یہ صورتحال زیادہ پریشان کن ہے۔ ’’را‘‘ کے طے کردہ ایجنڈے کے مطابق کام کرنے والے معلمین اسکول کی انتظامیہ پر زور دیتے ہیں کہ مختلف مضامین کے لیے بھارتی مصنفین کی تیار کردہ کتابیں نصاب کا حصہ بنائی جائیں۔ ان کتابوں میں کمیونزم اور ہندو ثقافت دونوں کا بھرپور پرچار کیا جاتا ہے۔ بنگلا دیش کی نئی نسل کے لیے یہ کتابیں انتہائی نقصان دہ ہیں۔ شہری علاقوں کے بہت سے اسکولوں میں بھارتی مصنفین کی کتابوں کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس کے ساتھ ساتھ مینیجنگ کمیٹی کے ارکان کو بھی مالی مراعات کا لالچ تک دیا جاتا ہے۔
انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں بھارتی مصنفین کی کتابوں کو نصاب یا درسی مواد کا حصہ بنانے پر بھارتی خفیہ ادارہ زیادہ توجہ دیتا ہے۔ یہ کتابیں ہندو کرداروں کی حامل ہوتی ہیں اور بھارتی مقاصد کو آگے بڑھاتے ہوئے ہندو ثقافت اور تاریخ کا پرچار کرتی ہیں۔ ان کتابوں سے پڑھنے والے بنگلا دیشی بچوں کے ذہنوں میں بہت چھوٹی عمر سے بھارت سے مرعوب ہوجانے کا مرض پایا جاتا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارہ انگریزی میڈیم اسکولوں پر زیادہ توجہ اس لیے مرکوز رکھتا ہے کہ ان اسکولوں میں معاشرے کے بااثر طبقے کے بچے پڑھتے ہیں۔ بھارتی خفیہ ادارہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اگر معاشرے کے مضبوط طبقے کی نئی نسل کو بھارت نواز بنادیا جائے تو بہت سے مقاصد خود بخود حاصل ہوجائیں گے۔
’’را‘‘ نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نجی اسکول اور کالج بھی کھولے ہیں۔ ان اداروں میں بنگلا دیش ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کے ساتھ ساتھ بھارتی مصنفین کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔
تجربہ کار اور باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین میں پائے جانے والے ’’را‘‘ کے ایجنٹ بھارتی کتابوں کے پرچار میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پالیسی ساز ہی بنگلا دیش کے طول و عرض میں بھارتی کتابوں کو غیر معمولی مقبولیت اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ایک طرف تو ملکی پبلی کیشن انڈسٹری ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور دوسری طرف بھارتی کتابوں کی مارکیٹنگ پر کسی بھی طرح کی پابندی عائد نہیں۔ بنگلا دیشی پبلشروں کے لیے حکومت یا معاشرے کی طرف سے کوئی تحریک و ترغیب نہیں۔ وہ کتابیں شائع کرکے اپنا سرمایہ داؤ پر لگاتے ہیں۔ انہیں حکومت کی طرف سے کوئی باضابطہ مدد نہیں ملتی۔ معاشرہ بھی اپنے مصنفین کی معیاری کتابیں خریدنے میں زیادہ دلچسپی لیتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے نتیجے میں بنگلا دیشی مصنفین کی کتابیں زیادہ مقبولیت سے ہمکنار نہیں ہو پاتیں۔ کتابوں پر کسٹم ڈیوٹی ۸ فیصد ہے جبکہ سادہ سفید کاغذ پر ڈیوٹی ۴۵ فیصد ہے۔ ساتھ ہی وی اے ٹی کے نام سے ۱۵؍فیصد اضافی ڈیوٹی بھی وصول کی جاتی ہے۔ اس پالیسی نے بنگلا دیشی پبلشروں کو اس قابل رہنے ہی نہیں دیا کہ وہ کتابیں شائع کرکے کچھ منافع کماسکیں۔ جتنی قیمت میں ایک عام بنگالی کتاب ملتی ہے، اتنے پیسوں میں کم و بیش تین بھارتی کتابیں خریدی جاسکتی ہیں۔ ۱۰۰؍صفحات کا ایک بنگلا دیشی ناول ۵۰ ٹاکا میں فروخت ہو پاتا ہے جبکہ ۲۱۱ صفحات کا بھارتی ناول ۴۰ ٹاکا میں دستیاب ہے۔ ثناء اللہ نوری کا ناول ’’نجوم دیپر اپاکتھا‘‘ ۸۰ صفحات کا ہے اور اس کی قیمت ۳۰ ٹاکا ہے۔ رضیہ خان کا ناول ’’دروپدی‘‘ ۱۵۳؍صفحات کا ہے اور قیمت ۱۰۰؍ٹاکا ہے۔ اس کے مقابلے میں شیخ عزیز الحق کی کتاب ’’اورنگزیبز سیکولراِزم اینڈ اسلام‘‘ ۲۶۱ صفحات کی ہے اور قیمت صرف ۵۰ ٹاکا ہے۔ بنگلا دیشی مصنف شیخ نورالاسلام کی ’’نذرل جیبونیر اسورتا کہینی‘‘ ۹۶ صفحات کی ہے اور قیمت ۵۰ ٹاکا ہے۔
قیمت کے اس واضح فرق سے بنگلا دیشی کتابوں کے لیے مقابلہ ممکن نہیں رہا۔ وہ میدان سے نکلتی جارہی ہیں اور ان کے نکلنے سے جو جگہ بچتی ہے تو بھارتی کتابیں لیتی جاتی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ بنگلا دیشی حکومت اپنے ملکی مصنفین کی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے خصوصی رعایتوں کا اہتمام کرے۔ بھارتی کتابوں پر مکمل یا بہت حد تک پابندی عائد کرنا لازم ہے۔ سادہ کاغذ پر ڈیوٹی ختم کی جائے تاکہ پبلشروں کے لیے معقول قیمت پر کتاب فراہم کرنا ممکن ہوسکے۔ کتاب کی طباعت اور اشاعت پر لاگت میں کمی تک سستی کتاب مارکیٹ میں پیش کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ ہوسکے گا۔
بک پبلشر اینڈ سیلر ایسوسی ایشن آف بنگلا دیش نے ’’را‘‘ پر بنگلا دیش میں کاغذ کا بحران پیدا کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ دوسرے بہت سے معاملات کی طرح پبلشنگ کی صنعت میں بھی بنگلا دیش مکمل طور پر بھارت کی پبلشنگ کی صنعت کا دست نگر ہوکر رہے۔ لگتا تو یہ ہے کہ بھارتی قیادت بنگلا دیش کے اخبارات و جرائد بھی بند کرانا چاہتی ہے تاکہ بنگلا دیش کے طول و عرض میں اخبارات و جرائد بھی بھارت سے آیا کریں۔ بنگلا دیش میں کاغذ مہنگا فروخت ہو رہا ہے۔ اس کی پشت پر بھی ’’را‘‘ ہی کی حکمتِ عملی کام کر رہی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بنگلا دیش میں طباعت اور اشاعت کا کام مکمل طور پر ٹھپ ہوکر رہ جائے اور کتابیں شائع کرنے پر لاگت اتنی آئے کہ انہیں معقول منافع کے ساتھ فروخت کرنا ممکن ہی نہیں رہے۔ بھارت کی پبلشنگ انڈسٹری بنگلا دیشی مارکیٹ سے بھی خوب کما رہی ہے۔ ۱۰؍دسمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے لکھا کہ بھارت کی پبلشنگ انڈسٹری ہر سال بنگلا دیش سے کتابوں کی قانونی تجارت کے ذریعے پچاس کروڑ ٹاکا سے زائد کما رہی ہے۔ کتابوں کی اسمگلنگ سے بھارت کی پبلشنگ انڈسٹری کو حاصل ہونے والی رقم ایک ارب ٹاکا سالانہ سے زائد ہوسکتی ہے۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلا دیش میں دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ پبلشنگ کے شعبے کو بھی ٹھکانے لگانے کے لیے بھارت کا خفیہ ادارہ کس طور کام کر رہا ہے اور یہ کہ اسے روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ حکومتی مشینری کے اہم پرزرے ’’را‘‘ کے مقاصد کی تکمیل آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر بنگلا دیش میں کتابیں کم قیمت پر فروخت کرنا ممکن ہوجائے تو بھارت کی پبلشنگ انڈسٹری کو دھچکا ضرور لگے گا۔ حکومت کو اس حوالے سے فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن کے ذریعے بھارتی اثرات کو کم کرنا ممکن ہو۔
(مترجم: محمد ابراہیم خان)
○○○
Leave a Reply