
اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ’’را‘‘ دن رات اس کوشش میں مصروف ہے کہ دو قومی نظریے کو یکسر مسترد کردینے والے حالات پیدا کرے تاکہ برصغیر میں مسلمانوں نے اپنے لیے جو ریاستیں قائم کی ہیں، اُن کا خاتمہ ممکن ہو اور یہ پورا خطہ ایک بار پھر اکھنڈ بھارت میں تبدیل ہو۔ اس مقصد کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ’’را‘‘ نے چار عشروں کے دوران بنگالیوں کے اذہان کو مسخر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ وہ ایک الگ ریاست کا تصور اپنے ذہنوں سے کھرچ کر پھینک دیں اور اپنے آپ کو بھارت میں ضم کرنے کی ذہنیت کی طرف مائل ہوں۔ اب تک بھارت نے بنگلا دیش کے مسلمانوں کے ذہنوں کو مسخّر کرنے کے حوالے سے جو ثقافتی یلغار کی ہے، اُس کی چند مثالیں ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
٭ بھارتی خفیہ ادارے اور بالخصوص ’’را‘‘ نے بنگلا دیش کی حدود میں ایسے دانشوروں کو پروان چڑھایا ہے، جو نام نہاد ’’فری تھنکر‘‘ ہیں یعنی کسی بھی حد میں رہتے ہوئے سوچنے کے قائل نہیں اور بالخصوص مذہب سے بیزاری ان کے مزاج کا لازمی جُز ہے۔ یہ دانشور علاقائی ثقافت کے مآخذ ہندو دھرم کی قدیم تعلیمات میں تلاش کرتے ہیں، جن میں شیو، درگا اور لکشمی دیوی کی پوجا بھی شامل ہے۔ ان کی نظر میں ثقافت کا اسلامی اَقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دانشور اگرچہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں اور انہی میں ان کی تربیت ہوئی ہے، مگر اب یہ اپنے خیالات کے ذریعے نئی نسل کو اسلام سے دور اور بنگالی قومیت سے نزدیک کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے بنگلا دیش کی نئی نسل کو ہندو دھرم کا گرویدہ اور بھارت نواز بنانا۔
بنگلا دیش میں نام کما چکنے اور ابھرنے والے دانشوروں، صحافیوں اور مصنفین پر ’’را‘‘ گہری نظر رکھتی ہے اور مختلف طریقوں سے انہیں بھارت نواز بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ سماجی رابطوں کے نظام کے ذریعے ’’را‘‘ انہیں اپنے حلقے کا حصہ بنانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ کسی نام نہاد ثقافتی یا ادبی تنظیم کی طرف سے منعقد کی جانے والی تقریب میں شرکت کے بہانے ’’را‘‘ بنگلا دیشی دانشوروں، صحافیوں، مصنفین کو بھارت کی سیر کراتی ہے۔ بھارت میں بنگلا دیشی دانشوروں کو مشہور ادبی، ثقافتی اور سماجی شخصیات سے ملایا جاتا ہے۔ یہ شخصیات مہمانوں کی خوب تعریف کرتی ہیں اور انہیں یقین دلانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ ان کی نظر میں بنگلا دیشی دانشوروں کا مقام بہت بلند ہے۔ بنگلا دیشی دانشوروں کو بھارت میں انعامات اور تمغوں سے نوازا جاتا ہے، ان کے اعزاز میں استقبالیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بنگلا دیشی دانشوروں اور اہل قلم کو بھارت میں اس قدر احترام ملتا ہے کہ وہ متعلقہ ادارے اور بھارتی حکومت کے احسان کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں اور خود کو ان کا زر خرید غلام سمجھنے لگتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد ان کے لیے لازم سا ہو جاتا ہے کہ احسانات کا بدلہ چکانے کے لیے بھارت کی دُھن پر رقص کریں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، زیادہ کارآمد افراد کے لیے نقد انعامات، ماہانہ الاؤنس اور دیگر مراعات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض کیسوں میں گائڈ اور ساتھی کے طور پر خوبصورت عورتوں کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ بنگلا دیش کے اہل دانش کو اپنی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ کرنے لیے بھارتی حکومت کئی ادبی، ثقافتی اور سماجی تنظیموں کا سہارا لیتی ہے۔ بنگلا دیشی اہل دانش کو ڈراما سوسائٹی میڈل، مائیکل ایوارڈ، آنند ایوارڈ وغیرہ دیے جاتے ہیں۔ یہ تنظیمیں ٹیلنٹ کو کھوج نکالنے اور اسے شکنجے میں لینے یا اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے بنگلا دیش کے جن شعراء، افسانہ نگاروں، صحافیوں، فنکاروں اور دانشوروں پر ’’را‘‘ کی نظر ہوتی ہے، وطن واپسی پر بھارت ثقافتی ادارہ قائم کرنے کے لیے ان سے بھرپور مالی تعاون کیا جاتا ہے۔ ان اداروں اور تنظیموں کے تمام اخراجات ’’را‘‘ کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں اور وہی اُن کے لیے پالیسی اور پروگرام ترتیب دیتا ہے۔ یہ تنظیمیں سکیولراِزم کو فروغ دیتی ہیں اور بھارت کے حق میں پرچار کرتی ہیں۔ ان کی مجموعی کارکردگی کا مقصود صرف یہ ہے کہ بنگلا دیشیوں اور بالخصوص نوجوانوں کے اذہان میں بھارت نوازی ٹھونس دی جائے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو ممکنہ حد تک چھپایا جاتا ہے۔ بنگالی قوم پرستی کے نام پر ہندو ثقافت کو بنگلا دیشی مسلمانوں کے ذہنوں میں انڈیلا جاتا ہے۔ موقع کی مناسبت سے ایسے بیانات جاری کیے جاتے ہیں یا مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں جن کے باعث بنگلا دیش میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو اور ترقی کی راہ پر جاتا ہوا ملک دوبارہ پسماندگی کی طرف مائل ہوجائے اور سب سے بڑھ کر ’’را‘‘ کے لیے نئی بھرتیاں کرنا۔ ان بنگلا دیشی تنظیموں کا ایک اہم کام ان بھارتی ادیبوں، فنکاروں اور دانشوروں کو مدعو کرنا ہے جن کے نام ’’را‘‘ پیش کرے۔ اِن فنکاروں، دانشوروں اور سماجی شخصیات کو بنگلا دیش میں متعارف کرانے اور مقبولیت دلانے کی خاطر تقریبات میں مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ’’را‘‘ بنگلا دیش کے طول و عرض میں موسیقی اور رقص کے پروگرام کا اہتمام کرتی ہے۔
’’را‘‘ جن سماجی شخصیات، دانشوروں اور فنکاروں کو منتخب کرکے بنگلا دیش بھیجتی ہے، وہ اپنی مرضی کے مطابق ملک بھر میں سفر کرتے ہیں اور تقریبات سے خطاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف طریقوں سے بنگلا دیش میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں، اختلافات کو ہوا دیتے ہیں، امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرتے ہیں اور ایسے تمام امور پر بولتے ہیں جن پر بولنے سے معاشرے میں بگاڑ پھیل سکتا ہو۔ یہ لوگ بسا اوقات ایسی باتیں دھڑلّے سے کرتے ہیں جو بنگلا دیش کے نظریے ہی نہیں بلکہ اس کی آزادی و خود مختاری کے یکسر منافی ہوتی ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی ضمیر اور آزادی کے عَلم برداروں کے منہ سے ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں نکلتا۔ بنگلا دیش کا دورہ کرنے والے بھارتی فنکاروں اور دانشوروں اور ان کے دوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
بنگلا دیش پر بھارت کی طرف سے ثقافتی یلغار کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ ۲۵؍اگست ۱۹۹۱ء سے ۱۶؍فروری ۱۹۹۲ء کے دوران بھارتی کے ۱۶؍ثقافتی طائفوں نے بنگلا دیش کا دورہ کیا۔ بنگلا دیش کے ہفت روزہ ’’بکرم‘‘ نے ۹ تا ۱۵؍جنوری ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ان طائفوں کے قائدین نے بیشتر تقاریر میں بنگلا دیش کی آزاد حیثیت اور سلامتی کے حوالے سے انتہائی قابل اعتراض باتیں کہیں۔
بنگلا دیش کے دورے پر آنے والے بیشتر بھارتی فنکاروں، دانشوروں اور ادیبوں کی اپنے ملک میں کچھ خاص حیثیت نہیں ہوتی۔ ’’را‘‘ کی طرف سے ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں تاکہ انہیں اہم ثابت کیا جاسکے۔ بنگلا دیش میں قیام کے دوران ’’را‘‘ سے فنڈ لینے والی تنظیمیں ان کے اعزاز میں تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں اور ان کا قد بڑھانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھارتی ثقافتی شخصیات کے دورے کی عمدہ کوریج کرتے ہیں۔ اخبارات و جرائد ان کے انٹرویو شائع کرتے ہیں۔ بہترین ہوٹل اور اعلیٰ ترین سرکاری ثقافتی اداروں کے آڈیٹوریم میں بھارتی طائفوں کے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ رقص و موسیقی کے پروگرامات میں بنگلادیش کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوتے ہیں۔ بھارت سے آنے والے فنکاروں اور دانشوروں کی کہی ہوئی ہر بات اس طور پیش کی جاتی ہے، جیسے وہ آسمان سے آنے والا کوئی پیغام ہو۔ عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ معزز مہمان جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی سچ ہے، باقی سب تو محض خانہ پُری کے لیے ہے۔ یہ معزز مہمان انتہائی بے باکی سے دو قومی نظریے پر تنقید کرتے ہیں، اور سامعین پر زور دیتے ہیں کہ وہ بنگلا دیش کے لیے کسی الگ شناخت کی خواہش کرنے کے بجائے بنگالی قومیت کو بنیادی شناخت کے طور پر اپنالیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بنگلا دیش پر ’’را‘‘ کی طرف سے ثقافتی یلغار میں شدت آتی جارہی ہے۔
Leave a Reply