
بنگلادیش کو ہر اعتبار سے زیادہ سے زیادہ دبوچ کر رکھنے کے لیے بھارتی قیادت نے ہمیشہ اس بات کو اہمیت دی ہے کہ بنگلادیش کے اعلیٰ طبقے میں بھارت نواز لابی موجود رہے۔ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے عشروں کی محنت سے بنگلادیش میں اپنے ہم خیال لوگ پیدا کیے ہیں۔ بنگلادیش میں جو لوگ بھارت کے حق میں بات کرتے ہیں اُنہیں انعامات، نقدی اور دیگر طریقوں سے نوازا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ کسی لالچ کے بغیر محض نظریاتی طور پر بھارت کے ہم نوا ہوجاتے ہیں۔ اگر بنگلادیش کے اعلیٰ طبقے میں بھارتی اثرات کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو قومی مفادات داؤ پر لگتے ہی رہیں گے۔ ڈھاکا سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’بکرم‘‘ نے ۲۹ نومبر ۱۹۹۳ء کی اشاعت میں وزارتِ جہاز رانی و آبی تجارت کے اسسٹنٹ سیکریٹری کا انٹرویو شائع کیا۔ اِس انٹرویو کا اقتباس ہم ذیل میں شائع کر رہے ہیں تاکہ آپ کو بھی صورتِ حال کا اندازہ ہو۔ ’’۱۹۷۲ء میں بنگلادیش کی وزارتِ جہاز رانی و آبی تجارت کے پاس اپنا کوئی بھی تجارتی بحری جہاز نہ تھا۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ نے جہاز رانی کی وزارت کو حکم دیا کہ ایک عدد جہاز خریدا جائے۔ وزارتِ جہاز رانی نے وزارتِ خزانہ تک یہ ہدایت پہنچادی۔ وزارتِ خزانہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ پہلے تو اِس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا ہم بھارت سے کوئی جہاز خرید سکتے ہیں اور اگر نہیں تو پھر ہمیں کسی اور ملک سے جہاز خریدنے کے لیے بھارت سے اجازت حاصل کرنا پڑے گی۔ اس زمانے میں جنرل عثمانی وزارتِ جہاز رانی کے انچارج تھے اور وزیر خزانہ تاج الدین تھے۔ روزنامہ انقلاب ۱۶ دسمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ جنرل عثمانی نے وزیر خزانہ کا نوٹ وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن تک پہنچا دیا۔ وہ یہ نوٹ پڑھ کر بھڑک اٹھے اور تاج الدین کو بلا بھیجا۔ تاج الدین جیسے ہی وزیر اعظم کے کمرے میں داخل ہوئے، شیخ مجیب الرحمن نے گرجتے ہوئے پوچھا تم نے اور کیا کیا بھارت کو دے دیا ہے؟‘‘
روزنامہ ملت نے ’’دریائے گنگا پر بیراج کی تعمیر‘‘ کے زیر عنوان اداریے میں نشاندہی کی کہ ہمارے اعلیٰ طبقے میں بھارت کے اثرات کس حد تک ہیں۔ اخبار لکھتا ہے۔ ’’وزارتِ زراعت نے لکھا ہے کہ حکومت دریائے گنگا پر بیراج کو فرخا بیراج کا نعم البدل نہیں سمجھتی۔ یہ گویا اِس امر کا اعلان ہے کہ دریائے گنگا پر بیراج کی تعمیر کسی کام کی نہیں، ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں اس نکتے پر بحث مقصود نہیں کہ وزارتِ آب پاشی کے ماہرین اور تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ بھی بھارت کو خوش کرنے ہی کی ایک کوشش ہے۔ ماہرین نے تمام امور کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد اِس بیراج کی فزیبیلیٹی کو گرین سگنل دیا تھا۔ سابق صدر ضیا الرحمٰن کو بھی اس پراجیکٹ کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ انہوں نے اس بیراج میں غیر معمولی دلچسپی لی تھی اور اس کا سنگِ بنیاد بھی رکھا تھا‘‘۔
روزنامہ ’’ملت‘‘ نے ۲۴ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ بنگلادیش کے اعلیٰ حلقے میں جو لوگ بھارت کے ہم نوا ہیں وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر دریائے گنگا پر تعمیر کیے جانے والے بیراج کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ اُن کے بے بنیاد اعتراضات کا سرسری جائزہ لینے سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مخالفت پر کیوں کمر بستہ ہیں۔ روزنامہ ’’جن کنٹھ‘‘ لکھتا ہے کہ بنگلادیشی اشرافیہ میں کچھ انتہائی اثر و رسوخ والی شخصیات ہر معاملے میں بھارت کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینے پر کمر بستہ رہتی ہیں۔ انہیں کسی بھی حوالے سے قومی مفاد عزیز نہیں۔ جب بھی کوئی ایسی ویسی صورت حال پیدا ہوتی ہے، یہ لوگ بھارت کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں۔ حکومت نے واضح طور پر حکم دیا ہے کہ بھارت سے ایس ایس پی فرٹیلائزر کی درآمد روک دی جائے کیونکہ ایس ایس پی فرٹیلائزر بھارت سے درآمد کرنا کسی بھی اعتبار سے بنگلادیش کے حق میں نہیں۔ اس حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے وزارتِ زراعت نے ۱۷ اپریل ۱۹۹۵ء کو ایک سرکلر جاری کیا، جس کے مطابق بھارت سے مزید ایس ایس پی فرٹیلائزر درآمد کی جائے گی۔ ۲۴ اکتوبر ۱۹۹۴ء کو وزارتِ زراعت نے ایک اجلاس میں چاٹگام کے ٹی ایس پی پلانٹ میں ایس ایس پی فرٹیلائزر کی پیداوار روکنے کا حکم دیا۔ اب یہ پلانٹ صرف ٹی ایس پی فرٹیلائزر تیار کیا کرے گا۔
بنگلادیش ٹی ایس پی کی پیداوار میں خود کفیل ہے اور اب اس پوزیشن میں آگیا ہے کہ یہ کھاد برآمد بھی کرے۔ چاٹگام کا ٹی ایس پی پلانٹ ۶۰ ایس ایس پی اور ۴۰ فیصد ٹی ایس پی فرٹیلائزر پیدا کیا کرتا تھا۔ تمام حقائق سے اچھی طرح باخبر ہونے کے باوجود وزارتِ زراعت نے وزارتِ پیداوار سے کہا ہے کہ ایس ایس پی فرٹیلائزر کی پیداوار روک دی جائے۔ اخبار کا الزام ہے کہ یہ حکم صرف اس لیے دیا گیا ہے کہ ملک میں ایس ایس پی فرٹیلائزر کی قلت ہو اور جب صورتِ حال بگڑے تو بھارت سے ایس ایس پی فرٹیلائزر درآمد کی جاسکے۔ بھارت کی تیار کردہ ایس ایس پی سے بنگلادیش کی ایس ایس پی فرٹیلائزر بلند معیار کی ہے اور اس سے دس فیصد اضافی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ۲۰ جون ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں روزنامہ جن کنٹھ نے مزید لکھا ہے کہ بنگلادیشی حکمراں طبقے میں بعض شخصیات نہیں چاہتیں کہ بنگلادیش میں صنعتی ترقی ممکن بنائی جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بنگلادیش صرف بھارتی مصنوعات کی منڈی میں تبدیل ہوکر رہ جائے۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ایسا کرنے سے ملک کا، اس کی معیشت کا کیا ہوگا۔
روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے بنگلادیش کے ٹی اینڈ ٹی بورڈ میں ایک بھارتی باشندے کے تقرر کی نشاندہی کی ہے۔ جہاں دہلی کمیونی کیشن سینٹر آف انڈیا کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو لایا گیا ہے اور اس حوالے سے متعلقہ وزارت کی رضامندی حاصل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ بنگلادیشی حکومت نے انٹر نیشنل ٹیلی کام یونین کو بھی نامزدگی بھیجنے کی پیش کش کی تھی مگر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی معاملے کو نمٹا دیا گیا۔ ٹی اینڈ ٹی بورڈ نے کسی اور ملک میں ماہر تلاش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ٹی اینڈ بورڈ نے ڈھاکا ایکسچینج سینٹر میں تقرر کے لیے انٹر نیشنل ٹیلی کام یونین کو کسی بڑے ماہر کا نام تجویز کرنے کا لکھا تھا۔ انٹر نیشنل ٹیلی کام یونین نے ایک بھارتی ماہر کا نام تجویز کیا۔ متعلقہ وزارت نے اس نام کی منظوری نہیں دی اور تین رکنی پینل بناکر اُس سے کہا کہ وہ نام فائنلائز کرے۔ متعلقہ وزارت کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹی اینڈ ٹی بورڈ نے انٹر نیشنل ٹیلی کام یونین کی طرف سے کسی اور ماہر کا نام تجویز کیے جانے کا انتظار بھی نہ کیا اور ایک ماہر کا تقرر کردیا۔ روزنامہ انقلاب نے ۷ دسمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا ہے کہ متعلقہ وزارت نے ٹی اینڈ ٹی بورڈ میں ایک بھارتی ماہر کا تقرر کیے جانے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ روزنامہ انقلاب میں خبر کی اشاعت کے بعد ٹی اینڈ ٹی بورڈ نے اخبار کو وضاحت بھیجی تاہم وہ ایک انتہائی اہم اور حساس عہدے پر ایک بھارتی باشندے کے تقرر کے حوالے سے کوئی بھی ٹھوس جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔
بنگلادیش کے ٹرانسپورٹ سیکٹر کو بھارتی آٹو موبائل انڈسٹری نے بری طرح دبوچ رکھا ہے۔ بنگلادیش کی سڑکوں پر بھارت کے تیار کردہ بجاج اور اے پی آئی آٹو رکشا فرّاٹے بھرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بنگلادیش میں اسکوٹر اور رکشے تیار کرنے کی گنجائش اس لیے نہیں رہی کہ بھارتی آٹو میکرز کو غیر معمولی رعایتیں اور سہولتیں دی جاتی ہیں۔ برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا کے لوکوموٹیوز پر بھارت کے تیار کردہ لوکوموٹیوز کو ترجیح دی جارہی ہے۔ ریلوے ٹینڈر کمیٹی نے بھارت سے ریلوے انجن خریدنے کی سختی سے ممانعت کی تھی مگر اس کے باوجود ریلوے انجن بھارت ہی سے خریدے گئے اور یہ بات اس لابی نے ممکن بنائی جو بھارتی مفادات کے لیے کام کرتی آرہی ہے۔ روزنامہ انقلاب نے ۲۳ نومبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں لکھا کہ بھارت کے تیار کردہ ریلوے انجن مغربی دنیا کے تیار کردہ انجنوں سے کہیں مہنگے ہیں۔
بنگلادیش میں بھارت کے ریلوے انجن چلانے کی بنیادی غایت یہ ہے کہ اس بہانے بھارت سے ’’را‘‘ کے ایجنٹ ماہرین کی شکل میں آئیں اور بھارتی مفادات کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کریں۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ بنگلادیش میں ریلوے کا نظام بھی بھارتی ماہرین کا محتاج ہوکر رہ جائے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت میں ریلوے انجن تیار کرنے کا عمل حال ہی میں شروع ہوا ہے اور وہ اس حوالے سے ابھی محض ابتدائی یا آزمائشی مرحلے میں ہے۔ ریلوے ٹینڈر کمیٹی نے بھارت سے ریلوے انجن خریدنے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بھارتی انجن معیاری نہیں اس لیے انہیں کسی بھی حال میں نہ خریدا جائے۔ ریلوے ٹینڈر کمیٹی نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر بھارت سے انجن خریدے گئے تو ان کی مرمت پر سالانہ خرچ سات گنا ہوجائے گا۔ بھارتی ریلوے انجن کمتر معیار کے ہیں اور بنگلادیشی انجینئر اتنی مہارت نہیں رکھتے کہ اِن انجنوں کو درست حالت میں رکھیں اور چلائیں۔ اور یہ کہ اگر بھارت سے ریلوے انجن خریدے گئے تو انہیں چلانے اور درست حالت میں رکھنے کے لیے بھارت سے ماہرین کو بھی بلوانا پڑے گا۔
بنگلادیش کے حکمراں طبقے میں غیر معمولی حیثیت رکھنے والی چند شخصیات چاہتی ہیں کہ بنگلادیش مواصلات کے حوالے سے بھارت کا دست نگر ہوکر رہے۔ بھارت سے ریلوے انجن درآمد کرنے کی صورت میں اس کے ماہرین کو بھی سات سال کے لیے اپنے ہاں رکھنا پڑے گا۔ اس پر ۶ کروڑ ڈالر اضافی خرچ ہوں گے۔ یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ بنگلادیش میں ریلوے کے نظام کو چلتا رکھنے کے نام پر بھارتی خفیہ ادارہ اپنے ایجنٹ بنگلادیش میں متعین کردے گا اور یہ لوگ جب چاہیں گے، مواصلاتی نظام خرابی سے دوچار کردیں گے۔
بنگلادیش نمک کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔ بنگلادیش کا نمک اعلیٰ معیار کا ہے، جس میں آیوڈین کی مقدار مطلوبہ معیار تک ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کا نمک آیوڈین کے بغیر ہے اور اس کا معیار بھی پست ہے مگر اس کے باوجود متعدد کاروباری شخصیات کو بھارت سے نمک درآمد کرنے کے اجازت نامے دیے گئے ہیں۔ بھارت کے غیر معیاری نمک میں کلورائڈ کی مقدار ۵۵ فیصد ہے جبکہ بنگلادیشی نمک میں کلورائڈ ۹۰ فیصد سے زائد ہے۔ بھارت کے سستے اور غیر معیاری نمک کے استعمال سے بنگلادیش میں متعدد امراض پھیل رہے ہیں۔ بنگلادیشی حکومت کو بھارت سے نمک کی درآمد فی الفور روک دینی چاہیے۔
۱۱ دسمبر ۱۹۹۴ء کو بنگلادیشی بحریہ نے ایک بھارتی ٹرالر پکڑا جس میں ۱۵ ماہی گیر سوار تھے۔ ان لوگوں کے پاس سوا لاکھ روپے سے زائد نقدی تھی۔ اس حوالے سے مقدمہ ۱۲دسمبر ۱۹۹۴ء کو مونگلا تھانے میں درج کیا گیا۔ روزنامہ ملت نے ۳۰ دسمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ بنگلادیشی وزارتِ داخلہ نے بگیر ہاٹ کے مجسٹریٹ کو حکم دیا کہ بھارتی ماہی گیروں کے خلاف مقدمہ واپس لے کر انہیں رہا کیا جائے اور ان کا سارا سامان بھی انہیں لَوٹا دیا جائے۔ اخبار نے جب وزارتِ داخلہ سے رابطہ کرکے اس حوالے سے وضاحت چاہی تو وہ ایسا کرنے کا کوئی ٹھوس جواز پیش کرنے میں ناکام رہی۔
بنگلادیش کو شکر کی طلب پوری کرنے کے لیے درآمد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بنگلادیش میں بھی شکر تیار کی جاتی ہے مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ بھارت سے غیر معمولی مقدار میں شکر درآمد کرلی جاتی ہے، جس کے باعث شکر کی مقامی پیداوار پڑی کی پڑی رہ جاتی ہے۔ بھارتی شکر سستی ہوتی ہے اس لیے پورے ملک میں اس کی طلب پائی جاتی ہے۔ روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۲۲ جون ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ بنگلادیش میں تیار کردہ ایک لاکھ ۳۳ ہزار ۲۰۰ ٹن سے زائد شکر گوداموں میں پڑی ہے مگر پھر بھی بھارت سے شکر درآمد کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۲۱ جون ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ملک میں ۴ ارب ٹاکا مالیت کے شکر کے اسٹاک غیر فروخت شدہ پڑے ہیں۔ ملک میں شکر ضرورت سے زیادہ تھی اور درآمد کرنے کی تو خیر بالکل ہی ضرورت نہ تھی مگر اس کے باوجود ایک ادارے نے ۲۰۰ ٹن شکر درآمد کرنے کے لیے ایک بینک میں لیٹر آف کریڈٹ کھولا۔ اس مقدار کا بڑا حصہ بھارت سے درآمد کیا جانا تھا۔ بھارت سے شکر محض خریدی ہی نہیں جاتی بلکہ اسمگل بھی کی جاتی ہے۔ بھارت سے درآمد کی جانے والی شکر چونکہ پست معیار کی مگر سستی ہوتی ہے اس لیے بنگلادیشی مارکیٹ میں اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ عوام بھی سوچے سمجھے بغیر غیر معیاری شکر استعمال کر رہے ہیں۔ لیبارٹری میں کیے جانے والے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ بھارت سے درآمد یا اسمگل کی جانے والی شکر میں ریت، کنکر اور شیشے کے ٹکڑے شامل ہوتے ہیں مگر اس حوالے سے کی جانے والی شکایات اب تک بنگلادیشی حکومت کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
بھارت سے خوردنی تیل بھی بڑے پیمانے پر درآمد اور اسمگل کیا جاتا ہے۔ یہ تیل بنگلادیش میں خاصا سستا پڑتا ہے، اس لیے بنگلادیش میں تیار کیا جانے والا تیل اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ علاوہ ازیں مقامی طور پر تیار کیے جانے والے تیل پر کئی ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ بھارت کے خوردنی تیل کی درآمد ایک آدھ ڈیوٹی کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیل کی مقامی صنعت مقابلہ کر ہی نہیں سکتی اس لیے بنگلادیش میں تیل تیار یا صاف کرنے کے کارخانے بند ہوتے جارہے ہیں۔ ۶۰ بڑی آئل فیکٹریوں میں سے ۴۰ بند ہوچکی ہیں۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۲۱ جون ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں لکھا کہ بنگلادیش میں ہر سال کم و بیش سات لاکھ میٹرک ٹن تیل تیار کیا جاتا تھا۔ اب قومی پیداوار تین لاکھ میٹرک ٹن رہ گئی ہے۔ بھارت سے ہر سال چار لاکھ ٹن سے بھی زائد تیل درآمد کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں غذائی اجناس کی قلت پیدا ہوئی تو بنگلادیشی حکومت نے اناج درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ جیسے ہی منظر عام پر آیا، بھارتی خفیہ ادارے کے ایجنٹ متحرّک ہوگئے اور بنگلادیشی حکومت کو اس امر کے لیے قائل کرنا شروع کیا کہ بھارت چونکہ ساتھ ہی ہے اس لیے زیادہ اناج اس سے منگوایا جائے تاکہ زیادہ مہنگا بھی نہ پڑے اور آسانی سے بنگلادیشی مارکیٹ میں پہنچ بھی جائے۔ پاکستان سمیت چند دوسرے ممالک سے بھی تھوڑا سا اناج منگوایا مگر یہ محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کا عمل تھا۔ مقصود صرف یہ تھا کہ اپنے ہاں فاضل شکر ہونے کے باوجود بھارت کو فائدہ پہنچایا جائے۔ یہ شکایات موصول ہوئیں کہ بھارت سے درآمد شدہ چاول نمونے کے مطابق نہیں تھا یعنی اس کا معیار پست تھا۔ اس میں کنکر اور دوسری چیزوں کی ملاوٹ سے متعلق بھی شکایات سامنے آئیں۔ اخبارات نے بھی اس حوالے سے بہت کچھ شائع کیا مگر اس کے باوجود متعلقہ اداروں اور وزارت نے بھارتی چاول آسانی سے قبول کرلیا۔
خلیل اینڈ کمپنی کے ذریعے اعلیٰ حکام نے بھارت سے کمتر معیار کی کپاس اور چاول درآمد کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اعلیٰ طبقے میں کچھ لوگ بھارتی مفادات کا کس حد تک خیال رکھتے ہیں۔ ایرانی پرچم بردار جہاز کے ذریعے ۱۱ جون ۱۹۹۵ء کو مونگلا پورٹ پر بھارتی چاول کی جو کھیپ پہنچی وہ کیڑے لگی ہوئی تھی۔ نشاندہی کیے جانے پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مقامی فوڈ انسپکٹرز نے جب متعلقہ وزارت کو بتایا کہ بھارتی چاول کمتر معیار کا اور کیڑے لگا ہوا ہے تو انڈین اسٹیٹ ٹریڈنگ کارپوریشن کے چیف مارکیٹنگ مینیجر مسٹر ٹنڈن نے فوری طور پر ڈھاکا پہنچ کر صورتِ حال کو سنبھال لیا۔ جس کنٹریکٹر نے چاول کو ان لوڈ کرنے سے انکار کیا تھا اس پر گیارہ لاکھ ٹاکا جرمانہ عائد کیا گیا اور بلیک لسٹ بھی کردیا گیا۔ روزنامہ المجدد نے ۱۹ اور ۲۵ جون ۱۹۹۵ کی اشاعت میں بتایا کہ ایک اور کمپنی کو بھارتی چاول کی کھیپ اتارنے کا ٹھیکا دیا گیا۔ اس کمپنی نے بلند نرخ پر یہ کام کیا اور کیڑا لگے غیر معیاری بھارتی چاول کو جہاز ہی پر نئے بوروں میں پیک کیا۔
بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلادیش میں خوراک و زراعت کے شعبے کو مکمل تباہی سے دوچار کرنے کے لیے ایسی مضر جراثیم کش ادویہ بنگلادیش کو برآمد کرانے کا بھی اہتمام کر رکھا ہے جن پر خود بھارت میں پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ’’را‘‘ نے اِن مضر اور ممنوع جراثیم کش ادویہ کو بھارت میں تیار کرانے اور بنگلادیش اسمگل کرانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جن اشیا کو ممنوع قرار دیا جاچکا ہے وہ بھارت میں بھی وہی لوگ تیار کرسکتے ہیں جنہیں متعلقہ وزارت یا محکمے کے اعلیٰ افسران کی رضامندی حاصل ہو۔ بھارت سے درآمد اور اسمگل کی جانے والی انتہائی مضر اور غیر معیاری جراثیم کش ادویہ ایک طرف تو فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہو رہی ہے اور دوسری طرف ان ادویہ سے صحتِ عامہ کا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ بنگلادیش میں ان مضر جراثیم کش ادویہ کے استعمال سے بہت سے لوگوں کے جسم میں غیر معمولی خرابیاں پیدا ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ جس اناج پر بھارت کی غیر معیاری جراثیم کش ادویہ کا چھڑکاؤ کیا گیا ہو اُن کے کھانے سے صحتِ عامہ کے مسائل پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اخبارات بھی اس حوالے سے بہت کچھ شائع کرچکے ہیں مگر حکومت نے اب تک ایسے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں جن کی مدد سے مضر اشیا کی درآمد روکی جاسکتی ہو۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تھایوڈین اور دیگر مضر اجزا کے زمین میں شامل ہوتے رہنے سے زرخیزی میں تیزی سے کمی واقع ہوتی ہے۔ پندرہ سال میں معاملات اتنے بگڑ جائیں گے کہ بنگلادیش کے لیے خوراک کی قلت ایک بڑے مسئلے کی حیثیت اختیار کرجائے گی۔
بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلادیش کی وزارتِ خارجہ کو بھی نشانے پر لے رکھا ہے۔ وزارتِ خارجہ میں بھارت نواز شخصیات کی موجودگی سے بہت سے اہم معاملات میں بنگلادیش کا موقف اُس طور سامنے نہیں آتا جس طور آنا چاہیے۔ ’’را‘‘ کی پوری کوشش ہے کہ بنگلادیش کی وزارتِ داخلہ میں ماہر، غیر جانبدار اور وطن پرست لوگ نہ ہوں یا اہم عہدوں پر نہ ہوں۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی برادری میں اہم امور کے حوالے سے بنگلادیش کا موقف کس حد تک درست انداز سے پیش کیا جاتا ہوگا۔ بھارتی باشندوں کو بنگلادیشی ایئر پورٹس پر سفری سہولت فراہم کرنا بھی ایک ایسا قدم ہے جس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ سیکریٹری خارجہ فاروق سبحان نے چند سرکردہ صحافیوں کو یہ ٹاسک سونپا کہ وہ بھارت کو سفری سہولت دینے کے حوالے سے ماحول سازگار بنائیں۔ روزنامہ انقلاب نے کئی خبروں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے کہ بنگلادیشی وزارتِ خارجہ بھارتی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے بہت سے اداروں میں طلبہ و طالبات کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بھارت کی مدد کے بغیر بنگلادیش کچھ بھی نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ اپنا دفاع یقینی بنانے کے قابل بھی نہیں۔ نہایت چالاکی سے یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا ہے کہ بنگلادیش کے لیے چونکہ اپنا دفاع بہت مشکل کام ہے اس لیے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ بنگلادیش کے دفاع کی پوری ذمہ داری بھارت ہی کو سونپ دی جائے؟ ’’را‘‘ نے بنگلادیش میں محب وطن افراد کے ذہنوں کو آلودہ اور پراگندا کرنے کے حوالے سے اپنا پروپیگنڈا جاری رکھا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply