
بنگلا دیشی قوم پرستی بمقابلہ بنگالی قوم پرستی
’’را‘‘ کی حکمت ہائے عملی نے بنگلا دیش میں قومی نظریے کی تشکیل کے حوالے سے اختلافات اور گروہ بندی کی راہ ہموار کی ہے۔ ملک میں طویل مدت سے یہ بحث کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی ہے کہ ہمیں بنگلا دیشی قوم پرستی اپنانی چاہیے یا بنگالی قوم پرستی۔ یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ’’را‘‘ نے پورے بنگلا دیش میں اس مسئلہ کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھا ہے اور اس بات پر بحث جاری ہی رہی ہے؟
بنگلا دیشی قوم پرستی پوری قوم پر یکساں اطلاق پذیر ہوتی ہے۔ یہ تصور دراصل تمام بنگلا دیشیوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ اس کے تحت ہم ایک آزاد ملک کے باشندوں کی حیثیت سے اپنی آزادی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ بنگلا دیشی قوم پرستی کا مفہوم یہ ہے کہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے ہماری اپنی علیحدہ شناخت ہے، جس پر ہمیں فخر ہونا ہی چاہیے۔ بنگلا دیش کی آبادی میں ۸۵ فیصد مسلمان ہیں۔ اس لیے جو بھی نظریہ اپنایا جائے گا، وہ آبادی کے اکثریتی گروہ کے نظریات کا عکس ہوگا۔ سیدھی سی بات ہے کہ فرانس میں قوم پرستی کا مفہوم، وہ قوم پرستی نہیں جو الجزائر سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نے اپنائی ہوئی ہے۔ بلکہ واضح طور پر قوم پرستی، فرانسیسی قوم پرستی کہلائے گی جو اس سرزمین کے سابق رومن کیتھولک باشندوں کی ہے۔
بنگلا دیشی قوم پرستی بھی واضح طور پر ملک کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں کی ثقافت اور نظریات کا عکس ہے۔ بنگلا دیشی قوم پرستی کا تصور سابق صدر ضیاء الرحمن نے دیا تھا۔ ملک کے بنیادی نظریے میں کسی بھی مذہب کا تصور برداشت نہ کرنے والے سیکولر عناصر اور ہر معاملے میں آبادی کے اکثریتی حصے کے خیالات کو اولیت دینے والوں کے درمیان مفاہمت کے طور پر بنگلا دیشی قوم پرستی کا تصور اپنایا گیا تھا۔ بنگلا دیش میں واضح اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ بنگلا دیش کے ہر معاملے میں مسلم اقدار ہی جھلکیں گی۔ علم و ادب، فن، ثقافت اور معاشرتی اقدار میں اسلامی تعلیمات و اقدار کا منعکس ہونا فطری امر ہے۔ مگر یہ بات ’’را‘‘ کو پسند ہے، نہ اس کے لیے قابلِ قبول ہے۔ ’’را‘‘ سے مالی تقویت پانے والے دانشوروں کو اس بات سے چِڑ ہے کہ بنگلا دیش میں اسلامی تعلیمات و اَقدار کی بات کی جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بنگلا دیشی قوم پرستی کے نام پر دراصل بنگالی قوم پرستی کو اپنایا جائے۔ دانشوروں نے اس حوالے سے ’’را‘‘ کے اشارے پر باضابطہ مہم چلا رکھی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بنگلا دیش کی اسلامی شناخت ختم ہو اور بنگالی قوم پرستی کو بنیادی نظریے کی حیثیت سے اپنالیا جائے۔
بنگالی قوم پرستی کا مفہوم یہ ہے کہ بنگالی بولنے والے تمام افراد ایک ہی قوم ہیں۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ کون کہاں رہتا ہے۔ فی زمانہ محض زبان کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کا تصور فرسودہ قرار پاچکا ہے۔ اگر زبان کی بنیاد ہی پر ایک قوم تشکیل پاسکتی تو مشرقِ وسطیٰ میں عربی بولنے والے افراد مل کر ایک بڑی ریاست تشکیل دے لیتے، ۲۲ ریاستوں میں بٹے ہوئے نہ ہوتے۔ اگر کسی ملک کو زبان ہی کی بنیاد پر قوم تسلیم کرنا ہے تو پھر بھارت کے وجود کا کوئی جواز نہیں۔ وہاں ۱۷۱؍زبانیں اور ۵۴۴ بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اتنی ساری زبانوں اور بولیوں کے ہوتے ہوئے بھارت کے باشندوں کو ایک قومیت کی لڑی میں کیسے پرویا جاسکتا ہے؟ قصہ مختصر یہ کہ فی زمانہ محض زبان کی بنیاد پر قوم یا قومیت کا تصور متروک قرار پاچکا ہے۔
بھارت میں بنگالی بولنے والے مغربی بنگال کے علاوہ تری پورہ، آسام، بہار، اڑیسہ اور دیگر ریاستوں میں آباد ہیں۔ بہت سے معاملات میں یہ سب ان بنگالی بولنے والوں سے زیادہ مختلف نہیں جو بنگلا دیش کی سرزمین پر آباد ہیں۔ مغربی بنگال اور تری پورہ میں بنگالی بولنے والے اکثریت میں ہیں۔ مگر بنگالی بولنے والے ان لوگوں کی سوچ اور اقدار ہی نہیں، تمنائیں اور امیدیں بھی مختلف ہیں۔ انہیں صرف بنگالی بولنے کی حد تک بنگلا دیشیوں سے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے، اور کوئی بات قدر مشترک کی حیثیت نہیں رکھتی۔ بھارت میں بسے ہوئے بنگالیوں کا مذہب، تاریخ، ثقافت، اخلاقی اقدار، لباس اور معاشرتی رویّے بنگلا دیش کی سرزمین پر بسے ہوئے مسلم بنگالیوں کی زندگی سے بہت مختلف ہیں۔ یہ فرق مذہب کی بنیاد پر ہے۔ کسی بھی مذہب سے وابستہ افراد ایک الگ دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مذہب کی عینک ہی سے ہر چیز کو دیکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ اپنے لیے آرزوؤں اور امیدوں کا تعین بھی کرتے ہیں۔ یہ فرق اُس دن پیدا ہوا تھا، جب اسلام نے اس خطے میں قدم رکھا تھا۔ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا، اُن کی زندگی میں اس دین نے بہت کچھ بدل ڈالا اور انہیں واضح طور پر نئی شناخت دی۔ ان کی ثقافت بھی بدل گئی۔ اسلام اور ہندواِزم پر عمل کرنے والے بنگالیوں کی زندگی میں بہت کچھ ہے جو بہت مختلف ہے۔ اور یہ فرق اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی بنیاد پر ہے۔ مذہب کے فرق نے ثقافت میں بھی فرق پیدا کیا اور یہی فرق آگے چل کر اس قدر پروان چڑھا کہ دو قومی نظریہ سامنے آیا یعنی یہ کہ ہندو اور مسلمان دو الگ اقوام ہیں اور انہیں اپنی اپنی آزاد ریاست میں پوری خود مختاری کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہیے۔ دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر بھارت کے دو بڑے قطعاتِ ارض پاکستان میں تبدیل ہوئے اور ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان باقی ملک سے الگ ہوکر بنگلادیش بنا۔
بنگالی بولنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں میں جو فرق ہزار سال قبل تھا، وہ اب بھی ہے۔ دونوں کی ثقافت اور معاشرت میں اب بھی بہت کچھ مختلف ہے۔ دونوں کے لیے قوم پرستی کا تصور مختلف ہے۔ برطانوی مصنف جان مارشل نے لکھا ہے: ’’تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مختلف مذہب پر عمل کرنے والی دو اقوام ایک سرزمین پر صدیوں ساتھ ساتھ رہی ہوں اور اپنی اپنی ثقافت پر عمل کرتی رہی ہوں یعنی ایک دوسرے کو نگلنے میں کامیاب نہ ہوئی ہوں۔
بنگالی بولنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کی جداگانہ ثقافتی شناخت ہزار اختلافات اور مناقشوں کے باوجود برقرار رہی ہے۔ اختلافات اور تصادم نے انہیں ایک دوسرے کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کے بجائے، اپنے اپنے مذہبی عقائد اور ثقافتی اقدار کے تحفظ کے معاملے میں زیادہ سخت گیر بنادیا۔ ہندو بنگالی دانشوروں، شعراء اور مصنفین نے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بھی بنگالی کی حیثیت سے قبول نہیں کیا۔ بنگالی سے ان کی مراد ہے بنگالی بولنے والے ہندو۔ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو ہمیشہ مسلمان کی حیثیت ہی سے شناخت کیا جاتا رہا ہے۔ دوسری طرف بنگالی بولنے والے مسلمانوں نے بھی بنگالی قومیت پر فخر کرنا مناسب نہیں جانا۔ ان کے نزدیک اسلامی شناخت زیادہ معتبر اور قابلِ قبول تھی۔ وہ بھی بنگالی زبان پر فخر کرتے تھے مگر یہ مرحلہ اسلام کے بعد آتا تھا۔
مذہب کی بنیاد پر قائم قومی شناخت سیاسی سطح پر سنگین ہوتی گئی۔ برصغیر میں برطانوی راج قائم ہونے کے بعد ہندو اور بنگالی مسلمان اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے سوچنے لگے۔ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو یہ اندازہ لگانے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ ہندو بنگالیوں کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ یعنی یہ کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد کا حصول چاہتے ہیں۔ بنگالی بولنے والے مسلمانوں نے برطانوی راج کو قبول نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف مزاحمت کی۔ دوسری طرف بنگالی بولنے والے ہندوؤں نے انگریزوں کا خیر مقدم کیا اور ان کے ساتھ مل کر اپنی سیاسی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے میں جُت گئے۔ انگریزوں نے تعاون پر خوش ہوکر بنگالی ہندوئوں کو بڑی جاگیریں دیں، جن کی بنیاد پر وہ زمیندار بن گئے۔ بھارت کی سرزمین پر آباد مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف جو بھی جنگ لڑی اور جس قدر بھی مخالفت کی، وہ دھویں میں تحلیل ہوگئی اور اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ہندوؤں نے انگریزوں کے خلاف لڑائی میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا بلکہ بہت سے مواقع پر کھل کر مخالفت کی۔ مسلمان تنہا انگریزوں سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اور پھر ہندوؤں کی طرف سے بھی بھرپور تعاون کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی سیاسی قوت گھٹتی چلی گئی۔
بنگالی ہندوؤں نے ۱۹۰۵ء میں انگریزوں کے ہاتھوں بنگال کی تقسیم کے وقت بھی ثابت کردیا کہ وہ ہر اعتبار سے مسلم بنگالیوں سے الگ ہیں اور ان کے مفادات بھی یکسر مختلف ہیں۔ کسی ایک ہندو دانشور یا سیاسی لیڈر نے بھی بنگال کی تقسیم کی حمایت نہیں بلکہ اس تقسیم کو کسی نہ کسی طور ختم کرنے کی جدوجہد کا آپشن اپنایا۔ مسلمانوں کے بارے میں ہندوؤں نے جس سوچ کا مظاہرہ کیا اور جس طور انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی مفادات کو زک پہنچانے کی کوشش کی، اس سے مسلمانوں کو ہندو بنگالیوں کا اصل چہرہ دیکھنے اور ان کی نیت سمجھنے کا موقع ملا۔ اب بنگالی مسلمانوں کو خیال آیا کہ انہیں اپنے مذہبی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔
بنگالی ہندوؤں نے دیگر ہندوؤں کے ساتھ مل کر اپنی الگ سیاسی اور ثقافتی شناخت قائم کرلی تھی۔ اس صورت حال نے بنگالی مسلمانوں کو قائداعظم اور ان کے رفقاء کا پیش کردہ دو قومی نظریہ قبول کرنے کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کے پاس اور کوئی آپشن رہا ہی نہ تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۹۴۰ء میں لاہور کے جلسے میں پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی جو دو قومی نظریے کا عکس تھی۔
۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام سے کچھ عرصہ قبل بنگال کے چند ہندو اور مسلم سیاست دانوں (سہروردی، ابوالہاشم، شرت بوس وغیرہ) نے متحدہ بنگال کو یقینی بنانے کی کوشش کی، مگر موہن داس کرم چند گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے بنگال کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔ اگر بنگال کو متحد رکھنا ممکن ہوجاتا تو بنگالی قوم پرستی کی راہ ہموار ہو جاتی مگر خود بنگالی ہندوؤں نے ہندو قوم پرستی کی راہ پر گامزن ہوکر بنگالی قوم پرستی کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔
پاکستان قائم ہوا یعنی بھارت تقسیم ہوا تو ہندو اکثریت والا مغربی بنگال بھارت کا حصہ بنا اور مسلم اکثریت والے مشرقی پاکستان کو پاکستان کا حصہ بنادیا گیا۔ بنگال کی تقسیم کانگریس کے اصرار پر ممکن ہوئی۔ اس تقسیم نے زبان کی بنیاد پر قوم پرستی کی راہ ہمیشہ کے لیے مسدود کردی۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستی نے ایک بار پھر سر ابھارا۔ ایسا اُس وقت ہوا، جب پاکستان کی حکمران عسکری قیادت کے خلاف تحریک چلائی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک دراصل علاقائیت کا اظہار تھا۔ پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی ایسے ہی رجحانات نمایاں تھے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں میں مغربی پاکستان کے افسران کی اکثریت پر مشتمل انتظامیہ کے ہاتھوں حق تلفی پر شدید احساسِ محرومی پروان چڑھنے لگا۔ وہ برابری کا سلوک اور وسائل میں برابری کی بنیاد پر حصہ بھی چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے حقوق کے لیے جو آواز بلند کی، اّس نے بنگالی قوم پرستی میں راہ پائی۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف پاکستان کے تناظر میں تھا۔ کسی بھی مرحلے پر بنگالی مسلمانوں نے دو قومی نظریے سے الگ ہونے کے بارے میں نہ سوچا تھا۔ بنگلا دیش کا قیام بھی قراردادِ پاکستان کی روح کے مطابق ہے۔
بنگلا دیش کے قیام کے بعد ’’را‘‘ اور اس کے حاشیہ بردار پورے زور و شور سے یہ پرچار کر رہے ہیں کہ اب دو قومی نظریہ دم توڑ چکا ہے۔ ’’را‘‘ نے بنگلا دیش کے قیام کے بعد بنگالی قوم پرستی کا جو پرچار کیا، اُس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بنگلادیش آگے چل کر مغربی بنگال میں ضم ہوجائے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ مغربی بنگال کے ہندو بھارت کی ہندو قوم پرستی کے مقابل بنگالی قوم پرستی کی بات کیوں نہیں کرتے۔ یہ آئیڈیا صرف بنگلا دیش کے مسلمانوں کے دماغوں میں کیوں ٹھونسا جارہا ہے؟ جب ہم بنگلا دیشی مسلمان پاکستان کا حصہ تھے، تب ہم زبان اور نسل کی بنیاد پر بنگالی مسلمان کہلاتے تھے۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد ہماری آزاد اور خود مختار حیثیت نے نسل اور زبان کی بنیاد پر قائم شناخت کو ختم کردیا۔ بنگالی بولنے والے مسلمان اور ہندو تاریخ کے کسی بھی موڑ پر ایک قوم میں تبدیل نہ ہوسکے۔ اب جبکہ دونوں کی نظریاتی، ثقافتی اور سیاسی راہیں واضح طور پر الگ ہوچکی ہیں، یہ تصور کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ بنگالی قوم پرستی کے نام پر ایک لڑی میں پروئے جاسکتے ہیں؟
بھارتی صحافی بسنت چیٹرجی نے اپنی کتاب ’’انسائڈ بنگلا دیش‘‘ میں لکھا ہے: ’’پاکستان کے خلاف جدوجہد میں بنگالی زبان ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کی گئی۔ اب جبکہ بنگلا دیش معرض وجود میں لایا جاچکا ہے، بنگالی زبان کی افادیت کچھ بھی نہیں رہی۔ بنگالی ثقافت کو پروان چڑھانے میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں کیونکہ یہ بنیادی طور پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی ثقافت تھی۔ بنگلا دیش کے لیے اپنے سیاسی مزاج کی ’بنگالیت‘ پر اصرار کرکے بقا یقینی بنانا ناممکن ہوگا‘‘۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بنگالی قوم پرستی کے دائرے میں ان لوگوں کو قبول نہیں کیا جاتا جن کی مادری زبان بنگالی نہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ بنگالی نہ بولنے والے بنگلا دیشی بنگالی قوم پرستی کو تسلیم یا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بنگلا دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمن نے جب چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں آباد قبائل سے بنگالی قوم پرستی قبول کرنے کو کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔ ’’را‘‘ نے چٹاگانگ کے چکمہ قبائل کو ملک سے الگ ہونے پر اُکسایا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ’’شانتی باہنی‘‘ بنوائی ہے۔
بنگالی ازم ہر اعتبار سے بنگلا دیش کی نظریاتی شناخت اور مذہبی بنیاد کے خلاف سازش کے سوا کچھ نہیں۔ اس سازش کو بھرپور نفرت کے ساتھ کچل دینا ہی بہتر ہوگا۔
Leave a Reply