
بنگلا اکیڈمی ایک ایسا ثقافتی ادارہ ہے جو عوام کے پیسوں سے چلایا جاتا ہے۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد بنگلا دیش میں بنگالی زبان اور ادب کا فروغ تھا مگر چونکہ اس پر بھارت نواز عناصر کا اثر نمایاں ہے، اس لیے اب یہ ادارہ بنگالی زبان و ادب کے فروغ کے نام پر بھارتی یعنی ہندو ثقافت کو فروغ دینے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ بنگلا اکیڈمی ہندو اور سیکولر مسلم مصنفین کی کتابوں کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ اکیڈمی ہر اس چیز اور بات سے الرجک ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق ہو۔ جتنے بھی قوم پرست مسلم مصنفین ہیں، ان پر اس اکیڈمی کے دروازے بند ہیں۔ ہاں، بھارت کی طرف جھکاؤ رکھنے والے تیسرے درجے کے مصنفین بھی اس اکیڈمی کے لیے انتہائی قابلِ قبول ہیں اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ صاف لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کسی کو بنگلا اکیڈمی میں جگہ بنانی ہے تو بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی آشیرواد ناگزیر ہے۔
بنگلا اکیڈمی کی سرگرمیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے لکھا تھا: ’’کولکتہ میں ۱۹۹۵ء میں جو بین الاقوامی کتب میلہ منعقد ہوا تھا، اس میں بنگلا دیش کی ’’بنگلا اکیڈمی‘‘ کے اسٹال پر سجائی جانے والی کتابوں پر ایک نظر ڈالنے سے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ ادارہ کن لوگوں کو ترجیح دیتا ہے۔ پورے اسٹال پر صرف آٹھ یا نو کیٹیگریز کی کتابیں تھیں۔ جتین سرکار، شرسز سرکار، دیو پریہ برویا، توپنکر چیٹرجی، سُکمار بسواس، کورو نندا وکو، مامین چندر، کالی پروسونا اور اسی قبیل کے دیگر مصنفین کی کتابوں نے پورے اسٹال کو نمایاں انداز سے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔
صرف ہندو مصنفین کی کتابوں کو پیش کرکے بنگلا اکیڈمی یہ تاثر دینا یا ثابت کرنا چاہتی ہے کہ بنگالی زبان و ادب کو ہندو مصنفین اور اہل علم ہی نے کچھ دیا ہے اور بنگلا دیش کے بنگالی مسلمانوں نے پچاس برس کی مدت میں تعلیم کے میدان میں ترقی ضرور کی ہے مگر بنگالی زبان و ادب کے فروغ میں ان کا ایسا کوئی کردار ہے ہی نہیں جسے پیش کیا جاسکے۔ بنگلا اکیڈمی ان لوگوں کی قربانیوں کو بھی نمایاں کرنے سے گریز کرتی رہی ہے، جنہوں نے بنگالی زبان و ادب کے فروغ کی خاطر جان کا نذرانہ دیا تھا۔ انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ بنگلا اکیڈمی ان اہل علم اور مصنفین کو فروغ دینے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے جن کا بنگالی زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے کوئی بھی قابل ذکر کردار نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بنگلا اکیڈمی ان تمام اہل علم کو یکسر نظر انداز کرتی ہے جنہوں نے بنگلا دیش میں اپنی زبان اور ادب کے حوالے سے علیحدہ شناخت قائم کرنے کے سلسلے میں تحریک چلائی اور اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بنگلا اکیڈمی کے قیام میں مرکزی کردار ابوالقاسم نے ادا کیا تھا مگر اپنے آخری برسوں میں وہ اکیڈمی کی حدود میں برائے نام دکھائی دیے۔ حد یہ ہے کہ بنگلا اکیڈمی نے ابوالقاسم کو شایان شان خراج عقیدت بھی پیش نہیں کیا۔ بنگالی زبان کے لیے تحریک چلانے والوں میں جسٹس عبدالرحمن چوہدری بھی نمایاں تھے۔ انتقال کے وقت وہ بنگلا اکیڈمی کے چیئرمین تھے مگر اکیڈمی نے ان کے لیے تعزیتی اجلاس طلب کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ بنگالی زبان کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے مرکزی نوعیت کا کردار ادا کرنے والے دیگر اہل علم مثلاً ڈاکٹر نورالاسلام (لینگویج موومنٹ ایکشن کمیٹی کے پہلے کنوینر)، آل پارٹیز لینگویج موومنٹ ایکشن کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر قاضی غلام محبوب، بنگالی کی ترویج و اشاعت کے لیے شائع ہونے والے اخبار ’’سینک‘‘ کے ایڈیٹر پروفیسر عبدالغفور، علی احد، پروفیسر شاہد علی وغیرہ بنگلا اکیڈمی کے لیے ناپسندیدہ شخصیات ٹھہرے کیونکہ یہ سب بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے شدید مخالف تھے اور اس حوالے سے اپنے خیالات کا برملا اظہار بھی کرتے تھے۔
جب بنگالی زبان و ادب کے فروغ کی تحریک میں حصہ لینے والوں کا یہ حشر ہوا ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ اس تحریک سے جڑے ہوئے نہیں ہوں گے اور جو بھارتی لابی کے منظورِ نظر نہیں ہیں، ان کی بنگلا اکیڈمی میں کیا حیثیت ہوگی۔ بنگلا اکیڈمی احمد شریف جیسے لادین اور متنازع مصنفین کی کتابیں شائع کرنے میں کوئی قباحت یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری خزانے کی مدد سے ہو رہا ہے اور سرکاری خزانہ عوام کے پیسوں سے بنتا ہے جو ۹۰ فیصد مسلمان ہیں۔
بنگلا اکیڈمی نے بہت سے سیکولر، اسلام مخالف اور بھارت نواز مصنفین کو ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ ہاں، اسلام پسند اہلِ علم کی کاوشوں کا یہ اکیڈمی کبھی اعتراف نہیں کرتی۔ یہی سبب ہے کہ بنگلا اکیڈمی نے اب تک معروف مسلم قوم پرست اور بنگالی زبان و ادب کی نمایاں شخصیت دیوان محمد اشرف کی ایک بھی کتاب شائع کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ماضی میں بنگلا اکیڈمی بنگالی زبان و ادب اور اہل علم کے حوالے سے جو کلینڈر شائع کرتی رہی ہے، ان پر ایک نظر ڈالنے سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اکیڈمی والوں کے دل و دماغ پر کون چھایا ہوا ہے۔ مصنفین کی فہرست میں ۶۵ فیصد تو بھارتی ہندو ہیں۔ جن مسلم بنگلا دیشی مصنفین کو اس فہرست میں جگہ بنانے کا موقع مل پاتا ہے، ان میں سے ۷۰ فیصد واضح طور پر بھارت نواز ہیں۔ اس فہرست میں قرونِ وسطیٰ اور جدید دور کے مسلم بنگالی شعراء اور ادیبوں کے نام خال خال ملتے ہیں۔ بنگلا اکیڈمی نے شعراء اور ادیبوں کی یہ فہرست جان بوجھ کر تیار کی ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ بنگالی زبان و ادب کی ترویج میں ہندوؤں نے مرکزی کردار ادا کیا ہے جبکہ تاریخ ہمیں کوئی اور ہی کہانی سناتی ہے۔ بنگلا اکیڈمی نے مصنفین اور اہل علم کی فہرست میں ایسے بہت سے مسلم مصنفین اور شعراء کے نام شامل نہیں کیے جنہوں نے بنگالی زبان و ادب کے فروغ ہی میں نہیں بلکہ اس کی بقا میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بنگالی زبان کے مسلم شعراء اور مصنفین ہی نے اس زبان کو سنسکرت کے شکنجے سے نکال کر ایک باضابطہ جدید زبان کی شکل دی اور اس کی ترویج و اشاعت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ازمنۂ وسطیٰ میں ہزاروں مسلم شعراء اور مصنفین نے اپنی کاوشوں سے بنگالی زبان و ادب کو زرخیزی عطا کرنے میں مرکزی کردار کیا مگر بنگلا اکیڈمی نے ان میں سے چند ایک کے نام مصنفین اور اہل علم کی فہرست میں شامل کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ ڈھاکا کے ہفت روزہ ’’جھنڈا‘‘ نے ۱۳؍مئی ۱۹۹۲ء کی اشاعت میں لکھا کہ بنگلا اکیڈمی کی طرف سے شائع کیے جانے والے کلینڈر کو کولکتہ کی آنند بازار پبلی کیشن کا پاکٹ کلینڈر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
بنگلا اکیڈمی نے بنگالی قوم پرستی پر درجنوں کتابیں شائع کی ہیں مگر اس کی شائع کی ہوئی کتابوں میں ایک بھی ایسی نہیں جس میں بنگلا دیشی قوم پرستی کی بات کی گئی ہو جبکہ بنگلا دیش کے آئین میں یہ بات درج ہے کہ سرکاری ادارے بنگلا دیشی قوم پرستی کو فروغ دینے کے پابند ہوں گے۔ امریکا اور آسٹریلیا کے رہنے والے انگریزی بولتے ہیں مگر وہ خود امریکی یا آسٹریلوی کہلواتے ہیں نہ کہ انگریز۔ یہی حال عربی بولنے والی اقوام کا ہے۔ ان کا مذہب، ثقافت، تاریخ اور روایات سب کچھ مشترکہ ہیں مگر پھر بھی محض زبان کی بنیاد پر سب ایک قوم نہیں ہوگئے۔ سعودی، اومانی، تیونسی، مصری، سوڈانی، عراقی، لیبیائی اور شامی کی شناخت الگ الگ ہے۔ اسی طور بنگلا دیش کی سرزمین پر آباد بنگالی بولنے والے بنگلا دیشی ہیں۔ اگر بنگالی قوم پرستی کوئی چیز تھی بھی تو اسے مغربی بنگال (بھارت) کے قانون سازوں نے اس وقت دفن کردیا تھا جب انہوں نے بوس سہروردی فارمولا مسترد کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کا آپشن قبول کیا تھا۔ اس کے بعد ۲۳ سال تک ہم پاکستانی تھے اور اس کے بعد بنگلا دیش کے قیام کے بعد سے بنگلا دیشی ہیں۔
۱۰؍جنوری ۱۹۹۴ء کے روزنامہ ’’دن کال‘‘ اور روزنامہ ’’ملت‘‘ میں شائع ہونے والی خبر بتاتی ہے کہ اس وقت کے بنگلا اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل ہارون الرشید نے بنگلا دیشی قوم پرستی کے حوالے سے کوئی بھی کتاب شائع نہ کیے جانے کی توجیہ یہ پیش کی تھی کہ یہ ایک متنازع نظریہ ہے۔ بنگلا اکیڈمی بھارت نواز اور ’’را‘‘ کے پروردہ مصنفین کی کتابیں ہی شائع نہیں کرتی بلکہ اپنی تقریبات میں ہندو ثقافت کی بھرپور نمائش بھی کرتی ہے۔ بنگلا اکیڈمی اس وقت کی اپوزیشن لیڈر شیخ حسینہ واجد سے بنگالی کلینڈر کے نئے سال ۱۳۹۸ء کی آمد کا اعلان دھاتی گھنٹی بجاکر کرانے میں کامیاب رہی۔
دھاتی گھنٹی بجانا ہندوؤں کی پوجا اور تقریبات میں عام ہے۔ اپوزیشن لیڈر کا سرکاری تقریب میں گھنٹی بجانا محض بنگلا اکیڈمی کی تقریبات کے حوالے سے حیرت انگیز نہ تھا بلکہ بنگلا دیش کی تاریخ میں بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اب آپ اس واقعے کو شلپ کلا اکیڈمی کی تقریب میں صوفیہ کمال کے ہاتھوں چراغ روشن کیے جانے سے جوڑ کر دیکھیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ان اداروں کی ڈور کہاں سے ہلائی جاتی ہے۔ اگر کبھی اعتراض کیجیے تو ان تقریبات کے منتظمین اور متعلقہ اداروں کے عہدیداروں کی طرف سے جواب آتا ہے کہ گھنٹی کا بجایا جانا یا چراغ کا روشن کیا جانا محض علامتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اپنی تقریبات کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کرنا پسند کریں گے؟ کیا انہیں ایسا کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے؟ بھارت کے ساتھ بنگلا اکیڈمی کے ہنی مون کی تازہ ترین مثال بنگالی انگریزی لغت ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے بہت سے اہل علم اور سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کس حد تک بھارت کے زیر اثر رہ کر ان کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بنگلا اکیڈمی کے ہر شعبے کے نمایاں افراد ’’را‘‘ کے منظور نظر ہیں اور انہیں کی منظوری سے اب تک اپنے عہدوں پر ہیں۔
ان معروضات کی روشنی میں یہ بات اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ جو بنگالی مصنفین اور ادیب ’’را‘‘ کے مدار میں گردش نہیں کرتے وہ اپنی تحریروں کو بنگلا اکیڈمی سے شائع کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ بنگلا اکیڈمی کیا ہے، یہ سمجھنے کے لیے ڈھاکا کے ہفت روزہ ’’جھنڈا‘‘ کی ۱۳؍مئی ۱۹۹۲ء کی اشاعت کے یہ الفاظ کافی ہیں۔ ’’بنگلا اکیڈمی دو عشروں سے برہمن ازم اور الحاد جیسی قبیح بیماریوں سے نبرد آزما ہے۔ اس کا جھکاؤ واضح طور پر بائیں بازو کی طرف ہے اور یہ بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے معاملے میں بالکل نمایاں ہے‘‘۔
شلپ کلا اکیڈمی
شلپ کلا اکیڈمی کا شمار بنگلا دیش کے ان سرکاری اداروں میں ہوتا ہے جن میں بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد ملک میں فن اور ثقافت کو فروغ دینا اور ان نوجوانوں کی حقیقی حوصلہ افزائی کرنا ہے، جن میں کچھ کر دکھانے کی صلاحیت اور لگن پائی جاتی ہے۔ باصلاحیت نوجوانوں کو ایک اچھا پلیٹ فارم فراہم کرنا شلپ کلا اکیڈمی کے فرائض میں شامل ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ ادارہ مکمل طور پر بھارت نواز عناصر کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اسے ہندو فن و ثقافت کے فروغ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کئی مواقع پر یہ ادارہ بنگلا دیش کے انتہائی باصلاحیت اور ماہر فنکاروں کو جائز مقام دینے کے بجائے بھارتی فنکاروں کی حاشیہ برداری میں مصروف دکھائی دیا ہے۔ بنگلا دیشیوں کی خون پسینے کی کمائی سے نچوڑے جانے والے ٹیکس کی مدد سے چلایا جانے والا یہ ادارہ ہندو ثقافت اور رقص و موسیقی کو فروغ دینے میں غیر معمولی حد تک مصروف رہا ہے۔ یعنی بنگلا دیشیوں کے خرچ پر بنگلا دیشی سرزمین بھارتی یعنی ہندو فن و ثقافت، رقص، موسیقی اور ناٹک کے فروغ کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بھارت کی ثقافتی شخصیات کی سرپرستی سے بنگلا دیشی ثقافت کس طور پنپ سکتی ہے؟ شلپ کلا اکیڈمی نے ۱۹۹۱ء میں رابندرا سنگیت سمّیلن کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس میں رابندر ناتھ ٹیگور کے گیت گائے گئے۔ کانفرنس کا آغاز چراغ روشن کرکے کیا گیا، جو بنگلا دیش میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا اور چراغ بھی مسلم گھرانے میں جنم لینے والی ایک معمّر شاعرہ نے روشن کیا۔
۱۹۹۱ء میں بیسویں یوم فتح کے موقع پر بیشا ساہتیہ کیندر کی تقریب میں بھی یہی ہوا یعنی چراغ روشن کرکے تقریب کا آغاز کیا گیا۔ یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندو اپنے کسی بھی کام کا آغاز کسی دیوی یا دیوتا کے نام کا چراغ روشن کرکے کرتے ہیں۔ اس مشق کو بنگلا دیش میں متعارف کراکے فروغ بھی دیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد بنگلا دیشی نئی نسل کو ہندو ثقافت کے زیر اثر لانا ہے۔ شلپ کلا اکیڈمی نے ۱۹۹۳ء میں قومی سطح پر جاترا (اوپن ایئر تھیٹر جو دیہات میں بہت مقبول ہے) کا اہتمام کیا۔ اس وقت کی وزیراعظم بیگم خالدہ ضیا نے ۴ جنوری ۱۹۹۳ء کو اس فیسٹیول کا افتتاح کیا۔ اس پر تقریباً ۲۰ لاکھ بنگلا دیشی ٹکا خرچ ہوئے۔ فنکاروں پر مشتمل ایک درجن طائفے تشکیل دیے گئے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے گیارہ مصنفین میں سے دس بھارتی تھے۔ ظاہر ہے کہ ملبوسات، تزئین و آرائش اور مکالموں سے بھارتی ثقافت اور سماجی اقدار صاف جھلک رہی تھیں۔ جو دس ڈرامے پیش کیے گئے ان میں مسلم کردار برائے نام تھے اور ان کی بھی کچھ خاص اہمیت نہ تھی۔
بنگلا دیش کے چند بڑے اخبارات میں اس خدشے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ شلپ کلا اکیڈمی کے عہدیداروں میں واضح تعداد ان کی ہے جو بھارتی خفیہ ادارے سے اشتراک عمل کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض افسران پر ’’را‘‘ سے براہِ راست روابط کا شبہ بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے اور انہیں مختلف محکموں اور اداروں سے شلپ کلا اکیڈمی میں پوسٹ کیا گیا تھا۔ میڈیا کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار کیے جانے پر بھی کوئی تحقیقاتی کمیٹی نہیں بنائی گئی بلکہ جن عہدیداروں پر ’’را‘‘ سے روابط کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا، انہیں شلپ کلا اکیڈمی میں مزید ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ شلپ کلا اکیڈمی میں بھارتی خفیہ ادارے کے اثرات کا دائرہ وسیع تر ہوا ہے اور اور جو لوگ بھارتی ثقافت اور اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں، اُنہیں کھل کر کام کرنے دیا جاتا ہے۔ جو فنکار اور اہل دانش اب تک بھارتی خفیہ ادارے کے شکنجے سے باہر ہیں، وہ اس ادارے کے لیے ناپسندیدہ شخصیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہیں کُھل کر کام بھی نہیں کرنے دیا جاتا اور توقیر بھی نہیں کی جاتی۔ انہیں کسی بھی سطح پر حوصلہ افزائی نصیب نہیں ہوتی۔
Leave a Reply