
بنگلا دیش کے خلاف ’’را‘‘ نے کبھی سکون سے بیٹھنا، چین کا سانس لینا گوارا نہیں کیا۔ بنگلا دیش کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے ’’را‘‘ کی سرگرمیاں ہر دور میں جاری رہی ہیں۔ بھارتی قیادت کا وتیرہ رہا ہے کہ بنگلا دیش کو ہر ایشو پر زیادہ سے زیادہ ڈرایا، دھمکایا جائے اور خوفزدہ کرکے دباؤ میں رکھا جائے۔ بنگلا دیش کو مطیع و فرماں بردار بناکر رکھنا بھارتی قیادت کا بنیادی مقصد رہا ہے اور اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے ’’را‘‘ کو پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’را‘‘ کے ماہرین بنگلا دیش کے خلاف سازشیں تیار کرتے ہی رہتے ہیں۔
بھارتی خفیہ ادارہ بنگلا دیش کی سرزمین پر پیدا ہونے اور پنپنے والی بہت سی تنظیموں کی سرپرستی کرتا ہے، جو بنگلا دیش کو سیاسی، معاشی، ثقافتی، اخلاقی اور مذہبی اعتبار سے کمزور تر کرنے کے درپے ہیں۔ بعض دہشت گرد گروپ بھی ’’را‘‘ کے پے رول پر ہیں۔ بھارت میں بہت سی تنظیموں کو پروان چڑھایا جاتا رہا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کے لیے بروئے کار لایا جاسکے۔ ان میں بنگا بھومی موومنٹ، بنگلا دیش اُد وستو کلیان پریشد (بنگلا دیش ریفیوجی ویلفیئر آرگنائزیشن) اور بنگلا دیش مہاجر سنگھ نمایاں ہیں۔
’بنگا بھومی موومنٹ‘ بنگلا دیش کے ہندوؤں کے لیے گریٹر فرید پور، کشتیا، جیسور، کھلنا، بریسال اور پٹوا کھلی کے اضلاع پر مشتمل ہندو ریاست کا قیام چاہتی ہے۔ یہ تنظیم اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے مسلح جدوجہد کی دھمکی بھی دے رہی ہے۔
دوسری تنظیم ان ہندوؤں پر مشتمل ہے جو ۱۹۴۷ء میں بھارت کی تقسیم اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے وقت اپنی مرضی سے بھارت چلے گئے تھے۔ اور بھارت جانے سے قبل انہوں نے اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ املاک فروخت کردی تھیں۔ اب یہ ہندو دعوٰی کر رہے ہیں کہ انہیں اس وقت کے مشرقی پاکستان سے بزور نکالا گیا تھا۔ یہ لوگ بنگلا دیش واپس جانا چاہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ اپنی تمام املاک کی واپسی بھی چاہتے ہیں۔
تیسری تنظیم ’بنگلادیش مہاجر سنگھ‘ ہے، جو بنگلا دیش کے مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ بنگلادیشی مسلمان حالات کے شدید دباؤ کے تحت بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے اور اب دوبارہ اپنی سرزمین پر آباد ہونا چاہتے ہیں۔ یہ تنظیم دراصل بھارتیوں کے لیے ایک اہم آلہ کار ہے جس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو غیر قانونی طور پر بنگلا دیش میں سکونت اختیار کرنے کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ایجنٹ بھی داخل کرنا مقصود ہے۔
بنگلادیش مہاجر سنگھ رسمی طور پر ۱۲ فروری ۱۹۹۱ء کو کلکتہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے ذریعے شروع کی گئی تھی۔ ڈرامائی طور پر ابھر کر سامنے آنے والی اس تنظیم کو بھارت میں اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی نے غیر معمولی کوریج دی۔ سرکاری ٹی وی نے بھی بنگلا دیش مہاجر سنگھ کو بہتر کوریج سے نوازا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس تنظیم کے بانی کس کی سرپرستی میں منظر عام پر آئے ہوں گے۔
بنگلا دیش مہاجر سنگھ کا اعلانیہ آل انڈیا ریڈیو نے براڈ کاسٹ اور دور درشن نے ٹیلی کاسٹ کیا۔ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ یہ تنظیم ان بنگلا دیشی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو حالات کے دباؤ کے تحت غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوئے تھے۔ اور اب ورلڈ ہیومن رائٹس کمیشن سے اپیل کی جاتی ہے کہ انہیں دوبارہ بنگلا دیشی سرزمین پر آباد کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ (ماہنامہ ’’کلام‘‘، فروری، ۱۹۹۲ء)
اب اہم سوال یہ ہے کہ یہ کس طور ممکن تھا کہ بنگلا دیش سے ہزاروں مسلمان غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرکے بھارت میں داخل ہی نہ ہوں بلکہ محفوظ رہتے ہوئے پُرسکون زندگی بھی بسر کریں؟ بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس کی رضامندی کے بغیر تو ایسا ممکن ہی نہ تھا۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ بھارت کے ہندوؤں نے انہیں کس طور اتنی طویل مدت تک اپنی سرزمین پر نہ صرف یہ کہ گرفتار نہیں کیا بلکہ بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ اور اب یہ ہزاروں مبینہ بنگلا دیشی اچانک کہیں سے نمودار ہوئے ہیں اور بنگلا دیش میں دوبارہ سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ بنگلا دیش مہاجر سنگھ کا صدر رئیس الدین احمد نامی رکشہ ڈرائیور ہے۔ بنگلادیش مخالف سرگرمیوں میں اس کا معاون چت رنجن سُتھار ہے۔
بنگلا دیش مہاجر سنگھ کا اچانک ابھر کر سامنے آنا بہت سوں کے لیے حیرت کا باعث بنا ہے۔ بھارت ہی کے ایک ماہنامے ’’کلام‘‘ نے بنگلا دیش مہاجر سنگھ کی پراسرار سرگرمیوں پر متوجہ ہوکر اپنے طور پر کچھ کھوج لگانے کی کوشش کی۔ بنگلادیش مہاجر سنگھ اور اُد وستو کلیان پریشد کے بارے میں فروری ۱۹۹۱ء کے شمارے میں ۱۴ صفحات پر مشتمل جامع تفتیشی رپورٹ شائع کی، جس میں ان دونوں تنظیموں کے اغراض و مقاصد پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس شمارے میں رئیس الدین احمد کے دو خصوصی انٹرویو بھی شامل ہیں۔
ماہنامہ ’’کلام‘‘ کے نمائندے نے مختلف ذرائع استعمال کرکے بنگلا دیش مہاجر سنگھ کے بارے میں چند ایک تفصیلات اور پتے ڈھونڈ نکالے۔ بنگلا دیش مہاجر سنگھ کا صدر رئیس الدین احمد کلکتہ میں دریائے گنگا کے کنارے ایک جھونپڑی میں رہتا ہے۔ وہ نمائی گھوش نامی کسی بھارتی بنگالی کی ملکیت کا رکشہ چلاتا رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ بنگلا دیش کے ضلع جیسور کا رہنے والا ہے اور چند برس قبل غیر قانونی طور پر بھارت آیا تھا۔ وہ اپنی بنگلا دیشی شہریت کا کوئی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ وہ ناخواندہ ہے۔ ماہنامہ ’’کلام‘‘ کے نمائندے کے مطابق رئیس الدین احمد جیسے کسی ناخواندہ شخص کے لیے ممکن ہی نہیں کہ کسی تنظیم کا ڈھانچا تیار کرے اور پھر اس کا قائد بھی ہو۔ بنگلا دیش مہاجر سنگھ کے پمفلٹس اور کتابچے جس زبان میں ہوتے ہیں وہ رئیس الدین احمد جیسا شخص لکھ یا سوچ نہیں سکتا۔ یہ کتابچے عالمی برادری میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ انٹرویو میں رئیس الدین احمد نے اعتراف کیا کہ لٹریچر کا اہتمام ہندو بابو کرتے ہیں اور وہی لوگ تنظیم کو چلانے کے لیے فنڈ بھی فراہم کرتے ہیں۔
بنگلا دیش مہاجر سنگھ کے ارکان کو ’’را‘‘ کی طرف سے فنڈ فراہم کیے جاتے ہیں۔ رئیس الدین احمد اب رکشہ نہیں چلاتا۔ وہ میٹنگوں اور جلسوں میں مصروف رہتا ہے۔ عوام میں تقسیم کیے جانے والے پمفلٹس پر مہاجر سنگھ کا پتا ۵/۱ کھگیندر ناتھ چیٹرجی روڈ، کلکتہ نمبر ۲ کا پتا درج ہے مگر اس کا اصل ہیڈ کوارٹرز سنی وِلا، ہاؤس نمبر ۲۱، ڈاکٹر راجیندر روڈ، ناردرن پارک، کلکتہ ۷۰۰۰۲۰ ہے اور ٹیلی فون نمبر ۷۵۱۰۳۲ اور ۷۵۶۹۳۵ ہیں۔ اس پتے پر ایک زمانے سے ’’را‘‘ کا انتہائی قابل اعتماد ایجنٹ چت رنجن سُتھار رہتا ہے۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں بھارتی خفیہ ادارے نے چت رنجن کو کئی عمارتیں دی تھیں جہاں اس وقت کے مشرقی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ غیر مستحکم کرنے اور اسے پاکستان سے الگ کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی تھیں۔ ان عمارتوں میں ’’را‘‘ کے وہ ایجنٹ رہتے تھے جن سے بعد میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے اور بنگلا دیش میں تبدیل کرنے کا کام لیا گیا۔ چت رنجن سُتھار کا تعلق بنگلا دیش کے ضلع بریسال سے ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے میں چت رنجن کا ساتھ کالی داس وید اور نرود مجومدار نے دیا۔ ۱۹۵۲ء سے یہ تینوں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد تھا … پاکستان کی شکست و ریخت۔ چت رنجن ۱۹۶۹ء میں نقل مکانی کرکے بھارت پہنچا۔ اور بنگلا دیش کے قیام کے بعد وہ پورے کرّ و فر کے ساتھ بریسال پہنچا۔ ۱۹۷۳ء کے عام انتخابات میں اُسے عوامی لیگ کی طرف سے ٹکٹ ملا اور وہ سوروپ کاٹھی کے حلقے سے الیکشن لڑ کر بنگلا دیشی پارلیمنٹ کا رکن بنا۔ ۱۹۷۵ء میں بنگلا دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کے قتل کے بعد چت رنجن دوبارہ بھارت چلا گیا۔ اور پھر کبھی بنگلا دیش واپس نہیں آیا۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چت رنجن اور اس کے ہم خیال لوگوں کو پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلا دیش کے بننے سے تشفی ہوگئی ہوگی تو اِسے محض سادہ لوحی سے تعبیر کیا جائے گا۔ چت رنجن اور اُس جیسی سوچ رکھنے والے دوسرے بہت سے بھارتیوں کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے … بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا تاکہ وہ بھارت کا دست نگر رہے اور ایک دن بھارت کا حصہ بن جائے۔ چت رنجن اور اس کے ساتھیوں نے بنگلا دیش کو بھارت کا حصہ بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا۔ انہوں نے مختلف سازشوں اور منصوبوں کے ذریعے اس مقصد کے حصول کی بھرپور کوشش کی مگر کامیابی نہ ملی۔ جب ’’را‘‘ نے دیکھا کہ بنگلا دیش کو ڈکار جانا اس کے لیے ممکن نہیں تو اس نے نئے منصوبے پرکام شروع کیا … بنگلا دیش کی تقسیم در تقسیم۔
اب چت رنجن کو نیا ٹاسک مل گیا … یہ کہ بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کردیا جائے۔ چت رنجن اور اس کی ٹیم کے لوگ مختلف معاملات پر بنگلا دیش کو پریشانی سے دوچار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بنگلا دیش مختلف ایشوز کے چنگل میں پھنسا رہے اور بھارت کے سامنے کبھی سَر اٹھانے کے قابل نہ ہوسکے۔ بنگلا دیش مہاجر سنگھ بھی بنگلا دیشی قیادت کو خوفزدہ اور پریشان کرنے کا ایک آلہ ہی تو ہے۔ اس تنظیم کو قائم کرکے بھارت نے عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بنگلا دیش سے ہزاروں افراد کا جان بچانے کے لیے غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہونا کوئی فسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ بنگلا دیش مہاجر سنگھ کے نام پر ان لاکھوں مسلمانوں کو مغربی بنگال اور بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں سے نکال کر بنگلا دیش میں دھکیل دیا جائے۔ یہ مسلمان بھارتی سرزمین پر صدیوں سے آباد ہیں۔ ایسی صورت میں بنگلا دیش کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ بنگلادیش ویسے ہی گنجان آباد ہے۔ رقبے اور وسائل کے اعتبار سے اس کی آبادی خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اور پھر بنگلادیشی مہاجرین کو واپس بھیجنے کے نام پر ’’را‘‘ اپنے بہت سے ایجنٹس بھی بنگلا دیشی سرزمین پر آباد کردے گی۔ یہ ایجنٹ اور دہشت گرد ضرورت پڑنے پر بھارت کے حکم کے مطابق کام کریں گے یعنی بنگلا دیش کو مزید کمزور کرنے کے لیے میدان میں آجائیں گے۔ یعنی منصوبہ یہ ہے کہ بنگلا دیش کو کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی شکل میں ایک خاص حد تک حالتِ جنگ میں رکھا جائے تاکہ وہ حقیقی سیاسی و معاشی استحکام کی منزل سے دور رہے اور اپنے پیروں پر کبھی کھڑا نہ ہوسکے۔
بھارت میں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جنہیں اب تک باضابطہ شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ انہیں غیر ملکی قرار دے کر ان تمام سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے جن سے بھارت کے باضابطہ شہری فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بھارت لاکھوں بنگالی مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے حقوق دینے سے انکار کررہا ہے کہ وہ بنگلا دیش کے شہری ہیں۔ مغربی بنگال میں آباد بہت سے مسلمانوں کو بنگلا دیشی قرار دے کر بھارت سے نکالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ آسام میں بھی بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی معقول تعداد آباد ہے، مگر وہاں بھی انہیں بنگلا دیشی قرار دے کر ملک سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ بھارت میں جو مسلمان ووٹر کی حیثیت سے رجسٹرڈ تھے اور ووٹ کاسٹ بھی کرچکے ہیں ان کے نام اب ووٹر لسٹ سے نکال دیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے کہ ’’را‘‘ لاکھوں بھارتی مسلمانوں کو بنگلا دیشی قرار دے کر انہیں بنگلا دیش میں دھکیلنے کی تیاری کرچکی ہے۔
۱۹۹۱ء میں جب بنگلا دیش کے وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کیا تو ’مہاجر سنگھ‘ کی طرف سے بھوک ہڑتال اور دھرنے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ مہاجر سنگھ نے اپنے بیانات میں بنگلا دیش کی ایک بھیانک تصویر پیش کی ہے۔ مہاجر سنگھ نے جو لٹریچر تقسیم کیا ہے اس میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ بنگلا دیش میں قانون کی بالا دستی نہیں۔ آئین پر عمل کا تصور موجود نہیں۔ کرپشن بہت بڑھ گئی ہے۔ سرکاری فنڈ میں خورد برد عام ہے، جس کے نتیجے میں عام بنگلادیشیوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ اور یہ کہ بنگلا دیش کو ملنے والی غیر ملکی امداد چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ گئی ہے جس کے نتیجے میں اس کی معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ محنت کشوں کو بھکاریوں کی سطح پر پہنچا دیا گیا ہے۔ مہاجر سنگھ نے بھارتی سرزمین پر ہوتے ہوئے بنگلا دیش میں بہت سے اقدامات کا مطالبہ کیا، جن میں ایک بنگا بندھو شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتلوں کی گرفتاری بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی مطالبہ بھی کیا گیا کہ بنگلا دیش کی معیشت کو مستحکم کرنے کے اقدامات کیے جائیں، محنت کشوں کو بہتر زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں اور بنیادی حقوق بحال کیے جائیں۔ اس حوالے سے ایک یادداشت بھی بنگلا دیش کے وزیر خارجہ کو پیش کی گئی۔
’مہاجر سنگھ‘ کے بیانات اور یادداشتوں میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تنظیم کس کے اشارے پر اور کیوں کام کر رہی ہے۔ بنگلا دیش کے وزیر خارجہ کو مہاجر سنگھ کی طرف سے جو یادداشت پیش کی گئی تھی اسے بھارتی میڈیا نے خوب کور کیا۔ آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن نے اسے خصوصی کوریج دی۔ یادداشت کی کاپیاں نئی دہلی میں سفارت خانوں اور سفارتی مشنز میں تقسیم کی گئیں۔ ’’را‘‘ نے مہاجر سنگھ کے بارے میں بڑے پیمانے پر پبلسٹی کا اہتمام کیا۔ آنند بازار پتریکا، برتمان، جگانتر، اسٹیٹسمین، سنڈے، سواستیکا اور گن شکتی جیسے اخبارات اور جرائد میں مہاجر سنگھ کو بھرپور کوریج ملی۔ سچ یہ ہے کہ جب معاملات سامنے آئے تو بعض اخبارات نے یہ سوال اٹھایا کہ جب رئیس الدین احمد بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا اعتراف کرچکا ہے تو اسے گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا۔ یہ بات انتہائی پراسرار اور عجیب لگتی تھی کہ ایک تنظیم راتوں رات ابھری، اس نے بنگلا دیش کی سرزمین سے تعلق کا نعرہ لگایا اور پھر بھوک ہڑتال اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور پھر اس نو زائیدہ تنظیم کی اتنی بھرپور کوریج کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔ مگر بڑے اخبارات و جرائد اس حوالے سے خاموش رہے۔ صحافیوں کو اندازہ تھا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ بنگلا دیش کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا جارہا ہے مگر یہ سب کچھ ہونے دیا گیا۔ مہاجر سنگھ کے بارے میں بڑے اخبارات و جرائد نے کوئی بھی ایسی ویسی بات نہیں لکھی کیونکہ بنگلا دیش کی خبر لینے کا یہی تو ایک ہتھیار تھا۔ اس تنظیم کی مدد سے بنگلا دیش میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ وہ جانتے تھے کہ مہاجر سنگھ ایسا ہتھیار ہے جسے کسی بھی حالت میں تلف نہیں کرنا بلکہ اس کی دھار تیز رکھنی ہے، تاکہ موقع ملتے ہی اسے بنگلا دیش کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔
مہاجر سنگھ اور اسی نوعیت کی دیگر تنظیموں کا وجود اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارتی قیادت بنگلا دیش کو سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں دینا چاہتی۔ بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ تنازعات میں الجھا دیا جائے تاکہ وہ کبھی اتنا مضبوط نہ ہوپائے کہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔ اس پورے قصے میں سب سے بڑا دکھ اس بات کا ہے کہ بنگلا دیش کی حکومت بھارت کے مذموم مقاصد کو بے نقاب کرنے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کر رہی۔ بنگلا دیش میں کروڑوں افراد کو ذرا بھی معلوم نہیں کہ بھارت ان کے ملک کو کمزور تر کرنے کے لیے کیا کرتا رہا ہے۔ عام بنگلا دیش کو ’’را‘‘ کی سرگرمیوں کا کچھ علم نہیں۔ یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ بنگلا دیش کی سرزمین پر ’’را‘‘ کو اپنی مرضی کے لوگ آسانی سے میسر ہوئے ہیں۔ یہ بااثر افراد معمولی سے ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ بنگلا دیش کی سرزمین پر سے جب تک ’’را‘‘ کے ایجنٹو کا صفایا نہیں کیا جائے گا، بنگلا دیش میں حقیقی سیاسی، معاشی اور ثقافتی استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکے گا۔
Leave a Reply