
کلکتہ سے شائع ہونے والے معروف اخبار ’’آنند بازار پتریکا‘‘ نے حال ہی میں بنگلا دیش کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے بارے میں ایک طویل مضمون شائع کیا ہے، جس میں انتہائی بے شرمی سے بنگلا دیش کے باشندوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بھارت میں ضم ہونے کے لیے آواز اُٹھائیں۔ ’’را‘‘ میں بیٹھے ہوئے اپنے آقاؤں سے ہدایات پاکر بدنامِ زمانہ مصنفہ تسلیمہ نسرین نے ایک نظم بھی کہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں میرے حلق میں ایک کانٹا چُبھا تھا۔ میں اِس کانٹے کو اُگل دینا چاہتی ہوں تاکہ میرے اجداد کی منقسم زمین دوبارہ ایک ہوجائے۔ (ہفتہ روزہ ’’مسلم جہاں‘‘، ۳ جنوری ۱۹۹۵ء)
تسلیمہ نسرین کو اپنے نام نہاد ادبی کارناموں پر بھارت میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ اگر ہم ماضی کو کھنگالیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے اجداد نے کبھی اس بات کو پسند نہیں کیا تھا کہ غیر منقسم بھارت کا حصہ بنیں۔ ہمارے آبا نے دہلی کی بالادستی قبول کرنے کو کبھی ترجیح نہیں دی تھی۔ اُنہوں نے دہلی کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں کے خلاف صدائے احتجاج ہی بلند نہیں کی بلکہ کئی بار اُس کے خلاف سینہ سِپر بھی ہوئے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’را‘‘ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب بھی غیر منقسم بھارت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اشتراکِ عمل پر ۲۸ فروری ۱۹۹۲ء کو ڈھاکا میں منعقدہ سیمینار میں بھارت کی جماعت کانگریس کے رہنما مایا رام سرجن نے انتہائی بے شرمی سے کہا کہ جب یورپ ایک ہوسکتا ہے تو ہم ۱۹۴۷ء سے پہلے کے بھارت کی طرف کیوں نہیں لَوٹ سکتے؟
دُکھ کی بات یہ ہے کہ بے شرمی سے مُزیّن اِس مشورے پر سیمینار میں کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ چند نام نہاد دانشوروں نے تو مایا رام سرجن کو اُن کی ’’بصیرت‘‘ پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ بنگالی کلینڈر کی پندرہویں صدی کے آغاز پر ’’سینٹر فار ڈیویلپنگ دی اسپرٹ آف بنگالی نیشنل ازم‘‘ کے تحت منعقد کیے جانے والے سیمینار میں بنگلا دیش کی آزادی کے ایک خود ساختہ چمپئن حسن امام نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے حصے بخرے کردیے گئے، جبکہ ہم ایسا نہیں چاہتے تھے۔ یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ جنوبی ایشیا کے تمام حصے دوبارہ ایک اِکائی میں تبدیل نہیں ہوسکتے۔
(روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی۔ ۳۰؍اپریل ۱۹۹۲ء)
حسن امام، گھٹک دلال نِرمول کمیٹی کے رکن ہیں۔ یہ کمیٹی ۱۹۷۱ء میں بنگلا دیش کے قیام کی جدوجہد کے مخالفین کا قَلع قمع کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ حسن امام نے جو تجویز پیش کی اُس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اور اُن کے ہم خیال افراد کس کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ بنگالی نیشنل اِزم کے اِتنے ہی بڑے علم بردار ہیں تو مغربی بنگال کے لوگوں کو بنگالی نیشنل اِزم کی جانب بُلاتے ہوئے بھارت سے الگ ہوکر بنگلا دیش میں ضم ہونے کی دعوت کیوں نہیں دیتے؟ ہم نے بنگلا دیش میں اپنی زبان اور ثقافتی شناخت کو زندہ رکھنے کے لیے جانیں بھی قربان کی ہیں۔ بھارت میں ضم ہو جانے کا مفہوم اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنی تمام قربانیوں کو رائیگاں جانے دیں۔ مایا رام سرجن اور اُن کے قبیل کے لوگ جرمنی کے اتحاد کو تو دیکھتے ہیں، مگر یہ نہیں دیکھتے کہ سوویت یونین، چیکو سلواکیہ اور یوگو سلاویہ کا کیا ہوا۔
’’را‘‘ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مذہب اور مذہب کی بنیاد پر قائم ثقافت بھارت کے تمام حصوں کے دوبارہ متحد ہونے یا اکھنڈ بھارت کی تشکیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ایک سچا مسلمان کسی بھی حالت میں مذہب، ثقافت اور طرز زندگی سے دست بردار نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہر قدم دین کی بخشی ہوئی ہدایات کی روشنی میں اُٹھاتا ہے اور اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ بنگال کی سرزمین پر آباد ہندو اور مسلمان ایک ہی جیسے کپڑے پہنتے ہیں، ایک ہی زبان بولتے ہیں اور دونوں دال چاول یا مچھلی چاول کھاتے ہیں، مگر اِس کے باوجود اُن میں مکمل ہم آہنگی نہیں۔ اور یہی سبب ہے کہ ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے مسلمان اور ہندو ثقافتی اعتبار سے اپنی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ’’را‘‘ دن رات اِس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ مسلمانوں کی زندگی میں اسلام کا عمل دخل کم سے کم کردیا جائے تاکہ وہ ثقافتی اعتبار سے ہندوؤں سے زیادہ قریب ہوجائیں، اُن میں گھل مل جائیں۔ بنگالی ثقافت کے نام پر ’’را‘‘ مسلمانوں سے اُن کی ثقافت چھین کر اُن پر ہندو ثقافت مسلط کرنے کے درپے ہے۔
اِس ٹھوس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہی خطے میں صدیوں ہندوؤں کے ساتھ رہنے کے باوجود مسلمانوں نے اپنی ثقافتی شناخت برقرار رکھی ہے۔ بنگالی ہندوؤں اور مسلمانوں کی زبان تو ایک ہی ہے، مگر ذخیرۂ الفاظ کی بنیاد پر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں میں غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ ہندو کسی پر سلامتی بھیجنے کے لیے ’’اَشیرواد‘‘ کہتے ہیں اور مسلمان ’’دعا‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ معذرت کے لیے ہندو ’’شما‘‘ اور مسلمان ’’معاف‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کی اور بھی سیکڑوں یا ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں بہت سے حوالے سے بنیادی فرق موجود ہے۔ ہندو خواتین اور مسلم خواتین کے کنگھی چوٹی کرنے میں بھی بہت فرق پایا جاتا ہے۔ ہندو اپنے مُردوں کو جلاتے ہیں، ہم دفن کرتے ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیشتر معاملات میں خاصا فرق ہے اور بعض معاملات میں تو زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کبھی اپنی اپنی ثقافت ترک کرکے مشترکہ بنگالی ثقافتی ورثہ تشکیل دینے کی بات نہیں کی۔ ہندو اور مسلمان اپنے اپنے مذہب اور ثقافت سے وابستہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہندوؤں میں بچہ پیدا ہوتا ہے تو چند الفاظ ادا کیے جاتے ہیں جو ’’اولو‘‘ کہلاتے ہیں۔ ہم مسلمانوں میں بچے کی پیدائش پر اُس کے کان میں اذان دی جاتی ہے۔ ہندو اپنے بچوں کی ختنہ نہیں کراتے۔ ہندو (غیر معمولی آلودگی اور غلاظت کے باوجود) دریائے گنگا کے پانی کو انتہائی مقدس گردانتے ہیں، جبکہ مسلمان گنگا کے پانی کو ذرا بھی مقدس نہیں سمجھتے۔ ہندو ۳۳ کروڑ دیوی دیوتاؤں پر یقین رکھتے ہیں جبکہ مسلمانوںکا اعتقاد اور ایمان ایک اللہ پر ہے۔ ہندو اور مسلمان ایک خطے میں رہتے ہیں، ایک ہی زبان بولتے ہیں، ایک جیسا کھانا کھاتے ہیں اور رہن سہن بھی بہت حد تک یکساں ہے، مگر اِس کے باوجود اُن کی معاشرتی رُسوم اور ثقافت میں غیر معمولی تفاوت پایا جاتا ہے۔ دونوں کا تعلق ایک دوسرے سے بالکل مختلف مذہب اور ثقافت سے ہے اور دونوں کا تاریخی پس منظر بھی بہت مختلف ہے۔ اسلام اور ہندو اِزم نے کبھی اپنی اپنی حدود سے نکل کر ایسی مشترکہ وراثت قائم نہیں کی جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہوں۔
’’را‘‘ کے حمایت یافتہ دانشور یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ ۱۹۷۱ء کی ’’جنگِ علیحدگی‘‘ نے دو قومی نظریے کو یکسر مسترد کردیا اور ایک بار پھر خطے کو سیکولراِزم کی راہ پر ڈال دیا۔ یہ نکتہ سراسر غلط ہے۔ مشرقی بنگال (یعنی سابق مشرقی پاکستان) میں بنگالی مسلمانوں نے دو قومی نظریے کو مسترد نہیں کیا تھا۔ وہ تو مغربی پاکستان کے استحصالی رویّے کے خلاف ہتھیار لے کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ سوال مغربی پاکستان کے تسلّط اور جبر کو ختم کرنے کا تھا، نہ کہ اسلام کی دی ہوئی شناخت کو مٹانے کا۔ بنگلا دیش کے قیام کی جدوجہد میں حصہ لینے والے کسی بھی راہنما نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ اسلام، اسلام کی دی ہوئی شناخت اور اسلامی اصول کی بنیاد پر استوار ثقافت کو مٹادینا چاہتا ہے۔
اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ جب کوئی حلقہ بگوشِ اسلام ہوتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی سابق (یعنی دوسرے مذہب کے تحت گزاری ہوئی) زندگی کو یکسر فراموش کردے، اور پچھلے مذہب کے دیے ہوئے اُصولوں کو ترک کرتے ہوئے وہ سب کچھ قبول کرے جو اسلام نے حلال ٹھہرایا ہے، اور اُن تمام باتوں اور چیزوں سے مجتنب رہے جنہیں اسلام نے مسترد کردیا ہے۔ ہمارے اجداد نے جب ہندو اِزم چھوڑ کر اسلام کے دامن میں پناہ لی تھی، تب ہندو روایات، رسوم، طرزِ زندگی اور ثقافت سبھی کچھ ترک کردیا تھا۔ اسلام کو اپنانے کے بعد اُنہوں نے وہ تمام باتیں ترک کردی تھیں جو ہندو روایات کے ناتے اُن تک پہنچی تھیں۔ اُنہوں نے شنکھ پُھونکنا، گھنٹیاں بجانا، دیپ جلانا، نیک شگون کے لیے گھر میں گھوڑے کی نال، دھاگے میں پروئی ہوئی مرچ اور لیموں یا ایسی ہی کوئی چیز لٹکانا ترک کردیا تھا۔ ہندو عورتوں کو بیوہ ہونے پر شوہر کے ساتھ ہی چِتا میں جلا دیا جاتا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہی (یعنی سابق ہندو) خواتین نہ صرف یہ کہ شوہر کی موت پر زندہ جلائے جانے سے بچ گئیں بلکہ دوسری شادی کے ذریعے نئی زندگی بسر کرنے کے قابل بھی ہوگئیں۔
چند برسوں کے دوران ’’را‘‘ کے پے رول پر کام کرنے والے دانشوروں نے ہندو اِزم سے تعلق رکھنے والی بہت سی رسوم کو مشترکہ بنگالی ثقافت کے نام پر مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بنانے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ بنگالی ثقافت کو فروغ دینے کے نام پر دراصل ہندو ثقافت کو مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ سنکھ پُھونکنا، دیپ جلانا اور گھنٹیاں بجانا بنگال کے تمام حصوں کے ہندوؤں میں بھی مشترکہ معاملہ نہیں تھا، مسلمانوں کا ذکر تو خیر جانے ہی دیجیے۔
آج جن باتوں کو بنگالی ثقافت کا لازمی حصہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں بھی اس خطے کی ہندو ثقافت کا حصہ نہیں تھیں۔ آٹھویں سے بارہویں صدی عیسوی کے دوران بنگال پر حکومت کرنے والے پال خاندان کے زمانے میں لکھے جانے والی ہندوؤں کی مقدس نظم ’’چرجاپد‘‘ میں بھی کہیں یہ مذکور نہیں کہ ہندو لازمی طور پر شنکھ پُھونکیں، دیپ جلائیں اور گھنٹیاں بجائیں۔ بارہویں صدی عیسوی کے بعد بنگال پر پال خاندان کا اقتدار ختم ہوا اور کرناٹک کے سین خاندان نے حکومت قائم کی۔ یہ ہندو خاندان تھا۔ سین حکمرانوں نے بنگال کے مندروں میں وہی طور طریقے رائج کیے جو کرناٹک کے مندروں میں مروّج تھے۔ پوجا کے وقت دیپ جلانے، شنکھ پُھونکنے اور گھنٹیاں بجانے کا طریقہ سین حکمرانوں نے متعارف کرایا۔ ’’را‘‘ کے اشارے پر جو لوگ بنگلا دیش کے مسلم بنگالیوں پر جو کچھ بنگالی ثقافت کے نام پر تھوپنا چاہتے ہیں، وہ اِس خطے کے ہندوؤں کی زندگی کا بھی حصہ نہیں رہا ہے۔ بنگلا دیش کی اہم قومی تقریبات میں ہندو ثقافت رائج کرنے کی کوشش اب تک ترک نہیں کی گئی۔ معروف دانشور پروفیسر علی احسن کہتے ہیں، ’’کچھ لوگ بنگالی ثقافت کو فروغ دینے کے نام پر اِس ملک کی اہم تقریبات میں دیپ جلاتے اور گھنٹیاں بجاتے ہیں۔ اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دونوں رسمیں خالصاً بُتوں کی پوجا سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا بنگالی یا مسلم ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اِس خطے کے لوگوں کی زندگی کا بھی کبھی حصہ نہیں رہا۔‘‘ (ہفت روزہ ’’بکرم‘‘، ۱۹ تا ۲۵؍اپریل، ۱۹۹۳ء)
ہفتہ روزہ ’’جھنڈا‘‘ کی ۳۰؍اپریل ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ لفظ ’’منگل‘‘ کا عمومی ترجمہ ’’خوشی‘‘ یا ’’خیر و عافیت‘‘ کیا جاتا ہے۔ بنگلا اکیڈمی کی شائع کردہ بنگالی لُغت کے مطابق منگل کا ایک مفہوم دیوی سے متعلق کوئی چیز یا رسم ہے۔ ہندوؤں کی بہت سی رسوم میں یہ لفظ نمایاں طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
بھارت نواز دانشور جن رسوم کو بنگالی ثقافت کا لازمی جُز قرار دے کر پورے بنگلا دیشی ماحول پر تھوپنا چاہتے ہیں، وہ کسی بھی دور میں بنگال کے مسلمانوں کے مذہبی، معاشرتی یا خاندانی ماحول کا حصہ نہیں بن سکی ہیں۔ جو کچھ تحقیق سے ہندو ثقافت کا جُز ثابت ہوچکا ہے، اُس سے اچھی طرح واقف ہونے پر بعض دانشوروں نے ۱۹۹۰ء سے بھرپور کوششیں شروع کی ہیں کہ کسی نہ کسی طور اِن رسوم کو نئے سال کے جشن کا حصہ بنادیا جائے۔ ہندوؤں میں جو کچھ پُوجا پاٹ کے نام پر ہوتا ہے، وہ اب بنگالی ثقافت کے نام پر بنگلا دیشی مسلمانوں کی زندگی میں داخل کرنے کی بھرپور تگ و دَو کی جارہی ہے۔ بنگالی ثقافت پیش کرنے کے نام پر بھارت نواز عناصر ہندو دیوی دیوتاؤں کے چہرے (ماسک) لگاکر جُلوسوں میں ناچتے پھرتے ہیں۔ مسلمانوں کا تو خیر ذکر ہی کیا، اِس خطے کے ہندو بھی کبھی جُلوسوں میں کبھی یوں دیوتاؤں کے ماسک لگاکر حیوانی ہیئت کے ساتھ ناچتے نہیں تھے۔ برطانوی راج کے دوران ہندو بہت اچھی پوزیشن میں تھے۔ وہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہوتے تھے اور نچلی سطح کے سرکاری ملازمین میں تو خیر اکثریت ہندو ہی تھی۔ مگر اُس دور میں بھی کسی ایسی رسم کا سُراغ نہیں ملتا جس کا مقصد مذہب کے نام پر ناچنا گانا اور شور مچانا ہو۔ پروفیسر علی احسن کہتے ہیں، ’’تاریخی ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ جانوروں کے چہرے والے ماسک اور دیگر اشیا کے ساتھ ناچنا گانا ہندوؤں کے دیوتا شِیو کی پوجا سے متعلق تہوار ’گاجن‘ سے ہے۔ ’گاجن‘ کے تہوار میں نچلی ذات کے ہندو یعنی ڈوم (جن کا کام مُردوں کی آخری رسوم انجام دینا ہے) اور چنڈال (مجرموں کو ختم کرنے کا فریضہ انجام دینے والے اچھوت) چہروں پر ماسک لگا کر ناچتے گاتے ہیں۔ بنگالی ثقافت کو فروغ دینے کے نام پر بہت خاموشی اور باریکی سے نچلی ذات کے ہندوؤں کے طور طریقوں کو بنگلا دیشی مسلمانوں کی ذہنی ساخت کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ بنگالی ہندوؤں نے مسلم بنگالیوں کو کبھی بنگالی تسلیم نہیں کیا۔ وہ مسلمانوں کو نچلی سطح کے ہندوؤں (چمار، نائی، دھوبی، خاکروب اور مچھیروں) سے بھی نیچا سمجھتے ہیں۔
یہ بات کسی بھی کتاب یا تاریخ سے ثابت نہیں کی جاسکتی کہ اب جن رسوم کو بنگالی ثقافت قرار دیا جارہا ہے، وہ متحدہ بنگال کے دور میں یا اس کے بعد کبھی بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ اب بھارتی خفیہ ادارے کے کہنے پر چند نام نہاد ترقی پسند عناصر ایک اجنبی ثقافت کو بنگلا دیشی مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بنانے پر کمربستہ ہیں۔ ’’را‘‘ کسی نہ کسی طور بنگلا دیشی مسلمانوں کے عقائد میں نقب لگاکر اُنہیں اسلامی تعلیمات اور اقتدار سے یکسر متنفر کرنا چاہتی ہے۔ بنگالی ثقافت کا ڈھول پیٹ کر بنگلا دیشی مسلمانوں کو اسلام کی درخشندہ روایات سے دور لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مجھے لگتا ہے، وہ دن بھی اب زیادہ دور نہیں، جب اپنے چہروں پر ہندو دیوی دیوتاؤں کے ماسک لگائے ہوئے لوگ ہماری گلیوں میں ناچتے گاتے پھریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے لوگ گلے میں ہندوؤں کی طرح جنیو (دھاگا) ڈالے اور منہ پر راکھ (بھبھوت) لگائے دکھائی دیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سوں کے ہاتھوں میں ترشول دکھائی دے۔ تین نوک والا یہ ہتھیار ہندو دیوتا شیو کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنا بنگالی اِزم ظاہر کرنے کے لیے ابھی سے دھوتی پہننا تو شروع کر ہی دیا ہے۔
۱۹۹۰ء سے پہلے اِس خطے (بالخصوص بنگلا دیش) کے لوگوں نے بنگالی قوم پرستی کے نام پر ہندو ثقافت اور مذہبی روایات کے احیا کی ایسی بھرپور کوششیں نہیں دیکھی تھیں۔ بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن نے، جن کے بنگالی ہونے میں کسی کو بھی کوئی شبہ نہیں ہوسکتا، چار چار مرتبہ ’’یوم آزادی‘‘، سالِ نو کا جشن اور یومِ شہدا منایا اور تین مرتبہ یوم فتح منایا، مگر ایک بار بھی اُنہوں نے کسی تقریب میں کوئی بھی ایسی چیز شامل نہیں ہونے دی جو ہندو مذہب کی بنیادی اقدار سے تعلق رکھتی ہو۔ شیخ مجیب کے دور میں بنگالی ثقافت یا بنگالی اِزم کے نام پر کوئی بھی ہندوانہ رسم ادا نہیں کی گئی۔ کسی موقع پر مقدس چراغ جلایا گیا، نہ ہی شنکھ پُھونکا گیا اور نیک شگون کے طور پر گھنٹیاں بھی نہیں بجائی گئیں۔ بنگالی کلینڈر کے تحت نئے سال کی آمد پر گلیوں میں ہنومان کا ماسک لگائے ہوئے نوجوان بھی کبھی دکھائی نہیں دیے۔ شیخ مجیب الرحمن کی کوئی ایک بھی تقریر ایسی نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ ثابت کیا جاسکتا ہو کہ اُنہوں نے بنگالی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ہندو ثقافت کو آگے لانے پر زور دیا ہو۔
سوال یہ ہے کہ ۱۹۹۰ء کے بعد سے بنگلا دیش میں وہ لوگ اچانک متحرک کیوں ہوئے ہیں جو بنگالی ثقافت کے نام پر ہندو ثقافت کو فروغ دینا چاہتے ہیں؟ جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِن میں بیشتر وہ ہیں جنہوں نے وفاداری اور نظریات کی دُکان بدل لی۔ صوفیہ کمال کی مثال بہت واضح ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک اُن کے دل میں قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے بہت احترام تھا۔ اُنہوں نے قائد کے لیے چند نظمیں بھی کہی تھیں۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے کے اوائل میں جب واضح ہوگیا کہ اب پاکستان برقرار نہ رہ سکے گا، تب صوفیہ کمال نے اپنی وفاداری ماسکو کے نام کردی۔ بنگلا دیش کی ’’جدوجہدِ آزادی‘‘ کے دوران یعنی ۹ ماہ تک صوفیہ ڈھاکا ہی میں رہیں، مگر خاموشی کے ساتھ۔ جب بنگلا دیش بن گیا تو وہ خود کو آزادی کی چیمپئن اور علامت کی حیثیت سے اور ’’جذبۂ آزادی‘‘ کی سب سے بڑی علم بردار کے روپ میں پیش کرنے لگیں۔ ایک مرحلے پر وہ گھٹک دلال نِرمُول کمیٹی کی سربراہ بھی رہیں۔
بنگلا دیش کے قیام کی جدوجہد کے حوالے سے خود کو صفِ اوّل میں دیکھنے کے خواہش مند سراج الاسلام چوہدری ماضی میں پاکستان کے غیر معمولی طرف دار رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں سراج الاسلام چوہدری نے اسکولوں کے طلبہ کے لیے ’’پاکستان: ایک ریاست اور اُس کی ثقافت‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے متحدہ پاکستان پر زور دیتے ہوئے پاکستانی قوم پرستی اور ثقافت کی زبردست وکالت کی تھی۔ شمس الرحمن کا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو بنگالی ثقافت کے فروغ کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھتے ہیں۔ ۱۶؍دسمبر ۱۹۷۱ء تک وہ پاکستان کی علاقائی سالمیت برقرار رکھنے کے حامی تھے۔ ’’دی دینِک پاکستان‘‘ میں اُن کی تحریریں اِس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ متحدہ پاکستان کے زبردست حامی تھے۔
یہ سب لوگ موقع پرست اور ابن الوقت ہیں۔ اب وہ ذاتی فائدے کے لیے خود کو ’’جذبۂ آزادی‘‘ کے سب سے بڑے علم بردار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ لوگ بہت بے شرمی سے بنگلا دیش پر ایک ایسی ثقافت مسلط کرنا چاہتے ہیں جو یکسر اجنبی ہے۔ اِس ثقافت کو اپنانے پر تو بنگلا دیش کے بانیوں نے بھی زور نہیں دیا تھا۔ یہ لوگ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ ہندو ثقافت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی صورت میں اُنہیں زیادہ سے زیادہ خالص بنگالی کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے گا۔ یوں ایک طرف تو اُن کے ماضی پر نقاب پڑ جائے گا اور دوسری طرف اُنہیں بہت سے غیر معمولی مادّی فوائد حاصل ہوں گے۔ سچائی یُوں ہے کہ مشرقی بنگال جب پاکستان کا حصہ تھا، تب یہ لوگ پاکستان کے وفادار نہیں تھے اور اب جبکہ بنگلا دیش دنیا کے نقشے پر موجود ہے، تب یہ لوگ بنگال کی رُوح سے وفادار نہیں۔ یہ محض ایسی فدائین ہیں جو ’’را‘‘ کے اشارے پر اپنے ذاتی مفادات کے لیے سرگرم ہیں۔
’’را‘‘ اچھی طرح اندازہ لگا چکی ہے کہ جب تک اسلام بیشتر بنگلا دیشیوں کے مابین اتحاد کے بنیادی عنصر کی حیثیت سے موجود ہے اور اُس کی ثقافت کی بقا و فروغ ممکن بناتا رہے گا، تب تک بنگلا دیش بھی دُنیا کے نقشے پر موجود رہے گا۔ یہی سبب ہے کہ ’’را‘‘ نے بنگلا دیش کی ثقافتی شناخت کو مسخ کرنے کے لیے کئی اطراف سے حملہ کردیا ہے۔ ہندو ثقافت کو بنگالی ثقافت کے نام فروغ دینے کے لیے ’’را‘‘ نے ایسے نام نہاد مسلم اسکالرز اور دانشوروں کی خدمات حاصل کی ہیں جو اسلامی ثقافتی اقتدار پر حملے کرنے سے نہیں چُوکتے۔ بنگلا دیش میں علم اور ثقافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کے ذریعے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا اب ’’را‘‘ نے ایک منفرد طریقہ وضع کیا ہے۔ ’’را‘‘ اب بھارت سے ثقافت اور سیاست کی نمایاں مسلم شخصیات کو منتخب کرکے بنگلا دیش بھیجتا ہے۔ اِن شخصیات میں دارالعلوم دیوبند کے مولانا اسد مدنی، نئی دہلی کی درگاہ نظام الدین اولیا کے بابا کاشانی اور اجمیر شریف سے خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ سے وابستہ علما شامل ہیں۔ اِن تمام شخصیات نے بنگلا دیش کا دورہ کیا ہے۔ یہ لوگ بنگلا دیش کے سیاسی رہنماؤں اور منتخب نمائندوں کو اپنے ہوٹل یا کسی اور نوع کی قیام گاہ پر مدعو کرتے ہیں اور ’’را‘‘ کا پیغام اُن تک پہنچاتے ہیں۔ یہ پیغام عموماً درج ذیل نکات پر مشتمل ہوتا ہے:۔
٭ بھارت کی تقسیم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بہتر نتائج کی حامل ثابت نہیں ہوئی۔ اِس تقسیم سے اُنہیں فائدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ ایسے میں بہتر یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان ایک بار پھر اُسی ہندوستان کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں جو برطانوی راج میں تھا، یعنی غیر منقسم ہندوستان۔
٭ بھارت میں مساجد، مزارات اور دیگر مقدس مقامات کو غیر معمولی تحفظ حاصل ہے۔
٭ پاکستان اور بنگلا دیش میں اسلامی قوانین نافذ نہیں ہیں، جب کہ بھارت میں مسلمانوں کو ’’پرسنل لاز‘‘ کے ذریعے اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا گیا ہے۔ (اِس نکتے کو لوگوں کے ذہنوں میں ٹھونسنے کے لیے شاہ بانو کیس کا حوالے خاص طور پر دیا جاتا ہے۔)
٭ بنگلا دیش کی سرزمین سے (یعنی سیاست دانوں کی طرف سے) بھارت پر تنقید کا سلسلہ ختم کردیا جائے۔
٭ سیاست دان اور دیگر اہم شخصیات بھارت کا دورہ خود بھارتی حکومت کے خرچ پر کریں۔ (موقع غنیمت جان کر بنگلا دیشی سیاست دانوں کو مشترکہ کاروبار کی پیشکش بھی کی جاتی ہے۔)
’’را‘‘ کا مرکزی ایجنڈا یہ ہے کہ بنگلا دیش کے مسلمانوں کی اکثریت کو اسلامی اقدار اور اسلامی شعائر سے متنفر کرکے ہندو ثقافت کو اپنانے کی تحریک دی جائے۔ اگر ’’را‘‘ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہوجائے تو بنگلا دیش کے بھارت میں انضمام کا مرحلہ بہت آسان ہوجائے گا۔
(مترجم: محمد ابراہیم خان)
(۔۔۔ جاری ہے!)
Leave a Reply