رے کرزویل مشہور مستقبل بین ہیں۔ وہ ’’گوگل‘‘ کے شعبہ انجینئرنگ میں ڈائریکٹر ہیں اور ماضی میں درست پیش گوئیاں کرنے کے حوالے سے قابل رشک ریکارڈ کے حامل ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ۹۰ء کی دہائی سے لے کر اب تک ان کی ۱۴۷ پیش گوئیوں میں درستی کی شرح ۸۶ فیصد رہی۔
اس ہفتے کے شروع میں ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں SXSW کانفرنس میں کرزویل نے ایک اور پیش گوئی کی کہ اگلے ۱۲ برس کے لگ بھگ ’’تکنیکی اکائیت‘‘ (Technological Singularity) کی کارکردگی انسانی دماغ کے برابر ہو جائے گی اور مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں ہر شعبہ میں انسان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔
انہوں نے SXSW کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’۲۰۲۹ء تک کمپیوٹر میں انسانی سطح کی ذہانت ہوگی‘‘۔
کرزویل کے مقابلے میں دوسرے پیش گو خاص طور پر سوفٹ بینک کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ’’ماسایوشی سن‘‘ کے مطابق سپر ذہانت کی حامل مشینوں کا ارتقاء ۲۰۲۷ء تک ہوگا۔ جبکہ کرزویل کے نزدیک ’’اکائیت‘‘ کی وقوع پذیری کا عمل نہ صرف پہلے ہی شروع ہوچکا ہے بلکہ یہ عمل ۲۰۲۷ء تک مکمل ہو جائے گا۔
ہمارا کمپیوٹر کو انسانی دماغ کے اندر نصب کرنا، ان کا رابطہ کلاؤڈ کے ساتھ منسلک کرنا اور اس سلسلے کو پھیلاتے جانا، کوئی مستقبل کا منظرنامہ نہیں بلکہ اس بات کا مظہر ہے کہ ’’اکائیت‘‘ کی وقوع پذیری کا لمحہ تیزی سے قریب ہو رہا ہے اور اس کی رفتار میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جب ٹیلی فون ایجاد ہوا تو اس کو عام ہونے میں ۵۰ سال کا عرصہ لگا، مگر موبائل فون اپنی ایجاد کے محض ۷ سال کے اندر اور انٹرنیٹ صرف ۴ سال میں عام لوگوں کی دسترس میں تھا۔ آج کی نسل کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال، روزمرہ کی بات ہے جبکہ نصف صدی پہلے کا کوئی انسان اگر آج زندہ ہو جائے تو وہ حیرت سے دوبارہ مر جائے گا۔ اسی لیے آج ہمیں ’’اکائیت‘‘ کچھ حیرت انگیز چیز محسوس ہوتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ جلد یا بدیر یہ سب ہوگا مگر سب کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ ’’کیا انسانیت کو ’اکائیت‘ سے ڈرنا چاہیے؟‘‘
سب یہ جانتے ہیں کہ جب مشینوں کے اذہان انسانوں کے اذہان سے زیادہ ہوشیار ہو جائیں گے تو وہ دنیا پر قبضہ کی طرف مائل ہوں گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کی نامور شخصیات جیسے اسٹیفن ہاکنگ، ایلون مسک اور یہاں تک کہ بل گیٹس بھی اس طرح کے مستقبل کے متعلق خبردار کرتے ہیں لیکن کرزویل ایسا نہیں سوچتے۔ درحقیقت وہ خاص طور پر ’’اکائیت‘‘ کی وجہ سے پریشان نہیں، یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ اس سے بھی آگے دیکھ رہے ہیں۔
کرزویل نے SXSW کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا: سائنس ’’اکائیت‘‘ کے متعلق کیا افسانہ طرازی کر رہی ہے۔ کس نقطہ پر ’’ایک مصنوعی ذہن‘‘ انسانیت کو غلام بنائے گا۔ یہ سب افسانہ ہے، حقیقت پسندی نہیں۔ ’’دنیا میں ایک یا دو مصنوعی ذہن نہیں بلکہ آج لاکھوں مصنوعی اذہان موجود ہیں‘‘۔
کرزویل کے مطابق ’’اکائیت‘‘ انسانیت کو مزید بہتر بنانے کا ایک موقع ہے۔ وہ تصور پیش کرتے ہیں کہ جس طرح ’’اکائیت‘‘ مشینوں کو ذہین بنائے گی، اس طرح انسانی ذہن کو بھی فروغ دے گی۔ انہوں نے مزید کہاکہ ’’اصل میں مشینیں ہم سب کو طاقت دے رہی ہیں اور ہمیں مزید ہوشیار بنارہی ہیں، اگرچہ یہ ابھی ہمارے جسموں کے اندر نصب نہیں ہیں مگر ۲۰۳۰ء کی دہائی تک ہم اپنے دماغ کے سوچنے والے حصے کو کلاؤڈ (انٹرنیٹ کا دوسرا نام) کے ساتھ منسلک کردیں گے۔ یہ خیال ’’مسک‘‘ کے متنازعہ ’’عصبی ریشوں‘‘ کے نظریے اور XPRIZE فاؤنڈیشن کے چیئرمین ’’پیٹر ڈیامنڈیس‘‘ کے ’’مستعار ذہانت‘‘ کے تصور سے ملتا جتا ہے۔
کرزویل دلیل دیتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کیسے انسانی زندگیوں کو بہتر بناسکتی ہے۔
’’ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمارے ذہن کا سوچنے والا حصہ مزید بہتر کام کرے گا۔ ہم مزید دلچسپ اور حیرت انگیز ہو جائیں گے۔ ہم موسیقی میں بہتر ہو جائیں گے۔ ہم جنسی طور پر زیادہ پرجوش ہو جائیں گے۔ ’’ہم انسانی زندگی کی اہم چیزوں کی بہتری کی مثال قائم کرسکیں گے۔
جس طرح کمپیوٹر سوفٹ ویئر کے ذریعے ہم کمپیوٹر کی خرابیوں کو دور کرسکتے ہیں اور انسانوں کی بیماریوں کی تشخیص اور علاج معالجے میں بھی مدد لیتے ہیں۔ بعینہ مستقبل میں کمپیوٹر اور انسانی ذہن کے انضمام سے ہم انسانی جینز میں ری کوڈنگ (re-coding) کرکے پیچیدہ اور موروثی بیماریوں کا علاج کرسکیں گے۔
ان لوگوں کے لیے جو ’’انضاباطییاتی معاشرے‘‘ (Cybernetic sosiety) کو تصوراتی خیال کرتے ہیں، کرزویل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آج بہت سے پارکنسنز (parkinson’s) رعشہ کے مریض موجود ہیں جن کے دماغ میں کمپیوٹر نصب ہیں۔ کرزویل کے نزدیک ۲۰۳۰ء تک ایسی ٹیکنالوجی وضع کرلی جائے گی جو انسانی یادداشت کو بہتر کرسکے گی۔ تو مشینوں کی دنیا پر قبضے والے ’’اکائیت‘‘ کے تصور کی بجائے وہ ایک ایسا مستقبل ہوگا جو انسانوں اور مشینوں کا ایک بے مثال اور حسین امتزاج ہوگا اور ہم تمام انسانوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ انٹرویو کے دوران کرزویل نے مزید کہا کہ ’’ہم اپنے ذہنوں کو وسعت دینے جارہے ہیں، اپنی فنکارانہ خصوصیات اور اپنی اقدار کو ایک مثال بنا دیں گے‘‘۔
(بشکریہ: ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ لاہور۔ اپریل ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply