سرحد پر تاروں کی باڑ
بنگلا دیش سے در اندازی روکنے کا بہانہ گھڑ کر بھارتی فوج بنگلا دیش سے ملحق سرحد پر خاردار تاروں کی باڑ لگانے کا منصوبہ تیار کر رہی ہے۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کیونکہ دنیا بھر میں جغرافیائی سرحدوں کو زیادہ اہمیت نہ دینے اور انسانیت کے نام پر ایک ہونے کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ دیوارِ برلن کا گرنا اس کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت باڑ کیوں لگا رہا ہے؟ دیواریں کیوں کھڑی کی جاتی ہیں، باڑیں کیوں لگائی جاتی ہیں؟ بیرونی حملے سے تحفظ کے لیے۔ بھارت کو بنگلا دیش سے ایسا کون سا خطرہ لاحق ہے کہ اُسے خاردار تاروں کی باڑ لگانے پر مجبور ہونا پڑا ہے اور وہ بھی خاصے بلند اخراجات کے ساتھ؟ اگر بھارت کی توجہ اس باڑ کی طرف دلائی جائے تو سیدھا سا جواب ملتا ہے کہ بنگلا دیش سے در اندازی کرنے والوں کو روکنا مقصود ہے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ کہ بھارت اپنی سرحدوں کو بند کرکے دراصل بنگلا دیش میں اپنی مرضی کے مطابق جرائم پیشہ افراد اور جاسوس بھیجنا چاہتا ہے۔ خاردار تاروں کی باڑ لگانے کی صورت میں بھارت اپنی مرضی کے مطابق اسمگلنگ کے قابل بھی ہوجائے گا۔
خارداروں کی باڑ مرحلہ وار لگائی جارہی ہے مگر خیر، یہ عمل بہت تیزی سے مکمل کیا جارہا ہے۔ بھارت بنگلا دیش سرحد کے کئی سیکٹروں میں باڑ لگانے کا کام جاری ہے۔ دیناج پور، ٹھاکر گاؤں اور پنچ گڑھ میں باڑ لگانے کے عمل کی رپورٹنگ کرتے ہوئے روزنامہ ’’جن کنٹھ‘‘ نے یکم مئی ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ سرحد کے ساتھ ساتھ مضبوط سڑک تعمیر کی جارہی ہے اور باڑ بھی لگائی جارہی ہے۔ یہ دونوں کام بہت تیزی سے مکمل کیے جارہے ہیں۔ ۵۰۷ کلومیٹر تک تو باڑ لگائی بھی جاچکی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس نے سرحد کے ساتھ ساتھ واقع دیہات کے کسانوں کو حکم دیا ہے کہ ایسی کوئی بھی فصل نہ اگائی جائے جس سے دور تک دیکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ سڑک اور باڑ کی تعمیر پر کم و بیش ۴۶۸ کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۲۷ جولائی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ کریم گنج سے کالی گنج اور سونا موکی سے چک پارا تک تین صفوں میں باڑ لگائی جارہی ہے۔ سرحد سے ۲۰۰ میٹر کی حد میں نگرانی کے ٹاور اور پکی سڑکیں بھی بنائی جارہی ہیں۔
روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۱۴ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ضلع چوا ڈنگا کے جبان گڑھ سیکٹر میں باڑ تین صفوں پر مشتمل ہے۔ درمیانی صف چار فٹ اور آخری صف چھ فٹ اونچی ہے۔ درمیانی صف میں کرنٹ دوڑتا رہتا ہے۔ باڑ سے صرف دس فٹ کے فاصلے پر بیس فٹ چوڑی سڑک ہے۔ ہر دو کلومیٹر کے فاصلے پر فولادی گیٹ نصب کیے گئے ہیں۔ روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۱۰ اپریل ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ ست کھیرا سیکٹر میں بھی بھارت نے سرحد پر باڑ لگادی ہے۔ درمیانی صف میں کرنٹ بعد میں دوڑایا جائے گا۔ روزنامہ ’’جنتا‘‘ نے ۱۲ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ بھارت نے گارو ہلز ایریا، سلہٹ مولوی بازار ایریا اور تری پورہ سے ملحق سرحدی علاقوں میں بھی باڑ لگائی ہے۔
غور کرنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنگلا دیش سے ملحق سرحد پر باڑ لگانے کا بھارتی منصوبہ دراصل بنگلا دیشی معیشت کو کمزور کرنے کی ایک سازش ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس کا ایک مقصد بنگلا دیش کو مسلسل دباؤ میں رکھنا بھی ہے۔ بعض خفیہ رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ باڑ مکمل ہوجانے کے بعد بھارت اپنے بہت سے ایجنٹوں کو بنگلا دیش میں داخل کردے گا۔ ’’را‘‘ کی حکمت عملی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایجنٹوں کو بنگلا دیش میں داخل کردیا جائے کیونکہ باڑ لگنے کے بعد انہیں واپس لینے سے صاف انکار کیا جاسکے گا۔ اسی طور بھارت بہت سی اشیا اسمگل کرنے کے معاملے میں بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکے گا۔ باڑ چونکہ بھارت کی طرف سے لگائی جارہی ہے، اس لیے جہاں کہیں بھی وہ ضروری سمجھے گا، کسی کو کسی بھی چیز کے ساتھ بنگلادیشی علاقے میں داخل کرسکے گا۔
بنگلا دیشی زمین پر غیر قانونی قبضہ
سرحدوں کے ساتھ ساتھ متعدد علاقوں میں بھارت نے بنگلا دیشی زمین پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے پڑوسی کی زمین پر اس طرح قبضہ نہیں کرتا ہوگا، جس طور بھارت نے کر رکھا ہے۔ بھارت نے بنگلا دیشی زمین پر قبضہ بھی کر رکھا ہے اور اب تک اس حوالے سے بات چیت کے لیے بھی تیار نہیں ہوا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ بنگلادیشی زمین پر قبضے کو حتمی شکل دینا چاہتا ہے اور قبضہ کسی بھی صورت ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ متحدہ پاکستان میں ۲۳ سال اور اس کے بعد بنگلادیش سے اب تک بھارت نے سرحدی تنازعات پر گفت و شنید کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ بھارت نے کئی مقامات پر وہ علاقے بھی پاکستان اور بعد میں بنگلادیش کو نہیں دیے جو ریڈ کلف کمیشن نے ایوارڈ کیے تھے۔ بھارت سرحدی علاقوں کے مشترکہ سروے اور سرحدوں کے درست تعین پر بھی آمادہ نہیں ہوا۔ بہت سے علاقوں میں بھارت نے سرحدی ستون بھی اکھاڑ کر بنگلادیشی علاقے میں گاڑ کر اچھے خاصے رقبے پر قبضہ کیا ہے۔ جن علاقوں میں دریا کے بہاؤ کو سرحد تسلیم کیا گیا ہے، وہاں بھی بھارت نے دریا کا رخ موڑ کر اچھے خاصے بنگلادیشی رقبے پر قبضہ کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ بھارت نے اب تک سو سے زائد مقامات پر بنگلا دیشی زمین پر قبضہ کیا ہے۔
بھارت نے ضلع جلگائے پوری کے بیروباری سیکٹر میں بنگلا دیش کی ۲۰۰ ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دونوں ممالک کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے ۱۹۹۱ء میں اس علاقے کا دورہ کیا تھا۔ جب ’’را‘‘ نے محسوس کیا کہ ماہرین کی ٹیم اس مسئلے کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائے گی تو اس نے ٹیم کی راہ میں مشکلات کھڑی کرنی شروع کردیں۔ اس نے عوام کے جذبات سے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ اگر ٹیم کو کام کرنے کی اجازت دی گئی تو یہ علاقہ بنگلا دیش میں شامل کردیا جائے گا جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کے لیے مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور فارورڈ بلاک سمیت کئی جماعتوں نے سروے ٹیم کو روکنے کے لیے مہم شروع کردی اور یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ ٹیم بھارت کا علاقہ بنگلا دیش کو دے دے گی۔ روزنامہ ’’بھوریر کاغاز‘‘ نے ۱۱ نومبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ بھارتی سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ سروے ٹیم کو کام کرنے سے روک دیا جائے۔
۲۵ مارچ ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے بتایا کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث ضلع راجشاہی میں دو مقامات پر بنگلادیشی زمین کے معتدبہ حصے پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے اور اس حوالے سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ان میں چار گھاٹ پولیس اسٹیشن کا علاقہ چندن شہر اور گوداگری پولیس اسٹیشن کا علاقہ نرمل شہر شامل ہیں۔ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس نے ان دونوں علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس معاملے پر کسی طرح سے بات کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ اکتوبر ۱۹۹۲ء میں بارڈر سکیورٹی فورس نے اپنے چند شہریوں کو شہہ دی کہ وہ بنگلا دیشی علاقے میں کام کرنے والے کسانوں پر حملہ کریں۔ ایک مرحلے پر بی ایس ایف نے علاقے پر قبضہ کرکے بنکر بھی بنا ڈالے۔ جب بنگلا دیش کی سرحدی فورس کے سپاہی وہاں پہنچے تو بی ایس ایف اہلکاروں نے علاقہ خالی کردیا۔ بھارت نے اس علاقے کا ایک مشترکہ سروے کرانے پر اب تک آمادگی ظاہر نہیں کی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس پورے علاقے پر مستقل قبضہ جمائے رکھنے کے موڈ میں ہے۔
بھارت کا استدلال ہے کہ دریائے پدما، چونکہ سرحد کا درجہ رکھتا ہے، اس لیے چندن شہر پر مبنی دریائی کنارا اس کا ہے۔ بھارتی قیادت یہ بات بھول جاتی ہے کہ اس علاقے میں دریا کا رُخ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ دریا کا رخ تبدیل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ سرحد بھی تبدیل ہوتی رہے گی۔ دریا کے کنارے پر کوئی بھی دعویٰ ۱۹۴۷ء سے اب تک دریا کے رخ سے متعلق ریکارڈ کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ بھارت یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ بنگلادیشی حکومت کے ذرائع بتاتے ہیں کہ بھارتی حکومت سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے مگر وہ اب تک بات چیت پر آمادہ نہیں ہوئی ہے۔ روزنامہ ’’سنگرام‘‘ نے ۲۰ مارچ ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ اس علاقے میں آباد بنگلادیشی مستقل خوف کے سائے میں رہتے ہیں۔ انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں بی ایس ایف اہلکار علاقے پر قبضہ کرکے اپنا پرچم نہ لہرا دیں۔
روزنامہ ’’بنگلا بازار پتریکا‘‘ نے ۲۰ فروری ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ ٹھاکر گاؤں کے سرحدی علاقے میں بھی بھارت ۹۰ ایکڑ سے زائد بنگلا دیشی زمین ہڑپ کرنے کے فراق میں ہے۔ جنوری ۱۹۹۴ء میں چند بھارتی باشندوں نے اس علاقے میں داخل ہوکر چائے کا باغ قائم کرنے کی تیاری شروع کردی۔ دونوں ممالک کے سرحدی محافظوں نے مل کر اس معاملے کو طے کرلیا۔ روزنامہ ’’بنگلا بازار پتریکا‘‘ نے ۲۰ فروری ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ ۲ فروری ۱۹۹۴ء کو بھارتی باشندوں نے بی ایس ایف کی سرپرستی میں ایک بار پھر اس علاقے میں دخل اندازی کی اور اس بار ایک ایکڑ رقبے پر چائے کے باغ کی تیاری بھی مکمل کرلی۔
روزنامہ ’’اتفاق‘‘ نے ۱۹ ستمبر ۱۹۹۴ء کی اشاعت میں بتایا کہ ضلع پنچ گڑھ میں بھارت اور بنگلا دیش کی سرحد کم و بیش ۱۸۰ میل کی ہے اور اس میں سے ۱۸ میل کی حد بندی دریا کے ذریعے کی گئی ہے۔ یعنی جہاں جہاں دریا بہہ رہا ہے، وہی سرحد ہے۔ ہر سال بارش کے بعد طغیانی اور کناروں کے پتھر توڑے جانے کے بعد باعث دریا کا رُخ بنگلا دیش کی طرف ہوتا جاتا ہے یعنی بھارت زیادہ سے زیادہ علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرتا جاتا ہے۔ بھارت نئے کنارے پر قبضہ کرتا ہے اور بعد میں جب نئی حد بندی کے لیے بلایا جاتا ہے تب بھارت کا کوئی بھی نمائندہ حاضر نہیں ہوتا۔ بنگلا دیشی حکومت کے متعلقہ حکام نے بتایا کہ بھارت نے نئی حد بندی کے لیے کبھی آمادگی ظاہر نہیں کی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی اپنی مرضی کے مطابق ہی کام کرنا چاہتا ہے۔ بنگلا دیش کو دباکر رکھنا بھارت کا پرانا وتیرہ ہے اور وہ اب تک اپنا یہ وتیرہ ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوا۔
روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نے ۲۷ دسمبر ۱۹۹۳ء کی اشاعت میں بتایا کہ بی ایس ایف نے ضلع ست کھیرا کے آخر میں کائے کھلی اور رام جن نگر یونین میں واقع سندر بن کا کم و بیش ۲۰ مربع کلو میٹر علاقہ ہتھیالیا۔ بی ایس ایف کے اہلکاروں نے بنگلا دیش کی ۱۰۰ سے زائد کشتیاں ڈبو دیں، متعدد مچھیروں کو اغوا کرلیا اور دیگر کو دھمکایا کہ وہ اس علاقے میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ بی ایس ایف نے کاگراچاری ہل ایریا ماٹی رنگا پولیس اسٹیشن کے دو دیہات تھائی ڈونگ اور اسالونگ کی ۱۵۰۰ ایکڑ سے زائد زمین ہتھیالی ہے۔ ۱۹۸۶ء اور ۱۹۸۷ء میں اس علاقے سے بہت لوگ شانتی باہنی کے حملوں کے بعد نکل گئے۔ بنگلادیشی سرحدی محافظ ان کی حفاظت کے لیے موجود نہیں تھے۔ بی ایس ایف نے ان ۱۵۰۰ ایکڑ پر دو کیمپ قائم کردیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے سڑک تعمیر کرکے خاردار تاروں کی باڑ بھی لگادی ہے۔ روزنامہ ’’جن کنٹھ‘‘ نے ۲۵ مئی ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ بنگلا دیشی کسانوں کے شدید احتجاج کے باوجود بی ایس ایف نے اس علاقے میں کھیتی باڑی بھی شروع کرادی ہے۔
روزنامہ ’’المجدد‘‘ نے ۱۴ جون ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں بتایا کہ گریٹر کشتیار کے علاقے میں بھی بھارت نے بنگلا دیش کی ۲۲۰۰ ایکڑ سے زائد زمین پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ زمین ستون نمبر ۱۲۶ تا ۱۲۷، ستون نمبر ۱۳۲ تا ۱۳۳ (کٹھولی بارڈر)، ایسا کھلی اور ضلع کشتیار میں واقع ہے۔ برادی کے سرحدی علاقے میں دارمورہدا پولیس اسٹیشن کی حدود میں ستون نمبر ۸۰ اور ۸۲ کے درمیان اور ضلع چوا ڈنگا میں جھاکر پور کے سرحدی علاقے میں ستون نمبر ۸۹ اور ۹۱ کے درمیان بھارت نے بنگلا دیش کی ۳۰۰ ایکڑ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔
’’دی ڈیلی نیو نیشن‘‘ کی یکم اکتوبر ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں میڈیا سنڈیکیٹ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بھارت نے بنگلا دیش میں داخل ہونے والے دریاؤں پر ڈیم، بیراج اور دیگر تعمیرات کے بہانے بنگلا دیش کا کم و بیش ۲ ہزار مربع میل علاقہ ہتھیا رکھا ہے۔ بھارت نے ۲۵ دریاؤں پر ۲۵ ڈیم اور ۴۰ دیگر ڈھانچے کھڑے کیے ہیں۔ خشک علاقوں میں ستون تعمیر کرکے اور باڑ لگاکر بھارت نے کم و بیش دو ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ ڈکار جانے کی پوری تیار کر رکھی ہے۔
بھارت نے بنگلادیش کے جزیرے تھل پٹی پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ جزیرہ مین لینڈ سے ۶ ہزار میٹر کی دوری پر ہے۔ ضلع ست کھیرا میں بنگلا دیشی وزارت جنگلات کی چاند باریا رینج اس جزیرے سے بنگلا دیشی سرزمین کا نزدیک ترین ٹکڑا ہے۔ اس علاقے میں سرحد کا کام دریائے ہریا بھنگا کرتا ہے جس کا مرکزی دھارا اس جزیرے کے مغرب سے گزرتا ہے۔ یوں یہ جزیرہ بنگلا دیشی سرزمین کا لازمی حصہ ہے۔ ریڈکلف ایوارڈ کے تحت اس دریا کو بھارت اور مشرقی پاکستان کے درمیان سرحد تسلیم کیا گیا تھا۔ ۱۹۶۷ء کے ایک سروے میپ میں اس جزیرے کو پاکستان یعنی موجودہ بنگلا دیش کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ ۱۹۷۲ء میں جاری کیے جانے والے سروے آف بنگلا دیش میپ میں بھی اس جزیرے کو ملک کا حصہ ظاہر کیا گیا تھا۔ مگر بھارت یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس نے ۹ مئی ۱۹۸۱ء کو تھل پٹی جزیرے میں اپنا فوجی دستہ اتار دیا اور اس پر قبضہ کرلیا۔ تب سے یہ قبضہ برقرار ہے۔ بنگلا دیش نے کئی بار چاہا کہ اس حوالے سے گفت و شنید کی جائے۔ اس حوالے سے متعدد تجاویز بھی دی گئیں مگر بھارت کبھی بات چیت کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارتی قیادت جانتی ہے کہ اگر تھل پٹی جزیرے کے حوالے سے بات چیت ہوئی تو اس پر بنگلا دیش کا حق ثابت ہو رہے گا۔
اگر تھل پٹی جزیرے پر بنگلا دیش کا حق تسلیم کرلیا جائے تو کم و بیش ۲۵ ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ بنگلا دیش میں شامل ہوجائے گا۔ بھارت اس جزیرے پر اپنا قبضہ اس لیے برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ یہاں معدنی ذخائر کے ہونے کی اطلاع ہے۔ اس جزیرے پر بنگلادیش کا حق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سب سے پہلے بنگلادیشی مچھیرے ہی اس جزیرے پر پہنچے تھے اور انہوں نے وہاں اپنا کیمپ بھی قائم کیا تھا۔ ۱۹۷۴ء میں شیخ مجیب الرحمن نے چند غیر ملکی کمپنیوں کو اس علاقے میں معدنی وسائل کی تلاش میں کھدائی کی اجازت دی تھی۔ بھارت نے اس جزیرے اور اس سے ملحق علاقے پر اپنا دعویٰ ۱۹۷۴ء کے بعد پیش کرنا شروع کیا۔
بھارت اور بنگلادیش کے درمیان سرحدی تنازعات ابتدا ہی سے رہے ہیں۔ ۱۹۷۴ء میں اس وقت کے بنگلادیشی وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن اور ان کی بھارتی ہم منصب مسز اندرا گاندھی نے سرحدی تنازعات پر گفت و شنید کے بعد ۱۶ مئی ۱۹۷۴ء کو ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ بعد میں ایک ترمیم کے ذریعے بنگلادیشی آئین کا حصہ بنایا گیا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک میں سرحدوں کے سروے سے متعلق سارا کام ۳۱ دسمبر ۱۹۷۴ء تک مکمل کرلیا جانا تھا۔ یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک نیا نقشہ تیار کرکے ۲۱ مئی ۱۹۷۵ء تک منظور کرائیں گے اور یہ نقشہ ۳۱ دسمبر ۱۹۷۵ء کو منظر عام پر لایا جائے گا۔ مگر شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد بھارت نے اس معاہدے کو نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت کے لیے لازم ہے کہ اس معاہدے کو نظر انداز کرنے سے گریز کرے اور جو کچھ بھی اس میں بیان کیا گیا ہے، اس پر عمل کرے۔ بھارت نے اس معاملے میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے اور اب تک اس معاہدے پر عمل سے گریز کرتے ہوئے بنگلادیشی زمین پر قبضہ جمانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
بنگلادیش کے سابق صدر ضیاء الرحمن نے تھل پٹی جزیرے پر بنگلادیش کا حق ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ انہوں نے سفارت کاری کے میدان میں بھی جارحانہ رویہ اختیار کیا تھا مگر ان کے بعد تشکیل پانے والی حکومت نے اس معاملے میں بنگلادیش کا مؤقف منوانے کی زیادہ کوشش نہیں کی۔ ’’را‘‘ نے ڈھاکا میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت نواز حکومت نے قومی مفادات کوبھی داؤ پر لگادیا۔ تھل پٹی جزیرے پر حق جتانے کے معاملے میں بنگلادیش کی حکومت خاصی کمزور اور بُودی ثابت ہوئی ہے۔ ’’را‘‘ نے بنگلادیش کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے معاملے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ وہ مختلف طریقوں سے بنگلادیش کو ڈراتا، دھمکاتا آیا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طور بنگلادیش کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرکے بھارت کے مفادات کو طویل مدت تک محفوظ کردینا چاہتا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
Leave a Reply