بھارت نے بنگلادیش کے خلاف جانے میں کبھی کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری ایک طرف تو بنگلادیش سے دوستی کا راگ الاپتی ہے اور دوسری طرف اس کی پیٹھ میں چُھرا، بلکہ چُھرے گھونپنے سے بھی باز نہیں آتی۔ بھارتی قیادت کی ایما پر پروپیگنڈا مشینری نے بنگلادیش کو پوری دنیا میں بدنام کیا ہے مگر اس معاملے میں امریکا اور یورپ کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ بنگلادیش کے خلاف یورپ اور امریکا میں خاص طور پر زیادہ اور منظم پروپیگنڈا کیا گیا ہے تاکہ مجموعی طور پر پورے مغرب میں بنگلادیش کے خلاف منفی تاثر قائم ہو اور ان کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہی نہ ہوسکیں اور یہ نوزائیدہ ریاست اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر کسی بھی خطے سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے قابل ہو ہی نہ سکے۔
بنگلادیش کے خلاف پروپیگنڈا چار بنیادی مقاصد کے حصول کی خاطر کیا جارہا ہے۔
٭ بھارت چاہتا ہے کہ بنگلادیش پوری دنیا میں اس قدر بدنام ہوجائے کہ کوئی بھی بڑا ملک اس سے بہتر تعلقات اور اشتراکِ عمل کے معاملے میں اجتناب برتنے پر مجبور ہو۔ بنگلادیش کی بدنامی اُس کی معاشی اور سفارتی کمزوری پر منتج ہوگی اور یوں عالمی برادری میں اس کے لیے کچھ زیادہ کر دکھانے کی گنجائش پیدا نہیں ہوگی۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ بنگلادیش سے بہتر تعلقات رکھنے والے ممالک کی تعداد کم ہو تاکہ وہ بیشتر معاملات میں بھارت ہی کا دست نگر رہے اور اس سے مدد طلب کرنے کی ضرورت محسوس کرتا رہے۔
٭ بنگلادیش کے خلاف متواتر پروپیگنڈے کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ یہ ملک عالمی برادری میں تنہا رہ جائے۔ جب کسی ملک کا امیج خراب کرنے کے لیے مستقل بنیاد پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو دنیا سوچنے پر مجبور ہوتی ہے کہ آخر ایسا کیا ہے کہ اس ملک کے بارے میں اس قدر باتیں کی جارہی ہیں۔ پروپیگنڈا مشینری طاقتور اور موثر ہو تو رفتہ رفتہ کسی بھی ملک کو مستقل بنیاد پر بدنام کیا جاسکتا ہے۔ بھارت بڑا ملک ہے اور اس کے وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ دیگر بہت سے معاملات کی طرح پروپیگنڈے کی دنیا میں بھی اپنی بات تیزی سے منوانے کی پوزیشن میں ہے۔ بنگلادیش جیسی نوزائیدہ ریاست کے لیے بھارت کا سامنا کرنا اور اس کی پروپیگنڈا مشینری کے ہر وار کا بھرپور جواب دینا ممکن نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ عالمی برادری بہت سے معاملات میں بنگلادیش کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ بڑے عالمی اداروں اور تنظیموں میں بنگلادیشی قیادت کی بات زیادہ توجہ سے نہیں سنی جاتی۔ اس کے نتیجے میں بنگلادیش کو سرمایا کاری اور تجارت کے لیے زیادہ کارگر ملک بھی تصور نہیں کیا جاتا۔ بھارتی پروپیگنڈا مشینری اس طور بنگلادیش کو معاشی اعتبار سے کمزور رکھنے میں اب تک کامیاب رہی ہے۔
٭ بھارتی پروپیگنڈا مشینری کی بھرپور کوشش ہے کہ بنگلادیش کو کسی نہ کسی طور اسلامی بنیاد پرست ملک ثابت کیا جائے تاکہ عالمی برادری اس سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے معاملے میں تذبذب کا شکار رہے۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں بنگلادیش کو اسلامی بنیاد پرست ملک کی حیثیت سے پیش کرنے کی بھارتی کوششیں جاری ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی عام کیا جارہا ہے کہ بنگلادیش میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ اس تاثر کو پھیلانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عالمی برادری بنگلادیش کو بیشتر معاملات میں شک کی نظر سے دیکھے اور اس کے انسانی حقوق کی پاس داری کے ریکارڈ کی ابتری کو بنیاد بناکر بہتر تعلقات سے اجتناب برتا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اپنی بات منوانا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جارہا ہے۔ بھارتی قیادت بنگلادیش کے امیج کو خراب کرنے اور اس کے ہاں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے منفی تاثر پیدا کرنے کے معاملے میں اتنی پرعزم ہے کہ کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتی۔
٭ بنگلادیش اپنے محل وقوع کے اعتبار سے عالمی برادری تو کیا، خطے کے کسی ملک کے لیے بھی کوئی بڑا خطرہ بننے کی پوزیشن میں نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ محل وقوع کے اعتبار سے بنگلادیش کو بیشتر معاملات میں بھارت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اب تک تجارت کے معاملے میں وہ بھارت ہی کی طرف دیکھنے پر مجبور رہا ہے۔ بھارتی قیادت بظاہر بنگلادیش سے دوستی کا تاثر دیتی ہے اور دنیا کو باور کرانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے کہ اُس نے اس نوزائیدہ ریاست کا تمام امور میں خیال رکھنا اپنا فرض سمجھ لیا ہے مگر در حقیقت ایسا نہیں ہے۔
نئی دہلی کی بھرپور کوشش ہے کہ عالمی برادری بنگلادیش کے بارے میں زیادہ سے زیادہ متذبذب رہے تاکہ اُس سے بہتر تعلقات استوار کرتے ہوئے مشکلات پیش آئیں۔ بھارتی قیادت چاہتی ہے کہ بنگلادیش سے تعلقات استوار نہ کرنے والے ممالک کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو۔ بنگلادیش کو سفارتی سطح پر زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کی کوشش اس لیے کی جارہی ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں بنگلادیش کے لیے لازمی طور پر معاشی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ اگر خطے سے باہر کے ممالک سے بنگلادیش کا اشتراکِ عمل زیادہ نہیں ہوگا تو اس کے ہاں سرمایا کاری کا گراف گرے گا۔ برآمدات میں کمی آئے گی۔ اس کے نتیجے میں بنگلادیش کے لیے معاشی اعتبار سے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل تر ہوجائے گا اور یوں اُسے بیشتر معاملات میں بھارت کی طرف دیکھتے رہنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
بنگلادیش کو بیشتر معاملات میں زیادہ سے زیادہ مشکوک بنانے کے لیے مغربی دنیا کو یہ بھرپور تاثر دیا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے بنگلادیش کی طرف قدم بڑھایا تو ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ بھارتی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ بنگلادیش کے لیے پروپیگنڈے کے محاذ پر اُس کا سامنا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس کمزوری کا وہ بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ۱۹۹۲ء میں بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے بنگلادیش امریکا حقوق انسانی گروپ کی داغ بیل ڈالی۔ اس گروپ کے قیام کا مقصد بظاہر تو یہ ہے کہ بنگلادیش میں بنیادی حقوق کا احترام یقینی بنایا جائے مگر معاملہ یہ ہے کہ اس گروپ کی بیشتر رپورٹس بنگلادیش کے خلاف پروپیگنڈے پر مبنی ہوتی ہیں۔ ’’را‘‘ نے اس گروپ کو بنگلادیش مخالف پروپیگنڈا مشینری کے ایک اہم پُرزے اور بنگلادیشی قیادت کے خلاف پریشر گروپ کے طور پر بروئے کار لانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ بنگلادیش میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر بنانے کے حوالے سے قائم کیا جانے والا گروپ اب بھارتی مفادات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بروئے کار لایا جارہا ہے۔
بنگلادیش یو ایس اے ہیومن رائٹس گروپ کے بارے میں ہفت روزہ ’’ڈھاکا کوریئر‘‘ ۵ فروری ۱۹۹۳ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ’’لوگوں نے اس گروپ کے قیام کا خیر مقدم کیا تھا۔ امید تھی کہ یہ گروپ بنگلادیش کے بارے میں عالمی برادری میں پائے جانے والے منفی تاثر کو زائل یا کمزور کرنے میں غیر معمولی حد تک معاونت کرے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ گروپ بھارتی مفادات کی تکمیل کے لیے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ اپنے قیام کے کچھ ہی دنوں کے بعد اس گروپ نے امریکی کانگریس میں انسانی حقوق کی کمیٹی کے شریک چیئرمین ٹام لینٹوز کو ایک خط لکھا جس میں انہیں بتایا گیا کہ بنگلادیش میں اقلیتوں کی حالت اچھی نہیں یعنی ان کے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کیا جارہا۔ اس گروپ نے امریکی کانگریس پر زور دیا کہ جب تک بنگلادیش میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام یقینی نہیں بنایا جاتا، اُس کی مالی امداد روک دی جائے۔
ٹام لینٹوز کے نام خط میں بنگلادیشی قیادت پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ملک کو اسلامائزیشن کے عمل سے گزار رہی ہے اور مذہبی اقلیتوں کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ بنگلادیشی حکومت نے ہندوؤں، عیسائیوں اور بدھسٹ کے بنیادی حقوق غصب کرکے بنیادی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے منشور کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ اس خط کی کاپیاں امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے ارکان میں تقسیم کی گئیں‘‘۔
برطانوی دارالحکومت لندن میں ۱۸ تا ۲۰ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی، جس کا بنیادی ایجنڈا بنگلادیش میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی صورتِ حال کا جائزہ لینا تھا۔ اس کانفرنس میں امریکا اور یورپ سے ایسے ہندو، بدھسٹ اور عیسائی بلائے گئے تھے جن کا تعلق مبینہ طور پر بنگلادیش سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر بھارتی نژاد تھے جو صرف اور صرف بنگلادیش کو بدنام کرنے کا ایجنڈا لے کر میدان میں اترے تھے۔ اس کانفرنس کے نام نہاد مندوبین نے بنگلادیش میں بنیادی حقوق کی صورتِ حال کے حوالے سے مبالغہ آرائی پر مبنی باتیں کیں اور یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی کہ بنگلادیش میں مذہبی اقلیتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور یہ کہ بنگلادیش کے بہت سے ہندو، بدھسٹ اور عیسائی مجبور ہوکر نقل مکانی کر رہے ہیں یعنی ملک چھوڑ رہے ہیں۔
۱۹۴۰ء کے عشرے میں موجودہ بنگلادیش کے ضلع باریسال سے نقل مکانی کرکے موجودہ بھارت میں سکونت اختیار کرنے والے ڈاکٹر سبیا ساچی دستیدار نے لندن کی کانفرنس میں ایک مقالہ پیش کیا، جو ہندو بدھسٹ کرسچین کونسل کی امریکی شاخ کی طرف سے تھا۔ یہ مقالہ بعد میں سہ ماہی ’’ساؤتھ ایشیا فورم‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ جریدہ امریکی حکومت کو بنگلادیش میں بنیادی حقوق کی صورتِ حال پر متوجہ کرنے کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔ ’’را‘‘ نے ۱۹۹۲ء میں نیویارک میں متعدد سیمینار، مظاہروں اور جلسوں کا اہتمام کیا، جن کا بنیادی مقصد بنگلادیش میں مذہبی اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے نام نہاد مظالم کی طرف امریکی حکومت کو متوجہ کرنا تھا۔ بنگلادیش کی صورتِ حال کو مبالغے کے ساتھ بیان کیا گیا تاکہ اس کے بارے میں منفی تاثر مزید توانا ہو۔ ان مذاکروں، مظاہروں اور جلسوں سے خطاب کے لیے مقررین کو دور افتادہ مقامات سے بلوایا گیا۔ بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلادیش مخالف مضامین ڈھاکا اور دیگر شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات میں شائع کرائے۔ ان مضامین کو مختلف زبانوں میں ڈھال کر مزید پھیلایا گیا تاکہ بنگلادیش کے خلاف پروپیگنڈے کا حق ادا کیا جاسکے۔
بھارتی خفیہ ادارے نے طے کر رکھا ہے کہ بنگلادیش میں کوئی بھی ایشو کھڑا ہوگا تو اسے عالمی سطح پر پھیلایا جائے گا۔ ’’را‘‘ نے ۱۹۹۲ء میں اپنے حاشیہ برداروں کے ذریعے نیویارک اسکول آف سوشل ریسرچ میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا، جس کا مقصد بنگلادیش میں مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر عالمی برادری کی توجہ دلانا تھا۔ اس کانفرنس کے ایک مقرر نے چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے کی صورتِ حال اور ۱۹۷۱ء کے واقعات کو ایک ہی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ ’’را‘‘ نے امریکی سینیٹ، ایوان نمائندگان، ایوان صدر، محکمہ خارجہ، اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والی تنظیموں اور بنیادی حقوق کے خودمختار گروپوں کو بنگلادیش میں مذہبی اقلیتوں کی صورتِ حال سے متعلق گمراہ کن خطوط بھیجتے رہنے کا اہتمام کر رکھا ہے۔ چٹاگانگ میں بنگلادیش افواج کے ہاتھوں نام نہاد مظالم کی بے بنیاد کہانیاں بھی مضامین میں شائع کرائی جاتی ہیں۔ امریکا میں پادریوں اور چرچ کے پیسٹرز سے رابطہ کرکے ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ بنگلادیش میں چٹاگانگ کے علاقے کی غیر مسلم آبادی پر بنگلادیشی افواج کے نام نہاد مظالم کے حوالے سے کانگریس کے ارکان کو خطوط لکھیں۔ یہ خطوط لکھوانے کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ بنگلادیشی قیادت کو امریکا اور یورپ کے بیشتر ممالک کی نظر میں مزید گندا کیا جائے اور ایسے اقدامات کی راہ ہموار کی جائے جن سے بنگلادیشی معیشت کے لیے زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا ہوں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھارتی خفیہ ادارے کی ایما پر ایک طویل یادداشت بھی پیش کی گئی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ بنگلادیش میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے مشن بھیجا جائے۔ اس حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے (یعنی لوگوں کو گمراہ کرنے) کے لیے نیویارک کی سڑکوں پر ہینڈ بل اور کتابچے بھی تقسیم کرائے گئے۔
بھارتی خفیہ ادارے نے بنگلادیش کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کرنے کے لیے نیویارک کو منتخب کیا ہے کیونکہ نیویارک میں دنیا بھر سے سیاست دان، دانشور اور دوسرے بہت سے شعبوں کی نامور شخصیات کی آمد جاری رہتی ہے۔ نیویارک ہی میں اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں سربراہان مملکت و حکومت کی آمدورفت بھی جاری رہتی ہے۔
امریکی قیادت کو بنگلادیش سے زیادہ سے زیادہ برگشتہ کرنے کی کوشش اس لیے کی جارہی ہے کہ امریکا واحد سپر پاور ہی نہیں بلکہ بنگلادیش کو امداد دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکا ہی بنگلادیشی گارمنٹس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ بنگلادیش اور امریکا کے تعلقات کبھی گرم جوشی پر مبنی نہ رہیں۔ دونوں ممالک میں اشتراکِ عمل کا بڑھنا بھارت کو اپنے مفادات کے لیے بہت بڑا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
امریکا میں بنگلادیش کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ بنگلادیش کی ساکھ خراب ہو اور امریکا اس میں الجھا رہے۔ ایسا ہوگا تو امریکا اس پوزیشن میں نہیں رہے گا کہ بھارت سے کہے کہ وہ بنگلادیش سے اپنے تمام تنازعات ختم کرے۔
بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر دو سال قبل امریکی کانگریس کے ۱۷ ارکان نے وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیا کو ایک خط لکھا جس میں ان پر زور دیا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی پاس داری سے متعلق اپنے عہد پر عمل کریں۔ خط میں کہا گیا کہ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دینے سے بنگلادیش کے ہندوؤں، عیسائیوں اور بدھسٹوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ چند واقعات پر تشویش ہے، جن کا تعلق مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک سے ہے۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں ٹامس فاگلئیٹا، گیری ایکرمین، ایلیٹ اینگل، ایڈولفس، ہنری ویکسمین، نینسی پیلوسی، اہرسٹوفر اسمتھ اور برنارڈ سینڈرز شامل تھے۔
بھارتی خفیہ ادارے کے پے رول پر کام کرنے والے بدوت سرکار، اسٹیفن گومز اور شمبل چودھری کو امریکا بھر میں بنگلادیشی ہندوؤں، بدھسٹوں اور عیسائیوں کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایک بدھ راہب بمل وھیکو واشنگٹن اور اقوام متحدہ میں بنگلادیش کے خلاف بھرپور لابنگ کر رہا ہے۔ بمل وھیکو ۱۹۸۶ء میں نقل مکانی کرکے کلکتہ گیا اور ہمیشہ کے لیے بھارت میں سکونت پذیر ہوگیا۔ سی آر دتہ، بمل وھیکو اور نام نہاد انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دوسرےلوگوں نے سینیٹر کینیڈی سمیت کانگریس کے متعدد ارکان سے ملاقاتیں کرکے بنگلادیش میں مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا رونا رویا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ واشنگٹن، نیویارک اور دیگر امریکی شہروں میں سفارتی مشنز کو بھی بنگلادیش کے منحرفین اور امریکی کانگریس کے ارکان کی ملاقاتوں کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
’’را‘‘ نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے کام کرنے والی متعدد تنظیموں کو بھی بنگلادیش میں مذہبی اقلیتوں پر نام نہاد مظالم کے حوالے سے گمراہ کرنے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ۱۹۹۲ء میں جنیوا میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس نے دنیا بھر کے مقامی افراد کے عالمی سال کے موقع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ’’را‘‘ نے اس کانفرنس کے مقررین میں بمل وھیکو کا نام بھی شامل کرایا۔ بمل وھیکو نے اس کانفرنس میں اس دعوے کے ساتھ شرکت کی کہ وہ چٹاگانگ کی قبائلی کمیونٹی کا نمائندہ ہے۔ اس نے اپنی تقریر میں بنگلادیش کے خلاف خوب زہر اگلا۔ اس کا الزام تھا کہ بنگلادیش میں تمام اقلیتوں کو سنگین نوعیت کے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
’’را‘‘ کی طرف سے ہر سال چٹاگانگ کے چکمہ رہنماؤں کے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے دوروں کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بنگلادیشی مسلمانوں نے ہندوؤں کے خلاف غیر معمولی، بلکہ مثالی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ڈھاکا اور چند دوسرے شہروں میں چند ایک بھارت مخالف مظاہرے ضرور ہوئے مگر یہ سب جذبات کی شدت کا نتیجہ تھا۔ پھر بھی بھارت مخالف لہر کو بنگلادیشی مسلمانوں نے ہندو مخالف لہر میں تبدیل نہیں کیا۔ ان مظاہروں میں کسی ہندو کو قتل نہیں کیا گیا۔ بنگلادیشی حکومت نے اس بات کا پورا خیال رکھا کہ کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہو جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوسکتی ہو۔ اس کے باوجود ’’را‘‘ کے پے رول پر کام کرنے والوں نے انتہائی بے شرمی سے اقوام متحدہ میں بنگلادیش کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھا اور یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ بنگلادیش میں مذہبی اقلیتوں کو ان کے تمام بنیادی حقوق سے یکسر محروم رکھا جارہا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر اور بنگلادیشی قونصلیٹ کے سامنے متعدد مظاہرے کیے گئے۔ ان مظاہروں میں بنگلادیشی حکومت کے خلاف خوب نعرے بازی کی گئی اور امریکیوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بنگلادیش میں مذہبی اقلیتیں انتہائی اذیت سہتے ہوئے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور بنگلادیشی قونصل جنرل کو یادداشتیں پیش کی گئیں جن میں بنگلادیشی حکومت پر بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہی یادداشت بنیادی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کو بھی پیش کی گئی۔ ایک بے بنیاد الزام یہ بھی تھا کہ بنگلادیشی حکومت ہندوؤں کی املاک کی حفاظت کرنے میں بھی ناکام ہوچکی ہے۔
’’را‘‘ نے بھارت کے بہت سے اخبارات اور جرائد کو بھی بنگلادیش کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ کئی اخبارات اور جرائد میں ’’را‘‘ کی ایما پر مضامین شائع کیے جاتے ہیں، جن میں بنگلادیشی حکومت پر مذہبی اقلیتوں سے زیادتی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ ’’را‘‘ کی ایما پر ایسے مضامین لکھے جاتے ہیں، جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بنگلادیش کے لوگ انتہائی جاہل، غیر مہذب، متعصب اور جدید ترین رجحانات اور نظریات سے یکسر بے خبر ہیں۔
’’را‘‘ نے بنگلادیش کے خلاف جانے کا کوئی بھی موقع اب تک ضائع نہیں کیا۔ قدم قدم پر کوشش کی جاتی رہی ہے کہ بنگلادیش کی راہوں میں کانٹے بچھائے جائیں، دیواریں کھڑی کی جائیں۔ بنگلادیش کو عالمی برادری میں زیادہ سے زیادہ بدنام کرنا بھارتی خفیہ ادارے کا مشن رہا ہے اور اس مشن کے مطابق وہ اب تک بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرتا آیا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply