
بھارت کے خفیہ ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بنگلا دیش کو کسی نہ کسی طور منتشر کردیا جائے، اس کے حصے بخرے کر دیے جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسے ہر وقت کسی نہ کسی سُلگتے ہوئے مسئلہ کی تلاش رہتی ہے۔ بنگلا دیش کے عوام کو زبان، ثقافت اور نسل کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا، اس لیے مذہب اور مسلک کے اختلافات کو بنیاد بناکر آگ لگانے کی کوشش کئی بار کی گئی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے مشرقی بنگال سے نقل مکانی کرکے بھارت میں بسنے والے بنگالی ہندوؤں کے لیے ’’بنگہ بھومی‘‘ کا تصور دیا۔ مقصد یہ کہ بھارت میں بسے ہوئے مشرقی بنگال کے ہندوؤں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کی راہ ہموار کی جائے۔ بھارتی خفیہ ادارہ یہ راگ الاپتا رہا ہے کہ بنگلا دیش کی سرزمین پر دریائے پدما، میگھنا اور مدھومتی کے تٹ سے تقریباً پچاس لاکھ ہندو بنگالیوں کو بے دخل کردیا گیا۔ معاشی استحصال اور مذہبی امتیاز کی بنیاد پر یہ لوگ نقل مکانی کرکے بھارت (مغربی بنگال) میں آباد ہوگئے، اس لیے انہیں دوبارہ بسانے کی خاطر بنگلا دیش کا کچھ حصہ ملنا چاہیے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مذہبی بنیاد پر فسادات کے ذریعے ان ہندوؤں کو بنگلا دیش چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بھارتی خفیہ ادارہ چاہتا ہے کہ ان ہندوؤں کے لیے گریٹر جیسور، کھلنا، فرید پور، کشتیا، باریسال اور پٹوا کھلی کو بنگلا دیش سے الگ کرکے ریاست کی شکل دی جائے۔
بنگہ بھومی تحریک کا باضابطہ آغاز ۱۵؍اگست، ۱۹۷۷ء کو ہوا۔ اس کا مرکزی دفتر جنوبی کولکتہ کے رام لعل بازار میں ہے۔ جس تنظیم کے تحت یہ تحریک شروع کی گئی ہے، اسے نکھل بنگلا ناگرک سنگھ (کُل بنگال شہری تنظیم) کا نام دیا گیا ہے۔ اس تنظیم کے صدر سری پارتھا سامنت اور سیکرٹری جنرل کالی داس ویدیا ہیں۔ ۲۵ مارچ ۱۹۸۲ء کو نکھل بنگلا ناگرک سنگھ نے بنگلا دیش کی حدود میں ہندو بنگالیوں کے لیے باضابطہ ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ ’’را‘‘ نے بنگلا لبریشن آرگنائزیشن اور لبریشن ٹائیگر آف بنگال کے نام سے کاغذی تنظیمیں بھی قائم کی ہیں تاکہ بنگلا دیش کو تقسیم کرنے کے لیے آواز اٹھانے والوں کی کمی نہ رہے۔
بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ غیر مستحکم کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے کے حوالے سے ’’را‘‘ کے مزید ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے سے قبل ضروری ہے کہ بھارت میں بسے ہوئے مشرقی بنگال کے ہندوؤں کی طرف سے الگ وطن کے قیام کے مطالبے کی بنیاد کو سمجھا جائے۔ اگست ۱۹۴۷ء میں جب انگریزوں نے بوریا بستر لپیٹا اور بھارت کو آزادی دی تو ہندوؤں اور مسلمانوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو بھارت میں بسے رہیں یا پھر پاکستان کا حصہ بنیں۔ مشرقی بنگال تب مشرقی پاکستان تھا۔ وہاں بسے ہوئے ہندوؤں کو بھی بھارت میں آباد ہونے کی آزادی دی گئی۔ بہت سے ہندوؤں نے نقل مکانی کی اور مغربی بنگال یا ملک کے دوسرے حصوں میں آباد ہوگئے۔ لاکھوں بنگالی ہندوؤں نے مشرقی پاکستان میں رہنا قبول کیا۔ اس حوالے سے کسی پر کوئی جبر نہیں کیا گیا۔ اسی طور لاکھوں بھارتی مسلمانوں نے اپنے آبائی علاقے اور املاک وغیرہ چھوڑ کر نوزائیدہ پاکستان میں آباد ہونا گوارا کیا۔ یہ سب کچھ حتمی نوعیت کا تھا۔ یعنی جو لوگ جہاں جاکر آباد ہوئے، وہاں سے ان کا واپس جانا یا آنا ممکن نہیں۔ مثلاً ۱۹۴۷ء میں یا اس کے بعد، چند برسوں کے دوران جن بھارتی مسلمانوں نے پاکستان کو اپنایا، اس سرزمین پر آباد ہوئے، انہیں اب بھارت واپس قبول نہیں کرے گا۔ اسی طور بنگلا دیش کے قیام کے بعد جن لوگوں نے، بظاہر کسی دباؤ کے بغیر، اپنی خوشی سے بھارتی سرزمین پر یعنی مغربی بنگال میں آباد ہونا گوارا کیا، وہ اب بنگلا دیش کا حصہ نہیں بن سکتے اور بنگلا دیش میں اپنے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ مشرقی بنگال یعنی مشرقی پاکستان میں بسے ہوئے ہندوؤں کو ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۷ء تک کوئی بھی شکایت نہ تھی۔ ان تین عشروں کے دوران انہوں نے کبھی استحصال کا رونا نہ رویا۔ ان کی زبان پر کبھی الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ نہ آیا۔ پھر اب ایسی کیا بات ہوگئی ہے کہ وہ بنگلا دیش کی حدود میں اپنے لیے ایک الگ ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ بنگلا دیش کی حدود میں آباد اور وہاں سے نقل مکانی کر جانے والے ہندوؤں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ دراصل بنگلا دیش کے سینے میں خنجر گھونپنے جیسا عمل ہے۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بھارت کا خفیہ ادارہ جو کچھ کر رہا ہے، اس کی بنیاد پر بنگلا دیشی حکومت کسی بھی فورم پر آواز اٹھانے کا حق رکھتی ہے۔
بھارتی خفیہ ادارے کی ایما پر شروع کی جانے والی علیحدگی کی تحریک نے بنگلا دیش سے ہندو ریاست کے قیام کے نام پر جن علاقوں کا مطالبہ کیا ہے، ان کا مجموعی رقبہ ۲۰ ہزار مربع میل ہے جو بنگلا دیش کے رقبے ۵۷ ہزار مربع میل کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ اگر اس مطالبہ کو تسلیم کرلیا جاتا ہے یا بنگلا دیشی حکومت کو یہ مطالبہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے تو پھر بنگلا دیش کے پاس کیا رہ جائے گا۔ شمال میں بنگلا دیش کی سرحد دریائے پدما اور مشرق میں دریائے میگھنا ہے۔ جنوب مغرب اور جنوب مشرق میں بنگلا دیش کی سرحد خلیج بنگال ہے۔ بنگہ بھومی کے لیے ’’سامنت نگر‘‘ کو دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس نام کے کسی شہر کا وجود نہیں اور کچھ اندازہ نہیں کہ مجوزہ ریاست میں یہ کہاں واقع ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ مجوزہ بنگہ بھومی کا علامتی دارالحکومت کولکتہ کے ’’بھابنی نگر‘‘ میں واقع سنی وِلا میں ہے۔ سنی وِلا بھارتی خفیہ ادارے کے بدنام زمانہ ایجنٹ چتا رنجن سُتھار کا ہے۔ سنی وِلا نے پاکستان کو دولخت کرنے اور بنگلا دیش کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ عمارت ایک بار پھر سرگرم ہے اور اس بار یہ بنگلا دیش کے حصے بخرے کرنے کے درپے ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ بنگلا دیش نے بھارت کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اس کی ہر بات ماننے سے انکار کردیا ہے اور اب بھارتی حکومت بنگلا دیش کو سبق سکھانے پر تُلی ہوئی ہے۔
مجوزہ بنگہ بھومی کے پرچم میں ایک تہائی حصہ سبز اور دو تہائی زعفرانی رنگ کا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس معاملے میں ہندو انتہا پسند ذہنیت کس حد تک کار فرما ہے۔ مجوزہ قومی ترانہ دیجیندر رائے کا لکھا ہوا ہے، جس میں مجوزہ بنگہ بھومی کو پھولوں اور فصلوں سے بھری سرسبز سرزمین قرار دیا گیا ہے۔ مجوزہ ہندو ریاست کا قومی نشان زعفرانی رنگ کے دائرے میں لکھے ہوئے لفظ ’’سری‘‘ پر مشتمل ہے۔ جے ہند کی طرز پر ’’جوئے بنگہ‘‘ کا نعرہ بھی خلق کیا گیا ہے۔
کوئی بھی علیحدگی پسند تحریک ہتھیاروں کے بغیر چلائی نہیں جاسکتی۔ بنگہ بھومی کے لیے بنگہ سینا کے نام سے عسکریت پسند گروپ کھڑا کیا گیا ہے۔ اس عسکریت پسند گروپ کے قیام کا مقصد خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ بنگلا دیشی حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ بنگہ سینا کا کمانڈر کالی داس ویدیا ہے جبکہ مرکزی ٹرینر اور آرگنائزر ارون گھوش ہے۔ بنگہ سینا میں بھرتی ہونے کا معیار صرف ایک ہے، یہ کہ متعلقہ نوجوان مشرقی بنگال میں رہائش رکھتا ہو یا وہاں پیدا ہوا ہو۔ کولکتہ کے اخبار ’’آنند بازار پتریکا‘‘ نے لکھا ہے کہ اس گروپ میں شامل ہونے والے بیشتر نوجوان سیاسی شعور سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ ۱۳؍ستمبر ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں اخبار لکھتا ہے کہ بنگہ سینا کے بیشتر ارکان نیم خواندہ، انتہائی جذباتی اور سوچ کے اعتبار سے مذہبی انتہا پسند ہیں۔
یہ بات تو محض دنیا کو دکھانے کے لیے ہے کہ بنگہ سینا میں مشرق بنگال سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے خفیہ ادارے نے اس بات کا پورا اہتمام کیا ہے کہ یہ گروپ تمام مقاصد حاصل کرے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مذہبی انتہا پسند اور کولکتہ کے بہت سے غنڈے بھی اس کی صفوں میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ سب لوگ ’’را‘‘ کے پے رول پر ہیں۔ انہیں بھرتی کرنے کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ یہ بنگلا دیش کی سرزمین پر کسی بھی سرگرمی سے نہ ہچکچائیں اور جو کچھ کہا جائے، وہ کریں۔ اس عسکریت پسند گروپ کے کرتا دھرتا کئی بار بنگلا دیش میں داخل ہوکر کچھ بھی کر گزرنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ بنگلا دیشی پولیس نے کئی بار خفیہ ٹھکانوں پر چھاپے مار کر بنگہ بھومی کے مجوزہ پرچم اور مطبوعہ مواد کو ضبط کیا ہے۔ بنگلا دیش کی سرزمین پر مجوزہ بنگہ بھومی کے پرچم لہرانے کے واقعات بھی ہوچکے ہیں۔ ضلع جیسور میں تین مقامات پر ’’را‘‘ کے ایجنٹ بنگہ بھومی کے پرچم لہراچکے ہیں۔ یہ عسکریت پسند گروپ بھارتی خفیہ ادارے کی ایما پر بنگلا دیش کو غیر مستحکم کرنے کی روش پر گامزن ہے اور اس سلسلے میں اسے مطلوبہ مالیاتی وسائل، ہتھیار اور تربیت، سبھی کچھ میسر ہے۔ بنگہ بھومی کے رہنماؤں نے ۲۳ مارچ ۱۹۸۵ء کو مجوزہ بنگہ بھومی کے علاقوں کے ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران کو خط لکھ کر ان سے کہا کہ وہ بنگلا دیش سے ترکِ تعلق کرکے اپنی وفاداری بنگہ بھومی کے نام کردیں۔ یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انہیں ان کے اہل خانہ سمیت قتل کردیا جائے گا۔
’’را‘‘ نے محض دھمکیاں دینے پر اکتفا نہیں کیا۔ بنگہ بھومی کا معاملہ اٹھانے اور بین الاقوامی میڈیا کی بھرپور توجہ پانے کے لیے ۱۱؍اپریل ۱۹۹۴ء کو کولکتہ میں تعینات بنگلا دیشی ڈپٹی ہائی کمشنر پر حملہ بھی کرایا گیا۔ بھارتی خفیہ ادارے نے برملا کہا کہ بنگلا دیشی ڈپٹی ہائی کمشنر کے دفتر پر قبضہ کرنا بنگہ بھومی کے کارکنوں کا حق ہے۔ پولیس کی موجودگی میں اس عمارت پر حملہ کیا گیا اور بنگہ بھومی کے کارکنوں نے عمارت کی چھت پر بنگہ بھومی کا پرچم بھی لہرایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگہ بھومی کے مسئلہ کو زندہ رکھنے میں بھارت ریاستی سطح پر کس حد تک سرگرم اور پرجوش ہے۔ نئی دہلی میں بنگلادیشی ہائی کمیشن بھی ’’را‘‘ کے نشانے پر رہا ہے۔ ۱۵؍اگست ۱۹۸۴ء کو نئی دہلی میں بنگلادیشی ہائی کمیشن کی عمارت پر بھی اسی نوعیت کا حملہ کرایا گیا تھا۔ مقصود صرف یہ تھا کہ بنگہ بھومی کو بین الاقوامی میڈیا میں بھرپور کوریج دلائی جائے۔
بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیش کی حدود میں بھی ایسے واقعات کی راہ ہموار کرتا ہے، جن کی مدد سے بنگہ بھومی کا مسئلہ اٹھایا جاتا رہے اور بین الاقوامی میڈیا میں اس حوالے سے خبریں آتی رہیں۔ اس حوالے سے غیر ملکی میڈیا کو گمراہ کیا جاتا رہا ہے۔ اب بھی بہت سی ایسی خبریں فیڈ کی جاتی ہیں جن میں برائے نام بھی صداقت نہیں ہوتی اور اگر کوئی ان خبروں کو چیلنج کرے تو اسے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
جب سے بنگلا دیش قائم ہوا ہے، بھارتی خفیہ ادارے کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ یہ ملک کسی بھی شعبے میں استحکام کی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ بنگلا دیش کے حصے کا پانی روک کر بھارت اس ملک میں زراعت اور ماہی گیری کے شعبوں کو خطرناک حد تک کمزور کرچکا ہے۔ اب دہشت گردی کا بازار گرم کرکے بنگلا دیشیوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بھارت سے دب کر رہیں اور اپنے جائز مطالبات کے لیے بھی آواز بلند نہ کریں۔ ’’را‘‘ نے بنگلا دیش کی سرزمین پر کئی پریشر گروپ پال رکھے ہیں تاکہ کسی بھی طرح کی صورتحال میں بنگلا دیشی حکومت پر دباؤ برقرار رکھنا ممکن ہو۔ اس حوالے سے بنگلا دیشی حکومت کو بھی کوئی ایسی جامع پالیسی اختیار کرنی چاہیے جس کی مدد سے بھارت کو اس بات کا پابند کیا جاسکے کہ وہ اپنے خفیہ ادارے کو کنٹرول کرے اور بنگلا دیش میں خرابیاں پیدا کرنے سے باز رکھے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply