
بھارت کی پہلے دن ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ بنگلادیش اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو اور ہر معاملے میں بھارت کی طرف دیکھتا رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے بہت سے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ بنگلادیشی سرزمین پر اس کے ایجنٹس ہمیشہ فعال رہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے بھرپور کام لیا جاسکے۔ بنگلا دیش میں بہت سی ہندو تنظیمیں مذہب کے نام پر قائم ہیں اور بظاہر بنگلا دیشی ہندوؤں کی ضرورت پوری کرتی ہیں مگر درحقیقت ان تنظیموں کے ذریعے بھارت اپنے مقاصد کی تکمیل آسان بناتا ہے۔ بنگلا دیش کی بیشتر ہندو تنظیمیں دراصل ’’را‘‘ کی مدد سے قائم ہوئی ہیں اور اسی کی مدد سے کام کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں دن رات اس امر کے لیے کوشاں رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طور بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کیا جائے تاکہ وہ کبھی، کسی بھی معاملے میں بھارت کو منہ دینے کے قابل نہ ہوسکے۔
بنگلادیش میں کام کرنے والی ہندو تنظیموں کے متعدد مقاصد ہیں۔ مثلاً:
٭ اٰن تمام سیاسی جماعتوں کی بھرپور مدد کرنا جو بھارت نواز ہیں اور بیشتر معاملات میں بھارت کے لیے موزوں سمجھا جانے والا مؤقف اختیار کرتی ہیں۔
٭ بنگلا دیش کی سرزمین پر کام کرنے والے بھارتی دہشت گردوں اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو پناہ اور تحفظ فراہم کرنا۔ یہ ایجنٹس مختلف حیثیتوں میں کام کرتے ہیں۔ اگر کبھی ان کے لیے کوئی بڑا خطرہ اٹھ کھڑا ہو، تو بنگلا دیش میں قائم ہندو تنظیمیں ان کی حمایت اور مدد کے لیے کھڑی ہوجاتی ہیں اور انہیں پناہ بھی دیتی ہیں۔
٭ بنگلا دیش کے لوگوں کو کسی نہ کسی مسئلہ کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ منقسم رکھنا۔ بنگلادیش اور بھارت کے درمیان مختلف امور پر اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے تاکہ بنگلا دیشی عوام کسی ایک نکتے پر متفق نہ ہوں اور ان کی آپس کی ناچاقیاں بڑھتی ہی رہیں۔ ’’را‘‘ نے اس مقصد کے حصول کے لیے میڈیا کو بھرپور ذہانت اور استعداد کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ پرنٹ میڈیا کو خاص طور پر کنٹرول کیا گیا ہے۔
٭ مذہبی اور ثقافتی بنیاد پر نفرت اور تقسیم در تقسیم کو زیادہ سے زیادہ ہوا دینا۔ یہ مقصد اُسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب بنگلا دیشیوں کے آپس کے اختلافات شدید ہوں اور وہ ہر وقت کسی نہ کسی معاملے میں الجھ کر اختلاف رائے کا اظہار کریں۔ طبقاتی تقسیم اور ذات پات کے نظام کو بھی بھارت نے بنگلا دیش میں خوب پھیلایا ہے۔ بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ بنگلا دیشیوں کی اکثریت کبھی قومی وجود کو مستحکم کرنے کے حوالے سے کسی ایک مرکزی نکتے پر متفق و متحد نہ ہو۔
٭ مجموعی طور پر ایسے حالات پیدا کرنا کہ بنگلادیش کا تنہا چل پانا انتہائی دشوار ہوجائے اور وہ بھارت میں ضم ہونے پر مجبور ہو۔
بنگلادیش میں رائے عامہ کی تشکیل اور تقسیم کے حوالے سے بھارت کی کوششوں سے عام بنگلا دیشی زیادہ نہیں جانتے۔ انہیں صرف اس قدر معلوم ہے کہ چند سیاسی اور ثقافتی گروپ ہیں جو بھارت نواز ہیں اور ان کی طرف سے جب بھی کچھ کہا جاتا ہے، وہ بھارت کے حق میں جاتا ہے۔ بنگلادیش کی سرزمین پر کئی ہندو تنظیمیں جو مذہب اور ثقافت کے نام پر دراصل بھارت کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں، ان تنظیموں کی سرگرمیوں سے بنگلادیش کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔ لازم ہوگیا ہے کہ عام بنگلا دیشیوں کو ان بھارت نواز تنظیموں کی اصل سرگرمیوں کے بارے میں کھل کر بتایا جائے تاکہ انہیں بھی اندازہ ہو کہ مذہب اور ثقافت کے نام پر انہیں کس درجے کا دھوکا دیا جارہا ہے۔ مذہب اور ثقافت کے نام پر قائم بیشتر تنظیمیں اور فورم دراصل بنگلادیش کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ بنگلادیش کی سلامتی اور سالمیت برقرار رکھنے کے لیے ان مذہبی اور ثقافتی تنظیموں کی مذموم سرگرمیوں کو روکنا لازم ہے۔ جو ہندو تنظیمیں ’’را‘‘ کی مہربانی سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، انہیں بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بنگلا دیش میں عام آدمی جان سکے کہ اُس کے ملک اور معاشرے کو کس طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔
بنگلا دیش کی سرزمین پر بہت سے ہندو فرقہ پرست ایسے ہیں، جنہوں نے ۱۹۴۷ء میں رونما ہونے والی بھارت کی تقسیم کو دل کی گہرائی سے اب تک تسلیم نہیں کیا۔ وہ بھی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھتے ہیں۔ آباد تو وہ بنگلا دیش کی سرزمین پر ہیں مگر ان کی ہمدردیاں اب بھی بھارت کے ساتھ ہیں۔ وہ آج بھی خود کو بھارت ہی کا شہری سمجھتے ہیں اور اُسی کے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔ بنگلادیش میں کام کرنے والی بیشتر ہندو تنظیموں کو ویسے تو ’’را‘‘ سے مدد ملتی ہے مگر اپنے مذموم مقاصد کے لیے انہیں بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعتیں اور گروپ بھی استعمال کرتے ہیں اور اپنے مقاصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے انہیں جی بھر کے فنڈ دیتی ہیں۔ بنگلادیش کی ہندو تنظیموں کی فنڈنگ کرنے والوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی، وشوا ہندو پریشد، شیوسینا اور بجرنگ دَل نمایاں ہیں۔
بنگلا دیش میں اقلیتوں کی صرف ایک تنظیم ہے، جو کھل کر کام کرتی ہے اور وہ ہے ہندو بُدّھا کرسچین اوئیکا پریشد۔ دیگر تمام تنظیمیں اتنے ڈھکے چھپے انداز سے کام کرتی ہیں کہ ان کی حقیقی سرگرمیوں کا اندازہ لگانا کبھی کبھی انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
روزنامہ ’’ملت‘‘ کی ۷ جون ۱۹۹۲ء کی رپورٹ کے مطابق بنگلادیش میں کام کرنے والی ہندو تنظیموں کے نام یہ ہیں:
٭ بنگلا دیش جاتیہ ہندو سماج سنسکار سمیتی
٭ پرنب مٹھ سیواشرم (پہلے اس کا نام بھارت سیواشرم تھا)
٭ بنگلا دیش سنت موہا منڈل
٭ بنگلا دیش ہندو فاؤنڈیشن
٭ وشو دھرم شانتی سمّیلین بنگلا دیش
٭ بنگلا دیش چیتنا سانسکرتک سنگھ
٭ انٹر نیشنل سوسائٹی فار کرشنا کانشس نیس (اس کا صدر دفتر مغربی بنگال کے ضلع ناڈیا میں مایا پور کے مقام پر ہے۔)
٭ آنند مارگ
ان بڑی تنظیموں کے علاوہ بھی۔کئی ہندو گروپ ہیں، جو بنگلادیش کے طول و عرض میں کام کر رہے ہیں۔ یہ گروپ بنیادی طور پر بھارت کی فرقہ پرست تنظیموں سے فنڈ حاصل کرتے ہیں۔ کہنے کو یہ فلاحی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ افلاس اور ناخواندگی دور کرنے کے نام پر یہ گروپ لوگوں کے ذہنوں میں ہندو دھرم کی بنیادی تعلیمات اس طور ٹھونس رہے ہیں کہ انہیں اندازہ بھی نہیں ہو پاتا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ گروپ بنگلا دیش کے ہندوؤں کو بھی حقوق کے نام پر ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے اکساتے رہتے ہیں۔
بنگلا دیش میں اقلیتی برادری کے لوگ اپنے اخبارات و جرائد بھی شائع کرتے ہیں۔ ہندو بھی اس حوالے سے بہت فعال ہیں۔ بنگلا دیش جاتیہ ہندو سماج سنسکار سمیتی کے تحت ’’سماج درپن‘‘ کے زیر عنوان ایک جریدہ شائع ہوتا ہے۔ اس رسالے کا سرِورق بھارتی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کلکتہ سے طبع ہوکر آتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جریدے کی طباعت اور تقسیم کے اخراجات ’’را‘‘ برداشت کرتی ہے۔ ساتھ ہی بنگلا دیش جاتیہ ہندو سماج سنسکار سمیتی بہت سے کتابچے اور دیگر مواد بھی شائع کرتی ہے، جس میں ایک طرف سے تو بنگلا دیشی ہندوؤں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اکھنڈ بھارت کا راگ بھی الاپا جاتا ہے۔ ’’سماج درپن‘‘ کے ایڈیٹر شیو شنکر چکر ورتی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وشو ہندو پریشد سے ان کے مستحکم مراسم ہیں۔ وہ بنگا بھومی موومنٹ کی بھی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں انڈیا سیواشرم کے سربراہ بجوئے نندی، بنگلا دیش ہندو فاؤنڈیشن کے صدر ونود بہاری چودھری اور وشو شانتی سمّیلن کے سیکرٹری جنرل آر این داس گپتا شامل ہیں۔
روزنامہ ’’ملت‘‘ نے ۱۰؍جون ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں بتایا کہ بجوئے نندی نے بنگاؤں، مغربی بنگال میں بنگا بھومی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کے ایک اجلاس میں بتایا کہ مسز اندرا گاندھی کے ذاتی اثر و رسوخ کی بدولت بنگلا دیش میں سیواشرم کو کام کرنے کا موقع ملا۔ ۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو بنگلا دیشی صدر شیخ مجیب الرحمن اور ان کے اہل خانہ کے قتل کے بعد سیواشرم کے تمام دفاتر بند کرکے متعلقہ افراد کو بھاگنا پڑا۔ بعد میں سیواشرم کے تمام عہدیدار بنگلا دیش واپس آئے اور اب انہوں نے پرنب مٹھ سیواشرم کے نام سے کام شروع کیا۔
روزنامہ ’’ملت‘‘ نے ۸ جون ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں لکھا کہ شیو شنکر چکر ورتی کئی ہندو تنظیموں کے مرکزی عہدیداروں میں شامل ہیں۔ وہ بھارت میں وشو ہندو پریشد کی ایگزیکٹیو کونسل کے رکن اور بنگلا دیش میں وی ایچ پی کے چیف آرگنائزر ہیں۔ وہ نیپال میں قائم ہندو مہا سنگھ کے ایگزیکٹیو ممبر، ہندو سماج سنسکار سمیتی کے صدر اور سب سے بڑھ کر اپیکس گروپ کے چیف اکاؤنٹنٹ ہیں۔
شیو شنکر چکر ورتی کے حوالے سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ ایک مدت تک ’’را‘‘ کے ایجنٹ رہے۔ ان کا جریدہ ’’سماج درپن‘‘ بنگلا دیش میں ریاست مخالف اور مسلم مخالف بڑھکیں مارنے کے حوالے سے بدنام ہے۔ اس جریدے کے پلیٹ فارم سے بنگلا دیشی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ اقلیتوں کا خیال نہیں رکھتی اور خاص طور پر ہندو مظالم سہنے پر مجبور ہیں۔ شیو شنکر چکر ورتی اس جریدے کے ذریعے مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے ہیں۔ ان کی بہت سی تحریریں اس قدر زہریلی ہوتی ہیں کہ انہیں پڑھنے والے اپنے حقوق کی خاطر ہتھیار اٹھانے کا پیغام پاتے ہیں۔
پرنب مٹھ سیواشرم کے صدر بجوئے نندی کی تحریر اور تقریر بھی خاصی اشتعال انگیز ہوتی ہے۔ وہ اپنی تحریروں سے بنگلا دیش کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے ہیں اور ہندو نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بنگلا دیش میں ہندوؤں کے لیے آزاد ریاست بنگا بھومی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
روزنامہ ’’ملت‘‘ نے ۱۰؍جون ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں بجوئے نندی کی ایک تقریر شامل کی ہے۔ بجوئے نندی نے بنگلا دیش کے ہندوؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’میرے اور آپ کے اجداد نے بھارت کی آزادی کے لیے بے مثال قربانیاں دیں اور بھارت کی سرزمین پر اپنے مندروں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے وہ پٹھانوں اور مغلوں سے لڑے۔ اور یہ کہ ہمارے اجداد نے اپنے مذہب اور تہذیب کو بچانے کے لیے اورنگ زیب عالمگیر کا بھی سامنا کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بنگلا دیش میں رہنے والے ہندو نوجوان اپنی الگ ریاست کے قیام کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور جس قدر بھی جدوجہد کرسکتے ہیں، کر گزریں۔ فرید پور، جیسور، کھلنا، باریسال، پٹوا کھلی اور کشتیا کے اضلاع پر مشتمل آزاد ہندو ریاست کے قیام کی خاطر لازم ہے کہ مسلح تحریک چلائی جائے۔ اقوام متحدہ اور امریکا کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ لازم ہے کہ ہم بنگلا دیشی حکومت کو اپنی طاقت دکھائیں۔ بھارت کے مسلمانوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہندو ابھی زندہ، طاقتور اور پرعزم ہیں‘‘۔
بنگلادیش کی سب سے بڑے ہندو تنظیم بنگلادیش سنت مہا منڈل ہے۔ اس کی سینٹرل کمیٹی کے ارکان کی تعداد ۲۶۷ ہے اور صدارتی کونسل میں دس ارکان ہیں۔ بنگلا دیش سنت مہا منڈل کے کمیونسٹ پارٹی آف بنگلا دیش اور ان پانچ دیگر جماعتوں سے قریبی تعلقات ہیں، جن کی بھارت نوازی ہر طرح کے شک سے بالا ہے۔ بنگلا دیش سنت مہا منڈل ہندو ووٹروں کے ذریعے بنگلادیش کی دیہی سیاست کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ملک کی ایک بڑی سیکولر پارٹی کی مدد سے یہ تنظیم بنگلا دیشی ہندوؤں کے لیے انتخابی پالیسی تیار کرتی ہے۔ یہ تنظیم بنگلا دیش میں ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کی بھرتی کے مرکز کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔
بنگلا دیش کی سرزمین پر قائم یہ تمام ہندو تنظیمیں ملک میں نفرت اور اشتعال پھیلانے میں مصروف ہیں۔ بنگلا دیش کو یہ تنظیمیں بہت ہی کمزور پس منظر کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ بھارت کو ایک ایسی طاقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کے سامنے بنگلا دیش کچھ نہیں اور یہ کہ بنگلا دیش کے تمام مسائل حل کرنے کی بھرپور سکت صرف بھارت میں پائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا بنیادی مقصد عوام کو یہ باور کرنا ہے کہ بنگلا دیش ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے قائم نہیں رہ سکتا ہے، اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ اسے بھارت میں ضم کردیا جائے۔ اعداد و شمار کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بنگلا دیش کو بھارت میں ضم کردینا خود بنگلا دیشیوں ہی کے مفاد میں ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ ایک بڑے ملک کے باشندے ہوں گے اور زیادہ استحکام کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے۔ بنگلا دیش کی ہندو تنظیموں کے ارکان ’’را‘‘ کے لیے کھل کر کام کرتے ہیں اور اس تعلق کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
’’را‘‘ کی طرف سے کی جانے والی فنڈنگ اپنی جگہ مگر ایک مقصد ایسا ہے جس کے حصول کے لیے بنگلا دیش کے نوجوان ہندو بھی انتہائی جذباتی ہیں اور کسی فنڈنگ کے بغیر کام کرنے اور کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ یہ مقصد ہے اکھنڈ بھارت کا قیام۔ یعنی بنگلا دیش اور پاکستان کا وجود ختم کرکے ان دونوں خطوں کو بھی بھارت کا حصہ بنادینا۔ بنگلا دیش کے جن ہندو نوجوانوں کی آنکھوں میں اکھنڈ بھارت کا سپنا بسا ہوا ہے، وہ ’’را‘‘ کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ ’’را‘‘ کے ایجنٹس کو پناہ دیتے ہیں اور دوسری طرف تخریبی سرگرمیوں میں ان کی براہ راست معاونت کرتے ہیں۔ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے بنگلا دیشی ہندوؤں کی سرگرمیاں اس قدر خفیہ ہیں کہ ان میں شامل ہونا اور اندر کی کوئی بات باہر لانا انتہائی دشوار ہے۔ ’’را‘‘ کی خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے بنگلا دیش میں ایسے نوجوان بڑی تعداد میں میسر ہیں جو کسی بھی قیمت پر اکھنڈ بھارت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ویسا ہی تعلق ہے جیسا یہودیوں اور موساد کے درمیان پایا جاتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ بنگلا دیش کی حکومت ان ہندو تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور انہیں ریاست مخالف ایجنڈے پر عمل کرنے سے روکے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply