
بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کے لیے بھارت نے ہزاروں شہریوں کو بنگلا دیش کی سرزمین پر آباد کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس طور بنگلا دیش میں اپنے لیے مضبوط ایجنٹس تیار کرنا بھارت کے لیے کبھی دشوار نہیں رہا۔ بھارتی شہریوں کو بنگلا دیش کی سرزمین پر آباد کرنے کا عمل عرفِ عام میں Push Back کہلاتا ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ بنگلا دیش کے ہزاروں شہری غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوکر مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے تھے اور اب بنگلا دیش کو چاہیے کہ اپنے شہریوں کو واپس لے۔ بنگلا دیش کو اپنے شہری واپس لینے پر مجبور کرتے ہوئے بھارت اپنی مرضی کے لوگ بنگلا دیش میں داخل کردیتا ہے۔ متعدد مواقع پر ایسا بھی ہوا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی ایما پر بہت سے لوگوں کو بنگلا دیش میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی مگر بنگلا دیش کی بارڈر سکیورٹی فورس نے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ گہری تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ بھارتی سرزمین پر بسے ہوئے بہت سے بنگالیوں کو بنگلا دیشی قرار دے کر انہیں بنگلا دیش میں داخل کرنے پر اِس لیے تُلا رہتا ہے کہ اس طور وہ ایک مسئلہ کو زندہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کے مذموم مقاصد حاصل ہوتے رہیں۔ اس مسئلہ کو زندہ رکھ کر بھارتی خفیہ ادارہ متعدد مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آئیے، ان مقاصد پر ایک نظر ڈالیں۔
٭ بھارت میں عمومی سطح پر یہ تاثر پروان چڑھایا جائے کہ بنگلا دیش سے لوگ غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں بنگلا دیش کے لیے عام بھارتیوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے کے بڑے ذہنوں کا کہنا ہے کہ قومی وحدت اور یکجہتی برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حقیقی یا فرضی دشمن کا ہونا ناگزیر ہے۔
٭ پُش بیک یعنی نام نہاد بنگلا دیشیوں کو دوبارہ بنگلا دیش بھیجنے کے عمل کی آڑ میں بھارتی خفیہ ادارہ اپنے بہت سے ایجنٹس بھی بنگلا دیش میں داخل کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں ’’را‘‘ کے لیے بنگلا دیش کو کمزور کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔ جو لوگ بنگلا دیشی سرزمین پر بسے ہوئے ہوں، وہ اُسے اندرونی سطح پر کمزور کرنے میں غیر معمولی آسانی کے ساتھ خاصا نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
٭ ضرورت پڑنے پر بھارتی حکومت بنگلا دیشی باشندوں کے مسئلہ کو جنگ کے بہانے کے طور پر بھی استعمال کرسکتی ہے۔ بنگلا دیش جب سے قائم ہوا ہے، بھارتی حکومتیں اس امر کے لیے کوشاں رہی ہیں کہ بنگلا دیش سے آنے والوں کے مسئلہ کو زندہ رکھا جائے۔ ایس ایس بندرا نے اپنی کتاب ’’انڈیا اینڈ اِٹز نیبرز‘‘ میں صفحہ نمبر ۱۶۶ پر لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کے دورِ حکومت میں بھارتی حکومت نے بارہا یہ شکوہ کیا کہ بنگلا دیش کے بہت سے لوگ مغربی بنگال میں آباد ہوگئے ہیں۔
بنگلا دیش کا استدلال یہ ہے کہ اس کے باشندوں نے بھارت میں سکونت اختیار نہیں کی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش کے قیام کی جدوجہد کے دوران بھارت سے بہت سے لوگ نقل مکانی کرکے مشرقی بنگال میں آباد ہوگئے تھے۔ بنگلا دیش کے معرض وجود میں آنے پر یہ لوگ بھارت جاکر دوبارہ اپنے گھروں میں آباد ہوگئے۔ بنگلا دیش میں ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ ممکنہ طور پر بہت سے ایسے لوگوں نے بھی ۱۹۷۱ء میں نقل مکانی کی جو ۱۹۴۷ء میں اپنا گھر بار چھوڑ آئے تھے۔
بنگلا دیش کی حکومت بھارت سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کو تارکین وطن میں شمار کرتی ہے۔ جو ہندو بنگلا دیش چھوڑ کر بھارت میں دوبارہ آباد ہوئے ہیں، انہیں بھی بھارت اپنا تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور بنگلا دیش ہی قرار دیتی ہے۔ بنگلا دیش کا کہنا ہے کہ ۱۹۴۷ء میں کی جانے والی نقل مکانی حتمی نوعیت کی تھی۔ اب کوئی بھی شخص اپنے آبائی علاقوں کی طرف نقل مکانی کرکے نئی شہریت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ سابق مشرقی پاکستان سے جو ہندو نقل مکانی کرکے بھارت میں آباد ہوگئے تھے، وہ اب بنگلا دیش دوبارہ جاکر وہاں کی شہریت حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ ۱۹۴۷ء میں جو ہندو اپنے علاقے اور املاک وغیرہ چھوڑ کر بھارت گئے تھے اور مغربی بنگال میں آباد ہوگئے تھے، انہوں نے ۱۹۷۱ء میں اور اس کے بعد بنگلا دیش واپس آکر اپنی املاک پر دوبارہ دعویٰ کیا۔ کوشش یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح اپنی املاک واپس لے کر انہیں فروخت کیا جائے اور دوبارہ بھارت کی راہ لی جائے۔ مغربی بنگال کے ہندو یہ سمجھتے تھے کہ بنگلا دیشی حکومت بھارت کے دباؤ کے تحت اس معاملے میں مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ بنگلا دیش کی حکومت نے معاملات کو اچھی طرح بھانپتے ہوئے بھارت کی اس سازش کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ۱۹۷۱ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی چل رہی تھی جس کے باعث اتھارٹیز کے لیے ممکن نہ تھا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو روکا جاسکے۔ مغربی بنگال کے ہندوؤں نے اسی صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ جو ہندو بنگلا دیش کے قیام کے بعد بھارت گئے، وہ کسی بھی اعتبار سے بنگلا دیشی نہیں تھے بلکہ بھارت ہی کے شہری تھے اور اپنے آبائی علاقوں میں واپس گئے تھے۔ ایسے میں بھارت کا یہ دعویٰ کسی بھی طور قابل قبول نہیں کہ یہ بنگلا دیشی شہری ہیں اور انہیں واپس قبول کیا جائے۔
بھارت نے بنگلا دیشی باشندوں کی دراندازی کے حوالے سے پروپیگنڈا جاری رکھا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔ مغربی بنگال اور شمال مشرقی ریاستوں کے اندرونی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا بھارتی حکومت کی ضرورت اور مجبوری ہے۔ ایک اچھا طریقہ یہ وضع کیا گیا ہے کہ عوام کو بنگلا دیش کی طرف سے کی جانے والی نام نہاد دراندازی سے متعلق خبروں میں الجھاکر رکھا جائے تاکہ ایک طرف تو وہ اپنے بنیادی مسائل بھول جائیں اور دوسری طرف بنگلا دیش کے لیے بھی ان کے دلوں میں کبھی ہمدردی اور موافقت کے جذبات پیدا نہ ہوسکیں۔ ۱۴؍مئی ۱۹۹۵ء کو (اس وقت کے) بھارتی وزیر داخلہ ایس بھی چَون نے بیان دیا کہ اب بھی روزانہ ہزاروں بنگلا دیشی بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہو رہے ہیں۔ یہ بیان روزنامہ ’’جنتا‘‘ میں شائع ہوا۔ اس بیان کی روشنی میں کسی کے بھی ذہن میں یہ سوال ضرور ابھر سکتا ہے کہ بھارت کے پاس باضابطہ بارڈر سکیورٹی فورس موجود ہے۔ بنگلا دیش سے ملنے والی سرحد پر بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کی ۸۸۲ چیک پوسٹس موجود ہیں۔ ان کی موجودگی میں کوئی بھی بنگلا دیشی کس طور غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرسکتا ہے؟ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت سے ملحق سرحد پر بنگلا دیشی بارڈر سکیورٹی فورس کی صرف ۴۶۲ چیک پوسٹس ہیں۔
مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی یونٹ کے صدر تپن سِکدر نے جنوری ۱۹۹۴ء میں ماہنامہ ’’کلام‘‘ کو انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ مغربی بنگال میں ۷۵ لاکھ بنگلا دیشی ہیں جبکہ پورے بھارت میں مجموعی طور پر ۲ کروڑ بنگلا دیشی غیر قانونی طور پر سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایک بار پھر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے ہوتے ہوئے اتنے بڑے پیمانے پر در اندازی کیونکر ممکن ہے۔
’’را‘‘ کا منصوبہ یہ ہے کہ بھارت سے بہت سے لوگوں کو بنگلا دیشی قرار دے کر بنگلا دیش میں داخل کردیا جائے اور بعد میں اگر بنگلا دیشی حکومت احتجاج کرے اور انہیں نکالنے پر بضد ہو تو چند افراد کو واپس قبول کرلیا جائے۔ اسی مقصد کے لیے مہاجر سنگھ بھی قائم کی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف بھارت کی مرکزی حکومت بنگلا دیش کے غیر قانونی تارکین وطن کا رونا رو رہی ہے اور دوسری طرف مغربی بنگال اور آسام کی حکومتیں کہتی ہیں کہ ان کے ہاں بنگلا دیش کے غیر قانونی تارکین وطن نہیں! مہا راشٹر میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے قائم ہونے سے قبل بنگلا دیشی تارکین وطن کا مسئلہ نہیں تھا مگر اب وہاں بھی یہ ڈھول پیٹا جارہا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مہاراشٹر کی حکومت بنگلا دیش کے غیر قانونی تارکین وطن کا رونا روکر مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے مسلم بنگالیوں کو بھی مہاراشٹر سے نکالنے کے درپے ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مہاراشٹر میں بھی بنگلا دیشی تارکین وطن کی موجودگی کا راگ محض اس لیے الاپا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ بنیاد پر کشیدگی چاہتی ہے۔ کشیدگی بڑھانے کے لیے وہ کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا رکھتی ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے الجھنیں پیدا ہوتی رہیں۔ اس نوعیت کی باتیں کرنے کا ایک بنیادی مقصد لوگوں کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کے مسائل کی بنیاد یہی ہے۔
مغربی بنگال کی مثال اس سلسلے میں بہت واضح ہے۔ کلکتہ میں ۶۸ فیصد مکانات اور ۸۰ فیصد صنعتی یونٹس غیر بنگالیوں کی ملکیت ہیں۔ اسی طور ۸۰ جوٹ ملز میں سے ۷۹ غیر بنگالیوں کی ہیں۔ ۶۰ فیصد محنت کش بھی غیر بنگالی ہیں۔ مغربی بنگال میں صنعتی شعبے کی تمام اہم پوزیشنز غیر بنگالیوں نے سنبھالی ہوئی ہیں۔
مغربی بنگال کے طول و عرض میں بنگالی زبان اب اجنبی ہوتی جارہی ہے۔ شہری علاقوں میں ہندی ہی بول چال کی زبان بن گئی ہے۔ مغربی بنگال کے شہری اور دیہی علاقوں میں ہندی فلموں کی نمائش کی جاتی ہے۔ بیشتر سائن بورڈز بھی ہندی میں ہیں۔ گاڑیوں کی نمبر پلیٹس بنگالی میں تیار کرنا ممنوع ہے۔ بھارت کی آزادی کے وقت کلکتہ ملک کا سب سے ترقی یافتہ شہر تھا مگر اب یہ شہر کچی آبادیوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہر طرف مسائل عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں۔ شہر کی صفائی اور ترقی پر برائے نام بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ مغربی بنگال کے بہت سے اصل باشندے دوسری ریاستوں میں ملازمتیں اور کاروبار کر رہے ہیں۔ ان میں ہندو اور مسلم دونوں شامل ہیں۔ مغربی بنگال کے ہندوؤں کو دیگر ریاستوں میں آسانی سے قبول کرلیا جاتا ہے مگر وہاں کے مسلمانوں کو بنگلا دیشی قرار دے کر ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انتہا پسند ہندو رات دن یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ بنگلا دیش کے مسلمان مغربی بنگال، آسام اور تری پورہ میں آباد ہوگئے ہیں۔ یوں بھارت کے بنگالی مسلمانوں کو بنگلا دیشی قرار دے کر نکالنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے وقت مغربی بنگال میں مسلمان ۴۵ فیصد تھے۔ آج ان کی آبادی ۲۹ فیصد رہ گئی ہے۔ باقی مسلمان کہاں گئے؟ ایسی کوئی رپورٹس نہیں کہ ان مسلمانوں نے بنگلا دیش میں داخل ہوکر سکونت اختیار کی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی بنگال کے مسلمان بھارت کے دیگر علاقوں میں آباد ہوگئے ہیں مگر انہیں بنگلا دیشی قرار دے کر نکالنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
مغربی بنگال جیسی ہی حالت آسام کی بھی ہے۔ مرکزی حکومت نے آسام کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔ اے کے داس نے اپنی کتاب ’’آسامز ایگنی‘‘ میں لکھا ہے کہ مرکزی حکومت نے آسام میں مواصلات، تعلیم، توانائی۔ صحت عامہ اور دیگر شعبوں کو بہتر بنانے اور ریاست کی مجموعی کارکردگی بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھتی گئی ہیں۔ آسام میں صنعتی ترقی اور بہبودِ عامہ کے شعبے پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجے میں آسام کے بہت سے باشندے بھارت کی دیگر، خوش حال ریاستوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارت کی مرکزی حکومت نے شمال مشرقی ریاستوں کے حالات درست کرنے کو کبھی ترجیح نہیں دی جس کے نتیجے میں وہاں مرکز مخالف سوچ پروان چڑھتی گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے مہا راشٹر اور گجرات میں ۲۰ فیصد تک سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ شمال مشرقی ریاستوں میں سرمایہ کاری کا تناسب صرف ۵ فیصد ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان ریاستوں کے باشندے مرکزی حکومت کے حوالے سے باغیانہ جذبات رکھتے ہیں اور بھارت سے الگ ہونے کی بات بھی دھڑلّے سے کی جاتی ہے۔
بھارت بھر میں درمیانے حجم کے ۱۵؍ہزار سے زائد صنعتی یونٹس ہیں جبکہ ان میں سے صرف ۲۱ شمال مشرقی ریاستوں میں ہیں! بھارت بھر میں چھوٹے درجے کے ۱۷؍لاکھ ۵۰ ہزار صنعتی یونٹس ہیں اور اس حوالے سے کی جانے والی سرمایہ کاری کم و بیش ۱۲؍ارب روپے ہے، جبکہ شمال مشرقی ریاستوں میں چھوٹے درجے کے صنعتی یونٹس کی تعداد صرف ۳ ہزار ہے اور ان میں کی جانے والی سرمایہ کاری ڈیڑھ کروڑ روپے ہے۔ بھارت بھر میں صنعتوں سے وابستہ افراد کا تناسب ۲۰ فیصد ہے جبکہ آسام میں یہ تناسب صرف ۴ فیصد ہے۔ آسام میں چائے کی پیداوار بھارت بھر میں چائے کی پیداوار کا ۵۸ فیصد ہے اور چائے کی عالمی پیداوار میں آسام کا حصہ ۳۰ فیصد تک ہے، مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس میں سے صرف ۱۰؍فیصد تک چائے آسام میں نیلام ہو پاتی ہے۔
آسام میں زرعی شعبے کی پیداوار میں سے ۳۰؍ارب روپے مالیت کا مال ملک کے دیگر حصوں میں جاتا ہے۔ بھارت میں خام تیل کی پیداوار میں آسام کا حصہ ۶۰ فیصد تک ہے۔ یہی حال گیس کی پیداوار کا بھی ہے مگر آسام کو اس کے باوجود سرکاری وسائل میں جائز حصہ نہیں ملتا۔ آسام میں ۶۰ فیصد سرکاری ملازمتیں غیر آسامیوں کو ملی ہوئی ہیں۔ آسام ریلوے میں آسامیوں کا حصہ محض ۱۴؍فیصد اور پلائی وڈ انڈسٹری میں محض ۱۵؍فیصد ہے۔ جب صورتحال یہ ہو تو لوگوں میں بے چینی کیوں نہ ہو اور وہ مرکزی حکومت سے وفاداری کا کیوں سوچیں؟ شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں میں جس قدر بھی بے چینی اور بغاوت ہے، وہ اندرونی عوامل کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی ملک کو بھارت میں خرابی پیدا کرنے کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔ خود بھارتی آرمی چیف بھی کہہ چکے ہیں کہ شمال مشرقی بھارت میں پائی جانے والی شورش جموں و کشمیر میں پائی جانے والی شورش سے کم نہیں۔ مگر اس کے باوجود بھارت کی مرکزی حکومت ایسے اقدامات سے اب تک گریز کرتی آئی ہے جن سے شمال مشرقی بھارت کے باشندوں کی شکایات کا ازالہ ہو اور وہ خود کو مرکزی دھارے میں محسوس کریں۔ ان ریاستوں کے حالات درست کرنے اور ان کے باشندوں کو ان کے جائز حقوق دینے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے مرکزی حکومت نے بنگلا دیش سے دراندازی کا راگ الاپنا جاری رکھا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاسکے۔
سوال یہ ہے کہ عوام کو کب تک بے وقوف بنایا جاسکتا ہے؟ اب بھارتی عوام اس بات کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ بنگلا دیشی تارکین وطن کا رونا روکر بھارتی حکومت دراصل بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ آسام کے وزیراعلیٰ نے بھی کہا ہے کہ آسام بھر میں بنگلا دیش سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن نہیں اور یہ کہ اس حوالے سے کیا جانے والا پروپیگنڈا یکسر بے بنیاد ہے۔ بھارت کے مرکزی وزراء بھی رات دن یہی کہتے رہتے ہیں کہ شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلا دیشی تارکین وطن بڑی تعداد میں سکونت پذیر ہیں مگر اب تک اس حوالے سے ٹھوس شواہد کوئی بھی پیش نہیں کرسکا۔
بنگلا دیشی تارکین وطن کا راگ اب بے اثر ہوتا جارہا ہے۔ یہ راگ الاپتے الاپتے اب مرکزی حکومت بھی بیزاری سی محسوس کرنے لگی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارہ چاہتا ہے کہ عوام کو ہر وقت کسی نہ کسی حوالے سے خوف میں مبتلا رکھا جائے مگر اس نکتے پر کوئی بھی غور نہیں کرتا کہ عوام کو زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ ایک زمانے تک مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر حکومت نے بھی بنگلا دیشی تارکین وطن کے حوالے سے ڈھول پیٹا مگر پھر پروپیگنڈا مشینری کمزور پڑنے لگی کیونکہ عوام پر اس کا کچھ خاص اثر مرتب نہیں ہو رہا تھا۔ مہاراشٹر میں بنگلا دیشی تارکین وطن کا مسئلہ کئی سال تک توانا رہا مگر اب یہ بات سبھی سمجھ چکے ہیں کہ ایسا کچھ ہے نہیں۔ یعنی محض ڈھول پیٹ کر معاملات کو زیادہ سے زیادہ خراب کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاکہ عوام کبھی اصل مسائل پر توجہ دینے کے قابل نہ ہوسکیں۔
بھارتی خفیہ ادارے کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طور بنگلا دیش کو دباؤ میں رکھا جائے تاکہ وہ بھارت کے لیے کبھی کسی بھی سطح کا خطرہ نہ بن سکے۔ بنگلا دیش کی سرزمین پر ’’را‘‘ کے بہت سے ایجنٹس ہیں جو خرابیاں پیدا کرنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ ’’را‘‘ کا منصوبہ دراصل یہ ہے کہ بنگلا دیش کے لیے ایسے مسائل پیدا کیے جائیں جو مفروضوں پر مبنی ہوں اور ان میں الجھ کر بھارت کے مقابلے میں بہت چھوٹی سی یہ ریاست کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکے اور زیادہ اعتماد کے ساتھ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرسکے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply