کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھارت سے خوفزدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ بنگلا دیش ایک افلاس زدہ، ناکام ریاست ہے۔ جس ریاست میں سو طرح کے مسائل ہیں، اُسے بھارت اپنے اندر ضم کرنا کیوں پسند کرے گا؟ ایسے لوگوں کی ’’سادہ لوحی‘‘ پر مر مٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھارت نے کئی چھوٹے علاقوں کو لالچ، دھمکی اور طاقت کے ذریعے ہڑپ لیا ہے۔ حیدر آباد (دکن)، جونا گڑھ ماناودر، گوا، دمن، دیو اور کشمیر اس کی واضح ترین مثالیں ہیں۔ اور ہاں، سب سے بڑی اور واضح مثال تو سِکّم کی ہے۔ ہمالیہ کی ترائی میں واقع اس چھوٹی سی ریاست کو بھارت نے ۱۹۷۵ء میں اپنا حصہ بناکر سکون کا سانس لیا تھا۔ ایسے میں یہ سمجھنا محض سادگی کی انتہا ہے کہ بھارت کے لیے بنگلا دیش کسی کام کا نہیں اور یہ کہ وہ بنگلا دیش کو اپنے اندر ضم کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی موزوں موقع ہاتھ آیا، بھارت کی سیاسی اور عسکری قوتیں بنگلا دیش کو دبوچنے اور اپنا حصہ بنانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائیں گی۔
’’را‘‘ کا حتمی مقصد اور ہدف صرف یہ ہے کہ بنگلا دیش کو بھارت کا حصہ بنادیا جائے۔ ’’را‘‘ کے پالیسی میکرز یہ سمجھتے ہیں کہ شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کو ناکام بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ بنگلا دیش کی آزادی اور خود مختاری ختم کرکے اُسے بھارت کی طفیلی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ کئی محاذوں پر رات دن محنت کرکے بھارت کے پالیسی میکرز بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کے درپے ہیں تاکہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے اور بھارت کے آگے جُھکنے پر مجبور ہوجائے۔ بنگلا دیش کو معاشی، معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی طور پر زیادہ سے زیادہ کمزور اور مفلوج کرنے کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انتہائی کمزور ملک کو دبوچنا اور ڈکار جانا زیادہ مشکل ثابت نہ ہو۔ ’’را‘‘ کے پالیسی میکرز نے آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو اور دیگر بھارتی قائدین کا اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنالیا ہے۔ بھارت کی (ہندو) قیادت نے ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم بھی اس امید پر گوارا کرلی تھی کہ جلد یا بدیر، یہ خطہ پھر اکھنڈ بھارت میں تبدیل ہوجائے گا۔ یہی سبب ہے کہ (پاکستان کے ساتھ ساتھ) اب آزاد و خود مختار بنگلا دیش بھی بھارتی قیادت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چُبھ رہا ہے۔ بھارت کے سیاست دان اور ’’را‘‘ کے افسران اس کانٹے کو جلد از جلد آنکھ سے نکال پھینکنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے بنگلا دیش کو خاطر خواہ حد تک کمزور اور مفلوج کرنا لازم ہے۔ یہ کام وہ جلد از جلد کرنا چاہتے ہیں۔
۱۹۴۷ء میں مشرقی بنگال (موجودہ بنگلا دیش) کے مسلمانوں نے ہندوؤں کی حاکمانہ اور فرقہ وارانہ ذہنیت سے گلو خلاصی اور ایک آزاد اسلامی ریاست (پاکستان) کا قیام ممکن بنانے کے لیے بھارت سے الگ ہونے کو ترجیح دی تھی۔ برطانوی راج کے ختم ہونے کے آثار نمایاں ہوتے ہی مشرقی بنگال سمیت پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے حوالے سے تشویش لاحق ہوئی۔ انہیں اِس خدشے نے آگھیرا کہ آزاد ہندوستان میں ہندو اکثریت ان کے مفادات ہی نہیں بلکہ وجود کو بھی مٹا دینے کے درپے ہوگی۔ ہندو اکثریت کے خوف ہی نے دو قومی نظریے کو عدیم النظیر مقبولیت سے ہمکنار کیا اور پھر یہی نظریہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے لیے الگ، خود مختار اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد بنا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے بنگال کی تقسیم روکنے اور بھارت یا پاکستان کے فریم ورک سے باہر ایک آزاد و خود مختار بنگالی ریاست کے قیام کی بھرپور کوشش کی تھی۔ بھارتی مسلمانوں کے غیر متنازع رہنما قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بھی غیر منقسم بنگال پر مشتمل خود مختار ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اور دیگر ہندو قائدین ایسی کسی بھی ریاست کو قبول اور برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نہرو نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم پر بھی زور دیا تھا۔ موجودہ بنگلا دیش کے علاقے کومیلا سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رہنما اشرف الدین کے نام ایک خط میں نہرو نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا مقصد بھی بیان کردیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پنجاب اور بنگال کو تقسیم کرنے سے ہندوستان کی تقسیم کو غیر موثر بنانے میں مدد ملے گی اور یوں کچھ ہی مدت میں اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔
اکتوبر ۱۹۷۱ء میں بھارت نے بنگلا دیش کی عبوری، جلاوطن حکومت پر دباؤ ڈال کر اُسے سات نکاتی معاہدے پر دستخط کے لیے مجبور کیا۔ یہ سات نکات یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔
٭ بنگلا دیش کے قیام کے لیے، وہ انتظامی افسران ہر صورت اپنے منصب پر رہیں گے، جنہوں نے مشرقی پاکستان کو الگ، آزاد ریاست بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جن لوگوں نے بنگلا دیش کے قیام کی مخالفت کی، اُنہیں برطرف کرکے اُن کی جگہ بھارت کے انتظامی افسران کو بھرتی کیا جائے گا۔
٭ بنگلا دیش کے قیام کے بعد اِس سرزمین پر بھارتی فوجی مطلوبہ تعداد میں تعینات رہیں گے۔ (کوئی ٹائم فریم مقرر نہیں کیا گیا۔)
٭ بنگلا دیش اپنی باضابطہ فوج تشکیل نہیں دے گا اور بھارتی فوجی دستے بنگلا دیش کی حفاظت کے لیے تعینات رہیں گے۔
٭ داخلی سلامتی اور استحکام کی خاطر ایک ملیشیا تشکیل دی جائے گی جو بنگلا دیش کی آزادی کے لیے لڑنے والوں پر مشتمل ہوگی۔
٭ (مشرقی پاکستان کی سرزمین پر) پاکستان کے خلاف جنگ کی قیادت بھارتی فوج کے سربراہ کریں گے۔ بنگلا دیش کا قیام یقینی بنانے کی خاطر پاکستانی فوج سے لڑنے کے لیے بنائی جانے والی ملیشیا مُکتی باہنی بھی بھارتی فوج کے ماتحت رہ کر متحرک ہوگی۔
٭ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان تجارت ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہوگی۔ سال میں ایک بار دو طرفہ تجارت کا حساب کتاب کیا جائے گا اور ادائیگی برطانوی پاؤنڈ میں کی جائے گی۔
٭ بنگلا دیش کی وزارتِ خارجہ بھارتی وزارت خارجہ سے بھرپور اشتراکِ عمل کے تحت کام کرے گی اور جہاں تک ممکن ہوگا، اُس سے مدد پائے گی۔
(یہ نکات بھارت میں بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے چیف آف مشن ہمایوں رشید چوہدری نے مسعود الحق کو اُن کی کتاب ’’بنگلا دیش کے قیام میں ’را‘ اور سی آئی اے کا کردار‘‘ کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے بیان کیے۔)
شُنید ہے کہ بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے صدر سید نذر الاسلام اِس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بے ہوش ہوگئے۔ یہ بات انتہائی حیرت انگیز اور تشویشناک ہے کہ اِس معاہدے کا اصل مسوّدہ بھارت یا بنگلا دیش نے منظر عام پر لانے سے اب تک گریز کیا ہے۔
بھارت سے کیے گئے معاہدے پر عمل کرنے کے لیے بنگلا دیش کی عبوری حکومت کو درج ذیل انتظامی اُمور کی انجام دہی پر رضا مند ہونا پڑا۔
٭ جنرل عبدالغنی عثمانی کے بجائے بھارت کے جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کو متحدہ افواج کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔
٭ پاکستانی افواج جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالیں گی۔
٭ انڈین سول سروس کے افسران ڈھاکا پہنچ کر انتظامی اُمور سنبھالیں گے۔
٭ پاکستانی فوج کی طرف سے ہتھیار ڈال دیے جانے کے بعد بھی بھارتی فوج بنگلا دیش کی سرزمین پر تعینات رہے گی۔
٭ داخلی سلامتی یقینی بنانے کے لیے راکھی (یا رکّھی) باہنی تشکیل دی جائے گی۔
بھارت اپنے فوجیوں کو بنگلا دیشی سرزمین پر غیر معینہ مدت تک تعینات رکھنا چاہتا تھا کہ مگر ۱۰ جنوری ۱۹۷۲ء کو بنگلا دیش پہنچ کر شیخ مجیب الرحمن نے علانیہ طور پر بھارت سے کہا کہ وہ اپنے فوجیوں کو واپس بلالے۔ بھارت کے سابق صدر آنجہانی گیانی ذیل سنگھ نے ایک انٹرویو بنگلا دیش کے حوالے سے بھارتی منصوبوں کو طشت از بام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگلا دیش کی سرزمین سے بھارتی افواج کو واپس بلانا چونکہ دانش مندی پر مبنی فیصلہ نہ تھا، اِس لیے بھارتی مفادات کو اِس فیصلے سے بہت نقصان پہنچا۔ گیانی ذیل سنگھ کا یہ انٹرویو بھارتی اخبارات میں ۲۷ جولائی ۱۹۸۷ء کو شائع ہوا۔
بھارتی افواج کو بنگلا دیش کی سرزمین پر مستقل طور پر تعینات کرنے کا منصوبہ ناکام ہوا تو ’’را‘‘ نے نئی ریاست کو زیادہ سے زیادہ مفلوج اور دست نگر بنانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ ’’را‘‘ کے پالیسی میکرز کو اچھی طرح اندازہ ہوچکا تھا کہ بنگلا دیش کو محض طاقت کے ذریعے ڈکارا نہیں جاسکتا۔ کسی بھی ملک کو روایتی انداز سے ہڑپ کرلینا اب بہت حد تک ناممکن اور ناپسندیدہ ہے۔ فی زمانہ ایسی ہر ریاست کو طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دوسری ریاست پر عملاً قبضہ جمالے۔ دوسری ریاستوں کے کسی بھی علاقے پر قبضہ کرنے والوں کو بدنامی اور لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر فی زمانہ کسی ریاست پر قبضہ ناپسندیدہ ہے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والا کوئی جارحیت پسند ملک اپنی سوچ بدل لے گا اور کسی کو تنگ کرنے سے باز رہے گا۔ اب کسی بھی ملک پر قبضہ کرنے یعنی اُسے دست نگر بنانے کے لیے اُس کی معیشت کو کمزور کیا جاتا ہے اور اُس کے باشندوں کو نفسیاتی طور پر مغلوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مختلف طریقوں سے ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ ہدف بنائے جانے والے ملک کے باشندوں میں اعتماد کی سطح گر جائے اور وہ ہر معاملے میں کسی نہ کسی ملک سے مدد لینے کے بارے میں سوچتے رہیں۔ ہدف بنایا جانے والا ملک جب اعتماد کے فقدان سے دوچار ہوتا ہے تو اُس کی معاشی سرگرمیاں غیر معمولی حد تک متاثر ہوتی ہیں۔ وہ اپنے قدرتی وسائل سے بھی کماحقہ استفادہ نہیں کر پاتا اور اِس کے نتیجے میں وہ محض منڈی کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہ حالت برقرار رہے تو متعلقہ ملک کو دیوالیہ ہونے اور قرضوں کے سمندر میں ڈوب جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسے ملک کے لوگوں میں کام کرنے کا جذبہ توانا نہیں رہتا جس کے نتیجے میں وہ کسی بھی نوعیت کے حملے کے خلاف کھڑے ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
جب کوئی بھی ریاست ایسی کیفیت سے دوچار ہوتی ہے تو باہر سے وہ آزاد اور مختار دکھائی دیتی ہے مگر نفسیاتی اور ثقافتی طور پر غیر معمولی کمزوری سے دوچار ہوچکی ہوتی ہے۔ ایسی ریاست کے عوام کا ذہن مغلوبیت پسند ہو جاتا ہے۔ وہ بیشتر معاملات میں غلامانہ ذہنیت کے تحت سوچنے لگتے ہیں۔ اُن کی ثقافتی شناخت رفتہ رفتہ کمزور پڑتی جاتی ہے۔ حقیقی اور مثبت قوم پرستی کی چمک بھی ماند پڑتی جاتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ صرف نَقّالی تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب وہ آزادی اور خود مختاری کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ بنگلا دیش کے حالات خراب کرتے کرتے اُسے اِس منزل تک پہنچانا وہ ’’مشن‘‘ ہے جسے ’’را‘‘ نے کبھی فراموش نہیں کیا اور کوششیں ہر پل جاری رکھی ہیں۔
بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرکے اُسے اپنا دست نگر بنانے کے لیے بھارت نے آبی وسائل کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ چھوٹے بڑے ۴۰ دریاؤں کا پانی روک کر بنگلا دیش کو صحرا میں تبدیل کرنے کی سازش پر بھی متواتر عمل کیا گیا ہے۔ چاٹگام کا علاقہ بنگلا دیش کی معیشت اور قومی وجود کے لیے دل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت نے چکمہ قبائل کو علیحدگی پر اُکسانے کے معاملے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ’’بنگا بُھومی‘‘ کے نظریے پر مَر مٹنے والے کارکنوں کے بھیس میں بھارت نے اپنے ایجنٹس بنگلا دیش میں داخل کرنے میں کبھی بُخل اور تساہل سے کام نہیں لیا۔ بنگلا دیش کے تعلیمی اداروں کا معیار سازش کے تحت گرایا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبا اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت کے تعلیمی اداروں کا رُخ کریں۔ مزدوروں کے حقوق کی پاسداری کے نام پر قائم تنظیموں میں بھارتی ایجنٹس در آئے ہیں جو آئے دن ہڑتالیں کراکے صنعتی عمل کا پہیّہ روک دیتے ہیں۔ نفسیاتی عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے تال پٹی، مہورِر چاڑ، نرمل چاڑ اور بنگلا دیش کے دوسرے بہت سے علاقوں کو بھارت نے ہتھیالیا ہے۔
بھارت کی بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکار اور ایجنٹس بنگلا دیشی علاقوں میں گھس کر یہاں کے باشندوں کو قتل کرتے اور اُن کی املاک پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اسلامی اقدار پر منظم حملوں کے ذریعے بھارت نے بنگلا دیش کے کم و بیش ۹۰ فیصد باشندوں کی ثقافتی شناخت تقریباً ختم یا مسخ کردی ہے۔
’’را‘‘ نے اپنے ایجنٹس کے ذریعے بنگلا دیش میں سیاسی عدم استحکام اور عمومی بے چینی پیدا کرنے کی کوششیں تواتر سے جاری رکھی ہیں۔ جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو اور عمومی سطح پر شدید بے چینی پائی جاتی ہو تو لوگ اپنی قیادت سے مُتنفر ہوجاتے ہیں۔ وہ بہت سے معاملات میں غلط سوچنے لگتے ہیں، فیصلوں کے وقت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوست اور دشمن میں تمیز کے شعور سے بھی عاری ہوتے جاتے ہیں۔ جب سیاسی قائدین ملک کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں تو معاملات کو درست کرنے کے لیے خود ہی بیرونی قوتوں کو دعوت دیتے ہیں۔ ہمالیہ کی چھوٹی سی ریاست سِکّم کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
بھارت نے جو کچھ سِکّم میں کیا وہی کچھ اب بنگلا دیش میں کر رہا ہے۔ بنگلا دیش کے معاملے میں وہ زیادہ منظم ہے اور زیادہ جارحانہ رویّہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ’’را‘‘ چاہتا ہے کہ بنگلادیش میں اِس قدر عدم استحکام پیدا کردیا جائے، سیاسی تعطل کو اِتنا پنپنے دیا جائے، معیشت کو اِس حد تک مفلوج کردیا جائے اور ثقافتی شناخت کو یُوں ختم یا مسخ کردیا جائے کہ خود بنگلا دیشی سرزمین سے بھارت کو مداخلت کی دعوت دی جائے۔ مداخلت کی دعوت یقینی بنانے کے لیے بھارتی قیادت نے ’’دوستی اور تعاون‘‘ کے ۲۵ سالہ معاہدے کی شکل میں قانونی فریم ورک پہلے ہی تشکیل دے رکھا ہے۔ تسلیمہ نسرین اور اِسی قبیل کے دوسرے بھارتی ایجنٹس رات دن سرحدیں ختم کرکے بھارت اور بنگلا دیش کو ایک لڑی میں پرونے کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ بنگلا دیش کے بہت سے دانشور انتہائی بے شرمی سے یہ تجویز پیش کرتے رہتے ہیں کہ بنگلا دیش کو بھارت میں ضم کردیا جائے۔ اکھنڈ بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے حوالے بھارتی قیادت کے لیے بنگلا دیش ایک حقیقی ٹیسٹ کیس ہے۔
Leave a Reply