
سُندر بن میں سمندری پانی کے داخل ہونے کے اثرات پودوں، پھولوں اور پھلوں پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ سُندر بن کے مختلف حصوں سے شہد کی غیر معمولی مقدار حاصل ہوا کرتی تھی مگر اب یہ معاملہ بھی بحران کی نذر ہوچلا ہے۔ ہفت روزہ ’’چترا بنگلا‘‘ نے ۵ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ۹۱۔۱۹۹۰ء میں سُندر بن سے ۲۱۱ ٹن شہد حاصل ہوا تھا مگر محض دو سال بعد یہ مقدار ۲۷ ٹن رہ گئی۔ سمندری پانی سے پہنچنے والے نقصان کے باعث اب سُندر بن میں مگرمچھوں کی پیداوار خطرناک حد تک متاثر ہوچکی ہے۔ پانی میں نمکیات کی مقدار بڑھنے سے مگرمچھوں کے انڈے ٹوٹ جاتے ہیں۔ انڈے دینے کے موسم میں مگرمچھ محفوظ علاقوں کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔ سرما میں دوسرے ملکوں اور خطوں سے آنے والے پرندوں کی تعداد خاصی کم رہ گئی ہے۔ ناریل سمیت کئی درختوں اور پودوں کی کاشت اور پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ پانی میں نمک کا تناسب بڑھنے سے زمین کی پیداواری صلاحیت اور بالخصوص نائٹروجن کا تناسب شدید متاثر ہوتا ہے۔ اس علاقے میں نائٹروجن کا تناسب ۷۵ مائکروگرام سے گر کر ۱۱؍ مائیکرو گرام کی سطح پر آگیا ہے۔ عام طور پر زمین میں نمک کا تناسب ۲؍ ای سی تک ہوتا ہے مگر ان علاقوں میں یہ تناسب کم و بیش ۲۰ سے ۳۰ ای سی تک پہنچ چکا ہے۔ یہ تمام معلومات روزنامہ ’’جن کنٹھا‘‘ کی ۳ جنوری ۱۹۹۴ء کی اشاعت سے لی گئی ہیں۔
زمین میں نمک کا تناسب بڑھنے سے کھلنا میں مِلوں اور کارخانوں کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔ دریائے بہراب میں نمک کا تناسب بڑھنے سے کھلنا پیپر مل کو ۱۹۹۱ء سے ہر ماہ ۳۰ میل دور دریائے مدھومتی سے میٹھا پانی حاصل کرنے پر ہر ماہ کم و بیش ۶ لاکھ ٹاکا خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ کھلنا پیپر مل کو روزانہ ۴۰۰ ٹن میٹھا پانی درکار ہوتا ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ دریاؤں کے پانی میں نمک کا تناسب بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اور سمندری پانی اب دریاؤں میں اوپری سطح کو بھی خراب کر رہا ہے۔ دریائے مدھومتی کی صورتحال بھی اب تشویشناک ہے۔ چند برسوں میں کسی بھی دریا سے میٹھا پانی حاصل کرنے پر اضافی اخراجات ناگزیر ہوں گے۔
منگلا پورٹ کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں حکومت نے پورٹ کو دریائے منگلا سے میٹھے پانی کی فراہمی جاری رکھنے پر کم و بیش ۶ کروڑ ٹاکا خرچ کیے۔ اس سسٹم کو درست حالت میں رکھنے پر ہر سال اضافی لاکھوں ٹاکا خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس علاقے میں بہت سے صنعتی یونٹس نمکیات کا تناسب بڑھنے کے باعث بندش کے خطرے سے دوچار ہیں۔ دور افتادہ علاقوں سے پانی انڈسٹریل یونٹس تک پہنچانا بہت مہنگا ثابت ہو رہا ہے۔ گریٹر کھلنا اور جیسور کے بہت سے علاقوں میں ٹیوب ویلوں اور تالاب کے پانی میں بھی نمکیات کا تناسب بڑھ گیا ہے جس کے نتیجے میں میٹھے پانی کا حصول مزید دشوار ہوتا جارہا ہے۔ آلودہ پانی سے ہونے والی بہت سی بیماریاں مثلاً ٹائیفائڈ، اسہال اور گردوں کے انفیکشن وغیرہ ان علاقوں میں عام ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر ان تمام علاقوں میں دریائی پانی کو نمکیات کے مضر اثرات سے پاک رکھنا ہے تو لازم ہے کہ ہارڈنگ برج کے مقام پر دریائے پدما میں پانی کا بہاؤ کم از کم ۲۸ ہزار کیوسک فی سیکنڈ ہو۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ بھارت فرخا بیراج سے اتنے پانی کو ریلیز ہونے دے گا؟
اس وقت دریائے پدما کی حالت انتہائی پریشان کن ہے۔ بہت سے مقامات پر یہ دریا مکمل سوکھ چکا ہے۔ راجشاہی سے چار گھاٹ تک تقریباً ۳۰ میل کے علاقے میں یہ دریا بے جان پڑا رہتا ہے۔ نیچے کی طرف تقریباً ۱۰۰ میل کے علاقے میں یہ دریا اب محض تالاب میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پاکیشی سے گوالونڈو تک ۲۵۰ میل کے علاقے میں اس دریا پر جہاں بھی نظر ڈالیے، ریت کے ٹیلے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ٹیلوں کی تعداد کم و بیش ۱۰ ہزار ہے۔ خشک موسم میں دریائے پدما کے پانی کی سطح گھٹنوں تک رہ جاتی ہے۔ یہ تمام معلومات روزنامہ اسٹار نے ۷ مئی ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں فراہم کیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ملک کے شمال اور جنوب مغرب میں دریائے پدما ٹرانسپورٹیشن کا بھی اہم روٹ تھا۔ اس میں بڑی مسافر اور باربردار کشتیاں چلا کرتی تھیں۔ ٹرانسپورٹیشن روٹ ۶۰۰ سے کم ہوکر اب محض ۲۵۰ میل رہ گیا ہے۔ اریچا، ناگر باری، بھوپر اور دیگر فیری گھاٹ اب ویران دکھائی دیتے ہیں۔ ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو ہر سال نئے فیری گھاٹ اور پل تعمیرکرنے پر خطیر رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔ فرخا بیراج کی تعمیر سے قبل دریائے پدما میں ۲۰۰ کشتیاں کھلنا سے ۳۵ روٹس پر چلا کرتی تھیں۔ اب کشتیاں چالیس پچاس اور روٹ صرف ۱۲؍ رہ گئے ہیں۔ کشتیا، چوادانگا، مہر پور، جھینیڈا، مگوئی، نریل، ستکھیرا اور فرید پور کے اضلاع میں ۲۵ سے زائد دریاؤں کا منبع دریائے پدما ہے۔ دریائے پدما کا پانی ان دریاؤں میں ماتھا بھنگا سے ہوتا ہوا پہنچتا ہے۔ فرخا بیراج نے ماتھا بھنگا کو خشک کردیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ ۲۵ دریا بھی خشک ہوگئے ہیں۔ ان دریاؤں کے پاٹ اب گرمیوں میں کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
گینجز کوباٹک بنگلا دیش کا سب سے بڑا زرعی منصوبۂ آب پاشی ہے۔ اس کے ذریعے دریائے پدما سے 3 لاکھ ایکڑ اراضی کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ آب پاشی کا یہ نظام ۱۲۰؍ میل طوالت کی بڑی نہروں، ۲۹۲ میل طوالت کی شاخوں اور ۶۲ میل طوالت کی مزید چھوٹی نہروں پر مشتمل ہے۔ دریائے پدما میں پانی کی شدید قلت سے یہ منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے۔ خشک موسم میں کشتیا، جیسور اور فرید پور جیسے زرخیز زمین رکھنے والے علاقوں میں بھی کاشت کاری دم توڑ دیتی ہے۔
بھارت نے فرخا بیراج تعمیر کرکے بنگلا دیش کی زراعت کے لیے بقا کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ فرخا بیراج نے دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک کے لیے پانی کا حصول انتہائی دشوار بنادیا ہے، جس کے نتیجے میں دریا کے زیریں علاقے ہر موسم میں پانی کی قلت سے دوچار رہتے ہیں۔ سمندر میں جب موجیں چڑھی ہوئی ہوتی ہیں تب سمندری پانی دریاؤں میں پہنچ کر وہاں کیچڑ چھوڑ دیتا ہے۔ دریاؤں میں پانی نہ ہونے کے باعث سمندری پانی اور اس کی چھوڑی ہوئی کیچڑ کو واپس سمندر میں دھکیلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دریائی پانی میں نمکیات کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔ ایک بڑا منفی اثر یہ بھی ہے کہ خشک موسم میں جنوب مغربی بنگلا دیش میں دریائے پدما اور اس سے نکلنے والے دریا اور نہریں بالکل خشک ہوجاتی ہیں۔ نومبر کے بعد سے دریائے پدما سے نکلنے والے ۱۱۳؍دریاؤں اور نہروں میں پانی برائے نام رہ جاتا ہے۔
دریائے پدما میں پانی کی شدید کمی سے بنگلا دیشی معیشت کو صرف ایک سال ۸۹۔۱۹۸۸ء کے دوران کم و بیش ۸ کروڑ ۵۰ لاکھ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ زراعت اور آبی راہداریوں کے وزیر ایم ماجدالحق نے ۵ فروری ۱۹۹۵ء کو پارلیمان میں بتایا کہ فرخا بیراج کی تعمیر سے بنگلا دیش کو اب تک ۱۱ ہزار ۳۰۰ کروڑ ٹاکا سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ دریاؤں کے پاٹ میں کیچڑ اور پتھروں کا تناسب بڑھنے سے ان میں پانی لے جانے کی صلاحیت بھی گھٹتی جارہی ہے۔ یہ کیفیت سیلاب کو جنم دیتی ہے۔ مون سون کے موسم میں دریا اضافی پانی کو آگے بڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے جس کے نتیجے میں کئی علاقے زیر آب آجاتے ہیں۔ بارش میں بھارت فرخا بیراج کے گیٹ کھول دیتا ہے، جس کے نتیجے میں پانی کی بڑی مقدار دریائے پدما میں آتی ہے اور بنگلا دیش کے بہت سے حصوں میں سیلاب آجاتا ہے۔ ۱۹۸۸ء میں ایسے مصنوعی سیلابوں سے بنگلا دیش میں ۲ لاکھ ۴۱ ہزار ہیکٹر سے زائد زرعی رقبہ بری طرح متاثر ہوا۔
فرخا بیراج کی تعمیر سے ماحول کو جو نقصان پہنچا ہے اس سے شمال مغربی بنگلا دیش کے ۲۱؍ اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ایک کروڑ ۲۰ لاکھ ایکڑ زرخیز زمین صحرا میں تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ان علاقوں میں نمی کا تناسب گرتا جارہا ہے۔ ۱۹۷۵ء سے پہلے تک ان علاقوں میں اپریل اور مئی میں نمی کا تناسب خطرناک حد تک گرتا تھا۔ اب فروری ہی میں یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ۱۹۸۶ء تک ان علاقوں میں مارچ کے دوران سب سے زیادہ اوسط درجہ حرارت ۳۸ سینٹی گریڈ اور کم از کم اوسط درجہ حرات ۲۱سینٹی گریڈ ہوا کرتا تھا۔ ۱۹۹۲ء کے مارچ میں کم از کم اوسط درجہ حرارت ۲۰؍ اور زیادہ سے زیادہ ۴۲ سینٹی گریڈ تھا۔ ۱۹۹۳ء یہ اعداد و شمار ۲۰؍ اور ۴۴ سینٹی گریڈ تک پہنچے۔ اور ۱۹۹۴ء میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت تو ۴۴ سینٹی گریڈ ہی رہا تاہم کم از کم درجہ حرارت ۱۵سینٹی گریڈ تک گرگیا۔ شمال مشرقی بنگلا دیش میں ماحول کی غیر معمولی تبدیلی یعنی خرابی نے بارش کا تناسب بھی بگاڑ ڈالا ہے۔ اب ان علاقوں میں پہلی سے بھرپور بارش بھی نہیں ہوتی۔ ۱۹۸۷ء تک جون سے ستمبر کے دوران ۲۷؍ انچ تک بارش ہوتی تھی۔ ۱۹۸۸ء میں بارش ۲۵؍ انچ رہ گئی۔ ۱۹۹۲ء معاملہ ۱۵؍ انچ پر آگیا۔ اور ۱۹۹۳ء میں بارش ۱۴؍ انچ رہ گئی۔ بالائی علاقوں ہی سے پانی کی کم مقدار ملنے کے باعث اب دریائے پاشور میں کشتی رانی ممکن نہیں رہی۔ یہی سبب ہے کہ حکومت کو ملک کی دوسری سمندری بندرگاہ چالنا سے منگلا منتقل کرنی پڑی ہے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ چند برس بعد منگلا پورٹ سے بھی بڑے جہازوں کو سمندر تک بھیجنا ممکن نہ رہے گا۔ دریائے پدما میں ریت کے ٹیلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث پاکشی میں واقع نارتھ بنگال پیپر ملز کو بھی میٹھے پانی کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے مل کو فروری ۱۹۹۱ء میں ۳۳ لاکھ ٹاکا خرچ کرنا پڑے۔ ۱۹۹۰ء میں ۲۹ لاکھ ٹاکا خرچ کرنا پڑے تھے۔ مل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بہتر انداز سے کام کرنے کے لیے مل کو روزانہ ۱۱۰۰؍ ٹن میٹھا پانی درکار ہوتا ہے۔ اگر نارتھ بنگال پیپر ملز یہ مسئلہ مستقل بنیاد پر حل کرنا چاہتی ہے تو اسے ٹیوب ویل لگانا پڑیں گے اور اس پر کم و بیش تین کروڑ ٹاکا خرچ ہوں گے۔ یہ معلومات روزنامہ انقلاب نے ۹ مارچ ۱۹۹۱ء کی اشاعت میں فراہم کیں۔
فرخا بیراج کی تعمیر سے بنگلادیش میں ماہی گیری کا شعبہ بھی غیر معمولی حد تک متاثر ہوا ہے۔ ۸۴۔۱۹۸۳ء میں ۹۰ ہزار ٹن سے زائد ہلسا مچھی پکڑی گئی تھی۔ ۹۱۔۱۹۹۰ء میں یہ مقدار ۶۷ ہزار ٹن رہ گئی۔ ۸۱۔۱۹۸۰ء میں صرف دریائے پدما سے چار ہزار ٹن سے زائد ہلسا مچھلی پکڑی گئی تھی۔ ۹۱۔۱۹۹۰ء میں یہ مقدار صرف ۵۶۵ ٹن رہ گئی۔ دریائے جمنا اور دریائے میگھنا میں بھی ماہی گیری متاثر ہوئی ہے اور پکڑی جانے والی ہلسا مچھلی کی مقدار گھٹتی ہی جارہی ہے۔ دوسری بہت سی اقسام کی مچھلیوں کا پکڑنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے کیونکہ ان کی افزائش ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ سوکھتے ہوئے دریاؤں میں مچھلیوں کی افزائش بھی مشکل سے ہوتی ہے۔ ۸۴۔۱۹۸۳ء میں دریائے پدما سے ۱۰ ہزار ٹن مچھلی حاصل ہوئی تھی۔ ۹۱۔۱۹۹۰ء میں یہ مقدار صرف ایک ہزار ٹن رہ گئی۔ یہ معلومات روزنامہ اسٹار نے ۵؍اکتوبر ۱۹۹۱ء کی اشاعت میں فراہم کی ہیں۔
[urdu](ترجمہ: محمد ابراہیم خان)[/urdu]
Leave a Reply