مسلم دنیا کے باشندوں کی اچھی خاصی تعداد ترکی کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اور اس کے قائد رجب طیب ایردوان کے سحر میں گرفتار ہے۔ طیب ایردوان کی یہ کامیابی کسی بھی اعتبار سے نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں کہ ان کی قیادت میں اے کے پی نے تین بار عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے اور اسے ترک عوام کی واضح اکثریت نے اپنے بھرپور اعتماد سے نوازا ہے۔ اسلامی دنیا کو ایک متحرک اور پرعزم قائد کی ضرورت ہے اور ترکی سے باہر اس حوالے سے ایردوان کو چاہنے اور احترام کی نظر سے دیکھنے والوں کی تعداد کم نہیں۔ اس حوالے سے ولولے کو پرکھنے اور چند حقائق پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
جنوری ۲۰۰۹ء میں رجب طیب ایردوان اور اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے درمیان ڈیووس (سوئٹزر لینڈ) میں عالمی اقتصادی فورم کے دوران غزہ میں مسلمانوں کے قتل عام پر جھڑپ ہوئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایردوان اسلامی دنیا کے نِڈر لیڈر کی حیثیت سے اُبھرے۔ قابل اعتبار اور دباؤ سے مبرٰی قائد کی عدم موجودگی نے ایردوان کو عرب مسلمانوں کی پسندیدہ شخصیت بنادیا۔ مسلم دنیا کے دیگر حصوں میں اردگان کو ایک ایسے قائد کے روپ میں دیکھا جانے لگا جو صہیونیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
ڈیووس میں اسرائیلی صدر سے جھڑپ کے بعد ایردوان وطن لوٹے تو ان کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔ اس کے بعد ایردوان نے مغرب کی اجارہ پسند قوتوں کے خلاف کھل کر بولنا شروع کیا۔ اس روش پر گامزن ہونے سے ان کی شخصیت مزید مسحور کن ہوگئی۔ مغرب کے خلاف بولنا بھی مستحسن ٹھہرا، مگر مسلمانوں کی نظر میں ایردوان کو غیرمعمولی وقعت بخشنے والا فیکٹر فلسطینیوں کے کاز کے لیے ان کی غیرمعمولی اور جرات مندانہ حمایت ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایردوان کا اُبھرنا اسلامی دنیا کے لیے ایک بڑے اثاثے کا درجہ رکھتا تھا اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اسرائیلیوں کے مظالم کے بارے میں تو ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور دیگر حکام بھی بہت کچھ بولتے رہتے ہیں۔ تو پھر ایردوان کی باتوں میں ایسا خاص کیا ہے، اس کا جائزہ ہمیں لینا پڑے گا۔ اگر حقیقت پسندی سے اور تعقیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اسرائیل کے خلاف ایردوان کا جارحانہ رویہ اور اسرائیل سے متعلق ترک پالیسی کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ اور ترکی کے لیے غزہ کے فلسطینیوں کا معاملہ بہت حد تک خارجہ پالیسی سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسری طرف اسلامی ایران کے لیے یہ مسلمانوں کی سیاسی شناخت کا مسئلہ ہے۔
اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو اسی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ ایران کے پاس اسرائیل کے خلاف اس قدر جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں۔ اسرائیل یا اس کے مربی امریکا کے ساتھ ایران کا کوئی سرحدی تنازع ہے نہ اقتصادی قضیہ پایا جاتا ہے۔ اگر ایران چاہتا تو ’’حقیقت پسندی‘‘ کے نام پر اسرائیل سے کوئی خفیہ معاہدہ کرلیتا اور فلسطینیوں کی پیٹھ میں ہزار طریقوں سے چھرا گھونپ سکتا تھا۔ اگر ایران چاہتا تو مِصر اور دیگر عرب ممالک کی طرح فلسطینیوں کی تمام تکالیف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے عالمی استعماری قوتوں سے گٹھ جوڑ کرلیتا اور مرضی کے فوائد بٹور لیتا۔ ایران اگر فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو جواز بناکر اسرائیل کی مخالفت کرتا ہے اور اس کی پاداش میں کبھی کبھی شدید عواقب بھی بھگتتا ہے تو اس کا محرک صرف ایک ہے۔۔ اسلامی فریضہ۔
ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور اس سے تجارتی روابط بھی استوار ہیں۔ دوسری طرف ایران نے نہ صرف یہ کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس نے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو کسی بھی سطح پر قبول نہیں کیا۔ ایردوان نے غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان بھیجا جبکہ ایران فلسطینیوں کے کاز کی براہ راست حمایت کرتا ہے جس سے اسرائیلی قبضے کی جڑ کٹتی ہے۔
ایسے میں ایک منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایرانی قیادت کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہ کرنے والے ایردوان کو مغربی میڈیا بہت حد تک مثبت تاثر کے ساتھ کیوں پیش کرتا ہے؟ اس سوال پر بحث کرنے سے قبل سادہ لوحی پر مبنی یہ رائے مسترد کرنا ضروری ہے کہ مغرب کی نظر میں اے کے پی کی حمایت اس لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ جمہوری ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مغرب اسلامی دنیا میں آمروں کو گلے لگاتا ہے اور دوسری طرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی، آزادی کے سلب کیے جانے اور انصاف کی فراہمی کا اہتمام نہ کرنے عمل کو کسی بھی سطح پر مذمت کے قابل نہیں گردانتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اور بالخصوص امریکا نے مشرق وسطیٰ کے بیشتر آمروں کو اس امر کی کھلی چھوٹ دی ہے کہ اپنے لوگوں کو بے رحمی سے کچلیں۔
منطقی جواب یہ ہے کہ مغربی دنیا نے ترکی کو اِس لیے اُبھرنے کا موقع دیا ہے کہ حماس، حزب اللہ اور سب سے بڑھ کر ایران کی طاقت کو دبایا جاسکے اور خاص طور پر اس حقیقت کے تناظر میں کہ مغرب کے توسیع پسندانہ عزائم اور اسٹریٹجک مفادات کی راہ میں ایران ایک بڑی دیوار ہے۔
ترکی میں اے کے پی پروجیکٹ کے لیے مغرب کی غیرمعمولی حمایت کے حوالے سے ایک بڑا المیہ یہ ہوگا کہ اے کے پی یہ سمجھے کہ شیطان عظیم (امریکا) کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بعد بھی وہ امریکا کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گی! جو فریق کھیل کے اصول مرتب کرتا ہو اور جس کے ہاتھوں کا کھلونا بننے پر اکتفا کرلیا جائے اسے شکست دینا ممکن نہیں۔
ترکی کی مسلم سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو بڑی آسانی سے یہ یقین دلایا جاسکتا ہے کہ علاقائی سلامتی سے متعلق چند امور میں امریکا کی ہم نوائی سے وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ اگر ترک سیاسی قیادت کو امریکا نے ایران، حماس اور حزب اللہ کی قوت گھٹانے میں معاونت پر آمادہ کرلیا تو ترکی ایک اور سعودی عرب میں تبدیل ہو جائے گا۔ ایسی کسی بھی روش پر گامزن ہونے سے نہ صرف یہ کہ اسلامی دنیا میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھے گی بلکہ عرب ترک اختلافات بھی رونما ہوں گے۔ اگر اے کے پی ایسی کسی بھی غلطی کے ارتکاب سے خود کو دور رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ اسلامی دنیا کے لیے اس کی بڑی خدمت ہوگی۔ شام میں مغرب کی ایماء پر برپا کی جانے والی بد امنی کے معاملے میں ترک قیادت کا رویہ کچھ زیادہ خوش آئند نہیں۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ایردوان کی طلسماتی قیادت میں ترکی اس بلنڈر کے ارتکاب سے باز رہے گا۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’کریسنٹ انٹرنیشنل‘‘ کینیڈا۔ ستمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply