
اس حقیقت سے تو اب کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے بنگلادیش کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا اور یہ کہ بنگلادیش کے حکمراں طبقے میں اُس کے اثرات غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں۔ بنگلادیش کی پالیسیوں پر بھی یہ ادارہ بری طرح اثر انداز ہوتا رہا ہے۔
بنگلادیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن پر ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بہت سے لوگ اس الزام کو درست نہیں مانتے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلادیش کے قیام کی تحریک میں بھارت سے مدد مانگی اور بھارت نے یقینی طور پر اس خیال سے اس تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا کہ جب ایک بار پاکستان سے الگ ہوجائے گا تو زمین کا یہ ٹکڑا مکمل طور پر بھارت کے زیر نگیں ہوگا، کیونکہ بنگلادیش کے بانی رہنما بھی احسان مند رہیں گے اور بھارت کی پالیسیوں پر ہی عمل کو ترجیح دیتے رہیں گے۔
شیخ مجیب الرحمن نے بنگلادیش کے قیام کے سلسلے میں بھارت سے مدد ضرور لی تھی مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس مدد کے عوض بھارت بہت کچھ حاصل کرنا چاہے گا۔ ۱۹۷۲ء میں دوستی کا معاہدہ کرنے کے بعد بھارت نے یہ تصور کرلیا تھا کہ وہ ہر معاملے میں بنگلادیش کو مکمل طور پر زیر نگیں رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ شیخ مجیب کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جب بنگلادیش معرض وجود میں آجائے گا تو بھارت اسے ہر طرح سے اپنا مطیع و فرماں بردار بناکر رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ یہی سبب ہے کہ جب بنگلادیش نے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر کام شروع کیا تو بھارتی قیادت کو مایوسی ہوئی اور اُسے یہ بات پسند نہ آئی۔
بھارتی قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بنگلادیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن چاہیں گے کہ ان کا ملک آزاد اور خود مختار حیثیت میں آگے بڑھے۔ جب بنگلادیش نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیے تو بھارتی قیادت کو بہت تشویش لاحق ہوئی۔ وہ بنگلادیش کے ذریعے جو کچھ حاصل کرنا چاہتی تھی وہ خاک میں ملتا دکھائی دینے لگا۔ شیخ مجیب الرحمن کی شخصیت بلند و بالا تھی۔ ان کی مقبولیت بے انتہا تھی۔ ایسے میں بھارت کے لیے ممکن نہ تھا کہ بنگلادیش کو اپنے اشاروں پر نچائے۔
’’را‘‘ کے لیے حیرت اور افسوس کا لمحہ وہ تھا جب بنگلادیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی فوج سے بنگلادیشی سرزمین چھوڑنے کو کہا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ان بھارتی انتظامی افسران کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دیا جو ۱۶ دسمبر کو پاکستانی فوج کی شکست کے بعد اہم عہدوں پر فائز ہوگئے تھے۔
شیخ مجیب الرحمن نے ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء کو لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کرکے بھارتی قیادت کو مزید مایوس کردیا۔ بھارتی قیادت چاہتی تھی کہ بنگلادیش ایک سیکولر ریاست کے طور پر زندہ رہے اور کسی بھی ملک سے زیادہ تعلقات نہ رکھے اور بالخصوص ’’اسلامی امہ‘‘ سے ممکنہ حد تک دور رہے۔
شیخ مجیب الرحمن کی شخصیت ’’را‘‘ کے منصوبوں کی راہ میں دیوار دکھائی دینے لگی تو ’’را‘‘ نے بنگلادیشی قیادت میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش شروع کردی۔ شیخ مجیب کی کابینہ اور عوامی لیگ کے عہدیداروں میں ’’را‘‘ نے اپنے ایجنٹ داخل کرنے کا عمل شروع کیا۔ بنگلادیشی قیادت میں زیادہ سے زیادہ اختلافات کو ہوا دینے کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ’’را‘‘ نے اپنے دوستوں اور دشمنوں، دونوں ہی کے خلاف سازش کی اور بنگلادیش میں شیخ مجیب کے ساتھیوں ہی کو اُن سے اس قدر بدظن کردیا کہ وہ ایک الگ پارٹی قائم کرکے عوامی لیگ کے مقابل آگئے۔ ’’را‘‘ کی ایما پر بنگلادیش میں ایسے دانشور کھڑے ہوئے جو شیخ مجیب کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ میڈیا میں بھی ایسے لوگ لائے گئے جو بھارتی عزائم کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار تھے۔
جن لوگوں کو شیخ مجیب سے کسی بھی معاملے میں کوئی اختلاف تھا انہیں ایک پلیٹ فارم پر لاکر ’’جنو باہنی‘‘ کے نام سے ایک دہشت گرد گروپ تیار کیا گیا۔ یہ گروپ شیخ مجیب کو بدنام کرنے کے لیے ملک میں شدید عدم استحکام پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہوا۔ ملک میں کام بند کرنے اور پہیہ جام ہڑتال کا رواج متعارف کرایا گیا۔ بات بات پر احتجاج کرکے حکومت کی راہ میں زیادہ سے زیادہ دیواریں کھڑی کرنے کی سازش تیار کی گئی۔ بنگلادیش چونکہ ابتدائی مرحلے میں تھا اس لیے اس کے ادارے ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوئے تھے۔ ان میں استحکام نہیں تھا، جامعیت نہیں تھی اور کام کرنے کا ڈھنگ بھی وہ نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا۔ ایسے میں ’’را‘‘ نے اپنے ایجنٹس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ خرابی کی راہ ہموار کی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بنگلادیش کی معیشت، معاشرت اور سیاست تینوں میں وہ استحکام پیدا نہ ہو پایا جو ہونا چاہیے تھا۔ سیاسی عدم استحکام نے معیشت میں خرابی پیدا کی۔ معیشت کی خرابی نے معاشرت کو کمزور کیا۔ لوگوں میں بے یقینی اور بدگمانی کا چلن عام ہوا۔ جس قیادت نے ملک بنایا تھا اُسی پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ قیادت کے بارے میں لوگ الٹا سیدھا کہنے لگے اور مختلف گروہ تیزی سے ابھر کر سامنے آنے لگے۔ ان میں بیشتر گروہوں کو ’’را‘‘ کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کے آغوش میں بیٹھ کر ملک بنایا تھا، مگر جب ملک بن گیا یعنی کام نکل گیا تب ’’را‘‘ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ شیخ مجیب کو اپنی گود میں کیسے رکھا جائے۔ شیخ مجیب نئے ملک میں بھارت کی بنائی ہوئی پالیسیاں نافذ کرنے کے موڈ میں نہ تھے۔ وہ باقی دنیا اور بالخصوص اسلامی امہ سے تعلق قائم کرنا اور رکھنا چاہتے تھے۔
نو زائیدہ بنگلادیش کو مستحکم رکھنے کے لیے معیشت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھنا لازم تھا مگر ’’را‘‘ نے اپنے ایجنٹس کے ذریعے پورا اہتمام کیا کہ ملک بھر میں ہڑتالیں کی جائیں، کارخانے اور دفاتر بند رکھے جائیں، شہر شہر حالات اتنے خراب کردیے جائیں کہ لوگ گھروں سے نکلتے بھی ڈریں، پٹ سن کے کھیتوں اور گوداموں میں آگ لگائی جاتی رہے، تاکہ معیشت اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکے۔ راکھی باہنی کے نام سے ایک پیرا ملٹری فورس تیار کی گئی جس پر ’’را‘‘ کا غلبہ تھا۔ اس فورس کے ذریعے قوم پرستوں کو چُن چُن کر ختم کیا گیا۔ ’’را‘‘ نے بنگلادیش کو زیادہ سے زیادہ مفلوج کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بھارتی قیادت نے خطے میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے ایک اہم مرحلے کے طور پر شیخ مجیب اور ان کے ساتھیوں کی مدد کی تھی تاکہ مشرقی پاکستان بنگلادیش میں تبدیل ہو اور بھارت کے لیے علاقائی بالا دستی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا زیادہ آسان ہوجائے۔ جب شیخ مجیب ہاتھ سے نکلتے دکھائی دیے تو بھارتی قیادت سے برداشت نہ ہوا اور اس نے ’’را‘‘ کے ذریعے شیخ مجیب کو نکیل ڈالنے کی بھرپور کوشش کی۔ شیخ مجیب کے لیے بھی فیصلہ کن مرحلہ آچکا تھا۔ اگر وہ بھارتی دباؤ کے سامنے جھک جاتے تو بنگلادیش کا وجود ہی بے معنی ہوکر رہ جاتا۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارت کا دباؤ ایک خاص حد تک قبول یا برداشت کیا جائے۔
شیخ مجیب الرحمن اچھی طرح جان چکے تھے، سمجھ گئے تھے کہ اگر بھارتی خفیہ ادارے کو روکا نہ گیا، لگام نہ دی گئی تو ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ریاستی مشینری اور بالخصوص سلامتی کے معاملات سے ’’را‘‘ کے ایجنٹس کو نکالنے کا عمل شیخ مجیب الرحمن کو بہت مہنگا پڑا۔ انہیں اندازہ تو تھا کہ یہ کام آسان نہیں، مگر یہ بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگی کہ ’’را‘‘ کے ایجنٹس کو لگام دینا اُن کے لیے جان لیوا ثابت ہوگا۔ ۱۵؍ اگست، ۱۹۷۵ء کو ایک فوجی بغاوت میں شیخ مجیب اور ان کے اہل خانہ کو قتل کردیا گیا۔ خوندکر مشتاق نے اقتدار سنبھالا اور اعلان کیا کہ اسلام نواز پالیسیاں اختیار کی جائیں گی۔ مگر بہت جلد ان کی حکومت کا تختہ ’’را‘‘ کی مدد سے برپا کی جانے والی بغاوت میں خالد مشرف نے الٹ دیا۔
بعد میں ضیاالرحمن ملک کے صدر بنے۔ وہ اسلام نواز پالیسیوں کے حق میں تھے اور بنگلادیشی شناخت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ انہوں نے بھارتی تسلط سے دور رہ کر ملک چلانے کی کوشش کی۔ بھارتی قیادت چاہتی تھی کہ وہ بھارتی عزائم کے مطابق کام کریں مگر ضیاالرحمن کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی اٹھارہ کوششیں کی گئیں۔ بالآخر ۱۹۸۱ء میں ’’را‘‘ کے ایجنٹس انہیں قتل کرنے میں کامیاب ہوئے اور یوں ملک میں افتراق و انتشار کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
بھارت کے معروف سیاست دان سبرامنیم سوامی نے مشہور جریدے ’’سنڈے‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ضیاالرحمن کے قتل کی منظوری بھارتی وزیر اعظم آں جہانی مسز اندرا گاندھی، اس وقت کے ’’را‘‘ چیف آر این کاؤ اور اس قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے ’’را‘‘ کے اعلیٰ افسر شنکرن نائر نے دی تھی۔ مگر پھر یہ ہوا کہ اندرا گاندھی کی حکومت ختم ہوگئی اور مرار جی ڈیسائی وزیراعظم بنے۔ جب انہیں ضیاالرحمن کے قتل کی منصوبہ بندی کا علم ہوا تو انہوں نے اس قتل کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا۔ انہیں بتایا گیا کہ معاملات بہت آگے جاچکے ہیں اور یہ کہ اگر اب ضیاالرحمن کو قتل نہ کیا گیا تو بنگلادیش میں ’’را‘‘ کے مفادات کو خطرناک حد تک نقصان پہنچے گا۔ اس کے باوجود مرار جی ڈیسائی نے ضیاالرحمن کے قتل کے لیے گرین سگنل نہ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ’’را‘‘ نے ان کے قتل کا منصوبہ منسوخ کردیا اور وہ حکومت کرتے رہے۔ بعد میں جب ’’را‘‘ کو حالات سازگار محسوس ہوئے تب اس نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔
جنرل ضیاالرحمن کے قتل کے بعد عبدالستار بنگلادیش کے صدر بنے اور انہوں نے ضیاء دور کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کا اعلان کیا مگر یہ بھارت کو منظور نہ تھا۔ ۲۴ مارچ ۱۹۸۲ء کو لیفٹیننٹ جنرل حسین محمد ارشاد نے صدر عبدالستار کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ حسین محمد ارشاد نے ۱۹۷۴ء میں بھارتی ملٹری اکیڈمی میں ایک تربیتی کورس کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تب ہی ’’را‘‘ نے انہیں منتخب کرکے تربیت کی تھی اور انہیں یقین دلایا تھا کہ اگر انہوں نے کبھی اقتدار پر قبضے کی کوشش کی تو ان کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔ اپنے ہاں تربیت دینے کے بعد ’’را‘‘ نے بنگلادیش میں بھی ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ انہیں آرمی چیف کے منصب تک پہنچنے میں بھرپور مدد دی گئی اور بالآخر انہوں نے ’’را‘‘ کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کر ہی لیا۔
حسین محمد ارشاد نے بھی ضیاء الرحمن کی طرح آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی اختیار کی اور اسلام کو بنگلادیش کا سرکاری مذہب قرار دیا۔ یہ سب کچھ ’’را‘‘ کے لیے انتہائی حیرت انگیز اور مایوس کن تھا۔ نئی دہلی کو حسین محمد ارشاد کے عزائم میں تبدیلی پسند نہ آئی۔ انہیں ہٹانا لازم ہوگیا۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹس نے ایک بار پھر بنگلادیش کو شدید معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔ ہڑتالوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ دھرنے دیے جانے لگے۔ پہیہ جام کی کال دینا عام ہوگیا۔ بیشتر تعلیمی اور کاروباری ادارے انتہائی عدم استحکام سے دوچار ہوئے۔ ضیاء الرحمن کے دور میں ’’را‘‘ کو بنگلادیشی اسٹیبلشمنٹ سے بہت حد تک دیس نکالا مل چکا تھا۔ حسین محمد ارشاد کے دور میں ملک شدید عدم استحکام سے دوچار رہا۔ اس کے نتیجے میں بیورو کریسی اور فوج میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایک بڑی اور بنگلادیش کے لیے انتہائی منفی تبدیلی یہ تھی کہ حسین محمد ارشاد کے زمانے میں ’’را‘‘ کے حمایت یافتہ افراد بیورو کریسی اور فوج میں پھر سے جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اپنے پیر ایک بار پھر مضبوطی سے جمائے اور بنگلادیش کی پالیسیوں کو بھارت نواز بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
حسین محمد ارشاد کے دور میں سیاسی جماعتوں میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ دوبارہ داخل ہوئے اور بنگلادیشی سیاست کو ایک بار پھر بھارت کی طرف جھکانے کی تیاریاں شروع کردیں۔
حسین محمد ارشاد کا خیال یہ تھا کہ اگر وہ ملکی پالیسیوں میں بھارت کے مفادات کا خاص خیال رکھیں تو اقتدار برقرار رکھنے میں انہیں بھارتی قیادت کی طرف سے غیر معمولی مدد مل سکے گی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ بھارت نے حسین محمد ارشاد کی مدد ضرور کی، مگر ملک میں حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ حسین محمد ارشاد کا اقتدار برقرار ررکھنا ناممکن ہوچکا تھا۔
۶ دسمبر ۱۹۹۰ء تک بنگلادیش میں حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ لوگ حسین محمد ارشاد کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس آمر سے جلد از جلد چھٹکارا پالیں، اور یہی ہوا۔ حسین محمد ارشاد کا دور ختم ہوا تو ضیاالرحمن کی بیوہ خالدہ ضیاء کی بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ یوں بنگلادیش میں ایک نیا سیاسی دور شروع ہوا۔ خالدہ ضیاء نے بھارت نواز پالیسیاں اپنانے کو ترجیح دی۔ وہ عوامی لیگ سے نظریاتی شناخت چھین لینا چاہتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ عوامی لیگ کا دور ختم ہو اور بی این پی بھرپور قوت کے ساتھ نظریاتی محاذ پر ابھرے۔
بھارت میں ’’را‘‘ کی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے۔ معاملات دن بہ دن الجھتے جارہے ہیں۔ ملک کی حالت ایسی نہیں کہ تیزی سے درست کی جاسکے۔ خالدہ ضیاء کے دور میں بھارت کے ایجنٹس اور ان کے عزائم کو بھرپور طور پر پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ اور کیفیت یہ ہوئی کہ ملک کے بیشتر معاملات میں بھارتی ایجنٹس کا عمل دخل غیر معمولی حد تک بڑھ گیا۔
بھارت نے پوری کوشش کی ہے کہ بنگلادیش کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکے۔ بنگلادیش کو بھارتی مصنوعات کی منڈی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بنگلادیش میں صنعتی سیٹ اپ قائم کرنے کی راہ ہموار ہونے ہی نہیں دی جارہی۔ بھارتی سرمایہ کار رات دن اس کوشش میں رہتے ہیں کہ بنگلادیشی معیشت کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ صنعت، تجارت، میڈیا سبھی کچھ بھارت کے زیر اثر ہے۔
بنگلادیش کے طول و عرض میں سیاسی جماعتیں، طلبہ کے گروہ اور دیگر تنظیمیں رات دن بھارتی عزائم کے لیے راہ مزید ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں۔ معاملات کو زیادہ سے زیادہ بھارت کے حق میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹس رات دن اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ بنگلادیشی پالیسیوں میں بھارت کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا ہو۔
بھارتی قیادت نے بھی بنگلادیش کو کمزور کرنے کی پالیسی اب تک ترک نہیں کی۔ ایسے میں یہ توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے کہ بھارتی قیادت بنگلادیش کو کبھی نظر انداز کرے گی، یعنی غیر مستحکم کرنے کی کوششوں سے باز آجائے گی؟ اپنے استحکام کی فکر خود بنگلادیشی قیادت اور عوام ہی کو لاحق رہے گی تو بات بنے گی ورنہ کچھ بھی نہ ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply