عوامی لیگ نے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی جو بھرپور تحریک چلائی، اُس میں بھارت کی طرف سے غیر معمولی بلکہ مرکزی نوعیت کی معاونت نے بنیادی کردار ادا کیا۔ بھارت کے خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے مشرقی پاکستان کے محل وقوع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں اِس حصے کو ملک سے الگ کرنا ممکن ہوا۔
’’را‘‘ نے پاکستان کو توڑنے کے لیے سابق مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کے ہزاروں کارکنوں کو بھرتی کرکے مکتی باہنی بنائی۔ اُنہیں مشرقی پاکستان سے ملحق علاقوں میں چھاپہ مار جنگ کی باضابطہ تربیت دی۔ اسلحہ، متعلقہ ساز و سامان اور مالی وسائل فراہم کیے۔ اِن چھاپہ ماروں کو بھارتی فوجیوں کی بھرپور رہنمائی اور معاونت کے ساتھ مشرقی پاکستان بھیجا تاکہ پاکستانی فوج کو زِچ کیا جاسکے۔ زین العابدین اُسی مکتی باہنی کا حصہ تھے۔ بالآخر اُن کا ضمیر جاگا اور اُنہوں نے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے حقائق بیان کرنے کی ٹھانی۔ “RAW & Bangladesh” کے نام سے کتاب لکھی جس میں بیان کیا کہ بھارت نے بنگلا دیش کو کمزور کرنے اور دست نگر رکھنے کی کتنی اور کیسی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ یہ کتاب ملاحظہ کیجیے۔ (ادارہ)
کوٹلیہ، ’’را‘‘ اور بھارتی خارجہ پالیسی
بھارت کے خفیہ ادارے اور خارجہ پالیسی تیار کرنے والے ماہرین کے لیے جذبہ و تحریک کا سب سے بڑا ذریعہ معروف ہندو مفکر کوٹلیہ اور اُس کی کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘ (علم الاقتصاد) ہے۔ قدیم ہندوستان کے شہنشاہ چندر گپت موریہ کے وزیر اعظم کوٹلیہ کو ’’چانکیہ‘‘ اور ’’وشنو گپت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ چانکیہ نے ’’ارتھ شاستر‘‘ ۳۱۱ تا ۳۰۰ قبل مسیح میں لکھی تھی۔ یہ مشہورِ زمانہ کتاب ۱۵؍ حصوں اور ۱۸۰؍ابواب پر مشتمل ہے۔ چانکیہ نے مکر و فریب پر مشتمل اپنی سفارتی مہارت کے ذریعے چھوٹی ریاستوں کو عظیم تر ہندوستان کا حصہ بنانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ چانکیہ کے مشوروں کی مدد سے اور اُس کی نگرانی میں موریہ خاندان کی سلطنت نے مثالی وسعت حاصل کی تھی۔
مخالف اور غیر مخالف ہر دو طرح کی ریاستوں کو زیر نگیں یا اپنے میں ضم کرنے کے لیے چانکیہ نے چند نمایاں رہنما اُصول مرتب کیے جو حسب ذیل ہیں:
- ٭ جب ملک کمزور ہو تو سب کے ساتھ امن سے رہنے کی پالیسی اپنائی جائے۔
- ٭ جب ملک عسکری طور پر مضبوط ہوجائے تو جنگ کی پالیسی اپنانے میں تاخیر نہ کی جائے۔
- ٭ جب کسی ملک کو آپ کی مدد درکار ہو تو دو رُخی پالیسی اپنائی جائے اور دُہرے معیارات کے ساتھ کام کیا جائے۔
چانکیہ نے ’’ارتھ شاستر‘‘ میں ریاست کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے پالیسی کے میدان میں جنگ، امن، غیر جانبداری، جنگ کے لیے ہر وقت مکمل تیاری کی حالت میں رہنے کی ذہنیت، تیار رہنے کی کیفیت، اتحاد کی تشکیل اور دُہری پالیسی کی شکل میں ۶ بنیادی رہنما اُصول مرتب کیے۔ چانکیہ نے تجویز کیا کہ:
٭ دوسری ریاستوں سے معاہدوں کے ذریعے امن قائم کیا جائے۔
٭ دشمن پر کسی وقفے کے بغیر حملے کرکے جنگ کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔
٭ غیر جانبداری کا وسیع تر مفہوم خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دینا اور دوسروں کے مفادات سے لاتعلق ہوجانا ہے۔
٭ ہر وقت جنگ کی تیاری کا عمل جاری رکھ کر ریاست کی مجموعی قوت میں اضافہ کیا جائے۔
٭ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بنانے کی خاطر دور و نزدیک کی ریاستوں کو بہلا پھسلاکر یا اُن پر دباؤ ڈال کر اتحاد تشکیل دیے جائیں۔
٭ دُہری پالیسی اپنانے کا مطلب ہے، کسی ملک سے دوستی اور کسی سے دشمنی۔ (روزنامہ المجدّد، ۳ نومبر ۱۹۹۴ء)
موریہ خاندان کی حکومت کو ختم ہوئے کم و بیش ۲۳۰۰ سال ہونے کو آئے ہیں مگر بھارتی حکمران آج بھی موریہ سلطنت کے مرکزی کردار چانکیہ کے بتائے ہوئے اُصولوں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں اور پالیسی ساز اداروں کے ماہرین نے چانکیہ کا یہ اُصول دانتوں سے پکڑ رکھا ہے کہ حقیقی اور حتمی حقیقت صرف طاقت ہے اور زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول کسی بھی منظّم ریاست کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ چانکیہ کے زمانے سے آج تک ہر ہندو ریاست نے زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کو حتمی مطمحِ نظر کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ ہندوؤں کی تاریخ کھنگال دیکھیے، کوئی ایک بادشاہ بھی ایسا نہ ملے گا جو عدم تشدد پر یقین رکھتا ہو۔
دورِ حاضر کے بھارتی حکمرانوں نے بھی زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کو حتمی مطمحِ نظر کی حیثیت سے اپنایا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دُہری پالیسی کے اُصول پر عمل کرتے ہوئے وہ طاقت کے حصول کی کوشش کو عدم تشدد کے پرچار کی مدد سے چُھپاتے اور دُنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکتے ہیں۔ عدم تشدد کا پُرزور انداز سے پرچار کرکے بھارتی حکمران اپنے حقیقی عزائم اور مقاصد دُنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھارت کی سابق وزیراعظم آن جہانی اندرا گاندھی فکری اور عملی طور پر چانکیہ کی کٹّر عقیدت مند تھیں۔ اندرا گاندھی نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے چانکیہ کی تعلیمات کی روشنی میں سازشوں اور خفیہ جنگوں کا طریقہ اپنایا۔ اُنہوں نے جنوبی ایشیا پر بھارت کا تسلّط قائم کرنے کی خاطر مرکزی خفیہ ادارے کی حیثیت سے ’’را‘‘ (ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ) جیسی ایجنسی قائم کی جو براہِ راست وزیراعظم کی نگرانی میں کام کرتی رہی ہے۔
بھارت کے مرکزی انٹیلی جنس بیورو کے فارن انٹیلی جنس ڈیسک کو ۱۹۶۸ء میں توسیع دے کر ’’را‘‘ کے نام سے باضابطہ ادارے کی شکل دی گئی۔ رامیشور ناتھ کاؤ ’’را‘‘ کے پہلے سربراہ تھے۔ اِس نئے ادارے کا بنیادی کام بیرونی ذرائع سے پڑوسی اور دیگر ریاستوں، اداروں اور گروپوں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے ان کا تجزیہ کرنا تھا تاکہ اُس تجزیے کی بنیاد پر خارجہ پالیسی میں ضروری تبدیلیاں کی جاسکیں۔ خفیہ معلومات کی بنیاد پر غیرعلانیہ اور خفیہ کارروائیوں کے لیے ’’را‘‘ میں اسپیشل آپریشنز برانچ بھی قائم کی گئی۔ ’’را‘‘ نے اپنے سفر کا آغاز ۲ کروڑ روپے کے بجٹ اور ۲۵۰ ملازمین کے ساتھ کیا تھا۔ یہ ادارہ تیزی سے وسعت اختیار کرتا گیا اور ۱۹۹۰ء تک اِس کے ملازمین اور افسران کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ ہوگئی اور بجٹ بھی ۵۰۰ کروڑ روپے سے زیادہ ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ کا موجودہ بجٹ کم و بیش ۱۵۰۰ کروڑ روپے ہے۔ اب اِس ادارے کے پاس اپنے طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی ہیں۔ ’’را‘‘ کا صدر دفتر لودھی اسٹیٹ، نئی دہلی کی ایک گیارہ منزلہ عمارت میں ہے۔
’’را‘‘ کسی بھی معاملے میں بھارتی پارلیمان کو جوابدہ نہیں۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو کسی بھی معاملے میں ’’را‘‘ سے کسی بھی بات کے پوچھنے یا وضاحت طلب کرنے کا اختیار نہیں۔ اِسی طور ’’را‘‘ کے لیے ملازمین یا افسران کی بھرتی کے معاملے میں پبلک سروس کمیشن یا اسٹاف کمیشن کا کوئی کردار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’را‘‘ بھارت کے اُن چند اداروں میں سے ہے جو اپنے تمام معاملات میں مکمل طور پر خودمختار ہیں۔ ’’را‘‘ اگر ضرورت محسوس کرے تو ملک کے کسی بھی ادارے کی نگرانی کرسکتا ہے۔ بیان کردہ طریق کار کی حد تک ’’را‘‘ براہِ راست وزیر اعظم کو جوابدہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں اور کسی بھی طرح کی نگرانی کے بغیر اپنے طے کردہ اُصولوں اور طریق کے مطابق کام کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ’’را‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دوسری ریاستوں اور بالخصوص ہمسایوں کے معاملے میں اپنے ہی طے کردہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
بھارت کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں ’’را‘‘ کا کردار ہمیشہ بہت اہم رہا ہے۔ چند برسوں کے دوران ’’را‘‘ اِس قدر طاقتور ہوکر اُبھرا ہے کہ اب یہ ملک کے سیاسی کھیل میں بھی ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ خفیہ ادارے کی حیثیت سے روایتی نوعیت کے فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ’’را‘‘ درج ذیل مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
٭ چھوٹے اور آسانی سے ہدف بن جانے والے پڑوسی ممالک پر بھارت کی بالا دستی قائم کرنا۔
٭ جنوبی ایشیا میں عمومی اور بحر ہند کے خطے میں خصوصی طور پر بھارت کا عسکری، سیاسی اور ثقافتی اثر و رسوخ بڑھانا تاکہ مستقبل کی علاقائی یا عالمی طاقت کا تاثر بنایا جاسکے۔
٭ برہمن ذہن میں موجود اکھنڈ بھارت کے تصوّر کو حقیقت میں تبدیل کرنا۔
۱۹۷۱ء میں پاکستان کو دو لخت کرنے اور ۱۹۷۵ء میں سِکّم کو بھارت کا حصہ بنانے میں کامیابی نے ’’را‘‘ کی مقبولیت میں کئی گُنا اضافہ کیا اور بھارت کے عوام نے اپنے خفیہ ادارے کو اُس کی تمام اچھائیوں اور بُرائیوں کے ساتھ مجموعی طور پر تسلیم کرلیا۔ ۱۹۸۷ء میں سری لنکا کے حوالے سے متوازن پالیسی نہ اپنانے اور پاکستان کو دہشت گرد ریاستوں کی فہرست میں شامل کرانے میں ناکامی سے ’’را‘‘ کی مقبولیت اور ساکھ کو نقصان پہنچا۔ بہرحال، حقیقت یہ ہے کہ ’’را‘‘ اب بھی ملک کے مرکزی خفیہ ادارے کی حیثیت سے قائدانہ حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے اور خارجہ اُمور کے ساتھ ساتھ داخلی سلامتی کے معاملات میں بھی اُس کی بات پالیسی ساز اب بھی توجہ سے سُنتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی اب بھی ’’را‘‘ ہی تیار کرتی ہے اور وزارتِ خارجہ کا کام تو محض اتنا ہے کہ خارجہ پالیسی کو موثر طور پر نافذ کردیا جائے۔
آئیے، ’’را‘‘ کی مرتب کردہ بھارتی خارجہ پالیسی کے بنیادی اُصولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
٭ دوستی، تعاون اور اشتراکِ عمل کی آڑ میں دور و نزدیک کی زیادہ سے زیادہ ریاستوں کو اپنے دائرۂ اثر میں لایا جائے۔
٭ دوستی کا راگ الاپتے ہوئے دُشمنی کو پروان چڑھاتے رہنا۔
٭ اگر ضروری یا ناگزیر ہوجائے تو اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی ریاست پر دباؤ ڈالنے یا اُسے دھمکانے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
٭ دو طرفہ معاملات کی پالیسی پر زیادہ سے زیادہ اِصرار۔
٭ جب اپنی پوزیشن اخلاقی یا قانونی اعتبار سے کمزور ہو تو دیرینہ تنازعات کے حتمی تصفیے میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کی جائے۔
٭ تاثر یہ دینا کہ بھارت تو بڑی طاقتوں کے سامنے کچھ بھی نہیں مگر در حقیقت کمزور ریاستوں کے سامنے خود کو سپر پاور کی حیثیت سے پیش کرنا۔
٭ جنوبی ایشیا کو ہر طرح کے بیرونی اثرات اور مداخلت سے مکمل طور پر پاک یا محفوظ رکھنا۔
اب ذرا اِس امر کا جائزہ لیجیے کہ
’’را‘‘ اپنے عمومی اور خصوصی ہر دو طرح کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کیا کر رہا ہے۔
- ٭ بیرونِ ملک بھارتی سفارتی مشنز میں سفارت کاروں میں ایجنٹس تعینات کرنا تاکہ وہاں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مطلوبہ معلومات حاصل کی جاسکیں۔
- ٭ دشمن ممالک میں سیاست دانوں، فوجی افسروں، بیورو کریٹس، عام سرکاری ملازمین، دانشوروں، صحافیوں، قانون دانوں، ٹریڈ یونین رہنماؤں، اساتذہ اور فنکاروں کو ایجنٹس کی حیثیت سے پے رول پر رکھنا۔ طے شدہ مقاصد کے حصول کے لیے اعلیٰ تربیت یافتہ خواتین کے ذریعے دشمن ممالک کی اہم شخصیات سے قریبی روابط قائم کرنا اور ضرورت پڑنے پر اُنہیں بہلانے پُھسلانے کے ساتھ ساتھ دھمکانے اور بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہ کرنا۔
- ٭ جس ملک سے کوئی بڑا مفاد یا چھوٹے چھوٹے کئی مفادات وابستہ ہوں، اُس سے ترغیب و تحریک یا پھر دھمکی اور دباؤ کے ذریعے اپنی مرضی سے معاہدے کرنا۔
٭ دوسرے ممالک کے سِول اور فوجی ملازمین اور افسران کو تربیت کی پیشکش کرنا اور پھر اُن زیر تربیت افراد میں اپنے ایجنٹس مقرر کرنا۔
- ٭ اسکالر شپس اور مطالعاتی دوروں کے ذریعے دوسرے ممالک کے دانشوروں کی برین واشنگ۔
- ٭ ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام، فلموں، اخبارات اور جرائد کے ذریعے بھارت کے ثقافتی اثرات کا دائرہ وسیع کرنا۔
- ٭ ہدف کے طور پر منتخب کیے جانے والے ممالک میں قبائلی، قدیم مقامی اور اقلیتی برادریوں کے درمیان مناقشوں اور تشدد کو ہوا دینا۔
- ٭ ہدف بنائے جانے والے ممالک میں علیحدگی پسند تحریکیں چلانے کے لیے دہشت گرد اور علیحدگی پسند عناصر کو بھرپور مالیاتی وسائل، ہتھیار اور تربیت فراہم کرنا۔ اور اگر اُن پر مشکل وقت آن پڑے تو اپنے ہاں پناہ بھی دینا۔
- ٭ کسی بھی منتخب ملک کی حکومت، پارلیمنٹ کے ارکان اور اعلیٰ سرکاری افسران پر اثر و رسوخ استعمال کرکے اُن پر بھارت کی طرف جھکنے کے لیے دباؤ ڈالنا۔ جو لوگ اِس نوعیت کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، اُنہیں مختلف طریقوں سے زیر دام لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
- ٭ منتخب ممالک میں اپنے ایجنٹس بھرتی کرکے پریشر گروپ بنانا تاکہ جلاؤ گھیراؤ کیا جاسکے، ہڑتالیں کرائی جاسکیں اور معاشی و معاشرتی انتشار پیدا کرکے معاملات کو زیادہ سے زیادہ خراب کیا جاسکے۔
- ٭ منتخب یعنی ہدف ممالک کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے اور اُن کی عمومی ساکھ اور اُن کے بارے میں پائے جانے والے مثبت تاثر کو داغدار کرنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے غلط، بے بنیاد اور مسخ خبریں پھیلانا۔
- ٭ قابو میں نہ آنے والی اور کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لانے والی دشمن ممالک کی اہم شخصیات (بشمول سربراہِ ریاست و حکومت) کو قتل کرنا تاکہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاسکیں اور متعلقہ ممالک کے اعلیٰ سرکاری افسران خوفزدہ ہوکر ’’تعاون‘‘ پر آمادہ ہوں۔
- ٭ مخالف سمجھی جانے والی حکومت کو گرانے کے لیے فوجی بغاوت یا سیاسی تحریک کی بھرپور معاونت۔
- ٭ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور توانا رکھنے کے لیے پروپیگنڈا مشینری کو بھرپور طور پر متحرک رکھنا۔
’’را‘‘ اپنے قیام کے بعد سے اب تک بھارت کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ چانکیہ کے ترتیب دیے ہوئے اُصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ’’را‘‘ نے کمزور پڑوسی ممالک کے خلاف خفیہ جنگیں تواتر سے جاری رکھی ہیں۔ ’’را‘‘ نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کبھی کسی بھی حد تک جانے میں شرم یا جھجھک محسوس نہیں کی اور اپنے اہداف غیر معمولی سَفّاکی کا مظاہرہ کرکے بھی حاصل کیے ہیں۔ مگر خیر، ایسا بھی نہیں ہے کہ ’’را‘‘ میں کہیں کوئی کمزوری نہیں۔ دوسرے خفیہ اداروں اور دیگر اداروں کی طرح ’’را‘‘ کی بھی بہت سی کمزوریاں ہیں اور یہ بھی بعض معاملات میں خاصا ہدف پذیر ہے۔ اِس کے مذموم مقاصد اور طریق کار کا بغور جائزہ لینے سے اِس کے خوں آشام ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے موثر طریقے وضع کیے جاسکتے ہیں۔
○○○
Leave a Reply