
بھارتی قیادت ایک زمانے سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ اس کی سات شمال مشرقی ریاستوں کو ضروری اشیا و خدمات کی فراہمی کے لیے بنگلادیش راہداری کی سہولت فراہم کرے۔ بھارت کی طرف سے بنیادی تجویز یہ ہے کہ بنگلادیش ڈھاکا کے ذریعے کولکتہ، گوہاٹی، شیلونگ اور اگرتلا کے درمیان سڑک اور ریل کی راہداری فراہم کرے۔ معاملہ صرف سڑک اور ریل تک محدود نہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ اسے بنگلادیشی سرزمین پر بہتے دریاؤں میں جہاز رانی کا حق بھی دیا جائے۔ تری پورہ اور منی پور کی ریاستوں تک ضروری اشیا کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے بھارتی قیادت بنگلادیشی بندر گاہ چٹا گانگ تک بھی رسائی چاہتی ہے۔ بھارت راہداری کی سہولتوں کے عوض بنگلا دیش کو ادائیگی کرنے کے لیے بھی تیار ہے اور اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ اس نوعیت کی راہداری سہولتیں دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں اور اس اعتبار سے دیکھیے تو بھارت کی تجاویز بہت معصوم اور بے ضرر سی معلوم ہوتی ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ چھوٹے پڑوسیوں کے حوالے سے بھارت کے توسیع پسند عزائم کی روشنی میں یہ سب کچھ بہت خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ بنگلادیشی قیادت کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ راہداری کی سہولت تجارتی سرگرمیوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بھارت اس راستے سے بنگلادیش کی سلامتی اور سالمیت کے لیے خطرات پیدا کر گزرے گا۔
یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ بھارت کا شمال مشرقی حصہ (جہاں سات ریاستیں واقع ہیں) ملک کے مرکزی حصے سے الگ یا کٹا ہوا نہیں ہے۔ ان سات ریاستوں اور باقی ماندہ ملک کے درمیان مواصلات کا نظام موجود ہے، جس کے ذریعے لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے اور ضرورت کا سارا سامان بھی پہنچایا جاتا ہے۔ بھارت اس مواصلاتی نظام کے ذریعے صرف سامان ہی نہیں بھیجتا یا لوگوں کی آمد و رفت ہی نہیں ہوتی بلکہ فوجی بھی (ساز و سامان کے ساتھ) اسی نظام کے تحت بھیجے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو اس وقت راہداری کی کچھ خاص ضرورت نہیں ہے۔
حالات اور حقائق کا تجزیہ کرنے اور متعلقہ امور کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد درج ذیل وجوہ کی بنیاد پر لازم ہے کہ بنگلادیشی قیادت بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کرنے سے گریز کرے۔
٭ کمزور معیشت کے باعث بنگلادیش پہلے ہی بھارت کے مقابلے میں غیر معمولی تجارتی خسارے کا حامل ہے۔ بھارت نے اپنی مصنوعات کی اسمگلنگ مستقل بنیاد پر جاری رکھی ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں بنگلادیش کا صنعتی ڈھانچا بیٹھ گیا ہے۔ غیر یقینی حالات نے بھی بنگلادیش کی معیشت کو غیر معمولی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ ایسے میں بھارت کو راہداری کی سہولت دینا معیشت کو مزید غیر مستحکم کرنے کا باعث بنے گا کیونکہ راہداری کی سہولت ملنے پر بھارت کی طرف سے اسمگلنگ بھی بڑھ جائے گی اور یوں بنگلادیشی بازاروں میں بھارتی اموالِ تجارت کا حجم مزید بڑھ جائے گا۔
٭ ہماری پولیس اور سیکورٹی فورسز کے لیے راہداری کے تمام راستوں کی نگرانی ممکن نہ ہوگی۔ بھارت کی طرف سے اسمگلنگ روکنے کے لیے لازم ہوگا کہ داخلی اور خارجی راستوں کی نگرانی بھارت کی مدد سے کی جائے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا حماقت سے کم نہ ہوگا کہ بھارت کی مدد سے ہم اپنے تمام داخلی اور خارجی راستوں کی بہترین نگرانی کرسکیں گے۔ ابتدائی دور میں تو بھارت ہمارے ساتھ مل کر نگرانی کرے گا، مگر پھر پیچھے ہٹ جائے گا۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بھارت بہت سے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل سے انحراف اور وعدے کرکے مکر جانے کی ’’شہرت‘‘ رکھتا ہے۔
٭ بھارت راہداری کے حوالے سے ابتدا میں تو ایک معاہدے کے مسوّدے پر متفق ہوکر اس پر عمل بھی کرسکتا ہے۔ مگر پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ معاہدے میں ترامیم چاہے اور تب بنگلادیش کے لیے پیچھے ہٹنا ممکن نہ ہوگا کیونکہ وہ بھارت کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس چکا ہوگا۔
٭ بھارت کو راہداری کی سہولت دینے کا ایک مطلب بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کو کام کرنے کی آزادی دینا بھی ہوگا۔ راہداری کی سہولت ملنے پر ’’را‘‘ کے لیے زیادہ آسانی سے کام کرنا ممکن ہوگا، وہ ہتھیار اور دھماکا خیز مواد بھی آسانی سے بنگلادیش میں لاسکے گی اور اس کے ایجنٹس بھی آسانی سے بنگلادیش میں آ، جا سکیں گے۔
٭ بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کرنے کی صورت میں بھارتی ٹرانسپورٹرز کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ وہ راہداری کی سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹوریں گے جبکہ بنگلادیشی ٹرانسپورٹرز کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ان کا پہلے سے کمزور کاروبار مزید کمزور ہوجائے گا۔
٭ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کرنے کی صورت میں معاملات صرف تجارت تک محدود نہیں رہیں گے۔ بھارت اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجیوں کی نقل و حرکت بھی یقینی بناسکتا ہے۔ انتہائی ضرورت کا بہانہ تراش کر بھارت رفتہ رفتہ ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی نقل و حمل بھی شروع کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں بنگلادیشی سرزمین پر بھارتی فوجیوں کی موجودگی بھی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
٭ بھارت راہداری کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شمال مشرقی ریاستوں کے لیے سپلائی کی آڑ میں چین کے خلاف فوجیوں کی تعیناتی میں بھی اضافہ کرسکتا ہے۔ اگر راہداری کی سہولت چین کے خلاف بروئے کار لائی جائے تو بنگلادیش اور چین کے دوستانہ تعلقات پر ضرب پڑ سکتی ہے۔
٭ بنگلادیش نے اگر بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کی تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارت اپنے تجارتی سامان، گاڑیوں اور ان کے عملے کی حفاظت کے نام پر بنگلادیشی سرزمین پر اپنی فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارتی فوجیوں کی تعیناتی کا جواز پیدا کرنے کے لیے بھارت کے تجارتی قافلوں پر حملوں کا ڈراما رچایا جائے۔ ایک بار پھر بنگلادیشی سرزمین پر بھارتی فوج نے قدم رکھ دیے تو آگے چل کر خود بھارتی فوجیوں پر بھی حملوں کا ڈراما رچاکر بنگلادیش کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
٭ بھارت کو راہداری کی سہولت دینے کے بعد بنگلادیش کے لیے متعلقہ راستوں پر اپنی اتھارٹی منوانا انتہائی دشوار ہوگا۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ایک بار راہداری دینے کے بعد معاملے کو ختم کرنا ایسا آسان نہ ہوگا۔ بھارت یہ جواز پیش کرسکتا ہے کہ راہداری اُس کی شمال مشرقی ریاستوں کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ ایسے میں بنگلادیش کی طرف سے مزاحمت کی صورت میں معاملات محاذ آرائی اور پھر تصادم کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ بھارت اپنے مفادات کو بچانے کے لیے کوئی بھی بہانہ گھڑ کر بنگلادیش پر باضابطہ جنگ مسلّط کرسکتا ہے۔
بھارت کے لیے بنگلادیش سے راہداری کی سہولت حاصل کرنے کے لیے ’’را‘‘ نے باضابطہ مہم شروع کردی ہے۔ بنگلادیش میں ’’را‘‘ کے حاشیہ بردار دن رات یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کرنا بنگلادیش کی معیشت کے لیے خاصا سود مند ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ ’’را‘‘ نے راہداری کی سہولت یقینی بنانے کے لیے بنگلادیش پر بیک ڈور دباؤ ڈالنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت نے فرخا ڈیم کا معاملہ بھی راہداری سے جوڑ دیا ہے۔ کوشش یہ کی جارہی ہے کہ بنگلادیش پر دباؤ ڈال کر اسے کسی نہ کسی طرح راہداری کی سہولت دینے پر آمادہ کرلیا جائے۔ اس حوالے سے مختلف تجاویز پیش کی جارہی ہیں جو بہت پرکشش معلوم ہوتی ہیں، جب اُن کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت صرف اپنے مفاد کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانا چاہتا ہے۔ بھارت نے راہداری کی سہولت کے عوض بنگلادیش کو نیپال اور بھوٹان کے لیے راہداری دینے کی بھی پیش کش کی ہے۔ ہمیں بھارت کے بچھائے ہوئے جال میں پھنسنا نہیں چاہیے۔ اگر بھارت کی ٹرینوں اور ٹرکوں نے ایک بار بنگلادیش سے گزرنا شروع کردیا تو پھر یہ سلسلہ روکنا انتہائی دشوار ثابت ہوگا۔ بھارت چاہتا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں راہداری کی سہولت آزمائشی بنیاد پر دی جائے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت نے کس طور فرخا ڈیم کے مقام سے ہمارے حصے کا پانی آزمائشی بنیاد پر روک لیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کی میٹھی زبان پر بھروسہ کرکے فرخا ڈیم کے حوالے سے چند امیدیں وابستہ کرلی تھیں مگر ہم جانتے ہیں کہ بھارتی قیادت نے دھوکا دیا اور یہ معاملہ اب تک خرابی کی نذر ہے۔
کوئی بھی معاملہ ایک بار شروع ہوجائے تو پھر اُسے روکنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ بھارت کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ اگر اسے راہداری کی سہولت دی گئی تو پھر اُس کے عزائم کی راہ میں کوئی بھی مضبوط دیوار کھڑی کرنا انتہائی دشوار ہوگا۔ بھارت نے کئی مواقع پر ثابت کیا ہے کہ دی ہوئی زبان سے مکر جانا اس کی عادت ہے۔ بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کرنا بھارت کو اپنے ہاں آن بیٹھنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
بھارتی قیادت نے بنگلادیش کے قیام کو دل سے کبھی قبول نہیں کیا۔ اس کی پوری کوشش رہی ہے کہ بنگلادیش کسی نہ کسی اعتبار سے بھارت کا دست نگر ہوکر رہے۔ بنگلادیش کی سلامتی اور سالمیت کے لیے بھارت کی طرف سے خطرات لاحق ہی رہے ہیں۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ بنگلادیش کی معیشت زیادہ سے زیادہ کمزور رہے، یعنی کمزور رکھی جائے تاکہ وہ کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو اور ایک پرعزم اور پرجوش قوم کی حیثیت سے اپنی حیثیت منوانے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ بنگلادیش سے راہداری کی سہولت طلب کرنا بھارت کے لیے کوئی ناگزیر معاملہ نہیں۔ شمال مشرقی ریاستوں کو تمام ضروری اشیا پہنچانے کا نظام موجود ہے اور اس کے تحت کام ہوتا ہی آیا ہے مگر اب راہداری کا بہانہ تراش کر بھارتی قیادت کسی نہ کسی طور بنگلادیش کی سرزمین پر باضابطہ انداز سے قدم جمانے کے فراق میں ہے۔ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ بنگلادیش کی سرزمین پر کوئی ایسا انتظام کرلیا جائے، جس کے ذریعے مستقبل میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانا اور بنگلادیش کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا ممکن ہو۔ ایسے میں بنگلادیشی قیادت کو ثابت کرنا ہے کہ وہ تمام فیصلے دانش مندی سے کرتی ہے۔ اگر اس نے بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کی تو وہ دن دور نہیں جب بھارت تمام بنگلادیشی معاملات کو اپنی مٹھی میں لے چکا ہوگا۔ بھارتی فوجیوں کو بنگلادیشی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع ملنے کی دیر ہے، پھر بھارتی عزائم کھل کر سامنے آجائیں گے۔ بنگلادیشی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ بھارت کو اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت دینا قومی سلامتی اور سالمیت کے نقطۂ نظر سے کسی بھی طور سودمند نہیں ہوگا تو پھر جان بوجھ کر مصیبت کو گلے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے میں دانش مندی کا تقاضا ہے کہ بھارت کو راہداری کی سہولت فراہم کرنے سے یکسر گریز کیا جائے اور اگر اس حوالے سے بھارتی قیادت غیر ضروری دباؤ ڈال رہی ہو، بلیک میلنگ پر اتر آئی ہو تو معاملہ عالمی برادری کے سامنے رکھے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply