
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے بنگلا دیش کو سیاسی اور معاشی اعتبار سے ہمیشہ دباؤ میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے، اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے مگر اِتنا کرنے کو کافی نہ سمجھتے ہوئے بھارتی قیادت نے بنگلا دیش کے حصے بخرے کرنے کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا۔ بھارتی قیادت کی ایما پر اس کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے بنگلا دیش میں علیحدگی پسند تحریکوں کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بنگلا دیش میں نراجیت پھیلانے کی غرض سے ’’را‘‘ نے علیحدگی پسند عناصر کو تربیت بھی دی ہے اور مالیاتی وسائل بھی فراہم کیے ہیں۔ بھارتی قیادت کی ایما پر بنگلا دیش میں ایک الگ وطن کے قیام کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں میں شانتی باہنی بھی شامل ہے۔ یہ علیحدگی پسند تحریک چاٹگام کے پہاڑی علاقے میں ایک الگ ریاست قائم کرنے کے درپے ہے۔
تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ ہمیشہ بنگال کا حصہ رہا ہے۔ کسی بھی دور میں اسے بنگال سے الگ نہیں دیکھا گیا۔ جھوم لینڈ کا علاقہ پہلے چاٹگام کا حصہ تھا مگر برطانوی راج کے دوران ۱۹۰۰ء میں اِسے چاٹگام سے الگ کرکے باضابطہ ضلع کا درجہ دیا گیا۔ یعنی ۱۹۰۰ء سے قبل یہ ریاست تو کیا ہونا تھا، باضابطہ ضلع بھی نہ تھا۔ ۱۹۴۷ء میں ہند کی تقسیم کے وقت پنڈت جواہر لعل نہرو اور دیگر ہندو قائدین نے اس علاقے کو بھارت کا حصہ بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تب اس پورے علاقے میں صرف ۱۰؍فیصد ہندو تھے۔ گیارہ قبائل میں سے صرف ٹپرا اور ہیجونگ ہندو قبائل تھے۔ ۱۹۸۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس علاقے میں ٹپرا اب بھی آبادی کا محض ۱۲؍فیصد ہیں جبکہ ہیجونگ کی آبادی تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاریخی، ثقافتی یا مذہبی شواہد نہ ہونے کے باعث چاٹگام کے پہاڑی علاقے کو بھارت میں شامل کرنے کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔
دِلّی سرکار کی نظر اس علاقے پر تادیر رہی۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں بھارتی قیادت نے چاٹگام کے پہاڑی علاقے میں آباد ٹپرا قبیلے کے لوگوں کو الگ ریاست کی تحریک چلانے پر اُکسایا مگر یہ کوشش ناکام رہی۔ یوں پہاڑی علاقے کو پاکستان سے الگ نہ کیا جاسکا۔
۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کے بعد بھارتی قیادت کو یقین ہوگیا کہ ’’را‘‘ کی نگرانی میں سازشوں کے ذریعے بنگلادیش کو مرحلہ وار کئی حصوں میں تقسیم کرنا ممکن ہوگا۔ سِکّم کو بھارت کا حصہ بنانے میں کامیابی حاصل ہونے پر دِلّی سرکار کے حوصلے بلند ہوگئے۔ بھارتی قیادت کو اس بات کا یقین تھا کہ اس کے خفیہ ادارے نے چونکہ بنگلا دیش کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، اس لیے بنگلا دیشی قیادت ہمیشہ اس کی احسان مند رہے گی اور یوں بنگلا دیش کو سِکّم کی طرح ڈکار جانا ممکن ہوگا اور ایسا نہ بھی ہوا تو یہ ملک کم از کم بھوٹان کے درجے پر تو رکھا ہی جاسکے گا۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے سخت رویہ اختیار کیا۔ نئی ریاست اپنی خود مختاری داؤ پر لگانا نہیں چاہتی تھی۔ پاکستان کے خلاف جنگ جیتنے والی بھارتی فوج کو شیخ مجیب الرحمن کے سخت رویے کے باعث جلد بنگلا دیشی سرزمین چھوڑنا پڑی۔ ۱۹۷۴ء میں بنگلا دیش اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا رکن بن گیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ مسلم اُمّہ کے اتحاد میں بنگلا دیش بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ سب کچھ بھارتی قیادت کے لیے انتہائی ناقابلِ قبول تھا۔
۱۹۷۵ء میں شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد ابھرنے والی بنگلا دیشی قیادت نے خود کو مسلم اُمّہ کے زیادہ قریب محسوس کیا اور اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دی۔ مذہب کی بنیاد پر ابھرنے والی قوم پرستی نے آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی راہ ہموار کی۔ اب تک بنگلا دیشی قیادت بھارت کی دست نگر رہی تھی اور بیشتر معاملات میں اس کی مرضی کے مطابق کام کرتی رہی تھی۔ مگر شیخ مجیب الرحمن کے قتل نے معاملات کو یکسر پلٹ کر رکھ دیا۔ بنگلا دیش کے طول و عرض میں اسلامی شناخت کو نمایاں کرنے کی لہر پیدا ہوئی۔ بھارت اب تک بنگلا دیش کو اپنی طفیلی ریاست سمجھ رہا تھا۔ جب بنگلا دیشی قیادت نے آزاد پالیسی اختیار کرنے کی ابتدا کی تو ’’را‘‘ کو بھی انتہائی حیرت ہوئی۔ بھارتی قیادت نے محسوس کرنا شروع کیا کہ اگر بنگلا دیش حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر کام کرنے لگا تو خطہ میں اُس کے عزائم کی راہ میں دیوار کھڑی ہوجائے گی۔ صورتحال کو بھانپتے ہوئے ’’را‘‘ نے بنگلا دیش کے بیشتر معاملات میں مداخلت اور کنٹرول کی راہ ہموار کرنی شروع کی۔
بھارتی قیادت یہ محسوس کر رہی تھی کہ اگر بنگلا دیش کو پنپنے کا موقع دیا گیا اور اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے گئے تو اس کی ترقی اور خوشحالی سے شمال مشرقی بھارت کی ریاستیں (آسام، تری پورہ، منی پور وغیرہ) بھی زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کریں گی۔ شمال مشرقی بھارت کی بیشتر ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں بھی چلائی جارہی ہیں۔ بھارتی قیادت کو یہ خوف بھی لاحق ہوا کہ اگر بنگلا دیش کو آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے پنپنے دیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب شمالی مشرقی بھارت کے علیحدگی پسند بنگلا دیش سے مدد بھی لیں گے اور وہاں اپنے ٹھکانے بھی بناسکیں گے۔ اس کے پیشگی علاج کے طور پر بھارت نے بنگلا دیش کے چکمہ قبائل کو الگ ریاست کے قیام کے لیے اُکسانا شروع کیا۔ قبائلیوں میں چکمہ اکثریت میں تھے، اس لیے بھارت نے پہلے مرحلے میں انہی کو منتخب کیا۔ اصل مقصد بنگلا دیش کے حصے بخرے کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ ’’را‘‘ نے آنجہانی منوبیندرا لارما اور دیگر قبائلی رہنماؤں کی سرپرستی شروع کی، جس کے نتیجے میں جنو سنگتھی سمیتی (جے ایس ایس) کے نام سے ایک علیحدگی پسند گروپ معرضِ وجود میں آگیا۔ اِس کے عسکری ونگ کے طور پر شانتی باہنی کو منظم کیا گیا۔ ’’را‘‘ نے شانتی باہنی کے لیے فنڈنگ بھی کی اور ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام بھی کیا۔ بھارتی ریاست تری پورہ میں اس کو تربیت بھی دی جانے لگی۔ یہ سب کچھ ۱۹۷۲ء میں بھارت اور بنگلا دیش کی قیادت کے درمیان طے پانے والے دوستی کے معاہدے کے یکسر منافی تھا۔ دونوں ممالک نے اس معاہدے کے تحت طے کیا تھا کہ کبھی ایک دوسرے کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے اور ہر حال میں دوستی اور مفاہمت کو پروان چڑھائیں گے۔
ہفتہ روزہ ’’فرائیڈے‘‘ نے ۱۹۸۸ء کی ایک اشاعت میں لکھا کہ بھارت نے دوستی کے معاہدے کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے بنگلا دیش کے مفادات کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی صرف اجازت ہی نہیں دی بلکہ مالی مدد کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور تربیت بھی فراہم کی۔ منوبیندرا لارما نے بھارت جاکر خفیہ اداروں کے افسران سے ملاقات کی اور بنگلا دیش میں خرابی پیدا کرنے کے حوالے سے ٹاسک حاصل کیا، مگر بہت جلد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور جب انہوں نے بنگلادیشی حکومت سے مفاہمت کی بات کی تو بھارت نے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ بنگلا دیشی حکومت سے مفاہمت کی بات شروع ہوتے ہی جنو سنگتھی سمیتی کے عسکری ونگ نے ۱۹۷۶ء میں مسلح بغاوت شروع کردی۔
تب سے اب تک شانتی باہنی چاٹگام کے پہاڑی علاقے میں جھوم لینڈ کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرنے کی تحریک چلا رہی ہے۔ یہ تنظیم سکیورٹی فورسز کے علاقے میں بسے ہوئے غیر مقامی لوگوں کو بھی نشانہ بناتی ہے۔ جو کچھ اس تنظیم نے کیا، وہ سب پر عیاں ہے۔ اس علیحدگی پسند تنظیم کی سرگرمیوں، فنڈنگ، ہتھیار اور تربیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۵ء تک اس کے ہاتھوں پچیس ہزار سے زائد فورسز اہلکار اور عام افراد مارے جاچکے تھے۔ اس تنظیم نے پچاس ہزار سے زائد چکمی قبائلیوں کو بھارت میں جاکر بسنے پر مجبور کردیا ہے۔ وہاں انہیں ’’را‘‘ کے قائم کردہ کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ یہ لوگ بنگلا دیش واپس جانا چاہتے ہیں مگر ’’را‘‘ انہیں ایسا واپس نہیں جانے دے رہی، کیونکہ وہ انہیں بنگلا دیش کے خلاف ایک گندے کھیل میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔ ان کیمپوں کو بھی شانتی باہنی کے لیے بھرتی کیمپس کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
بھارتی خفیہ ادارہ شانتی باہنی میں بھی کئی دھڑے بناکر انہیں آپس میں متصادم رکھے ہوئے ہے تاکہ کوئی حقیقی قیادت ابھر نہ سکے۔ اگر شانتی باہنی میں کوئی مضبوط مرکزی قیادت ابھری تو کل کلاں کو بنگلا دیشی حکومت سے مفاہمت بھی کرسکتی ہے۔ شانتی باہنی کے لیڈر منوبیندرا لارما کو پارٹی ہی میں موجود مخالفین نے ۱۰؍دسمبر ۱۹۸۳ء کو بھارتی ریاست تری پورہ کے امر پور سب ڈویژن کے کلّن پور کیمپ میں ’’را‘‘ کی ایما پر قتل کردیا تھا۔ اطلاعات ملی ہیں کہ جب ’’را‘‘ نے دیکھا کہ منوبیندرا لارما کسی بھی طور اس کے مفادات کو مستحکم کرنے کے قابل نہیں رہے تو بہتر یہی سمجھا گیا کہ ان سے جان چھڑالی جائے۔ منوبیندرا لارما کے قتل میں ’’را‘‘ کا ہاتھ ہونے کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ ان کے قتل میں مبینہ طور پر مرکزی کردار ادا کرنے والے مخالف لیڈر پی کے چکمہ بھارتی ریاست تری پورہ میں ’’را‘‘ کے مہمان کی حیثیت سے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہیں۔
ایم این لارما کے قتل کے بعد ان کے بھائی شانتو لارما نے شانتی باہنی کی قیادت سنبھالی اور بنگلا دیشی حکومت سے بات چیت شروع کی۔ یہ سب کچھ ’’را‘‘ کے لیے یکسر ناقابلِ قبول تھا۔ اس نے شانتی باہنی میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش جاری رکھی۔ اپریل ۱۹۸۷ء میں بھارتی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں چار روزہ ورلڈ چکمہ کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں چکمہ قبائل کی بنگلا دیش سے علیحدگی کی بھرپور حمایت کی گئی اور کئی قراردادیں بھی منظور کی گئیں جن میں چکمہ قبائل کے لوگوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ کانفرنس اس بات کا بَیّن ثبوت ہے کہ بنگلا دیش میں علیحدگی کی تحریکوں کو پروان چڑھانے میں بھارت کا نمایاں کردار ہے۔ چکمہ قبیلے کے بہت سے قائدین بھی بھارت کی بنگلا دیش مخالف سرگرمیوں کی تفصیل بیان کرتے رہے ہیں۔
کھاگراچاری لوکل کونسل کے چیئرمین شمیرون دیوان نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ بھارتی حکومت شانتی باہنی کے ارکان کو خفیہ رقوم، ہتھیار اور تربیت فراہم کر رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چکمہ قبائل کا کوئی حقیقی سیاسی ایجنڈا نہیں۔ اُنہیں بھارتی خفیہ ادارہ اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
۱۳؍سال تک شانتی باہنی کے علاقائی کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے تری دیپ چکمہ نے بنگلا دیشی حکومت سے مذاکرات اور ان کے نتیجے میں ہتھیار ڈالنے کے بعد بتایا کہ بھارتی ریاستوں تری پورہ اور میزورم میں شانتی باہنی کے ۲۵ تربیتی کیمپ کام کر رہے ہیں اور یہ کہ شانتی باہنی کے علیحدگی پسند بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر ڈیرہ دون میں بھی تربیت پاچکے ہیں۔ تری دیپ چکمہ نے مزید بتایا کہ بھارتی خفیہ ادارہ چکمہ قبائل کے لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ نقل مکانی کرکے تری پورہ میں جا بسیں۔ سبرم، شکھی چاری، بوال پاڑہ، کدم ٹولی، دائیک، باڑہ چارا، رالما، تری ماکھا اور رتنا نگر میں چکمہ قبائل کے لیے پناہ گزین کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ’’بنگلا دیش آبزور‘‘ کی ۲ ستمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں تری دیپ چکمہ نے بتایا کہ بھارتی حکومت چکمہ قبائل اور چاٹگام کے پہاڑی علاقے کے بارے میں مستقل بنیاد پر پروپیگنڈا کرتی رہتی ہے تاکہ اِسے ایک بین الاقوامی مسئلہ میں تبدیل کرکے بنگلا دیش کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ نیپال کے پندرہ روزہ جریدے ’’دی اسپاٹ لائٹ‘‘ نے ۲۹؍اپریل ۱۹۸۸ء کی اشاعت میں لکھا کہ بھارتی پالیسی ساز شانتی باہنی کو بنگلا دیش میں تخریبی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شانتی باہنی کے مسلح کارکن تخریب کاری کے بعد بھاگ کر بھارت میں پناہ لیتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ جب بنگلا دیشی فوج نے شانتی باہنی کے مسلح ارکان کا تعاقب کیا تو وہ اسلحے کی بڑی کھیپ راستے ہی میں چھوڑ گئے۔ ان میں مشین گنیں اور بڑی رائفلیں بھی شامل تھی۔
نئی دہلی میں بنگلا دیشی ہائی کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے فاروق سبحان عام طور پر بھارت کے بارے میں نرم لہجے میں بات کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی بھارتی اخبار ’’نیو ایج‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ بنگلا دیش کی حکومت محسوس کرتی ہے کہ شانتی باہنی کو بھارت کے خفیہ ادارے ’’را‘‘ سے بھرپور مدد ملتی ہے۔ بھارت کے پروپیگنڈا ماہرین چکمہ قبائل کے حوالے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ یعنی دنیا کو یہ دکھانا مقصود ہے کہ بنگلا دیشی حکومت اپنے شہریوں پر ظلم ڈھا رہی ہے۔ ظاہر ہے، اس پروپیگنڈے سے عالمی برادری میں بنگلا دیش کی ساکھ خراب ہوتی ہے، اس کے کردار پر انگلیاں اٹھتی ہیں۔ ’’را‘‘ کی مدد سے تیار کی جانے والی ایسی وڈیو بھی امداد دینے والے ممالک کو بھیجی گئی ہیں، جن میں چکمہ قبائل پر بنگلا دیشی سکیورٹی فورسز کے نام نہاد مظالم کی عکاسی کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ بھارت یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت بنگلا دیش کو کسی نہ کسی حیثیت میں کمزور اور غیر مستحکم رکھنا چاہتی ہے۔ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بنگلا دیش کو کمزور کرتے رہنا بھارت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ اگر بنگلا دیش کی معیشت مضبوط ہوگی تو وہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔ چکمہ قبائل کا معاملہ اس لیے زندہ رکھا جارہا ہے کہ اس صورت میں بنگلادیش دباؤ میں رہے گا۔ ایک طرف تو عالمی برادری میں اس کی سُبکی ہوتی رہے گی اور ساتھ ہی ساتھ یہ خوف بھی لاحق رہے گا کہ بھارت کی باتیں ماننے سے انکار کیا جاتا رہا تو وہ کسی نہ کسی مرحلے پر چکمہ قبائل کو الگ ریاست دلوانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان تحریکوں کو کمزور کرنے کے لیے بنگلا دیش میں علیحدگی کی تحریک چلانا ناگزیر ہے۔ اگر بنگلا دیش اپنے اندرونی معاملات کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا تو شمال مشرقی بھارت کی ریاستیں بھی زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کریں گی اور اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہیں گی۔ ’’را‘‘ کا منصوبہ یہ ہے کہ بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ غیر مستحکم رکھا جائے تاکہ وہ کسی بھی مرحلے پر اپنی مرضی کے مطابق جینے کے قابل نہ ہوسکے۔ بنگلا دیشی پالیسیوں کو بھارتی پالیسیوں کا عکس بنانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ بھارتی قیادت بنگلا دیش کو ہر اعتبار سے دستِ نگر اور طفیلی ریاست بناکر رکھنا چاہتی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply