
اب اس بات کو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کو دولخت کرنے کی جو کوشش کی تھی، وہ دراصل ۱۹۴۷ء سے پہلے کے بھارت کو دوبارہ یقینی بنانے کی سازش تھی۔ بھارتی قیادت کو اکھنڈ بھارت کا خواب ایک بار پھر شرمندۂ تعبیر کرنا ہے۔ پہلا مرحلہ پاکستان کو توڑنے کا تھا اور دوسرا مرحلہ بنگلادیش کو بھارت میں ضم کرنے کا ہے۔ ابتدا ہی سے بھارت کی یہ بھرپور کوشش رہی ہے کہ بنگلادیش کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو، اس کی معیشت مستحکم نہ ہو اور سیاسی عدم استحکام بھی جاری رہے۔ اسی صورت بنگلادیش بھوٹان کی طرح برائے نام ملک کی حیثیت سے جی سکتا ہے جو بھارت کے لیے خطرہ نہ بنے۔ بھوٹان اور سِکّم کے مانند کمزور ریاست کی حیثیت سے جیے گا تو بنگلادیش کبھی نہ کبھی بھارت کے لیے تر نوالہ بھی بن ہی جائے گا۔ بھارتی قیادت نے اس بات کا پورا اہتمام کیا کہ بنگلادیش کسی بھی اعتبار سے مضبوط نہ ہو، بالخصوص دفاعی اعتبار سے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے بھارتی قیادت نے بنگلادیش کے قیام کے وقت اُس کی عبوری حکومت سے ایک معاہدہ کیا، جس میں یہ شِق رکھی گئی کہ بنگلادیش اپنی مسلح افواج نہیں رکھے گا۔ جلا وطن عبوری حکومت کو بھارتی قیادت نے یہ دلیل دی تھی کہ بنگلادیش کے تین اطراف بھارت اور چوتھی سمت سمندر ہے۔ بھارت چونکہ دوست ملک ہے، اس لیے وہ حملہ نہیں کرے گا۔ لہٰذا بنگلادیش کو کبھی مسلح افواج کی ضرورت نہیں پڑے گی! یعنی بنگلادیش کا دفاع بھارتی فوج کے ذمہ لگا دیا گیا۔ اندرونی سلامتی یقینی بنانے کے لیے ایک ملیشیا تیار کرنے کی اجازت البتہ دے دی گئی۔ اندرونی سلامتی کے لیے شیخ مجیب الرحمن نے راکھی باہنی قائم کی تھی۔ بعد میں انہوں نے بنگلادیش کے لیے باضابطہ فوج کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا تو بھارت نے شدید مخالفت کی۔ مگر شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی مخالفت کی پروا کیے بغیر بنگلادیش کی باضابطہ مسلح افواج قائم کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ ایک چھوٹی سی فوج تیار کی گئی، جس میں پاکستان آرمی کے وہ جوان شامل تھے جنہوں نے بنگلادیش کے قیام کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ۱۹۷۳ء میں پاکستان سے واپس آنے والے فوجی بھی اس فوج کا حصہ بنا دیے گئے۔
بھارتی قیادت کو بنگلادیش میں مسلح افواج کے قائم کیے جانے کا تصور بہت برا لگا۔ انہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ بنگلادیش میں معمولی سطح کی فوج بھی ہوگی تو اس چھوٹے سے ملک کو بھارت میں ضم کرنے کے خواب کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہوجائے گی۔ انہیں اندازہ تھا کہ بنگلادیش کے قیام کی تحریک کے دوران منحرف فوجیوں اور عام نوجوانوں نے لڑائی کا اچھا تجربہ حاصل کرلیا تھا۔ یہ تجربہ فوج کو مستحکم کرنے کا باعث بن سکتا تھا۔ بھارت کو مستقبل میں بنگلادیش کے خلاف جو جارحیت کرنا تھی، اس کی راہ میں مسلح افواج دیوار بن کر کھڑی ہوسکتی تھیں۔ بھارت کے پالیسی سازوں کو یہ بات کسی بھی طور قبول نہ تھی کہ بنگلادیش کی اپنی باضابطہ فوج ہو۔
بھارت کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بنگلادیش میں مسلح افواج کا مضبوط ہونا اس کے مقاصد کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ بنگلادیش کی نوزائیدہ مسلح افواج کو ابتدا ہی سے کمزور رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ پاکستانی فوج سے جو اسلحہ، گولہ بارود اور سامان ضبط کیا گیا تھا، وہ بھارت نے بنگلادیش کی سرزمین پر نہیں رہنے دیا۔ بنگلادیش کے روزنامہ ’’ملت‘‘ نے ۲۶ مارچ ۱۹۹۳ء کی اشاعت میں بتایا کہ بھارتی فوج نے بنگلادیشی سرزمین پر پاکستانی فوج سے چھینے جانے والے ٹینک، آرٹلری اور دیگر سامان ضبط کرکے بھارت روانہ کردیا۔ اس کی مالیت ۸ کروڑ ٹاکا سے کم نہ تھی۔
بھارتی قیادت نے جب یہ دیکھا کہ شیخ مجیب الرحمن دوستی کے معاہدے کے باوجود بنگلادیش کی باضابطہ فوج قائم کرنے کے فیصلے سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تو ایک منحرف گروپ گنو باہنی کے نام سے کھڑا کیا گیا، جس نے ملک میں باضابطہ فوج قائم کیے جانے کے تصور کی مخالفت کی۔ اس گروپ کا پروپیگنڈا یہ تھا کہ بنگلادیش کی سلامتی اور خود مختاری کو بظاہر کوئی خطرہ نہیں۔ اس لیے کوئی باضابطہ پیشہ ورانہ فوج تیار کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ گنو باہنی نے یہ تصور عام کرنا شروع کیا کہ وہ مقدس سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ فوج میں زیادہ سے زیادہ فکری اور نظریاتی انتشار پیدا کرنے کے لیے سائنٹیفک سوشل ازم کا پرچار کیا جانے لگا۔
بنگلادیش میں بھارت کے مقاصد کی تکمیل اُسی وقت ہوسکتی تھی، جب زیادہ سے زیادہ انتشار اور عدم استحکام پیدا ہوتا۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے بھارت نے ۱۹۷۵ء میں شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد اقتدار کی تبدیلی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے گنو باہنی کو مضبوط کیا۔ ملک میں مزید انتشار پیدا کرنے کے لیے اور عالمی برادری کو اس کی نازک حالت کا زیادہ سے زیادہ یقین دلانے کے لیے بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے بنگلادیش میں بھارتی ہائی کمشنر سمور سین کے اغوا کا ڈراما بھی رچایا۔ اس ڈرامے کا بنیادی مقصد بنگلادیش میں بھارتی افواج داخل کرنے کا جواز پیدا کرنا تھا۔ بنگلادیش کی خوش قسمتی کہ یہ ڈراما ناکامی سے دوچار ہوا اور بھارتی فوج کو بنگلادیش کی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع نہ مل سکا۔
سابق صدر جنرل ضیاء الرحمن نے بنگلادیشی مسلح افواج کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے فوج کو معاشرے میں باعزت مقام دلایا۔ یہ سب کچھ بھارت کے لیے انتہائی ناقابل قبول تھا۔ یہی سبب ہے کہ صدر ضیاء الرحمن کی حکومت کا تختہ الٹنے اور فوج میں انتشار پیدا کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ فوج میں بغاوت کے بیج بوئے گئے۔ حکومت کا تختہ الٹنے کی انیسویں کوشش میں بھارتی خفیہ ادارہ ضیاء الرحمن کو قتل کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ فوجی بغاوت بظاہر جنرل ضیاء الرحمن کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تھی مگر اس کا حقیقی مقصد بنگلادیش کی مسلح افواج میں انتشار و افتراق کا دائرہ وسیع کرنا تھا۔
بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلادیش کی مسلح افواج میں زیادہ سے زیادہ انتشار، بے چینی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے گروہ بندی شروع کی۔ کوشش کی گئی کہ بنگلادیشی فوج میں مختلف بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ تقسیم پیدا ہو۔ جن فوجیوں نے بنگلادیش کے قیام کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا، انہیں ان فوجیوں سے برتر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا گیا، جو ۱۹۷۳ء میں پاکستان سے واپس آئے تھے۔ قوم کو یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ جو لوگ پاکستانی فوج سے نکالے جانے پر وطن واپس آئے، ان کا ملک کے قیام میں کوئی کردار نہیں۔ اس لیے انہیں وہ مقام نہیں دیا جاسکتا جو ان فوجیوں کو ملنا چاہیے جنہوں نے بنگلادیش کے قیام کی مسلح تحریک چلائی۔ اس پروپیگنڈے کا بنیادی مقصد فوج میں زیادہ سے زیادہ تقسیم اور تفریق پیدا کرنا تھا۔
ساتھ ہی ساتھ یہ پروپیگنڈا بھی کیا گیا کہ بنگلادیش کی مسلح افواج عوام کے خلاف ہیں۔ جب صدر حسین محمد ارشاد کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جارہی تھی، تب یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مسلح افواج حسین محمد ارشاد کے ساتھ ہیں۔ یہ افواہ اس مقصد کے حصول کے لیے پھیلائی گئی کہ مسلح افواج کی مقبولیت کا گراف گرے۔
کسی بھی ملک کا دفاعی نظام یقینی بنانے اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کو مستحکم رکھنے کے لیے باضابطہ پیشہ ورانہ فوج کا ہونا لازم ہے۔ اگر سِکّم کی باضابطہ فوج ہوتی تو بھارت کے لیے اسے ہر معاملے میں جھکنے پر مجبور کرنا اور بالآخر اپنا حصہ بنا لینا ممکن نہ ہوتا۔ مالدیپ کی مثال بھی بہت واضح ہے۔ اس کی کوئی باضابطہ فوج نہیں، اس لیے جب بھارت سے تعلق رکھنے والے چند شرپسند عناصر نے وہاں گڑبڑ پیدا کرنے کی کوشش کی تو مالدیپ کی حکومت کو بھارتی فوج سے مدد لینا پڑی۔
بنگلادیش کو ایک باضابطہ پیشہ ورانہ فوج کی ضرورت محض بیرونی جارحیت کا سامنا کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اندرونی سلامتی کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے بھی فوج کا ہونا لازم ہے۔ شانتی باہنی کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کا سہرا بھی بنگلادیشی فوج ہی کے سَر ہے۔ اگر بنگلادیش کے پاس مستحکم اور پیشہ ورانہ سوچ رکھنے والی فوج نہ ہوتی تو بھارتی قیادت چکمہ قبائل کی مدد سے بنگلادیش کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔ بنگلادیش کو ایک باضابطہ اور مضبوط پیشہ ورانہ فوج اس لیے بھی درکار ہے کہ بھارت نے بنگلادیشی سرزمین پر علیحدگی کی کئی تحریکیں شروع کر رکھی ہیں۔ ان میں ہندو لینڈ (بنگا بھومی)، جُھم لینڈ اور گیرو لینڈ نمایاں ہیں۔
شرپسند عناصر بھارت کی ایما پر بنگلادیشی مسلح افواج کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ ہر سال جب بجٹ پیش کیا جانے والا ہوتا ہے، تب اخباری تجزیوں کی شکل میں یہ زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ بنگلادیش میں فوج کے لیے زیادہ فنڈ مختص نہیں کیے جاسکتے۔ اور یہ کہ تعلیم اور صحت عامہ کو داؤ پر لگاکر دفاعی بجٹ بڑھایا نہیں جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے دفاعی صلاحیت بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم اور صحت عامہ کے لیے غیر معمولی فنڈنگ لازم ہے، مگر دفاع کی قیمت پر ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی سلامتی اور خود مختاری یقینی بنانے کے لیے مسلح افواج کی تمام ضرورتیں پوری کرنا ہر اعتبار سے ناگزیر ہے۔ ملک میں بہت کچھ ہوتا ہے مگر سب کچھ سلامتی کے بعد آتا ہے۔
بھارت آبادی کے اعتبار سے بنگلادیش سے کم و بیش ساڑھے سات گنا ہے۔ اس اعتبار سے اس کا دفاعی بجٹ بنگلادیش کے دفاعی بجٹ سے ساڑھے سات گنا ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ بنگلادیش کے دفاعی بجٹ سے ۲۳ گنا ہے، گویا بنگلادیش کو بھارت سے مقابلے کے لیے اپنے دفاعی بجٹ میں کم از کم تین گنا اضافہ کرنا پڑے گا۔ بھارت اپنے دفاعی بجٹ میں تیزی سے اضافہ کرتا جارہا ہے۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۲۳ جون ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ بھارت نے ۱۹۹۵ء میں اپنے دفاعی بجٹ میں ۱۸؍فیصد اضافہ کیا جبکہ بنگلادیش کے دفاعی بجٹ میں اضافہ محض ڈھائی فیصد تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کی قیادت بنگلادیش کو اپنا حلیف سمجھتی ہے تو پھر اتنے بڑے پیمانے پر جنگی تیاریاں کیوں؟ اگر بنگلادیش کے خلاف جارحیت مقصود نہیں تو پھر دفاعی بجٹ میں اس قدر اضافہ کیوں؟
یہ حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے کہ بھارت بھی بنگلادیش کی طرح غریب ملک ہے۔ بھارت کے کم و بیش ۴۰ فیصد باشندے شدید افلاس کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ممبئی میں ۵۰ فیصد، دہلی میں ۴۵ فیصد اور کلکتہ میں ۶۵ فیصد افراد جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ ان کے حالاتِ زندگی انتہائی دردناک ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی یہ اپنے حالات بدلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ بھارت میں کم و بیش ۹۰ فیصد بچے غذا اور غذائیت کی قلت سے دوچار ہیں۔ بھارت میں ۵۰ فیصد نوجوان غذائیت کی کمی کے باعث کام کرنے کی بھرپور سکت سے محروم ہیں۔ بھارت میں پینے کے صاف پانی سے محروم افراد کی تعداد ۴۰ کروڑ سے زائد ہے۔ ساڑھے پانچ کروڑ بھارتی بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے اہل ۷۵ فیصد بھارتی بچے شدید افلاس کے باعث تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔
یہ غریب ملک (بھارت) اپنی دفاعی قوت میں غیر معمولی رفتار سے اضافہ کرکے پورے خطے میں شدید انتشار کی کیفیت پیدا کر رہا ہے مگر بنگلادیش میں اس کے حاشیہ بردار منہ میں گھنگھنیاں دیے بیٹھے ہیں۔ اگر بھارت اپنے دفاعی بجٹ میں متعدبہ کمی کرنے پر رضامند ہو تو خطے کے دیگر ممالک بھی بخوشی ایسا کریں گے۔ بھارتی خفیہ ادارے کی ہزار کوشش کے باوجود اب تک بنگلادیش کی مسلح افواج اس کے اثرات سے محفوظ ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ’’را‘‘ نے اپنے ارادے ترک کر دیے ہیں۔ بنگلادیش میں اپنے ایجنٹس کی مدد سے ’’را‘‘ نے جاسوسی کا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے، جو بنگلادیش کی سلامتی سے متعلق اہم دستاویزات اور معلومات فراہم کرتا ہے۔ بنگلادیش میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ پکڑے جاتے رہے ہیں۔ بنگلادیشی پولیس نے بھارتی خفیہ ادارے کے بہت سے ایجنٹس گرفتار کیے ہیں۔ راج شاہی سے گرفتار کیے جانے والوں میں سنجیب رائے، گیناتھ منڈل، ایاز الدین، رام پد سرکا اور بلرام مہتا شامل ہیں۔ یہ تمام ایجنٹ بنگلادیش کی حساس تنصیبات کے نقشے اور ضروری معلومات حاصل کرکے بھارت منتقل کرنے پر مامور تھے۔ ان کا رابطہ بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات ’’را‘‘ کے ایک افسر سے تھا۔ یہ بات بنگلادیشی روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۲۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں بتائی۔ اسی اخبار نے اپنی ۱۱؍دسمبر ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں بتایا کہ حساس اداروں نے سابق صدر حسین محمد ارشاد کی کابینہ کے ایک رکن سمیت دس افراد کو بھارت کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ان تمام افراد پر بنگلادیش کی حساس تنصیبات کے نقشے اور متعلقہ معلومات بھارتی خفیہ ادارے کو فراہم کرنے کا الزام ہے۔
روزنامہ ’’دی نیو نیشن‘‘ نے ۱۵؍اگست ۱۹۹۳ء کی اشاعت میں بتایا کہ بھارت کے ایک سابق سفارت کار اور ڈھاکا میں بھارتی ہائی کمیشن کے سابق فرسٹ سیکرٹری جی آر مکاشی کو ۶ جون ۱۹۹۳ء کو جاسوسی کے الزام میں بنگلادیش سے نکال دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جی آر مکاشی نے بنگلادیش منتقل ہوکر ڈھاکا کے علاقے دھان منڈی میں ایک گارمنٹ فیکٹری قائم کی اور چند مقامی افراد کے ساتھ مل کر کاروبار کرتا رہا۔ اس کی مشکوک سرگرمیوں پر پولیس نے نظر رکھی ہوئی تھی۔
ڈھاکا میں بھارت کا ہائی کمیشن اور راج شاہی اور چاٹگام میں ڈپٹی ہائی کمیشن جاسوسی کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ بھارتی خفیہ ادارہ ان سفارتی مشنز کے ذریعے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتا آیا ہے۔ انڈین ملٹری انٹیلی جنس، بارڈر سکیورٹی فورس انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو اور دیگر ادارے بنگلادیش میں ایجنٹس بھیجتے رہے ہیں۔ جاسوسی کے نیٹ ورک قائم کرنے کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ بنگلادیش کی فوج کو زیادہ سے زیادہ کمزور کیا جائے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Wel done
Very informative article