
ایران اپنے جوہری منصوبوں‘ عام تباہی پھیلانے والے اسلحوں یا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کی بنا پر جیسا کہ امریکا کا دعویٰ ہے‘ امریکا کے لیے ہرگز کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہاں! مگر یہ امریکا کے لیے خطرہ اس وجہ سے ہے کہ یہ پیٹرو ڈالر کو پیٹرو یورو میں تبدیل کر کے عالمی اقتصادی نظام کو ازسرِ نو تشکیل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طرح کی تبدیلی کو امریکا کے خلاف اقتصادی جنگ کا اعلان تصور کیا جارہا ہے جو امریکی کارپوریشنوں کی آمدنی و نفع کو بڑی حد تک گرانے کا سبب بنے گی اور نتیجتاً امریکی معیشت منہدم ہو جائے گی۔ جون ۲۰۰۴ء میں ایران نے ایک بین الاقوامی آئل ایکسچینج کا ادارہ قائم کرنے کا ارادہ کیا ہے‘ جس میں ڈالر کے بجائے یورو کو بالادستی ملنی ہے۔ بہت سارے تیل پیدا کرنے والے اور تیل خرچ کرنے والے ممالک نے بھی اس آئل ایکسچینج کا خیرمقدم کیا ہے۔ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ آئل ایکسچینج (bourse) ۲۰۰۶ء کے آغاز میں کام کرنا شروع کر دے گا۔ یہ قدرتی بات ہے کہ اس طرح کا آئل بائورز لندن کے انٹرنیشنل پیٹرولیم ایکسچینج (IPE) اور نیو یارک مرکینٹائل ایکسچینج (NYMEX) کے خلاف مقابلے پر ہو گا جو کہ امریکی کارپوریشنوں کی ملکیت ہیں۔ تیل خرچ کرنے والے ممالک کے پاس تیل خریدنے کے لیے امریکی ڈالر کے استعمال کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے‘ اس لیے کہ اس تیل کے ایکسچینج کے لیے درکار عالمی زرِ مبادلہ کے معیار پر ابھی تک ڈالر ہی پورا اترتا ہے۔ یہ مجبوری ان ممالک کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے سینٹرل بینکوں میں ڈالرز بطور ریزرو رکھیں‘ جو یقینی طور سے امریکی معیشت کے استحکام کا سبب ہے۔ لیکن اگر ایران اور اس کی پیروی میں دوسرے تیل پیدا کرنے والے ممالک آئل ایکسچینج ایک دوسری کرنسی یعنی یورو کو قبول کرنے کی پیش کش کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں امریکی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ ہم اس بحران کا ۲۰۰۵ء کے آخر میں اور ۲۰۰۶ء کے آغاز میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ جب تیل کے سرمایہ کاروں کے پاس ایک راستہ یہ ہو گا کہ وہ امریکی NYMEX اور لندن کے IPE میں ایک بیرل تیل کے عوض ۵۷ امریکی ڈالرز ادا کریں گے اور دوسرا راستہ یہ ہو گا کہ وہ ایک بیرل تیل کے عوض ۳۷ یورو ایرانی آئل بائورز میں ادا کریں گے۔ اس طرح کے امکانِ انتخاب سے ڈالر پر انحصار کرنے والے NYMEX اور IPE کے تجارتی حجم میں کافی کمی رونما ہو گی۔ بہت سارے ممالک نے روز افزوں کمزور ہوتے ہوئے پیٹرو ڈالر کی جگہ بتدریج استحکام کی جانب مائل پیٹرو یورو کا آئل ایکسچینج کے لیے عالمی زرِ مبادلہ میں ممکنہ تبدیلی کا جائزہ لیا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی کا سبب امریکی معیشت کا فوجی مصنوعات کے علاوہ باقی مقامی مصنوعات کی پیداوار سے گریز ہے۔ ایک دوسری وجہ خود جنرل سروس سیکٹر پر منحصر رہنا اور باقی امریکی کاموں کی تیسری دنیا میں سستی Outsourcing کرنا ہے۔ ایک تیسری وجہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں ہونے والے عظیم اخراجات میں جو ہنوز جاری ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں نے متزلزل امریکی مارکیٹ سے اپنا سرمایہ نکالنا شروع کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت مزید کم ہوئی ہے۔ Money Market پر ماہرانہ نظر رکھنے والے ۲۰۰۲ء ہی سے امریکی ڈالر میں کمی کا مشاہدہ کر رہے تھے جبکہ یورو کی قوتِ خرید بڑھنا شروع ہوئی تھی اور اس وقت ۳۴ء۱ ڈالر تک ایک یورو کی قیمت جاپہنچی ہے۔ جاپانی ین کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو جہاں ایک ڈالر ۴۵ء۱۰۴ ین کے برابر تھا‘ اس وقت گر کر ۹۰ء۱۰۳ ین کے برابر ہو چکا ہے۔ برطانوی پائونڈ اسٹرلنگ بھی ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہوا جبکہ یہ ۹۱۲۲ء۱ ڈالر سے بڑھ کر ۹۲۷۲ء۱ ڈالر کے برابر ہو گیا۔ اقتصادی رپورٹس جو گذشتہ ماہ (مارچ) کے آغاز میں شائع ہوئی ہیں‘ امریکی معیشت میں گہری ابتری کی جانب نشاندہی کرتی ہیں جبکہ خسارے میں ایک تیز رفتار اضافہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی ۲۰۰۴ء تک یہ خسارہ ۹۰ء۶۶۵ بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ آئندہ صورت حال اس سے بھی بری ہونے والی ہے۔ ان اعداد و شمار نے بین الاقوامی بینکوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بش انتظامیہ کو انتباہ جاری کیا ہے۔
اپنی اقتصادی جنگ میں ایران نے وہی روش اپنائی ہے جو صدام حسین نے اپنائی تھی۔ یعنی جب ۲۰۰۲ء میں صدام نے اپنے تمام ریزرو کو ڈالر کے بجائے یورو میں تبدیل کر لیا تھا اور عراقی تیل کی قیمت کی ادائیگی کا یورو میں مطالبہ کیا تھا۔ بہت سارے ماہرینِ اقتصادیات نے اس وقت صدام کا مذاق اڑایا تھا کیونکہ اس نے زرمبادلہ کی اس تبدیلی کے عمل میں بہت ساری رقم ضائع کی تھی۔ اگرچہ انہیں بہت زیادہ حیران ہونا پڑا جب اس نے اس خسارے کی یورو سے ہونے والے فوائد کے ذریعہ ایک سال کے اندر اندر تلافی کر لی۔ امریکی انتظامیہ اس خطرے کو بھانپ گئی۔ جب بہت سارے ممالک کے سینٹرل بینکوں نے ریزرو برائے آئل ایکسچینج کے طور پر اپنے یہاں ڈالر کے ساتھ ساتھ یورو بھی رکھنا شروع کر دیا۔ (روس اور چین کے سینٹرل بینکوں نے یہ کام ۲۰۰۳ء میں شروع کر دیا)۔
اقتصادی تباہی سے بچنے کی خاطر بش انتظامیہ نے جھوٹے بہانوں کے تحت عراق پر جارحیت اور اس پر قبضہ کرنے میں جلدی کی تاکہ کسی ایسے دوسرے ملک کے لیے اسے عبرت بنا دے جو ڈالر کی قیمت گھٹانے کا دل میں خیال لا رہے ہوں اور تیل کے دوسرے سب سے بڑے ذخائر کو کنٹرول کرنے کے لیے اوپیک کے فیصلوں کو اپنے حق میں کر لے۔ عراقی تیل کی فروخت کو پھر سے پیٹرو ڈالر اسٹینڈرڈ پر واپس لے آیا گیا۔ یورو پر مبنی آئل ایکسچینج نظام کے تعلق سے صرف ایک ٹیکنیکل رکاوٹ ہے اور وہ یہ کہ تیل کی قیمت کے معیار کے طور پر یا آئل ’مارکر‘ میں یورو کا ذکر نہیں جیسا کہ انڈسٹری میں اس کا ذکر ہے۔ موجودہ تین Oil Markers میں امریکی ڈالر مخصوص ہیں‘ جن میں West Texas Intermediate Crude (WTI)‘ Norway Brent Crude اور UAE Dubai Crude شامل ہیں۔ اگرچہ یہ ایران کو ۲۰۰۳ء کے موسمِ بہار سے ایشیا اور یورپ کو کیے جانے والے آئل ایکسپورٹز کی قیمت یورو میں مطالبہ کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ ایران کا پیٹرو یورو کے استعمال کا عزم دوسرے ممالک کی حوصلہ افزائی کا سبب ہوا ہے۔ مثلاً روس اور لاطینی امریکی ممالک جو اس مثال پر عمل کرنے پر آمادہ ہیں۔ حتی کہ یہ سعودی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنا ہے۔ ایسی حالت میں جبکہ امریکی سعودی تعلقات کمزور سے ہو گئے ہیں۔ ایران کا یہ عزم ایک جارحانہ امریکی سیاسی مہم کا سبب بنا ہے۔ ٹھیک انہیں بہانوں کے ساتھ جو عراق کے معاملے میں بنائے گئے تھے‘ یعنی عام تباہی پھیلانے والے اسلحوں کی تیاری کا الزام‘ حزب اﷲ لبنان کے دہشت گردوں کی حمایت اور مشرقِ وسطیٰ کے امن کی کوششوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کیا کرے گی؟ کیا یہ ایران پر حملہ کرے گی‘ جس طرح اس نے عراق میں کیا؟ امریکی افواج عراق کے دلدل میں بری طرح پھنس چکی ہیں‘ اس طرح کہ برطانیہ اور اٹلی کے علاوہ امریکا کو کوئی فوجی راحت بھی نہیں پہنچا رہا ہے۔ چنانچہ ایران کے خلاف کسی جارحیت کا بہت ہی کم امکان ہے۔ ایران عراق نہیں ہے۔ یہ ایک بڑی فوجی قوت ہے۔ اس نے جزیرۂ ابو موسیٰ میں اینٹی شپ میزائل بیس قائم کر رکھی ہے جس سے یہ دَرِ خلیج پر واقع آبنائے ہُرمُز کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران بآسانی آبنائے ہُرمُز کو بند کر سکتا ہے جس کی وجہ سے خلیج سے باقی دنیا کو تیل کی ترسیل بند ہو جائے گی‘ جس کے نتیجے میں تیل کا عالمی بحران پیدا ہو جائے گا۔ تیل کی قیمت سو ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔ امریکا ایران کی موجودہ حکومت کو ۱۹۵۳ء کی مصدق حکومت کی طرح ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے جبکہ ایرانی اس طرح کی چالوں سے اب پوری طرح ہوشیار ہیں۔ علاوہ ازیں ایرانی اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک طرح کے فوجی افتخار و عظمت کا احساس رکھتے ہیں۔ امریکا اپنی ناجائز فوجی اولاد اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے کہ وہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کرے جیسا کہ اس نے عراق میں کیا تھا۔ فاش ہو جانے والی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیلی فوج اس طرح کے حملوں کی تیاری کر رہی ہے اور یہ حملے آئندہ جون میں متوقع ہیں۔ اسرائیل ایرانی بم سے خوف زدہ ہے۔ اس لیے کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی بالادستی کا خاتمہ کر دے گا۔ ایران نے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ روپے خرچ کیے ہیں اور بہت زیادہ کوششیں کی ہیں اور یہ اس سے کبھی دستبردار نہیں ہو گا جیسا کہ اس کے سیاسی بیانات سے واضح ہوتا ہے۔ عراق کے برعکس ایران خاموش نہیں رہے گا اگر اسرائیل اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو ایران انتہائی جارحانہ انداز میں ردِعمل دکھائے گا‘ جس سے مشرقِ وسطیٰ کا پورا خطہ بشمول اسرائیل‘ تمام خلیجی ممالک‘ عراق حتیٰ کہ افغانستان زیر و زبر ہو کر رہ جائے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔ ۵ اپریل ۲۰۰۵ء)ِْ
Leave a Reply