
جب سے بنگلادیش قائم ہوا ہے، بھارت نے اس کی معیشت کو تباہ کرنے میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کی طرف سے منصوبے تیار کیے جاتے رہے ہیں۔ بنگلادیش کی معیشت کو مفلوج کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ دریائے گنگا کا جو پانی بنگلا دیش کے حصے کا ہے اس کی راہ میں دیواریں کھڑی کی جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت نے سرحد سے محض ۱۷؍کلومیٹر دور فرخا بیراج بنانے کا منصوبہ بنایا۔ مشترکہ دریاؤں کے پانی کی مساوی یا منصفانہ تقسیم دونوں ممالک کا حق ہے۔ بلندی پر واقع ملک کی طرف سے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ فرخا ڈیم کے ہاتھوں بنگلا دیش کی زراعت، صنعت، نقل و حمل اور ماہی گیری وغیرہ کے شعبوں کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ فرخا بیراج کی تعمیر سے بنگلا دیش کی معیشت کے لیے مشکلات دوچند ہوئی ہیں۔
بھارت نے فرخا بیراج کی تعمیر کا منصوبہ ۱۹۵۱ء میں تیار کیا تھا مگر تب مشرقی پاکستان اور وفاق کی طرف سے شدید مخالفت کے باعث بھارت اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہا۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان نے باقی ملک سے الگ ہوکر بنگلا دیش کی شکل اختیار کرلی، تب بھارت کو فرخا بیراج تعمیر کرنے کا سنہری موقع میسر آگیا۔ بھارت نے ۱۹۵۱ء سے سرد خانے میں پڑے ہوئے منصوبے کو تیزی سے عملی جامہ پہنانا شروع کیا اور ۱۹۷۴ء میں یہ بیراج تعمیر بھی ہوگیا۔ بھارت نے بنگلا دیشی حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ پانی کی تقسیم کا کوئی باضابطہ معاہدہ کیے بغیر وہ بہاؤ کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔ مگر بھارت نے شیخ مجیب الرحمن سے کیا ہوا وعدہ بھلادیا اور فرخا بیراج کے ذریعے بھارت اب تک بنگلا دیش کے حصے کا پانی غصب کر رہا ہے۔
آبی وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بھارت نے بنگلا دیش کے تین صدور (شیخ مجیب الرحمن، جنرل ضیاء الرحمن اور جنرل حسین محمد ارشاد) سے معاہدے کیے۔ شیخ مجیب الرحمن سے پہلے معاہدے کے تحت بھارت نے فرخا بیراج بنا لینے کے باوجود بنگلا دیش کو ۴۴ ہزار کیوسک پانی دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ دوسرا معاہدہ جنرل ضیاء الرحمن سے کیا گیا جس کے تحت بھارت نے بنگلا دیش کو دیے جانے والے پانی کی مقدار ۱۰؍ہزار کیوسک کردی۔ اس کے بعد ۷؍اکتوبر ۱۹۸۲ء کو تیسرے معاہدے (مفاہمت کی یاد داشت) پر دستخط کیے گئے جس کے تحت یہ شق نکال دی گئی کہ بھارت ہر حال میں بنگلا دیش کو اس کے حصے کا ۸۰ فیصد پانی دیتا رہے گا۔ مفاہمت کی اس یاد داشت کے نتیجے میں بھارت نے بنگلا دیش سے غیر معمولی فائدہ حاصل کیا۔ مفاہمت کی یاد داشت ۳۱ مئی ۱۹۸۴ء تک کے لیے تھی۔ اس کی میعاد ختم ہونے پر بھارت نے تجدید کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اب دونوں ممالک کے درمیان دریائے گنگا کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بھارت اس صورت حال سے اپنی مرضی کے مطابق بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
سیلاب کی روک تھام، آبی وسائل اور آب پاشی کے وزیر مملکت مشرف حسین شاہ جہاں نے قومی اسمبلی میں ایم پی نعمت اللہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دریائی پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے وزرائے اعظم کی سطح پر چار ملاقاتوں سمیت اب تک دونوں ممالک کے درمیان ۷۷ میٹنگیں ہوچکی ہیں مگر معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔ ۱۷؍مرتبہ وزارتی سطح پر، ۱۳؍مرتبہ ماہرین کی سطح پر، ۲۱ مرتبہ جوائنٹ ریور کمیشن کے تحت وزارتی سطح پر، ۱۹۸۵ء میں قائم کی جانے والی جوائنٹ ایکسپرٹس کمیٹی کے تحت دو مرتبہ وزارتی اور ۱۰؍مرتبہ سیکرٹری سطح پر میٹنگیں ہوچکی ہیں۔ ان فورمز سے ہٹ کر بھی بات چیت ہوتی رہی ہے، مگر آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم کا کوئی قابل قبول فارمولا اب تک سامنے نہیں لایا جاسکا ہے۔ یہ تمام معلومات فراہم کرتے ہوئے ’’بنگلا دیش ٹائمز‘‘ نے ۷ ستمبر ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ بھارت کی طرف سے آبی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے وعدے بہت کیے جاتے ہیں مگر عملاً کچھ بھی ایسا نہیں کیا جاتا جس سے یہ مسئلہ حل ہو اور عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔ بنگلادیش کی وزیراعظم بیگم خالدہ ضیاء نے ۱۹۹۲ء میں بھارت کا دورہ کیا تو بھارتی ہم منصب نرسمہا راؤ نے ان سے وعدہ کیا کہ اب فرخا بیراج سے بنگلا دیش کے لیے کوئی الجھن پیدا نہیں ہوگی مگر یہ الفاظ بھی محض الفاظ ثابت ہوئے۔ بھارت نے عملی سطح پر کچھ بھی نہ کیا اور بنگلا دیش اپنے حصے کے پانی سے محروم ہی چلا آرہا ہے۔
۱۹۳۴ء سے ۱۹۷۴ء تک دریائے گنگا (جو بنگلا دیش میں دریائے پدما کہلاتا ہے) خشک موسم میں ایک لاکھ ۳۵ ہزار کیوسک پانی فی سیکنڈ خلیج بنگال میں ڈالتا آیا ہے۔ واٹر ڈیویلپمنٹ بورڈ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری ۱۹۷۱ء کے دوسرے ہفتے میں ہارڈنگ برج کے مقام پر دریائے پدما سے خلیج بنگال میں گرنے والے پانی کی مقدار ایک لاکھ ۵۱ ہزار کیوسک فی سیکنڈ تھی۔ ۱۹۹۰ء میں یہ مقدار صرف ۲۰ ہزار کیوسک فی سیکنڈ رہ گئی۔ ۱۹۹۲ء میں ۱۳؍ہزار، ۱۹۹۳ء میں ۹ ہزار اور ۱۹۹۵ء میں محض ہزار کیوسک فی سیکنڈ رہ گئی۔
۱۵؍نومبر ۱۹۹۰ء کو ہارڈنگ برج کے مقام پر دریائے پدما کی بلندی دس اعشاریہ دو فٹ تھی۔ تین سال بعد اسی مقام پر دریا کی بلندی نو اعشاریہ آٹھ فٹ رہ گئی۔ ۱۹۹۴ء میں بلندی آٹھ اعشاریہ سات فٹ رہ گئی۔ کسی زمانے میں دریائے پدما کو بپھرا ہوا دریا کہا جاتا تھا مگر اس میں پانی کی مقدار اتنی کم رہ گئی ہے کہ بہت سے لوگ اسے مردہ دریا کہنے لگے ہیں۔ ۱۶۰۰؍میٹر چوڑے پاٹ والا دریا اب محض نہر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہارڈنگ برج کے نزدیک دریائے پدما کا پاٹ محض ۶ میٹر کا رہ گیا ہے۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے ۱۷؍دسمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ بنگلادیش کی حدود میں بہنے والے دریاؤں میں پانی کی مقدار بھی گھٹ رہی ہے اور اس کا معیار بھی دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔
بنگلادیش کے لیے ایک بڑا مسئلہ سمندری پانی کا دریائی پانی میں شامل ہوکر زرعی زمین کو متاثر کرنا ہے۔ پانی میں نمک کی مقدار بڑھنے سے زرعی زمین کاشت کے قابل نہیں رہتی۔ فرخا بیراج کی تعمیر سے قبل دریائے پدما اور دریائے میگھنا میں پانی کا زور اتنا تھا کہ خلیج بنگال کا پانی بنگلا دیش کی سرزمین تک نہیں پہنچتا تھا اور زرعی زمین منفی اثرات سے محفوظ رہتی تھی۔ جب خشک موسم میں بھی ان دریاؤں میں پانی کا بہاؤ ایک لاکھ کیوسک فی سیکنڈ تک ہوتا تھا، تب خلیج بنگال کے نمکین پانی کی راہ میں دیوار کھڑی ہوجاتی تھی مگر اب دریائی پانی کی سطح اتنی گرچکی ہے کہ خلیج بنگال کے پانی کو بنگلا دیش میں مین لینڈ تک پہنچنے سے روکنا ممکن نہیں رہا۔ خلیج بنگال کا پانی اب بگیر ہاٹ، باریسال، کھلنا، منشی گنج، کشتیا، ستکھیرا، جیسور، مداری پور، شریعت اور چاند پور تک پہنچ جاتا ہے۔ ان تمام علاقوں کے لوگوں کی معاشی سرگرمیوں پر سمندری پانی کے شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان کی زرعی زمینیں بے کار ہوگئی ہیں۔ سمندری پانی سے پورا ماحول شدید متاثر ہوا ہے۔ سمندری پانی کے شدید منفی اثرات پر قابو پانے کی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ ماحول سے متعلق امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ عالمی ادارۂ صحت کے طے کردہ معیارات کے مطابق اگر ایک لیٹر پانی میں کلورائد کا تناسب ۲۵۰ ملی گرام سے زائد ہو تو اُسے آلودہ تصور کیا جائے گا۔ واٹر ڈیویلپمنٹ بورڈ کے بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۴۸ء میں کھول پیٹنا، رائے منگل، مالانچا، منگلا، کالندی، کوباٹک، اِچھاموتی اور دیگر دریاؤں میں نمکیات کا تناسب ۱۸؍ہزار مائکروٹس سینٹی میٹر تھا۔ ۱۹۹۲ء میں یہ سطح ۴۲ ہزار مائکروٹس سینیٹ میٹر تک پہنچ چکی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سطح بلند ہوتی جائے گی اور بنگلا دیش میں عام آدمی کے لیے پینے کے صاف پانی اور زرعی پانی کا حصول دشوار سے دشوار تر ہوتا جائے گا۔
پانی میں نمکیات کے بڑھتے ہوئے تناسب نے بنگلا دیش میں زرعی زمین کے علاوہ پورے ترقیاتی عمل کو شدید متاثر کیا ہے۔ ماحول کی خرابی بڑھتی جارہی ہے۔ کروڑوں افراد کے لیے صاف اور صحت بخش پانی کا حصول دشوار ہوگیا ہے۔ کاشت کاری اور شجر کاری دونوں کو سمندری پانی کے اثرات سے آلودہ ہو جانے والے پانی نے انتہائی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ بہت سے علاقوں میں زرخیز زمین نمکین پانی کے باعث اپنے اثرات سے اس قدر محروم ہوچکی ہے کہ ان سے بھرپور پیداوار حاصل کرنا اور ثمر بار درخت اگانا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ سُندر بن میں پائی جانے والی نباتات کو بھی نمکین پانی سے انتہائی نقصان پہنچا ہے۔ جنگلات کا رقبہ بھی گھٹتا جارہا ہے۔ فرخا بیراج کی تعمیر کے باعث بنگلا دیش میں ڈاؤن اسٹریم دریاؤں میں پانی کی مقدار خطرناک حد تک گھٹی ہے اور اس کے نتیجے میں نمکیات کی مقدار میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ جب لہریں اونچی ہوں تب نمکین پانی سُندر بن کے بہت سے حصوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ مگر جب سمندر میں جوار آتا ہے، تب پانی اُتنی تیزی سے اُترتا نہیں۔ اس کے نتیجے میں سُندر بن کے بہت سے حصوں میں زمین کی خاصیت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ درختوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے۔ نئے درختوں کا پروان چڑھنا رک جاتا ہے۔ سمندر کا پانی سُندر بن کے کئی حصوں میں ہفتوں کھڑا رہتا ہے جس کے نتیجے میں زمین بے جان ہوتی جاتی ہے۔ محکمہ جنگلات نے بتایا ہے کہ ۱۹۸۷ء سے ۱۹۹۲ء کے دوران سُندر بن کے کھلنا، ستکھیرا، شرن کھولا اور چاند پری سیکٹر میں سُندری، کاکرا، پشور، بائن، گیوا اور دیگر درختوں کے ۸۵ فیصد پودے سمندری پانی کی نذر ہوگئے۔ اس صورت حال نے دنیا میں مونگروو کے سب سے بڑے جنگل کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ سُندر بن میں مرکزی درخت سُندری ہے جو کم و بیش ۵ لاکھ ۷۷ ہزار ہیکٹر رقبے پر پایا جاتا ہے۔ فی ہیکٹر اس درخت یا پودے کی تعداد ۲۹۶ ہے جبکہ دیگر تمام اقسام کے درختوں اور پودوں کی اوسط تعداد ۲۵۴ فی ہیکٹر ہے۔ سمندری پانی کے باعث سُندر بن میں سُندری کے ساڑھے چار کروڑ درختوں میں سے ڈھائی کروڑ کی جڑوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں جنگل کی مجموعی فضا بحران کا شکار ہے۔ سمندری پانی کی بڑھتی ہوئی مقدار اور اثرات نے سُندر بن میں جنگلی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ شیروں، ہرنوں اور دیگر جانوروں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ بہت سے جنگلی جانور میٹھے پانی کی تلاش میں سُندر بن کے بھارتی حصے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ جانور پانی کی تلاش میں آبادیوں میں بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ بہت سے جنگلی جانوروں کو لوگ مجبوراً ہلاک کردیتے ہیں۔ فرخا بیراج کی تعمیر سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اور بھارت نے بنگلا دیش کے دریائی پانی کا حصہ کم کرکے جو بحران پیدا کیا ہے، اس کے نتیجے میں بنگلا دیش میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
سُندر بن میں سمندری پانی کے داخل ہونے کے اثرات پودوں، پھولوں اور پھلوں پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ سُندر بن کے مختلف حصوں سے شہد کی غیر معمولی مقدار حاصل ہوا کرتی تھی مگر اب یہ معاملہ بھی بحران کی نذر ہوچلا ہے۔ ہفت روزہ ’’چترا بنگلا‘‘ نے ۵ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ۹۱۔۱۹۹۰ء میں سُندر بن سے ۲۱۱ ٹن شہد حاصل ہوا تھا مگر محض دو سال بعد یہ مقدار ۲۷ ٹن رہ گئی۔ سمندری پانی سے پہنچنے والے نقصان کے باعث اب سُندر بن میں مگر مچھوں کی نسل خطرناک حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ پانی میں نمکیات کی مقدار بڑھنے سے مگر مچھوں کے انڈے ٹوٹ جاتے ہیں۔ انڈے دینے کے موسم میں مگر مچھ محفوظ علاقوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔ سرما میں دوسرے ملکوں اور خطوں سے آنے والے پرندوں کی تعداد خاصی کم رہ گئی ہے۔ ناریل کی پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply