
’’را‘‘ کا سربراہ یعنی ڈائریکٹر بھارتی حکومت کے سیکرٹری کا درجہ رکھتا ہے اور وزیراعظم کو براہِ راست جوابدہ ہے۔ اُس کی معاونت کے لیے ایڈیشنل سیکرٹری کا تقرر کیا جاتا ہے جو حکومت کے ایڈیشنل سیکرٹری کی حیثیت رکھتا ہے۔
خصوصی خفیہ کارروائیوں کی ذمہ داری آفس آف اسپیشل آپریشنز (او ایس او) پر عائد ہوتی ہے۔
مختلف خطوں کے ممالک کے لیے ذمہ داریاں سونپنے کی غرض سے ’’را‘‘ میں جوائنٹ ڈائریکٹرز (ایریاز) کا تقرر کیا جاتا ہے۔ ایریا ون پاکستان ہے۔ ایریا ٹو چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے لیے مختص ہے۔ ایریا تھری میں مشرقی ایشیا اور افریقا آتے ہیں۔ ایریا فور باقی ممالک کے لیے ہے۔
الیکٹرانک اور ٹیکنیکل سیکشن نیز داخلی سلامتی و انتظامی اُمور کے لیے ایک علیحدہ جوائنٹ ڈائریکٹر کا بھی تقرر کیا جاتا ہے۔
ڈائریکٹر آف سکیورٹی ایوی ایشن ریسرچ سینٹر (اے آر سی) اور سرحدی علاقوں میں فیلڈ ڈیٹیچمنٹس کے حامل اسپیشل سروسز بیورو کا نگران اور ذمہ دار ہوتا ہے۔ اے آر سی ہدف کے طور پر نامزد کی جانے والی ٹیلی مواصلات اور متعلقہ نظام کی نگرانی، اُن پر جھپٹنے اور اُنہیں جام کرنے پر مامور ہے۔ اے آر سی کے پاس اعلیٰ درجے کے الیکٹرانک آلات اور جدید ترین متعلقہ ٹیکنالوجی سے مُزیّن ایئر کرافٹس ہیں۔ ۱۹۸۷ء میں ۵۰ کروڑ روپے کے تین نئے دی گلف اسٹریم تھری طیارے شامل کرکے اے آر سی کو مزید مضبوط کیا گیا۔ یہ طیارہ ۵۲ ہزار فیٹ کی بلندی پر پرواز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس کی آپریٹنگ رینج پانچ ہزار کلو میٹر ہے۔ پاکستان اور چین سے ملنے والی سرحد پر نصب چند راڈار اسٹیشنوں کا کنٹرول بھی اے آر سی کے پاس ہے۔ اے آر سی کے جاسوس طیارے پاکستان، چین اور بنگلا دیش سے ملنے والے سرحدی علاقوں میں باقاعدگی سے پروازیں بھی کرتے ہیں۔
’’را‘‘ کے ہینڈلر، ایجنٹس اور آپریشن
بنگلا دیش کے خلاف ’’را‘‘ نے مختلف علاقوں اور مراکز سے کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔ اہم مراکز ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمیشن اور چاٹگام اور راجشاہی میں قائم ڈپٹی ہائی کمیشن ہیں۔ ’’را‘‘ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ان سفارتی مشنز میں بہت سے انڈر کور ایجنٹس اور دوسرا عملہ تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ’’را‘‘ کے پے رول پر ہوتے ہیں مگر دستاویزات میں اِنہیں وزارتِ خارجہ کے تحت کیے جانے والے سفارتکار کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
جاسوسی اور دیگر خفیہ کارروائیوں کے لیے مالی باغ، کلکتہ میں ’’را‘‘ کا ایک علاقائی دفتر بھی موجود ہے۔ یہ دفتر ہائی کمیشن اور ڈپٹی ہائی کمیشن کے تصرّف سے بالا رہتے ہوئے اپنی صوابدید کے مطابق کام کرتا ہے اور اس کا سالانہ بجٹ ۲۰؍ارب روپے سے زائد بتایا جاتا ہے۔ دارجیلنگ، شیلونگ اور اگرتلہ میں بھی اِس علاقائی دفتر کے تحت کام کرنے والے دفاتر ہیں جو اپنی اپنی مقامی انتظامیہ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
’’را‘‘ کے یہ دفاتر ہارڈ کور ایجنٹس کا ایک وسیع نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں حمایتی، ہمدرد اور ذیلی ایجنٹس ہیں۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹس کی تین گروپوں میں درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔
٭ بھارت کے باشندے جو جاسوسی اور سبوتاژ کی سرگرمیوں کے حوالے سے جامع تربیت کے بعد جاسوسی کے لیے بنگلا دیش بھیجے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اہداف کے حصول کے لیے بنگلا دیش میں صحافی، کاروباری شخصیات، فنکار، طلبہ، ادیب اور دانشور کی حیثیت سے قیام کرتے ہیں۔
٭ بنگلا دیشی باشندے جو دولت کے لالچ، کاروباری مفادات یا پھر نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ (نظریاتی وابستگی کا معاملہ ہندوؤں کے معاملے میں زیادہ درست ثابت ہوا ہے)۔
٭ کسی تیسرے ملک کے باشندے، یعنی وہ جو بھارت کے شہری ہیں نہ بنگلا دیش کے۔ ان ایجنٹس میں بنگلا دیش میں تعینات بین الاقوامی کمپنیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے عہدیدار، سفارت کار، کاروباری شخصیات یا پھر بنگلا دیش سے تعلق رکھنے والے منصوبوں سے وابستہ شخصیات شامل ہیں۔
’’را‘‘ کے ایجنٹس کو سونپے جانے والے بنیادی کام
٭ خفیہ اور حَسّاس معلومات فراہم کرنا بالخصوص قومی دفاع اور قومی پالیسیوں کے بارے میں۔
٭ بھارت کے معاشی اور دیگر مفادات کو مستحکم کرنا۔
٭ بنگلا دیش کی نظریاتی بنیاد اور قیام کے اساسی اُصولوں کے حوالے سے شر انگیز پروپیگنڈا کرنا اور بھارت میں انضمام کا ذہن پیدا کرنے کے حوالے سے پرچار کرنا۔
٭ ہڑتالوں اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے بنگلا دیش کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، شدید عدم استحکام پیدا کرنا اور دہشت گردی و لاقانونیت کی راہ ہموار کرنا۔ یہ سب کچھ اِس تصور اور مقصد کے ساتھ کرنا کہ بنگلا دیش اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے، بھارت اور دیگر ممالک کا دست نگر رہے اور افلاس کی زنجیروں میں لپٹا رہے تاکہ کبھی آزاد فیصلے کرنے کے قابل نہ ہوسکے۔
٭ مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ میں روڑے اٹکانا اور پروپیگنڈے کے ذریعے اختلافات کو ہوا دینا۔
٭ بنگلا دیشی تعلیمی اداروں میں حالات خراب کرنا تاکہ زیادہ سے زیادہ بنگلا دیشی طلبہ بھارت کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کو ترجیح دیں۔
٭ بنگلا دیش میں علیحدگی پسندی اور شر انگیزی پر مبنی تحریکوں کو پروان چڑھانا۔
ہفت روزہ ’’راشٹر‘‘ نے ۱۱؍اگست ۱۹۹۴ء کے شمارے میں لکھا: ’’بھارت اپنے ایجنٹس کے ذریعے بنگلا دیش میں حالات خراب کرتا ہے تاکہ معاملات جلاؤ گھیراؤ تک پہنچیں، ہڑتالیں ہوں اور بنگلا دیشی معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے۔ بنگلا دیش کو بدنام کرنے کے لیے تسلیمہ نسرین جیسی حاشیہ برداروں کو سامنے لانے اور میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹس بنگلا دیش کو بھارت کے لیے محض ایک منڈی میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں رات دن مصروف ہیں۔ ’’را‘‘ کے پے رول پر کام کرنے والے ایجنٹس بھارتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے کے لیے جمنا برج کے منصوبے کو سبوتاژ کر رہے ہیں اور بنگلا دیش میں معدنیات کے ذخائر سے استفادہ کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں‘‘۔
ہفت روزہ ’’بکرم‘‘ کے ۱۹؍اپریل ۱۹۹۳ء کے شمارے میں پروفیسر سید علی احسن نے لکھا: ’’چند افراد ایسے ہیں جو ہر معاملے میں بھارت کی طرف دیکھتے ہیں۔ وہ ملک کو مکمل طور پر بھارت کا دست نگر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ بھارت سے سفارتی ہم آہنگی میں کہیں کوئی خرابی نہیں دیکھتے۔ اُن کے خیال میں بنگلا دیش کے حوالے سے بھارت کا رویّہ بالکل درست ہے، اُس میں کہیں کوئی خامی نہیں پائی جاتی۔ یہ لوگ اُن سرگرمیوں پر کبھی برائے نام بھی احتجاج نہیں کرتے، جو بھارت نے بنگلا دیش کے حوالے سے جاری رکھی ہیں۔ بنگلا دیش کے مفادات پر ضرب لگانے کی کسی بھی بھارتی کوشش یا پالیسی کے خلاف یہ لوگ خفیف سا بھی احتجاج نہیں کرتے۔ اپنے آپ کو جدید سوچ کا حامل ثابت کرنے کے لیے یہ لوگ اسلام کے خلاف بولتے رہنے سے باز نہیں آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بنگلا دیش کو بھارت میں ضم کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے رات دن کوشاں ہیں۔ انتہائی دُکھ کی بات یہ ہے کہ اوّل درجے کے فریب اور غداری پر مبنی اِن سرگرمیوں پر کسی بھی طرح کی پابندی عائد کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی اور اِن لوگوں کو ملک کی آزادی اور نظریاتی اساس کے خلاف کُھل کر اور جی بھر کے بولنے کی پوری آزادی سے نوازا گیا ہے‘‘۔
جو کچھ اِن سُطور میں بیان کیا گیا ہے، اُن پر غور کرنے سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ’’را‘‘ محض خفیہ معلومات جمع کرنے والا ادارہ نہیں بلکہ اِس سے ہٹ کر اور اِس سے آگے کی کوئی چیز ہے۔ ایسے میں اِس بات پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہیے کہ بنگلا دیش کے ہر شعبے میں ’’را‘‘ کے ایجنٹس ٹڈی دل کی طرح سرایت کرگئے ہیں۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
Leave a Reply