
روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے ۷ نومبر ۱۹۹۴ء کو ایک رپورٹ میں بتایا کہ راج شاہی یونیورسٹی میں منعقد کیے جانے والے ایک سیمینار میں ماہرین نے انکشاف کیا تھا کہ بنگلا دیش کو بھارت کے ہاتھوں پانی کی بندش کے باعث ہر سال ماہی گیری کی مد میں کم و بیش چار کروڑ ٹاکا کے نقصان کا سامنا ہے۔ قدرتی وسائل پر کسی بھی ایک ملک یا خطے کا مکمل اختیار تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ فطرت سب کے لیے ہوتی ہے۔ بہت سے دریا کئی ممالک یا خطوں کے درمیان بہتے ہیں۔ ان پر کسی ایک خطے یا ریاست کے حق کو تسلیم کرکے یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ جب جی میں آئے، اُس کے بہاؤ پر قدغن لگائے۔ دریائے گنگا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ بنگلا دیش چونکہ نیچے کی طرف واقع ہے، اِس لیے دریائے گنگا کے حوالے سے اس کا یہ حق بین الاقوامی معاہدوں کے تحت تسلیم شدہ ہے کہ بھارت دریائے گنگا کے بہاؤ کو روک کر بنگلا دیش کو پانی سے محروم نہیں رکھ سکتا۔ دنیا کا ایک چوتھائی دریاؤں کے ملاپ کے مقامات پر واقع ہے۔ دنیا کے ۱۹ بڑے دریاؤں میں سے ۱۵؍ایسے ہیں جو ایک سے زائد ممالک میں بہتے ہیں اور ان دریاؤں پر ان تمام ممالک کا حق تسلیم کرتے ہی بنے گی، جن کی حدود میں وہ بہتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی ایک دستاویز کے مطابق دنیا بھر میں ۲۰۰ سے زائد دریا ایسے ہیں، جن پر کئی ممالک کا حق تسلیم شدہ ہے اور وہ ان دریاؤں کا پانی معاہدوں کے تحت آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ ۲۰ دسمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں روزنامہ ’’جن کنٹھا‘‘ نے بتایا کہ دنیا بھر میں ۱۴۸؍دریا ایسے ہیں جو دو ممالک کے درمیان بہتے ہیں۔ ۳۱ دریا تین ممالک کے درمیان بہتے ہیں اور ۲۱ دریا ایسے ہیں جو چار یا اس سے زائد ممالک یا ریاستوں کے درمیان بہتے ہیں۔ ایک سے زائد ممالک کے درمیان بہنے والے دریاؤں کا پانی تقسیم کرنے کے لیے اِس وقت دنیا بھر میں ۲۰۰ سے زائد معاہدے رو بہ عمل ہیں۔ ایسی حالت میں بھارت دریائے گنگا سمیت ۵۴ مشترکہ دریاؤں کے پانی سے بنگلا دیش کو محروم نہیں رکھ سکتا۔ مشترکہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق ’’ہیلسنکی کنونشن‘‘ کی آٹھویں شِق کہتی ہے کہ کوئی بھی ملک کسی بھی ملک کو مشترکہ دریا کے پانی سے اپنا حصہ وصول کرنے سے نہیں روک سکتا۔ مشترکہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق ۱۹۱۱ء کے بین الاقوامی معاہدے، ۱۹۲۱ء کے بارسلونا معاہدے، ۱۹۶۶ء کے ہیلسنکی رولز اور افرو ایشیائی ممالک کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم سے متعلق معاہدے پر جامع عمل کیا جائے تو بنگلا دیش کو دریائی پانی کے حصول میں روڑے اٹکانے کی کوئی بھی بھارتی کوشش برداشت نہیں کی جاسکتی۔ حال ہی میں جنوب مشرقی ایشیا کی چار ریاستوں نے دریائے میکانگ کے پانی کو آپس میں منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ نیل، امیزون، رائن، ڈینیوب، کانگو، زمبیسی، چاڈ اور سندھ سمیت بہت سے مشترکہ دریاؤں کا پانی معاہدوں کے تحت کئی ممالک آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ مشترکہ دریاؤں کی صورت میں نیچے کی طرف واقع کسی بھی ملک کو اس کے حصے کے پانی سے محروم نہیں رکھا جاتا۔ بین الاقوامی معاہدوں کی رُو سے تمام ممالک برابر ہیں۔ آبادی، رقبے اور معیشت کے حجم کے علی الرغم تمام ریاستیں معاہدوں کے تحت مساوی حیثیت رکھتی ہیں۔ کسی بھی دریا کی اترائی میں واقع ملک کو پانی کے حصول کا پورا حق حاصل ہے۔ دنیا بھر میں مشترکہ دریاؤں کا پانی عمدگی سے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ کوئی بھی ملک محروم نہ رہے۔ مگر بھارت اس معاملے میں ایک نمایاں استثنیٰ کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ بنگلا دیش کو اس کے حصے کا پانی دینے سے ہمیشہ انکار کرتا آیا ہے۔
عام طور پر دریائے گنگا پر بھارت کا غیر معمولی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ دریائے گنگا کا منبع ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں تبت میں واقع ہے۔ اگر اس دریا پر چین اپنا حق تسلیم کرے تو پھر بھارت کو اس کے پانی سے کچھ بھی نہ لینے دے یا بڑا حصہ روک لے۔ ایسے میں بھارت کو بھی دریائے گنگا کا پانی بنگلا دیش میں جانے سے روکنے کا کوئی حق نہیں۔ بھارت نے فرخا بیراج تعمیر کرکے بنگلا دیش کو جو نقصان پہنچایا ہے، وہ جاپان پر امریکا کی طرف سے دوسری جنگ عظیم میں گرائے جانے والے ایٹم بموں سے ہونے والے مجموعی نقصان سے زیادہ ہے۔ فرخا بیراج کی تعمیر سے بنگلا دیش میں ہر سال کروڑوں افراد کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پانی کی کمی سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں بنگلا دیش کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کیفیت پورے بنگلا دیشی معاشرے اور معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
بھارت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ وہ بنگلا دیش کو دریائی پانی میں اس کا حصہ نہیں دے رہا۔ وہ دیگر امور کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر کسی بین الاقوامی ادارے میں بنگلا دیش نے اپنا کیس پیش کردیا تو دفاع مشکل ہوجائے گا کیونکہ قصور بھارتی پالیسی کا نکل آئے گا۔ پھر بھی وہ بنگلا دیش کے عوام کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ فرخا بیراج کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کرلیں۔ اس حوالے سے بھارت کا خفیہ ادارہ ’’را‘‘ اپنے ایجنٹس سے مدد لے رہا ہے۔ بنگلا دیش میں ایک طبقہ ایسا ہے جو بھارت سے اپنے حقوق طلب کرنے کے حوالے سے غلامانہ ذہنیت کا حامل ہے۔ اس طبقے کا استدلال یہ ہے کہ بھارت چونکہ بہت بڑا ملک ہے، اِس لیے اس کے سامنے کچھ کہنا خطرناک ہے اور یہ کہ ایسا کرنے سے زیادہ نقصان بنگلادیش ہی کو پہنچے گا۔ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ آبی تقسیم کے معاملے میں گڑبڑ سے بنگلا دیش کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ اس قدر ہے کہ کسی بھی بین الاقوامی فورم میں بنگلا دیش کی طرف سے پیش کیے جانے والے استغاثے کا سامنا ڈھنگ سے نہیں کیا جاسکتا۔
بھارتی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ بنگلا دیش سے سخت ناانصافی کی جارہی ہے اور یہ کہ اگر وہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کے خلاف کچھ کرنے پر آیا تو اسے زیادہ فائدہ پہنچے گا، مگر پھر بھی بنگلا دیش کو اس کے حصے کا پانی نہیں دیا جارہا۔ ایسے میں بھارتی قیادت نے حق دار کو حق دینے کے بجائے کوٹلیہ (چانکیہ) کی سجھائی ہوئی پالیسی اپنائی ہے۔ بھارت کے خفیہ ادارے نے بنگلا دیش میں ایسے لکھنے والوں کو اپنے ایجنٹس کی حیثیت سے استعمال کیا ہے، جو بنگلا دیش کے عوام کو یہ بات سمجھاتے ہیں کہ بھارت سے ٹکرانا مناسب نہیں، اس میں نقصان بنگلا دیش ہی کو پہنچے گا۔ ’’را‘‘ کے فراہم کردہ غلط اعداد و شمار کی مدد سے بہت سے سیاست دان اور لکھاری رات دن اپنے عوام کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ بھارت بہت بڑا ملک ہے جس کے مقابلے میں بنگلا دیشی معیشت کچھ بھی نہیں۔ یعنی یہ کہ بھارت کی طرف سے آبی پانی کی تقسیم جس طور بھی کی جائے اور بھارت جو کچھ بھی دے، وہ خوش دِلی سے قبول کرلینا چاہیے۔ یہ لوگ انتہائی بے شرمی سے اہلِ بنگلا دیش کو بتاتے ہیں کہ بھارت سے کسی بھی معاملے میں لڑنے یا ٹکرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
’’را‘‘ کے کہنے پر اس کے ایجنٹس فرخا بیراج کے معاملے کو ٹرانزٹ روٹ سے جوڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں معاملات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ بھارت نواز لکھاری اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ بھارت سے اگر پانی چاہیے تو اسے ٹرانزٹ روٹ دیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ دونوں معاملات کا براہِ راست کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود بنگلا دیشی عوام معاملات کو قبول کرنے پر مجبور ہیں۔
بھارت نے دریائی پانی کی تقسیم کے معاملے پر بنگلا دیش کو کنٹرول میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور بیشتر مواقع پر وہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ بنگلا دیش میں سیاسی عدم استحکام کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے ہمیشہ چاہا ہے کہ اپنی مرضی کی حکومت قائم کرائے اور اگر وہ کبھی ایسا کرنے میں کامیاب نہیں بھی ہو پاتا تو دوسرے ہتھکنڈے اپناکر معاملات کو اپنے حق میں کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ فرخا بیراج کے ہاتھوں بنگلادیشی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے جب سابق صدر جنرل ضیاء الرحمن نے آواز اٹھائی اور بنگلا دیش کو اس کا حق دلانے کی کوشش کی تو بھارت نے انہیں قتل کرادیا۔
بھارت نے اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مرکزی خفیہ ادارے کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ فرخا بیراج جیسے خالص تکنیکی معاملے میں بھی ’’را‘‘ سے بھرپور کام لے کر بنگلا دیش کو سَر جھکاکر جینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ بھارتی پالیسی میکرز چاہتے ہیں کہ بنگلا دیش اور نیپال جیسے پڑوسیوں کو ہر حال میں بالکل دبوچ کر رکھا جائے تاکہ اس کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ مل سکے۔ بھارتی قیادت ایک چھوٹی اور کمزور ریاست کو مزید کمزور کرنے کے درپے رہی ہے۔ بنگلا دیش کو کبھی اس قابل نہیں ہونے دیا گیا کہ وہ نئی دہلی کے ہتھکنڈوں کے آگے ڈٹ کر کوئی بات کرسکے۔
بنگلا دیش کے تمام محبِّ وطن لوگوں کا فرض ہے کہ وہ بھارت کے ہتھکنڈوں سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے اپنا ذہن بنائیں اور بھارتی خفیہ ادارے کے ایجنٹس کی حیثیت سے کام کرنے والے کسی بھی سیاست دان، لکھاری یا سماجی رہنما کی باتوں میں نہ آئیں۔ بھارت نے بنگلا دیش کو اس کا حق دینے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ اس معاملے میں بہت حد تک قصور خود بنگلا دیشیوں کا بھی ہے۔ اگر وہ بھارت کی طرف سے روا رکھی جانے والی ہر ناانصافی کے سامنے ڈٹ جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں ان کا ہر حق نہ ملے۔ بنگلا دیشی قیادت اپنا کوئی بھی جائز کیس عالمی برادری کے سامنے رکھنے سے گریز کرتی آئی ہے۔ ایسا کرنے کی پشت پر بنیادی محرک ’’را‘‘ کے پے رول پر کام کرنے والے دانشور اور سیاست دان ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر کام نکلواتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قوم کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے اسے غلامی کی راہ پر گامزن رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
بھارت کی سرزمین سے ۵۴ دریا بنگلا دیش میں داخل ہوتے ہیں۔ ان دریاؤں کے پانی پر بھارت کے ساتھ ساتھ بنگلا دیش کا بھی حق ہے مگر بھارت محلِ وقوع کی مناسبت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان دریاؤں سے بنگلا دیش کو اس کے حصے کا پانی نہیں دیتا۔ اس حوالے سے وہ تمام بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ فرخا بیراج سمیت بھارت نے ۴۴ ڈیم اور بیراج بنائے ہیں جن کی مدد سے دریاؤں کا پانی روک کر بنگلا دیش کو محروم رکھا جاتا ہے۔ بھارت مجموعی طور پر ۲۰ دریاؤں کا پانی کنٹرول کر رہا ہے۔ ۱۷؍دریاؤں پر بھارت نے ۱۸؍مقامات پر نہریں بھی تعمیر کی ہیں تاکہ بنگلا دیش کو اس کے حصے کا پانی نہ مل سکے اور زیادہ سے زیادہ پانی بھارتی معیشت کے کام آئے۔ یہ سب کچھ بنگلا دیش کو غیر معمولی حد تک نقصان پہنچا رہا ہے مگر کوئی بھی بین الاقوامی فورم ایسا نہیں جو بھارت کے خلاف کوئی کارروائی کرے یا اسے آبی تقسیم کے معاہدوں کی خلاف ورزی پر سرزنش ہی کرے۔ جن دریاؤں پر بھارت نے بند اور بیراج باندھے ہیں، ان میں گنگا، ٹسٹا، برہم پتر، اچاموتی، کالینی، سرما، کشیارا، کھوائی، منو، موہوری، فینی، چری، چینگی، گرموتی، پنر ووبا، مہانندا، سنکوش، پیانگ، نائل، کومول، دھولائی، دُدھکمار، سلونگی، کھیروآ، گھورا مارا اور کاٹاچارا شامل ہیں۔ اس کے نتیجے میں بنگلا دیش کے جن اضلاع کو کاشت کاری اور ماہی پروری کے حوالے سے شدید نقصان کا سامنا ہے، اُن میں سلہٹ، مولوی بازار، ہوبی گنج، کومیلا، فینی، کھاگراچاری، کشتیا، مہر پور، جیسور، ستکھیرا، راجشاہی، نوگاؤں، دیناج پور، پنچا گڑھ، لال مونیر ہاٹ اور نیٹروکونا شامل ہیں۔ یکم فروری ۱۹۹۵ء میں یہ معلومات فراہم کرتے ہوئے روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے لکھا کہ بھارت کے ہاتھوں ان تمام اضلاع کی کاشت کاری، ماہی پروری، ماحول اور معیشت کو شدید نقصانات کا سامنا ہے۔
معاملات یہیں پر رُکے ہوئے نہیں۔ بھارت مزید ڈیم اور بیراج بھی تعمیر کرنے کے موڈ میں ہے۔ آسام میں دریائے بوراک پر بھارت ۱۶۴؍فٹ اونچا ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہے جو ۱۴؍سال میں مکمل ہوگا۔ بنگلا دیش میں داخل ہونے سے قبل یہ دریا دو شاخوں میں بٹ جاتا ہے، جنہیں سرما اور کشیارا کہا جاتا ہے۔
دریائے بوراک پر ڈیم کی تعمیر سے بنگلا دیش کے شمال مشرق کی معیشت شدید متاثر ہوگی اور بالخصوص سلہٹ، نیٹروکونا اور کومیلا کو بہت نقصان پہنچے گا۔ ان اضلاع کو دریائے منو، کھوائی اور دھولائی میں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دریائے منو بنگلا دیش میں گوبند پور کے مقام پر داخل ہوتا ہے۔ ۱۷۶؍کلو میٹر طویل یہ دریا بنگلا دیش میں داخل ہونے کے بعد کم و بیش ۸۵ کلو میٹر کے سفر کے بعد دریائے کشیارا میں مل جاتا ہے۔ بھارت نے تری پورہ میں کنچن باری کے نزدیک دریائے منو پر بیراج تعمیر کر رکھا ہے۔ ۹۵ میٹر لمبے اس بیراج کی تعمیر سے بھارت بنگلا دیش کے حصے کا پانی روکنے میں کامیاب رہا ہے جس کے نتیجے میں بنگلا دیش میں ۳۰ ہزار ایکڑ اراضی بنجر ہوچکی ہے۔ اس بیراج کی تعمیر سے بنگلا دیش میں کئی مقامات پر ڈیلٹا نمودار ہوئے ہیں۔ ماحول، نقل و حمل اور ماہی گیری کو شدید نقصان پہنچا ہے یعنی اس صورتحال نے لاکھوں بنگلا دیشیوں کے لیے معاشی مشکلات پیدا کی ہیں۔ تری پورہ کے مذکورہ بیراج کی تعمیر سے بنگلا دیش میں دریائے کھوائی اور دریائے دھولائی میں بھی پانی کا بہاؤ اس قدر گھٹ گیا ہے کہ اب ان میں سے بھاری گاڑیاں بھی گزر سکتی ہیں۔ اس بیراج کی تعمیر سے بنگلا دیش ایک لاکھ تیس ہزار ایکڑ زرخیز زمین سے مستفید نہیں ہو پارہا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply