
کبھی آپ نے سوچا کہ جب انٹرنیٹ نہیں تھا تو زندگی کیسی تھی؟ شاید اب یاد بھی نہ ہو‘ خصوصاً ان ممالک کے لوگوں کے لیے یہ یاد کرنا بہت دشوار ہے جن کی زندگی اب انٹرنیٹ کے گرد گھومتی ہے اور جہاں نہیں گھومتی‘ وہاں رُکی ہوئی ہے۔ گویا انٹرنیٹ نے ہی دراصل دنیا کو تبدیل کر دیا ہے لیکن تبدیلی رُکتی نہیں ہے۔ اب یہ تبدیلی پھیل رہی ہے اور مختلف جلوے دکھا رہی ہے۔ انٹرنیٹ سے قبل رابطے مشکل اور مہنگے تھے۔ ٹیلی فون پر زیادہ اخراجات ہوتے‘ دستاویزات اور کاغذات کے انبار کو ایک سے دوسری جگہ لے جانا پڑتا تھا‘ بھاری بھرکم کتابوں کے ڈھیر رکھنے پڑتے لیکن انٹرنیٹ نے سب کچھ سہل اور آسان بنا دیا‘ دور دراز کے لوگ اور اجنبی آپس میں کھٹ سے رابطے قائم کر لیتے ہیں‘ لیکن یہ سب کچھ ایک مغالطہ بھی ہو سکتا ہے۔
انٹرنیٹ کا ڈاٹا کموڈ ٹی بن گیا ہے۔ موجودہ انٹرنیٹ ۰ء۱ ہے‘ اب ۰ء۲ انٹرنیٹ بھی تیار ہو رہا ہے‘ یہ انٹرنیٹ کی وہ قسم ہے جو پورے انسانی معاشروں کی طرح ہے‘ معاشرہ طبقات اور جغرافیہ میں بٹا ہوا اور تقسیم شدہ ہوتا ہے‘ نئے انٹرنیٹ سے معاشروں کی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے اور عالمی معیشت کے ہموار انداز میں کام کرنے کو خطرات لاحق ہیں۔
انٹرنیٹ ایک بے ضرر سا ذریعۂ ابلاغ نظر آرہا ہے۔ جسے سبھی استعمال کر رہے ہیں لیکن اب یہ سب کچھ تبدیل ہونے والا ہے کیونکہ حکومتیں‘ کثیر قومی کمپنیاں اور افراد کے درمیان ڈیجیٹل دنیا پر کنٹرول یا قبضے کی جنگ شروع ہو چکی ہے‘ بہت سے ممالک اس امر پر غور کر رہے ہیں کہ وہ خود کس طرح ویب کو ریگولیٹ کر سکتے ہیں اور اپنا کنٹرول قائم کر سکتے ہیں‘ یوں خارجہ پالیسی کی پرانی لڑائیاں اور اختلافات سائبراسپیس میں کھینچے جارہے ہیں۔ ممالک ترقی و خوشحالی کا جو خواب دیکھ رہے ہیں‘ اس کا تعلق سائبراسپیس سے ہے‘ تعبیروں کی خاطر لڑنا پڑتا ہے۔
چین‘ ایران‘ شمالی کوریا اور ویتنام جیسے ممالک ایسے نئے طریقوں کے ساتھ میدان میں آگئے ہیں‘ جن کے ذریعہ وہ شہریوں کے آن لائن کمیونی کیشن کو سنسر کر سکیں اور یہ کام وہ اکثر اوقات مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعہ کر رہے ہیں۔ ابھی تک انٹرنیٹ پر امریکی بالادستی ہے‘ وہی اسے چلاتا ہے‘ عالمی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے یہ اس کا اہم ہتھیار ہے۔ الجزائر کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ امریکا کو کنٹرول نہیں کرنا چاہیے۔ ایران نے دھمکی دی ہے کہ وہ اپنا متبادل انٹرنیٹ نظام قائم کرے گا۔ اس طرح انٹرنیٹ پر امریکی بالادستی پر احتجاج کرنے والے بہت سے گروپ سامنے آگئے ہیں۔
انٹرنیٹ کا اصل کام ختم ہو گیا؟
ایسی کسی بھی صورت حال کے نتیجے میں گلوبل ویب ٹریفک تباہی اور افراتفری سے دوچار ہو سکتا ہے اور عالمگیریت کا خاتمہ ممکن ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں کنفیوژن پیدا ہو سکتا ہے۔ یورپ میں یہ صورتحال ہے کہ وہاں تمام صنعتیں ڈی ریگولیٹ کی جارہی ہیں اور بیوروکریسی قومی دولت کو قومی انٹرنیٹ چمپئنز کی تخلیق پر صرف کر رہی ہے۔ امریکا اور یورپ میں ٹیلی کام کو گوگل اور مائیکرو سافٹ جیسی بڑی کمپنیوں کے درمیان مسابقت کا سامنا ہے کہ ان میں سے کون انٹرنیٹ کی ڈیجیٹل سپر ہائی وے سے منافع کمائے گا۔ غریب ممالک امیر ملکوں سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ انہیں بہتر آن لائن انفرااسٹرکچر فراہم کیا جائے۔ دوسری جانب احتجاج کرنے والے گروپ حکومت اور کمپنیوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ویب تک رسائی مفت اور بلا رکاوٹ کی جائے‘ اس کھینچا تانی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ انٹرنیٹ سرحدوں سے ماوراء‘ ہموار انداز سے کام کرنے والے‘ اقتصادی طور پر قابلِ عمل اور موثر ذریعۂ ابلاغ کے بجائے ’’خاص مفادات‘‘ رکھنے والوں کی دلدل بن چکا ہے۔ یہ سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی رزم گاہ اور بین الاقوامی بیورو کریسی کے مفادات کا محور ہے۔ اس بنا پر انٹرنیٹ کے حلقوں میں سے ایک Vint Cerf کا کہنا ہے ’’افسوس یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب انٹرنیٹ کا اصلی کام ختم ہو چکا ہے‘‘۔
انٹرنیٹ کی جڑیں امریکا میں ہیںاس کا آغاز غیرمعمولی طور پر ہوا‘ اب اس میں امریکا کے نجی اور سرکاری شعبے کی شراکت ہے لیکن اس کا آغاز یوں ہوا کہ امریکی محکمہ دفاع نے ایٹمی جنگ کی صورت میں زندہ رہنے کے لیے باہمی رابطے کے ذریعے کی حیثیت سے اسے تشکیل دیا پھر ۱۹۹۰ء کی دہائی میں واضح ہو گیا کہ اس نظام کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تو ماہرین کی ایک گورننگ باڈی تشکیل دی گئی جس کا کام انٹرنیٹ کی ترقی پر نظر رکھنا تھا‘ اس ابتدائی زمانے میں بھی یہ بحث شروع ہو چکی تھی کہ حکومت کا اس نظام پر کتنا کنٹرول ہونا چاہیے اور نجی شعبے کو کیا اختیارات دیے جائیں۔ یہ سب کچھ امریکی حکومت کی زیرِ نگرانی ہو رہا تھا‘ اس وقت غیرملکی حکومتوں میں اس ٹیکنالوجی کی فہم تھی اور نہ انہوں نے اس پر توجہ دی۔
الگ صارف الگ انٹرنیٹ:
امریکی انٹرنیٹ کارپوریشن آئی سی اے این این سے چین کو بھی بہت سی شکایات ہیں کیونکہ یہ مقامی زبانوں کے ڈومین فراہم کرنے میں بہت تاخیر کر رہی ہے‘ چنانچہ چین نے اپنے طور پر کچھ ڈومین بنا لیے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ چین نے اپنے انٹرنیٹ ٹریفک پر نظر رکھنے کے لیے متبادل ویب بھی بنا لیے ہیں‘ چین نے اپنا سرچ انجن baidu.com بنا لیا ہے‘ لیکن یہ سرچ انجن سخت تنقید کا نشانہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے صارفین کی آزادی سلب ہوئی ہے۔ مثلاً اگر کوئی حکومت چین کے مخالف فرقہ ’’فالن گانگ‘‘ کو سرچ کرتا ہے تو اسے صرف حکومت کی منظور شدہ ویب سائٹس ہی دکھائی جاتی ہیں اور یہ ’’فالن گانگ‘‘ کے خلاف ہوتی ہیں‘ یہی نہیں بلکہ چین نے انٹرنیٹ سنسر کرنے کی یہ ٹیکنالوجی بہت سے دیگر ممالک کو بھی ایکسپورٹ کر دی ہے۔ یہ انٹرنیٹ کو لاحق ایک اور خطرہ ہے‘ اس سے نہ صرف ذاتی آزادی مجروح ہوئی ہے بلکہ اقتصادی نقصانات بھی ہوئے ہیں کیونکہ انٹرنیٹ کسی سرحد میں بند ہو جاتا ہے تو ای کامرس بھی رُک جاتی ہے۔
فرانس اور جرمنی جیسے مغربی ممالک کو بالکل مختلف قسم کا خدشہ لاحق ہے‘ وہ خود کو یورپ کا ثقافتی چوکیدار سمجھتے ہیں اور گوگل جیسے دیوقامت اداروں سے انہیں خدشہ ہے کہ یہ یورپی ثقافت کو مجروح کر سکتے ہیں‘ حال ہی میں ان دونوں ممالک نے کئی ارب یورو خرچ کر کے نئے ڈیجیٹل چمپئن بنا دیے ہیں‘ ان میں ’’یورو گوگل‘‘ شامل ہے۔ اسے Quaero کا نام دیا گیا ہے‘ اس سے یہ ہو رہا ہے کہ پہلے انٹرنیٹ نے لوگوں کو قریب لانے کا کام شروع کیا تھا لیکن اب انہیں دور کرنے کا کام کر رہا ہے۔ پہلے سب کے صارفین ایک تھے‘ اب الگ الگ صارفین کے لیے الگ انٹرنیٹ سامنے آنے لگے ہیں۔ یوںتقسیم اور بٹوارہ شروع ہو گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکا اور برطانیہ میں ٹیلی کام اداروں نے تیز رفتار براڈ بینڈ سائٹس پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کر دی ہے ان کے ذریعہ بہت تیزی کے ساتھ میوزک فلمیں اور ٹی وی شو انٹرنیٹ پر پیش کیے جا سکیں گے لیکن یہ بہت مہنگا کام ہے۔ نیو یارک کے ایک ماہر نے بتایا کہ نئی High Bandwidth جو امریکی ٹیلی کام قائم کر رہی ہے‘ کے نتیجے میں ایک صارف کو اسی ڈالر ماہانہ دینے ہوں گے۔ اگر صارف انٹرنیٹ پر ٹیلی ویژن بھی چاہے گا تو ۱۱۲ ڈالر اور اگر نہایت معیاری اور عمدہ تصویر کے ساتھ ٹی وی چاہے گا تو ۵۶۰ ڈالر ماہانہ ادا کرنے ہوں گے۔
دولت مند ممالک کے ٹیلی کام کا کہنا ہے کہ مواد فراہم کرنے والے ادارے گوگل‘ ای میل‘ یاہو اور دیگر کو اس مالی بوجھ میں شراکت کرنی چاہیے۔ ان اداروں سے کہا جارہا ہے کہ اگر وہ وڈیو سے لبریز مواد کی اچھی ڈلیوری چاہتے ہیں تو اچھی رقم بھی ادا کریں لیکن اس پر اعتراض کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ اس طرح صارف صرف وہی کچھ دیکھنے پر مجبور ہوگا‘ جو امیر کمپنیاں چاہیں گی۔ اس طرح جب مواد فراہم کرنے والوں کو زیادہ رقم دینا پڑے گی تو نیا ٹیلنٹ ٹیکنالوجی میں اختراعات بھی نہیں کر سکے گا۔ آج ویب کمپنیاں بنانا آسان ہے لیکن لاگت بڑھانے سے یہ ممکن نہیں رہے گا۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ انفارمیشن کی سپرہائی وے کے لیے رقم کون ادا کرے گا؟ یہ سوال صرف امریکا اور یورپ کی کمپنیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان بھی مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ انٹرنیٹ اب خوشحالی اور عالمگیریت کے لیے بہت اہم ہو چکا ہے۔ چنانچہ اب ڈیجیٹل خلیج کا مسئلہ زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک سے کہنے لگے ہیں کہ وہ ان کے ٹیلی مواصلاتی نیٹ ورک کو ترقی دینے میں مدد فراہم کریں اور یہ کام وہ امداد کے انداز میں کریں۔
پیچیدہ سیاسی سوالات
تیونس میں مصری وزیر نے امریکا اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے ملک کو سالانہ دس سے پندرہ ملین ڈالر پوری دنیا سے انٹرنیٹ لنکنگ پر صرف کرنے پڑتے ہیں۔ یہ رقم ادا کرنے میں مدد فراہم کی جائے۔ وزیر نے کہا تھا کہ یہ لنک تو ہم سبھی استعمال کرتے ہیں‘ رقم بھی سبھی کو ادا کرنی چاہیے۔
مغربی کمپنیاں روایتی طور پر اچھی مارکیٹ یعنی ایشیا میں فائبر آپٹک برج بنانے میں دلچسپی لیتی رہی تھیں لیکن وسطیٰ یا افریقہ سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس وقت سائبراسپیس میں جنگ یہ ہو رہی ہے کہ کون اخراجات ادا کرے گا؟ کس طرح ادا کرے گا‘ کس کی حکمرانی ہو گی۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سی اطلاع روکنی ہے۔ یہ جنگ انٹرنیٹ کے پھیلائو کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ جیسے جیسے ممالک مقامی زبانوں کے زیادہ ڈومین ناموں کے لیے دبائو بڑھا رہے ہیں‘ پیچیدہ سیاسی سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً چینی زبان کے ورژن پر چین کا حق ہو گا یا تائیوان کا‘ فارسی ورژن ایران سے ہو گا یا افغانستان سے۔ مغربی کمپنیاں جن کا انگریزی ڈومین ناموں پر تسلط ہے‘ خود بخود اس کے بین الاقوامی حقوق حاصل کر لیتی ہیں۔ کیا انہیں عوام کے پاس جانا چاہیے۔ اس جنگ کا نتیجہ یہ تو نہیں ہو گا کہ انسانوں کی ہر تمنا سائبراسپیس میں کھو جائے گی؟ باہم قریب آنے اور خوشحال ہونے والا عمل رُک جائے گا۔
انٹرنیٹ کے یہ تنازعات عالمگیریت کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کے زبردست اثرات ہوں گے۔ انٹرنیٹ کی تقسیم کے نتیجہ میں سرحدوں سے ماورا ہو کر کام کرنے اور دولت کمانے کے لیے امکانات کم ہو جائیں گے۔ گذشتہ ۱۵ برسوں میں لوگوں نے اچانک جو بہت دولت کمائی‘ وہ انٹرنیٹ کی عالمگیریت کی وجہ سے تھی۔ یہ طے ہے کہ انٹرنیٹ کا محور امریکا کو نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ تبدیل ہونا چاہیے لیکن تبدیل ہو کر یہ کیا بنے گا‘ اس کا کسی کو علم نہیں۔ تجارت‘ ثقافت اور رابطوں کے درمیان درست توازن قائم کرنا آسان کام نہیں ہے۔
کیا انٹرنیٹ کے ایڈریس فراہم کرنے والوں کو غیراخلاقی ویب سائٹ کے لیے الگ نام مثلاً ٹرپل ایکس ڈاٹ کام وغیرہ مخصوص کرنا چاہیے؟ انٹرنیٹ کارپوریشن فوراً سائنڈ ٹیم اینڈ نمبرز (آئی سی اے این این) میں یہ معاملہ رکھا گیا تو ووٹنگ کرنا پڑی۔ اس امریکی ادارے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر پال ٹومے نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پانچ کے مقابلے میں نو ووٹوں سے اسے مسترد کیا۔
یورپی یونین اور امریکا میں سائبر جنگ کا آغاز بھی اسی نکتہ سے ہوا۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ امریکا ’’ویب گورننس‘‘ مداخلت کر رہا ہے۔ آئی سی اے این این نے اس الزام کو ناواقفیت پر مبنی اور بے بنیاد قرار دیا۔ واضح رہے کہ آئی سی اے این این امریکی حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ یہ کیلی فورنیا کا ایک گروپ ہے‘ جسے امریکی وزارتِ تجارت کی منظوری سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ ڈومین نیم سسٹم تبدیل کرنے کے لیے اسے امریکی حکومت کی منظوری درکار تھی۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۲۲ جون ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply