
اسلام کے حوالے سے اہانت آمیز تحریروں کی مصنفہ تسلیمہ نسرین ہے تو بنگلا دیش کی مگر وہ اپنی کامیابی اور مقبولیت کا سارا ’’کریڈٹ‘‘ بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کو دیتی ہے۔ ’’را‘‘ کے اشارے پر اور اس کی بھرپور اعانت سے تسلیمہ نسرین اسلام اور بنیادی اخلاقی تعلیمات کے ساتھ ساتھ بنگلا دیش کی آزادی اور خود مختاری کے خلاف بھی لکھتی رہی ہے۔ بھارتی خفیہ ادارہ کئی سال سے تسلیمہ نسرین کو مسلم ثقافت کے خلاف زہریلا اور انتہائی اہانت آمیز پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ تسلیمہ نسرین پر ’’را‘‘ کی مہربانی اور ’’را‘‘ کے لیے تسلیمہ نسرین کی ’’محبت‘‘ کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ کولکتہ کے مشہور اشاعتی ادارے ’’آنند بازار پتریکا گروپ آف پبلی کیشنز‘‘ نے تسلیمہ کو اس کی کتاب ’’نربیچیتو کالم‘‘ پر ایوارڈ سے نوازا ہے۔
علمی اور باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ تسلیمہ نسرین کی کتاب اس پائے کی نہ تھی کہ اسے ایوارڈ دیا جاتا مگر ’’را‘‘ کے دباؤ پر آنند بازار پتریکا گروپ آف پبلی کیشنز نے اسے ایوارڈ دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تسلیمہ نسرین نے اپنی کتاب میں بنگالی کی معروف مصنفہ سُکماری بھٹاچاریہ کی کتاب ’’پراچین بھارت: سماج اور ساہتیہ‘‘ (قدیم بھارت: معاشرہ اور ادب) سے مواد نقل کیا ہے۔ بہت سے مقامات پر تسلیمہ نسرین نے الفاظ بھی وہی استعمال کیے جو سُکماری نے استعمال کیے تھے۔ مواد کی چوری کے الزام میں کوئی کارروائی کرنے کے بجائے آنند بازار پتریکا گروپ آف پبلی کیشنز نے تسلیمہ کو ایوارڈ دے دیا۔
مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے بہت سے معروف شعراء، افسانہ نگاروں اور نقادوں نے تسلیمہ نسرین کو چُرائے ہوئے مواد پر ایوارڈ سے نوازے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ مگر تنقید کو نظرانداز کرتے ہوئے آنند بازار گروپ آف پبلی کیشنز اب بھی تسلیمہ نسرین کی سرپرستی پر تُلا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ’’را‘‘ کسی نہ کسی طور یہ منوانا چاہتا ہے کہ تسلیمہ نسرین ایک اچھی مصنفہ ہے جس کی تحریر میں بنگالی زبان کی تحریریں پڑھنے والوں کے لیے غیرمعمولی کشش ہے۔ تسلیمہ نسرین آزاد اور خود مختار بنگلادیش کے وجود کے خلاف بھی لکھتی رہی ہے۔ اس نے اپنی تحریروں میں اس بات کی کھل کر وکالت اور حمایت کی ہے کہ بنگلادیش کو بھارت سے الحاق کرلینا چاہیے۔ وہ اپنی تحریروں اور نظموں میں انتہائی بے شرمی سے کہتی رہی ہے کہ ۱۹۴۷ء میں کھینچی جانے والی لکیریں (سرحدیں) ختم کرکے غیر منقسم مادرِ وطن کو پھر ایک حقیقت بنایا جانا چاہیے۔ تسلیمہ نسرین کا بدنام زمانہ ناول ’’لجّا‘‘ اسلام اور جنوبی ایشیا میں مسلم اقدار پر رکیک حملوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس ناول میں بابری مسجد کی شہادت کے پس منظر میں بنگلا دیش میں ایک ہندو گھرانے پر ڈھائے جانے والے مفروضہ مظالم کی داستان بیان کی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تسلیمہ نسرین نے بابری مسجد کی شہادت سے پہلے اور بعد میں بھارت میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذکر تک نہ کیا۔ بنگلا دیش کے مسلمانوں نے اقلیتوں سے ہمیشہ اچھا سلوک روا رکھا ہے مگر تسلیمہ نسرین نے ان پر اقلیتوں سے گندے سلوک کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ تسلیمہ نسرین نے یہ ناول بھارتی خفیہ ادارے کی ایما پر لکھا۔ ’’را‘‘ نے صرف تحریک ہی نہیں دی اور مالی وسائل فراہم کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس ناول کے کردار تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ مسخ اعداد و شمار بھی فراہم کیے تاکہ قارئین کو حقیقت سے زیادہ سے زیادہ دور کیا جاسکے۔ یہ ناول دو ماہ میں لکھا گیا اور اس کی طباعت و اشاعت کا اہتمام ’’را‘‘ نے کیا۔
بہت سے حلقے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ’’لجّا‘‘ تنہا تسلیمہ نسرین کی کاوش ہے۔ اندرونی ذرائع کی دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ناول کسی مشہور بھارتی مصنف نے گھوسٹ رائٹر کی حیثیت سے لکھا اور بعد میں ’’را‘‘ نے اسے تسلیمہ نسرین کے نام سے شائع کیا۔ ’’لجّا‘‘ کی اشاعت کے پس پشت ’’را‘‘ کے مقاصد یہ تھے۔
٭ بنگلا دیشی مسلمانوں کو ایسے جنونیوں کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کرنا جو اقلیتوں کے حقوق کا ذرا بھی احترام نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ساتھ دنیا والوں کو یہ بھی جتانا کہ بنگلا دیش ایک بنیاد پرست ریاست ہے۔
٭ اسلامی اقدار اور ثقافت کو بدنام کرنا۔
٭ بنگلا دیش کے نقشے پر اعتراضات اٹھانا اور اس بات پر زور دینا کہ بنگلا دیش میں چونکہ ہندو محفوظ نہیں، اس لیے اس ملک کو بھارت ہی میں ضم کردیا جائے۔
٭ بنگلا دیش کی معیشت کو نقصان پہنچانا۔ بھارتی خفیہ ادارے کو پورا یقین تھا کہ اس ناول اور ایسی ہی چند دوسری کتابوں کی اشاعت کے بعد بنگلا دیش کو امداد دینے والے ممالک یہ سوچتے ہوئے ہاتھ کھینچ لیں گے کہ بنگلا دیش میں اقلیتوں سے گندا سلوک کیا جارہا ہے۔
٭ تسلیمہ نسرین کے ناول کی اشاعت کا ایک بنیادی مقصد بنگلا دیشی معاشرے میں شدید اختلافِ رائے اور دوریاں پیدا کرنا بھی تھا۔ بھارتی خفیہ ادارہ اچھی طرح جانتا تھا کہ تسلیمہ نسرین کا ناول شائع ہونے کے بعد بنگلا دیش کے مسلمان شدید ردعمل ظاہر کریں گے۔ کچھ لوگ تسلیمہ نسرین کا ساتھ دیں گے جنہیں اسلام مخالف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا جائے گا۔ بہرحال اس ناول کی اشاعت سے بنگلا دیش واضح طور پر دو حصوں میں بٹ جائے گا۔ ایک طرف تسلیمہ نسرین کے مخالفین ہوں گے اور دوسری طرف اس کے حامی۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں انتشار اور عدم استحکام بڑھے گا اور حکومت بھی کمزور پڑے گی۔ حکومت کے کمزور پڑنے کی صورت میں جمہوری اقدار بھی کمزور پڑیں گی۔ گویا تسلیمہ نسرین کے ذریعے پورے بنگلا دیش کو شدید عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔ ’’لجّا‘‘ کی اشاعت پر بنگلا دیش بھر میں مظاہرے ہوئے جس کے بعد حکومت نے اس ناول کی اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ مغربی بنگال میں البتہ اس ناول کی فروخت جاری رہی۔ بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر بنیاد پرست جماعتوں نے تسلیمہ نسرین کے ناول کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف لڑائی میں اسلحے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ’’را‘‘ نے دوسرے بہت سے مقاصد تو حاصل کرلیے مگر وہ بنگلا دیش کے معاشی مفادات کو خاطر خواہ ضرب نہ لگاسکی کیونکہ بنگلا دیشی حکومت نے سازش بھانپتے ہوئے بروقت اقدامات کے ذریعے معیشت کا دفاع کیا۔
بھارت کے معروف تجزیہ کار اور ریسرچ اسکالر اشوک اے بسواس لکھتے ہیں: ’’بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی شرارت پسندی کی تازہ ترین مثال تسلیمہ نسرین کی شر انگیز دریافت ہے۔ اس اخلاق باختہ اور تیسرے درجے کی مصنفہ کو کولکتہ کے میڈیا نے کچھ زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور پھر ’’را‘‘ نے اس کی فنڈنگ شروع کردی۔ کولکتہ میں تسلیمہ کے سرپرستوں نے اسے اسلام کے بنیادی اصولوں اور تعلیمات کے خلاف لکھنے پر اُکسایا، جبکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ ایسا کرنے سے بنگلا دیش میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ’’را‘‘ کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ ایک طرف تو بنگلا دیش میں عدم استحکام پیدا ہو اور دوسری طرف دنیا بھر میں حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور بنیاد پرستی کے خلاف سرگرم گروپ بنگلا دیش کو مسترد کردیں۔
تسلیمہ نسرین خطرناک اور شرمناک حد تک دریدہ دہن بھی ہے۔ وہ اخلاقی اصولوں کا تمسخر اڑانے میں کبھی کوئی باک محسوس نہیں کرتی۔ وہ شادی کے ادارے کی مخالف اور جنسی بے راہ روی کی قائل ہے۔ اس حوالے سے اپنے خیالات کے اظہار میں اس نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ وہ معاشرتی اقدار اور ثقافتی روایات کا یہ کہتے ہوئے تمسخر اڑاتی رہی ہے کہ ان سے شخصی آزادی کی راہ میں دیواریں حائل ہوتی ہیں، اور خاص طور پر خواتین کو بہتر اور آزاد زندگی بسر کرنا نصیب نہیں ہو پاتا۔ ایک تحریر میں اس کا ’’موقف‘‘ یہ ہے کہ کوئی بھی عورت محض اپنے شوہر کے بچے پیدا کرنے تک کیوں محدود رہے اور شادی کے بعد بھی اس شخص کے بچے کیوں پیدا نہ کرے جس سے وہ محبت کرتی ہو! تسلیمہ کی دریدہ دہنی واضح طور پر اخلاقی اقدار اور بالخصوص اسلامی ثقافت کے یکسر منافی ہیں۔
بھارتی خفیہ ادارہ ان تمام باتوں کی بنیاد ہی پر تو تسلیمہ نسرین کی بھرپور وکالت اور حمایت کرتا ہے تاکہ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ بگاڑ پیدا کیا جاسکے۔ تسلیمہ نسرین نے قرآن حکیم کے بارے میں انتہائی اہانت آمیز باتیں کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ۱۹۹۴ء میں کولکتہ کے ایک اخبار سے انٹرویو میں اس نے کہا تھا کہ زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ اب قرآن مجید کو دوبارہ لکھا جانا چاہیے تاکہ وہ زمانے کے تقاضوں کو نبھانے کے قابل ہوسکے! بنگلا دیش کے راسخ العقیدہ مسلمان اس بات کو کسی بھی طور برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ تسلیمہ نسرین کے اس انٹرویو پر ملک بھر میں شدید ردعمل دکھائی دیا۔ مظاہروں اور جلسوں میں تسلیمہ نسرین پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کے لیے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ لبرل اور بھارت نواز لوگوں نے تسلیمہ نسرین کا دفاع کرنے کی کوشش کی مگر جب انہوں نے عوام کا بپھرا ہوا موڈ دیکھا تو خاموشی اختیار کرلی۔ تسلیمہ نسرین کو روپوشی اختیار کرنی پڑی۔ عوام کے شدید دباؤ پر تسلیمہ نسرین کے خلاف حکومت نے متعلقہ قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا۔
’’را‘‘ کا منصوبہ یہ تھا کہ تسلیمہ نسرین کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملے اور دنیا اس کے بارے میں جان جائے۔ یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ کئی حکومتیں اور بین الاقوامی تنظیمیں تسلیمہ نسرین کے اظہار رائے کے حق کا دفاع کرنے کی غرض سے سامنے آئیں۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی تسلیمہ نسرین کے حق میں بیان دیا۔ بیرونی حکومتوں اور مشہور تنظیموں کے دباؤ پر بنگلا دیشی حکومت کے لیے تسلیمہ نسرین کو ضمانت پر رہا کرنے اور ملک چھوڑنے کی اجازت دینا ناگزیر ہوگیا۔ اب وہ یورپ میں سکونت پذیر ہے اور خاصی سہولت کے ساتھ تمام بنیادی اخلاقی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔
تسلیمہ نسرین کے کیس سے بھارت کے مرکزی خفیہ ادارے کے طریقِ واردات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ’’را‘‘ نے ہمیشہ بنگلا دیش کو غیر مستحکم کرنے پر توجہ دی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ مختلف طریقے اختیار کرتا رہا ہے۔ تسلیمہ نسرین جیسے لوگ اس کی اولین ترجیح یا پسند ہوتے ہیں، کیونکہ ایسی دریدہ دہنی سے معاشرے میں غیر معمولی بگاڑ، انتشار، اضطراب اور تقسیم کا عمل پیدا ہوتا ہے۔ ادبی اعتبار سے معمولی سی صلاحیت کی مالک اس مصنفہ کو ’’را‘‘ نے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ مقصود صرف یہ تھا کہ اس کے ذریعے سے بنگلا دیش کو زیادہ سے زیادہ انتشار سے دوچار کیا جائے۔ تسلیمہ نے اپنی دریدہ دہنی سے ’’را‘‘ کا یہ کام بھرپور توجہ اور کامیابی سے کیا۔
ایک بات ضرور کہنی پڑے گی۔ ’’را‘‘ کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اسلامی اقدار اور ثقافتی روایات کے خلاف کچھ کہنے پر کس نوعیت کا ردعمل سامنے آسکتا تھا۔ بنگلا دیشی مسلمانوں نے اسلام کے خلاف کچھ کہنے پر جو ردعمل ظاہر کیا، وہ شاید ’’را‘‘ کے اعلیٰ افسران کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش کے مسلمانوں میں جو اتحاد اور یگانگت عام حالات میں کسی طور ممکن نہ ہوسکتی تھی، وہ تسلیمہ نسرین کی دریدہ دہنی اور ’’را‘‘ کی طرف سے اس کی سرپرستی نے ممکن بنادی۔ اب اسلام کے دفاع کے لیے بنگلا دیشی مسلمان کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ تسلیمہ نسرین اور ’’را‘‘ کی ’’بدولت‘‘ اب بنگلا دیشی مسلمان ملک کے اسلامی تشخص کا دفاع کرنے کی راہ میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
***
Leave a Reply