
اگر ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام یا بھارت کی تقسیم سے پہلے کے حالات کا معروضی اور بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو اِس نتیجے پر پہنچنا کچھ دشوار نہیں کہ بھارت اور بالخصوص بنگال کی تقسیم کے ذمہ دار جواہر لعل نہرو اور دیگر ہندو قائدین تھے۔ ۲۰ جون ۱۹۴۶ء کو بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے ہندو ارکان کی اکثریت نے بنگال کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا۔ ہندو قانون سازوں نے ۲۱ کے مقابلے میں ۵۸ ووٹوں سے تقسیم کے حق میں رائے دی۔ دوسری طرف مسلم قانون سازوں نے متحدہ بنگال کے لیے ووٹ دیا۔
جواہر لعل نہرو نے ہندوؤں کے ذہنوں میں یہ خوف پیدا اور راسخ کردیا تھا کہ اگر بنگال کو تقسیم نہ کیا گیا تو غیر منقسم بنگال میں مسلمان بہت آسانی سے ہندوؤں پر راج کریں گے، کیونکہ اُن کی آبادی ۶ فیصد زیادہ ہے۔ بنگال کو ایک اکائی کی حیثیت سے طاقتور بنانے اور بعد میں اپنی مرضی کے مطابق آسانی سے دوبارہ بھارت میں ضم کرنے کا امکان یقینی بنانے کے لیے نہرو اور ان کے ہم خیال ہندو قائدین نے بنگال کی تقسیم پر زور دیا۔ بعد میں نہرو نے تسلیم بھی کیا کہ بنگال کو اِس ڈھنگ سے تقسیم کیا گیا کہ بعد میں آسانی سے دوبارہ بھارت کا حصہ بنایا جاسکے۔ (ہفت روزہ ’’جھنڈا‘‘ ۱۳؍مئی ۱۹۹۲ء)
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوؤں نے بنگال کی تقسیم کا ذمہ دار ہمیشہ مسلم قائدین کو ٹھہرایا ہے۔ وہ بنگال کی تقسیم کے لیے بنیادی طور پر محمد علی جناح کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اُس دور کی اخباری رپورٹس کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد علی جناح فرقہ وارانہ ذہن رکھتے تھے اور نہ بنگال کی تقسیم چاہتے تھے۔ جنوبی بھارت سے شائع ہونے والے اخبار ’’دی ہندو‘‘ نے ۱۳؍مئی ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں لکھا کہ اگر پاکستان بھارت کے مغربی حصے میں قائم کیا جائے تو محمد علی جناح کو آئین ساز اسمبلی میں بنگال کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں۔ محمد علی جناح کو اِس بات پر بظاہر کوئی اعتراض نہ تھا کہ بنگال کو پاکستان سے باہر رکھا جائے۔ (’’مہاتما گاندھی : دی لاسٹ فیز‘‘ جلد دوم، صفحہ نمبر ۱۷۸)
جواہر لعل نہرو کا موقف یہ تھا کہ اگر بھارت کو تقسیم کرنا (اور پاکستان کو قائم کرنا ہے) تو بنگال کو بھی تقسیم کرنا پڑے گا۔ بھارت میں برطانیہ کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بتایا ہے کہ کس طور محمد علی جناح کو بنگال کی تقسیم قبول کرنی پڑی۔ محمد علی جناح نے پُرزور اور وزنی دلائل کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے قیام کے حوالے سے بنگال اور پنجاب کو تقسیم نہ کیا جائے۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ اِن دونوں صوبوں کے عوام کی ثقافت غیر معمولی حد تک مشترک ہیں اور یہ کہ اِنہیں تقسیم کرنے کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اِس کے جواب میں جواہر لعل نہرو اور اُن کے ہم خیال ہندو قائدین نے یہ سوال اُٹھایا کہ جو نکتہ پنجاب اور بنگال کے لیے اُٹھایا جارہا ہے وہی نُکتہ بھارت کے دیگر صوبوں کے معاملے میں بھی تو اُٹھایا جاسکتا ہے۔ یعنی یہ کہ بھارت کو تقسیم ہی نہ کیا جائے۔ محمد علی جناح نے یہ دلیل قبول نہیں کی اور بھارت کی تقسیم کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل دینا شروع کیے۔ اور آخر کار اُنہوں نے یہ محسوس کرلیا کہ برطانیہ اور ہندو قائدین یہی چاہتے ہیں کہ بھارت کی تقسیم اِس طور عمل میں لائی جائے کہ پنجاب اور بنگال بھی تقسیم کیے جائیں۔ یوں محمد علی جناح کے پاس بھارت کی مجوّزہ تقسیم قبول کرنے کے سِوا کوئی چارہ نہ رہا۔ (قمر الدین احمد : اے سوشیو پولیٹیکل ہسٹری آف بنگال صفحہ نمبر ۸۳)
اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بنگال اور پنجاب اس لیے تقسیم کیے گئے کہ ہندو قائدین نے اِن کی تقسیم کو بھارت کی تقسیم کی بنیادی شرط بنایا تھا۔ بھارت کی تقسیم محمد علی جناح کے منصوبے یا خواہش کے مطابق عمل میں نہیں لائی گئی۔ وہ کسی بھی حالت میں بھارت کی ایسی تقسیم نہیں چاہتے تھے جس میں بنگال اور پنجاب کو دو لخت کردیا جائے۔ وہ اس خیال کے مکمل طور پر حامل یا حامی تھے کہ متحدہ یا غیر منقسم بنگال کو پاکستان کی حدود سے باہر رکھا جائے۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ پنجاب اور بنگال کو تقسیم نہ کیے جانے کی صورت میں بھارت کی تقسیم بھی کھٹائی میں پڑسکتی ہے، یعنی پاکستان کا قیام ممکن نہ ہوگا اور یوں برصغیر کے مسلمان اپنی الگ ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کرسکیں گے، تو اُنہوں نے بادلِ ناخواستہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم قبول کی۔ اِس معاملے میں محمد علی جناح غیر معمولی دباؤ میں تھے کیونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اگر اُنہوں نے ۳جون کی تجاویز قبول نہ کیں تو برطانیہ بھارت کی باگ ڈور اکثریتی جماعت یعنی ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کے حوالے کردے گا۔
اب ’’را‘‘ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے حقائق کو مسخ کرکے پیش کر رہی ہے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ رات دن یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ بنگال کی تقسیم کے ذمہ دار محمد علی جناح تھے۔ یہ راگ الاپنے کا بنیادی مقصد بنگلا دیش کے عوام کو یہ یقین دلانا ہے کہ بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان پائی جانے والی سرحد دراصل محمد علی جناح اور دیگر نام نہاد فرقہ پرست رہنماؤں کی یادگار ہے۔ اگلا قدم اِس سرحد کو سِرے سے ختم کرکے مشرقی بنگال یعنی موجودہ بنگلا دیش کو بھارت میں ضم کرنا ہے۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
Leave a Reply