
بنگلادیش میں صرف ایک قوت ایسی ہے جو علاقائی بالادستی کے بھارتی عزائم کی راہ میں مزاحم ہوسکتی ہے اور وہ ہے کہ نئی نسل۔ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بنگلادیش کو مکمل طور پر اپنی مٹھی میں لینے کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا جب تک بنگلادیش کی نئی نسل کو اپنا نہ بنالیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ بنگلادیش کی نئی نسل اور بالخصوص طلبہ و طالبات کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے بھارتی قیادت اچھی خاصی فنڈنگ کرتی ہے۔ ایک طرف تو بنگلادیشی جامعات میں ہنگامہ آرائی اور تشدد کے ذریعے تدریس کا ماحول مکدّر کیا جارہا ہے اور دوسری طرف بنگلادیشی نئی نسل کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ان کے لیے اگر کوئی مثالی ملک ہے تو بھارت ہے۔ یعنی یہ کہ انہیں جب بھی کسی مثالی ملک کی طرف دیکھنا ہو تو بھارت کی طرف دیکھیں۔ بھارت کی علمی اور ثقافتی برتری قائم کرنے اور بنگلادیشی نئی نسل کو مرعوب کرنے کے لیے بھارتی قیادت وہ سب کچھ کرتی ہے جو توسیع پسند عزائم رکھنے والے کسی بھی ملک کو کرنا چاہیے۔ بھارت کے کئی ادارے بنگلادیش میں اس حوالے سے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے سرگرم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ادارے ہمارے تعلیمی اداروں پر اس وقت سے کام کر رہے ہیں جب ہم پاکستان کا حصہ تھے۔ ۱۹۶۲ء کی طلبہ تحریک میں بھارتی خفیہ اداروں نے ہمارے بہت سے طالب علم رہنماؤں کو اپنے جال میں پھانس لیا تھا۔ ان طالب علم رہنماؤں کی سوچ تبدیل کردی گئی اور یہ بات ذہن نشین کرادی گئی کہ اگر اس علاقے کے مسلمانوں کو اپنی بھلائی عزیز ہے تو وہ بھارت کی طرف دیکھیں۔
ویسے تو بھارتی خفیہ اداروں کا ہمارے نوجوانوں پر اثر و رسوخ بڑھ ہی رہا تھا۔ عوامی لیگ کی چھ نکات کی تحریک کے دوران یہ اثر و نفوذ مزید بڑھ گیا۔ ۱۹۶۸ء میں بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے قیام کے بعد سے بھارت نے سابق مشرقی پاکستان میں نئی نسل کو خاص طور پر ہدف بنایا۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ نئی نسل کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور انداز سے استعمال کیا جائے اور کیا بھی۔ ان کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۶۹ء میں طلبہ تحریک کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جن کی تربیت اور فنڈنگ ’’را‘‘ نے کی تھی۔ اب یہ بات بنگلادیش اور بھارت کے محققین، تجزیہ نگار اور صحافی ثابت کرچکے ہیں کہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے ۱۹۶۹ء میں جوئے بنگلہ باہنی اور ۱۹۷۱ء میں مجیب باہنی تشکیل دی تھی۔ جب تک پاکستان دولخت نہیں ہوا تب تک ’’را‘‘ نے اپنی سرگرمیوں کو چند منتخب شخصیات اور مقامات تک محدود رکھا تھا۔ وہ جن پر پورا بھروسہ کرتا تھا انہی کو ’’مشن‘‘ سونپتا تھا۔ بنگلادیش کے قیام کے بعد تو بھارتی خفیہ ادارے کو کھلا میدان مل گیا۔ اب اس نے زیادہ کھل کر کھیلنا شروع کیا اور مختلف سطحوں کے طالب علم رہنماؤں کو اپنے جال میں پھانسنا شروع کیا۔ سب سے پہلے ’’را‘‘ نے ڈھاکا یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کو نشانے پر لیا۔ جب یہ لوگ ’’را‘‘ کی مرضی کے مطابق ہوگئے تب دیگر بڑے تعلیمی اداروں کو بھی ’’را‘‘ نے گھیرنا شروع کیا۔ غیر معمولی فنڈنگ اور وفود کے تبادلوں کے نام پر سیر سپاٹوں کے ذریعے ’’را‘‘ نے بنگلادیش کے اساتذہ اور طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات کیل کی طرح ٹھونک دی کہ بھارت ان کا خیر خواہ ہے اور کسی بھی حالت میں انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ’’را‘‘ نے ملک بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنا شروع کیا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ میڈیکل، انجینئرنگ اور بزنس کی تعلیم کے اعلیٰ اداروں کو بھی ’’را‘‘ نے خوب نشانے پر لیا۔ ان اداروں کا ماحول خراب کرنا اور طلبہ کو اپنے ہی ملک اور معاشرے سے بد دل کرنا اس کا مشن تھا۔
بنگلادیش کے تعلیمی اداروں کو برباد اور نئی نسل کو گمراہ کرکے ’’را‘‘ تین مقاصد حاصل کرنے کا متمنی ہے۔
٭ بھارت نے بنگلادیش کی معاشرت اور معیشت کو اپنے کنٹرول میں لینے کی جو پالیسی اپنا رکھی ہے اس کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی نہ ہو۔ تعلیمی اداروں کو نشانے پر لینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بنگلادیش میں نئی نسل ایسی کمیونٹی بن کر نہ ابھر سکے، جو بھارتی عزائم کے آگے بند باندھنے کی صلاحیت اور سکت رکھتی ہو۔ ۲۴ سال کے دوران ہمارے تعلیمی اداروں نے بھارتی عزائم کی راہ میں دیوار بننے کی کوشش نہیں کی۔ ’’را‘‘ کی فنڈنگ اور تربیت نے ان اداروں میں ابہام کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک کا حقیقی اثاثہ ہوتے ہیں مگر بنگلادیش میں اس اثاثے کو واجبات کا درجہ دینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ بھارت نے اس حوالے سے اپنی پالیسیوں پر عمل کسی بھی مرحلے پر ترک نہیں کیا۔ اور اس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ بھارتی پروپیگنڈا مشینری اپنا کام کرگئی ہے۔ ملک کے لیے متحد ہونے اور کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے بجائے طلبہ برادری اندرونی لڑائی میں مصروف ہے اور سماج دشمن ایجنڈے پر بھی خوب عمل ہو رہا ہے۔ معاشرے کے خلاف جانا سمجھ میں آتا ہے نہ ریاست کے خلاف جانا، مگر کیا کیا جائے کہ بنگلادیش کی نئی نسل یہ دونوں کام کر رہی ہے، اور اسے خود بھی اندازہ نہیں کہ وہ کیا کر رہی ہے۔
بھارت نے ثقافتی یلغار بھی کر رکھی ہے۔ بنگلادیش کی نئی نسل کو اپنی یعنی اسلامی ثقافت کا کچھ علم نہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی ہے کہ اس خطے میں اگر ثقافت ہے تو بھارت کی۔ اور بھارت کی ثقافت کیا ہے؟ ظاہر ہے، ہندو ثقافت۔ بنگلادیش کے بہت سے طلبہ نے ہندو ثقافت کو بھارتی ثقافت سمجھ کر اپنانا شروع کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وہ اپنی ثقافت سے مزید دور ہوگئے ہیں۔
٭ بھارتی قیادت نے ایک طرف تو بنگلادیش کے نوجوانوں اور بالخصوص طلبہ کے ذہنوں کو مسخّر کیا ہے یعنی انہیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکی ہے کہ بھارت ثقافتی اعتبار سے ایک بڑی قوت ہے جسے تسلیم کرلیا جانا چاہیے۔ اس مقصد کا حصول بھی بہت ہے مگر اس سے ایک قدم آگے جاکر بھارتی خفیہ اور ثقافتی اداروں نے بنگلادیش کی جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے دیگر اداروں کا ماحول تباہ کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں اور ان کی بیشتر کوششیں کامیاب رہی ہیں۔ بنگلادیش میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں تدریسی ماحول تباہ کرنے کی سازش کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ نوجوان اپنے ملک کے ماحول سے بدظن اور بددل ہوکر اعلیٰ تعلیم کے لیے انڈیا جائیں۔ بنگلادیشی نوجوان جب اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت جاتے ہیں تو وہاں کی ثقافت اور عمومی سوچ سے بھی لازمی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان جب اپنے ملک واپس آتے ہیں تب ان کے دلوں میں بھارت کے لیے واضح نرم گوشہ پیدا ہوچکا ہوتا ہے۔ ایسے میں انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ’’را‘‘ کے لیے کچھ مشکل نہیں رہ جاتا۔ بنگلادیش میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بہت سے افسران نے بھارت میں تعلیم پائی ہوئی ہے۔ یہ لوگ پالیسی کے معاملات میں بھارت کے لیے لچک رکھتے ہیں۔ ان کے ذہن اور رجحانات کا بھارت کی طرف جھکاؤ بہت نمایاں ہے۔ جن کے دل بھارت کے حوالے سے پہلے ہی نرم ہوں اور جو بھارتی ثقافت کو دل و جان سے قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں، انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ’’را‘‘ کے لیے بہت آسان ہو جاتا ہے۔
٭ ’’را‘‘ نے دو عشروں کی محنت کے نتیجے میں بنگلادیشی طلبہ میں ایک ایسا بھارت نواز پریشر گروپ کھڑا کر رکھا ہے، جس کی طرف سے ردعمل کا خوف حکومت کو کسی بھی تعلیمی ادارے کے خلاف کارروائی سے روک دیتا ہے اور دوسری طرف حکومت کے لیے خارجہ پالیسی کے میدان میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا بھی انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ شیخ مجیب سے بیگم خالدہ ضیا تک بننے والی حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ’’را‘‘ نے اپنے طلبہ پریشر گروپ کو بہت عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ بنگلادیش میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے میں بھی اسی گروپ کا ہاتھ رہا ہے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے حوالے سے روزنامہ ’’ملت‘‘ نے ۲۵؍اگست ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں ایک تجزیے میں لکھا کہ ’’کسی دور میں ڈھاکا یونیورسٹی کو مشرق کا آکسفرڈ کہا جاتا تھا۔ برطانوی راج اور اس کے بعد اسی تعلیمی ادارے سے متعدد سیاسی اور قومی تحریکوں نے جنم لیا۔ ’’را‘‘ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر بنگلادیش میں کبھی کوئی بھارت مخالف تحریک اٹھی تو اسی یونیورسٹی سے اٹھے گی۔ یہی سبب ہے کہ اس جامعہ کو بھی نشانے پر لیا گیا ہے۔ ’’ڈھاکا یونیورسٹی کے بہت سے اساتذہ اور طلبہ کو ’’را‘‘ نے اپنے ساتھ ملا رکھا ہے تاکہ اس ادارے سے کبھی کوئی بھارت مخالف تحریک جنم نہ لے سکے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ اساتذہ اور طلبہ بھارت نوازی میں قومی مفاد کے خلاف جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہیں قومی مفادات کے خلاف سرگرم ہونے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ یہ مایہ ناز ادارہ اب دہشت گردوں کی پناہ گاہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بھارت نواز اساتذہ اور طلبہ اپنے عزائم چھپاتے بھی نہیں اور قومی مفاد کے خلاف جانے میں کسی بھی سطح پر باک محسوس نہیں کرتے۔ ڈھاکا یونیورسٹی سے پھوٹنے والا تشدد اب اعلیٰ تعلیم کے دیگر اداروں تک بھی پہنچ گیا ہے۔ یہی حال یہاں سے پھوٹنے والی دہشت گردی کا بھی ہے‘‘۔
بھارتی خفیہ ادارے کی کوششوں سے اب بنگلادیش میں اعلیٰ تعلیم کے بیشتر اداروں کا ماحول انتہائی خراب ہوچکا ہے۔ تدریس کے لیے جو فضا درکار ہے وہ ان اداروں میں پائی ہی نہیں جاتی۔ بیشتر جامعات اور کالجوں کا یہ حال ہے کہ آئے دن ہنگامہ آرائی ہوتی رہتی ہے، طلبہ کے گروپ آپس میں ٹکراتے ہیں، دھینگا مشتی ہوتی ہے، معاملات مار پیٹ سے ہوتے ہوئے قتل و غارت تک چلے جاتے ہیں۔ پھر اداروں کو بند کردیا جاتا ہے۔ امتحانات ملتوی کردیے جاتے ہیں۔ بہت سے طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ لگتا ہے، ان کے سال ضائع ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور تواتر سے ہو رہا ہے، مگر کوئی بھی نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ ریاستی عملداری نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کو اعلیٰ تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید ترین فنون میں تربیت پائے ہوئے لوگ کسی بھی قوم کے لیے اثاثہ ہوتے ہیں۔ بنگلادیش کو بھی ایسے ماہرین کی ضرورت ہے۔ مگر بھارتی خفیہ ادارہ نہیں چاہتا کہ ہمارے ہاں ایسا ماحول پروان چڑھے اور لوگ بہتر امکانات کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے ملک اور قوم کے لیے بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ تعلیمی اداروں کا ماحول خراب کرکے معاملات کو اس حد تک بگاڑ دیا گیا ہے کہ اب کسی کو اس بات کا یقین ہی نہیں کہ کبھی تعلیم و تدریس کا مثالی ماحول بحال ہوسکے گا۔
روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۱۵ فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ۱۹۹۱ء میں بنگلادیش میں طلبہ گروپوں کے درمیان تصادم کے ۲۰۰ واقعات رونما ہوئے، ۲ ہزار طلبہ زخمی ہوئے اور ۱۵ ہلاک ہوئے۔ ۱۹۹۲ء میں ۲۵۰ واقعات رونما ہوئے، ۲ ہزار طلبہ زخمی ہوئے اور ۲۵ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ۱۹۹۳ء میں ۳۵۰ واقعات میں ڈھائی ہزار طلبہ زخمی ہوئے اور ۴۰؍اپنی جان سے گئے۔ ۱۹۹۴ء میں ۲۰۰ واقعات رونما ہوئے جن میں ۲۲۰۰ طلبہ زخمی ہوئے اور ۳۰ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
طلبہ گروپوں کے مابین تصادم ڈھاکا، چاٹگام، راج شاہی اور جہانگیر نگر کی جامعات یا پھر اسلامی یونیورسٹی تک محدود نہیں۔ انتہائی دور افتادہ علاقوں میں بھی اعلیٰ تعلیم کے ادارے حالات کی خرابی سے محفوظ نہیں۔ ہاتیا جزیرے پر قائم کالج اور پہاڑی علاقے کھاگرا چیری کے کالج میں بھی طلبہ گروپوں کے درمیان تصادم ہوچکا ہے۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے لکھا ہے کہ غیر یقینی صورت حال یا کشیدگی کے باعث تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ ان اداروں کو چند برس کے دوران ۲۵۰ مرتبہ بند کیا جاچکا ہے۔ روزنامہ ’’اتفاق‘‘ نے ۲۸ فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ۲۱ جنوری ۱۹۹۵ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کی حدود میں اسٹوڈنٹس لیگ کے رہنما جوئے دیپ دتا چوہدری کا قتل ہوا۔ اس قتل سمیت ڈھاکا یونیورسٹی میں بنگلادیش کے قیام سے اب تک ۵۴ قتل ہوچکے ہیں۔ ان مارے جانے والوں میں سے ۲۰ کا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ صرف ۲ طلبہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ باقی تمام ہلاکتیں طلبہ گروپوں کی آپسی لڑائی کا نتیجہ تھیں۔ روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۷ مارچ ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ بنگلادیش کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں تحقیقات دل جمعی سے نہیں کی جاتیں۔ چند ایک کمیٹیاں ضرور تشکیل دی گئی ہیں مگر ان کی تیار کی ہوئی رپورٹس کا کسی کو علم نہیں اور اب تک کسی بھی عدالت میں ایسے کسی بھی قتل کے لیے کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ۱۴ فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں روزنامہ ’’جن کنٹھ‘‘ نے لکھا کہ راج شاہی یونیورسٹی میں ۲۳ سال کے دوران ۲۳؍افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں۔ ان میں کئی بیرونی عناصر تھے یعنی ان کا اس یونیورسٹی سے کسی نوع کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ہزار سے زائد طلبہ زخمی ہوچکے ہیں۔ ان ۲۳ برس میں راج شاہی یونیورسٹی ہزاروں دن بند رہی ہے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران آتشزنی اور دیگر واقعات میں راج شاہی یونیورسٹی کو اب تک دس کروڑ ٹاکا سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
میمن سنگھ میں قائم زرعی یونیورسٹی کو اب تک دس مرتبہ غیر معینہ مدت کے لیے بند کیا جاچکا ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ زرعی یونیورسٹی کو طویل بندش کے بعد کھولا گیا مگر قتل و غارت کا بازار گرم ہونے پر اِسے دوبارہ غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔ یہ بات روزنامہ ’’ملت‘‘ نے ۲۵؍اگست ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتائی۔
’’را‘‘ کی سرپرستی میں کام کرنے والے طلبہ گروپوں کو کسی سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ انہیں اندازہ ہے کہ حکومت ان کے خلاف کچھ زیادہ نہیں کر پائے گی۔ ان کی سرپرستی کرنے کے لیے بنگلادیش کی سرزمین پر بھی بہت سے لوگ موجود ہیں۔ انہیں بعض دانش وروں اور سرکردہ کاروباری شخصیات کی حمایت بھی حاصل ہے۔ تعلیمی اداروں میں اسلحہ اتنا زیادہ ہے کہ اب تدریسی ماحول کے بہتر ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ جامعات کے رہائشی علاقوں میں مسلح افراد قیام پذیر ہیں۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے بتایا کہ ڈھاکا یونیورسٹی کے رہائشی علاقے میں اس وقت ۲۰۰ مسلح افراد سکونت پذیر ہیں، جن میں سے ۱۰۰ کا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔ ان دہشت گردوں کے پاس جدید طرز کے ہتھیار موجود ہیں، جن کی مدد سے یہ دہشت کا ماحول بنائے رکھتے ہیں اور کوئی بھی ان کے خلاف کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر پاتا۔ سب مشین گن، لائٹ مشین گن، جدید ترین ریوالور اور دوسرے خطرناک ہتھیار ہیں۔ اور جب بھی طلبہ گروپوں کو مزید اسلحہ درکار ہوتا ہے، نئی کھیپ پہنچ جاتی ہے۔ انہیں مسلح رہنے میں کسی خاص دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اسی اشاعت میں روزنامہ ’’ملت‘‘ نے بتایا ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کو کم و بیش دو ہزار مسلح طلبہ نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان میں سے نصف کا ادارے سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کا قیام اپنی مرضی کے مطابق ہے۔ یہ جو چاہیں کر گزریں، انہیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔
’’را‘‘ کے پے رول پر کام کرنے والے کسی بھی واقعے کو جواز بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ طلبہ کے گروپوں کو باہم لڑانا ’’را‘‘ کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ایک بڑی طلبہ تنظیم کو فریدپور اور باریسال گروپ میں تقسیم کر رکھا ہے اور ان دونوں کے درمیان تصادم ہوتا ہی رہتا ہے۔ دوسری طلبہ تنظیموں کا بھی یہی حال ہے۔ میمن سنگھ میں واقع زرعی یونیورسٹی میں ڈھاکا اور میمن سنگھ گروپوں کے درمیان تصادم معمول ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کی رپورٹس کے مطابق بنگلادیش کے طول و عرض میں طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کے باعث درجنوں تعلیمی ادارے بند کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ معمول کے تصادم سے تدریسی ماحول خراب ہوتا ہے اور اگر تصادم کے نتیجے میں دو چار طلبہ قتل ہوجائیں، بیس تیس زخمی ہوجائیں تو ادارے ہی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا جاتا ہے۔ ہر سال ہزاروں طلبہ زخمی ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ دو عشروں سے جاری ہے، حکومت معاملات کو درست کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتی۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ کھل کر کام کرتے ہیں۔ کوئی انہیں روکنے والا ہے۔ حکومت کی اپنی مصلحتیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری قیادت کو اپنے ہی تعلیمی اداروں کا ماحول درست کرنے کی کوشش سے بھارت کے ناراض ہوجانے کا خدشہ ہے۔ یہ بات ہے بہت عجیب مگر حقیقت پر مبنی ہے۔
تعلیمی اداروں کے مجموعی ماحول کو خراب کرنے میں ’’را‘‘ کی چھتری تلے کام کرنے والے اساتذہ نے بھی بہت نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کسی بھی ایشو کی بنیاد پر کیے جانے والے احتجاج میں طلبہ تنظیموں کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا بھی کردار ہوتا ہے۔ بہت سے اساتذہ ’’را‘‘ کے پے رول پر کام کرتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح سمجھا دیا جاتا ہے کہ کب کیا کرنا ہے۔ یہ اساتذہ طلبہ کو اکساتے ہیں تاکہ تدریس کا ماحول بگڑے اور ادارے کو بند کرنے تک نوبت پہنچے۔ بنگلادیش کو نقصان پہنچانے کے جتنے بھی طریقے ہوسکتے ہیں وہ آزمائے جارہے ہیں۔ بہت سے اساتذہ اپنے کام سے زیادہ دوسری سرگرمیوں پر توجہ دیتے ہیں۔ متعدد اساتذہ نام نہاد غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں انہیں یافت بھی زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنا سماجی رتبہ بلند کرنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں۔ یہ بات روزنامہ ’’جن کنٹھ‘‘ نے ۲۰ فروری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتائی۔
بنگلادیش میں ۱۵۰ سے زائد ادارے طلبہ کو بھارت میں داخلہ دلانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بنگلادیش میں تعلیم کا گرتا ہوا معیار اب طلبہ کو بھارت جانے کی تحریک دے رہا ہے۔ بیورو کریٹس، سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات کے بچے اب بھارت جاکر اعلیٰ تعلیم پانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اب فنون اور تجارت کی تعلیم کے لیے بھی بھارت کا رخ کیا جارہا ہے۔ حد یہ ہے کہ بیوٹیشن و بالوں کو سنوارنے کے کورس بھی بھارت جاکر کیے جارہے ہیں۔ بھارت میں داخلے دلانے والے اب اس قدر فعال ہیں کہ وہ بنگلادیش کے پہلی سے پانچویں جماعت تک کے بچوں کو بھی بھارت میں تعلیم دلوانے کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ یہ رجحان اب فیشن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھارت میں تعلیم پانے والے بنگلادیشی نوجوانوں کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ ان پر سالانہ ۵۰ سے ۶۰ کروڑ ٹاکا خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ نوجوان بھارت میں صرف تعلیم نہیں پاتے بلکہ انہیں بہت باریکی اور ذہانت سے بھارت نواز بھی بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں تعلیم پانے کے بعد ان کے ذہنوں کا بھارت کی ثقافت سے محفوظ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ بنگلادیش واپسی کے بعد یہ نوجوان جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو بھارت کے لیے ان کے دلوں میں پہلے ہی نرم گوشہ ہوتا ہے۔ یہ ہر معاملے میں بھارت کو اہمیت دیتے ہیں۔ بھارت سے ثقافتی اور معاشی طور پر مرعوب ہوکر یہ ہمیشہ ایسے اقدامات کرتے ہیں جن سے بنگلادیش کے مفاد کو خاطر خواہ تحفظ ملے نہ ملے، بھارت کے مفادات ضرور محفوظ ہوجاتے ہیں۔ بھارت میں تعلیم پانے والے نوجوان اپنے ملک کی شناخت پر بھی زیادہ فخر کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک بھارت اور بنگلادیش ایک ہیں۔ وہ بھارت کو یا بنگلادیش کو ایک الگ ملک کے طور پر دیکھتے ہی نہیں۔ ’’را‘‘ کی کوشش ہے کہ بنگلادیش کی نئی نسل اپنی الگ شناخت پر زیادہ فخر نہ کرے اور بھارت کو ایک بالا دست قوت کے طور پر تسلیم کرلے۔ بھارت میں تعلیم پانے والے نوجوانوں پر ’’را‘‘ کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ وہ بھارت سے پہلے ہی خاصے مرعوب ہوچکے ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ سِکم کو بھارت کا حصہ بنانے میں سِکم کے ان افسران نے اہم کردار ادا کیا، جنہوں نے بھارت میں تعلیم پائی تھی اور جن کے ذہن بھارت کی بالا دستی تسلیم کرچکے تھے۔ نیپال کے کیس میں بھی یہی ہوا۔ نیپال کے متعدد سیاست دان بھارت میں تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ انہوں نے نیپال کو بھارت کے قدموں میں ڈالنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ایک طرف تو چین سے اسلحے کی خریداری کے معاہدے ختم کیے گئے اور دوسری طرف بھارت کی پالیسیوں کو بخوشی تسلیم کیا گیا۔ شاہ بریندرا چاہتے تھے کہ نیپال کو ’’امن زون‘‘ بنایا جائے اور اقوام متحدہ میں اس تجویز کو ۱۱۶؍ارکان کی حمایت بھی حاصل ہوچکی تھی مگر بھارت میں تعلیم و تربیت پانے والے نیپالی اعلیٰ حکام نے ایسا ہونے نہیں دیا۔
بھارت میں پڑھنے والے وطن واپسی پر اپنی مذہبی اور ثقافتی اقدار کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ جامعات میں اسلامی تعلیمات کا اہتمام کوئی نئی بات نہیں۔ بھارت نواز عناصر کی بے باکی کا گراف اس حد تک بلند ہوچکا ہے کہ اب وہ ڈھاکا یونیورسٹی اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نصاب سے اسلامیات کو خارج کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت نواز اساتذہ اور طلبہ کی مرعوب ذہنیت ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلامی اقدار اور روایات پر فخر ختم ہوگیا ہے اور جامعات کا نصاب بھی سیکولر ہوکر رہ گیا ہے۔
بنگلادیش کے قیام کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی کے ایمبلیم سے ’’اقرا بسم ربک الذی خلق‘‘ کے الفاظ حذف کردیے گئے۔ اسی طور ڈھاکا یونیورسٹی میں سلیم اللہ مسلم ہال اور فضل حق مسلم ہال میں سے لفظ ’مسلم‘ خارج کردیا گیا۔ اس پر کسی نے خاطر خواہ احتجاج بھی نہیں کیا۔ سیکولر عناصر تعلیمی اداروں میں اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور اقدار کے بارے میں ان کا رویہ خاصا اہانت آمیز ہوتا ہے۔ ۸ جون ۱۹۹۴ء کو ڈاکٹر قمر الاحسن چوہدری نے جب تجویز پیش کی کہ ڈھاکا یونیورسٹی کے ایمبلیم میں قرآنی آیت اور ہالز کے ناموں میں لفظ مسلم دوبارہ شامل کردیا جائے تو ’’را‘‘ کے حمایت یافتہ اساتذہ اور طلبہ اس تجویز کے آڑے آگئے اور عملی سطح پر کچھ بھی نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر قمر الاحسن چوہدری پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کیا گیا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی۔
ہندو بدھ کرسچین اوئیکیا پریشد نے ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے سامنے یہ مطالبہ رکھا ہے کہ جامعہ کی حدود میں قرآن کی تلاوت نہ کی جائے۔ ان کا استدلال ہے کہ قرآنی آیات کی تلاوت کرنا پاکستان سے علیحدگی کی جنگ اور بنگلادیش کے قیام کے منافی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کہنا جنگِ آزادی کے آدرش کے خلاف ہے۔
ڈھاکا یونیورسٹی کی حدود میں قرآنی آیات کی تلاوت کے خلاف تیار کی جانے والی یادداشت پر ۷۰ طلبہ نے دستخط کیے۔ ان تمام طلبہ کا تعلق جگن ناتھ ہال سے تھا۔ یہ لوگ اس بات کے شدید مخالف تھے کہ جامعہ کی حدود میں کوئی بھی ایسی بات کی جائے، جس سے اسلامی تشخص کی بُو آتی ہو۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے خفیہ ادارے نے کیسا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ اگر اس سیلاب کے آگے بند نہ باندھا گیا تو یہ ہماری تمام اقدار اور مذہبی شناخت بہا لے جائے گا۔
ایک طرف تو جامعات میں اسلامی تعلیمات کی راہ روکی جارہی ہے اور دوسری طرف بہت سے مجسمے لگائے جارہے ہیں۔ خالص اسلامی ماحول میں تو مجسموں کی کوئی گنجائش نہیں۔ کالجوں اور جامعات میں مجسمے دھڑلّے سے نصب کیے جارہے ہیں۔ کوئی روکنے والا ہے، نہ ٹوکنے والا۔ یہ سب کچھ سیکولر عناصر کو ملنے والی کھلی چُھوٹ کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ بنگلادیشی حکومت نے اس پورے معاملے سے یوں عدم توجہ برتی ہے جیسے اس کا اس پورے کھیل سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ اگر یہ روش برقرار رہی تو بنگلادیش میں ایک طرف تو تعلیم کا مکمل خاتمہ ہوکر رہے گا اور دوسری طرف نئی نسل کے دل و دماغ سے اسلامی اور قومی شناخت کا تصور بھی مٹ کر رہ جائے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply