
سٹیلائٹ چینلوں نے محض زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس میں ملک کا اخلاق کس قدر خراب کر دیا ہے اس کا اندازہ صرف اس چھوٹی سی مثال سے کیا جاسکتا ہے اسٹار نیٹ ورک کے یہودی مالک روپرٹ مرڈوک کے اسٹار پلس چینل کے مخرب اخلاق ریالٹی شو ’سچ کا سامنا‘ کے لیے ان سطروں کے تحریر کیے جانے تک ۱۵ ہزار سے زائد افراد نے اپنا نام درج کروایا ہے۔ یعنی ان لوگوں کو محض چند ٹکوں اور ٹی وی اسکرین پر آنے کے لیے اپنی نجی زندگی کے تاریک پہلوئوں کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ پیش کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ یہ طوفان بے حیائی ملک کو کہاں لے جائے گا اسے کہنے کی ضرورت نہیں۔ خود دارالحکومت نئی دہلی میں ایک نوجوان شوہر اپنی بیوی کے سچ کا سامنا نہیں کر سکا اور اپنے گلے میں پھندا لگا لیا۔
اس وقت تقریباً ایک درجن سٹیلائٹ چینلوں پر مختلف نوعیت کے ریالٹی شوز دکھائے جارہے ہیں جس میں اخلاق باختگی کے ایسے بدترین مظاہرے دیکھنے میں آرہے ہیں کہ الامان الحفیظ! ان شوز کے اینکر سے لے کر شرکاء تمام کے تمام جنسی ہیجان میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ جس نے نوجوان نسل کو سنگین اخلاقی بحران اور جنسی بے راہ روی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایک چینل ’بنداس‘ کے نام سے چل رہا ہے۔ ممبئی کی سوقیانہ زبان ’بنداس‘ کے معنی کسی بھی حد تک کر گزر جانے کی ہمت رکھنا ہے۔ یہ چینل اسمیٰ باسمیٰ ہے۔ اس چینل پر نوجوانوں کے لیے ایک ریالٹی شو ’دادا گیری‘ کے نام سے دکھایا جارہا ہے۔ اس شو میں حصہ لے رہی ایک ۲۲ سالہ لڑکی فیروزہ فرمان خان کہتی ہے ’’پیسہ اور شہرت یہی سب کچھ اس کے لیے زندگی میں معنیٰ رکھتے ہیں اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے‘‘۔ موسیقی کے ایک چینل ایم ٹی وی نے بھی ایک ریالٹی شو‘ روڈیز (Roadies) کے نام سے شروع کر رکھا جس میں ۱۵ تا ۲۴ سال کے لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے پر رکیک حملے کرتے ہیں اور غیرقانونی کام انجام دیتے ہیں۔ یہ پروگرام نوجوانوں میں بڑا مقبول ہو رہا ہے۔ کیوں نہ ہو جب اس میں اخلاقی باختگی اور جنسی بے ہودگی کا سارا سامان موجود ہے۔ مگر ان چینلوں کے کرتا دھرتا لوگوں کو اس پر ذرہ برابر بھی ملال نہیں ہیں وہ بڑی ڈھٹائی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ ایم ٹی وی کے جنرل منیجر اشیش پال کہتے ہیں: زمانہ بدل چکا ہے اب ٹی وی کے مضر اثرات اور اخلاقی قدروں کے انحطاط پر گریہ زاری کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمارا ہدف ۱۵ تا ۲۴ سال کے نوجوان ہیں جنہیں ہر چیز جلد متاثر کرتی ہے۔ ایسے ناظرین کی تعداد ۳۰ کروڑ سے زائد ہے جو امریکا اور جاپان کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ ایم ٹی وی کے ریسرچ ڈویژن نے سروے کروایا تھا کہ نوجوان نسل کیا دیکھنا چاہتی ہے جس سے پتا چلا کہ وہ شتر بے مہار آزادی چاہتی ہے۔
آج سیٹلائٹ چینلوں کی فحش یلغار سے کوئی گھر‘ کوئی خاندان محفوظ نہیں ہے۔ ہندوستان میں ۱۹۹۰ء میں اسٹار اور زی نیٹ ورک کے ذریعہ سٹیلائٹ چینلوں کا آغاز ہوا۔ آج ان کی تعداد ۳۵۰ سے زیادہ ہو گئی ہے جبکہ مزید دو ڈھائی سو نئے چینلز کے لیے درخواست وزارت اطلاعات و نشریات میں زیر غور ہیں۔ دراصل نیا چینل قائم کرنا ایک پرکشش بزنس بن گیا ہے کیونکہ اشتہاری مارکیٹ کی سالانہ مالیت تقریباً دس ہزار کروڑ روپے ہے اور ہر چینل چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اشتہارات حاصل کرے۔ اس کے لیے ہر چینل کو TRP (ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ) زیادہ سے زیادہ حاصل کرنی پڑتی ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ان کے چینل کو زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں۔ اسی بنیاد پر اشتہاری ایجنسیاں اشتہار تقسیم کرتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ٹی آر پی حاصل کرنے کی اسی اندھی دوڑ میں یہ چینل تمام اخلاقی قیود کو بڑی ڈھٹائی سے توڑ رہے ہیں اور ان کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس کا دفاع وہ یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو تفریح کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔ اگر یہ کسی کو پسند نہیں ہیں تو وہ نہ دیکھیں۔ جیسا کہ دہلی ہائی کورٹ نے سچ کا سامنا کے خلاف ایک مفاد عام کی عرضداشت کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ پروگرام کسی کو معیوب لگتا ہے تو وہ اپنا ٹی وی بند کر دے اس لیے کہ عدالت کا کام اخلاقی پولیس کا نہیں ہے‘‘۔
آج سے تقریباً دو دہائی قبل ناظرین کے پاس اپنی پسند کے پروگرام دیکھنے کا آپشن نہیں تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ریموٹ کنٹرول دبائیے اور اپنی پسند کا کوئی بھی پروگرام دیکھیے۔ آپ کو بے شرمی اور بے حیائی کے ایک سے بڑھ کر ایک نمونے مل جائیں گے۔ اب ریالٹی کے نام پر نئے شو شروع کیے گئے جو اخلاق باختگی کے بدترین مظاہر ہیں۔ سات سال قبل ان شو کا کوئی وجود نہیں تھا۔ لیکن مغربی بالخصوص امریکی چینلوں کی اندھا دھند نقالی میں اب یہ ایک وبا کی طرح پھیلتے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے سونی چینل نے انڈین آئیڈل اور نچ بلئے کے نام سے ریالٹی شو شروع کیے۔ ان کے نام سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کس قدر واہیات پروگرام تھے، جو ناچنے اور گانے کے تھے۔ آج اسٹار پلس کے سچ کا سامنا‘ سونی کے اس جنگل سے مجھے بچائو‘ این ڈی ٹی وی امچن کے راکھی کا سوئمبر‘ بندھاس چینل کا دادا گیری وغیرہ شو چل رہے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال شروع ہوا نیا چینل جو گروپ ۱۸ نیٹ ورک سے تعلق رکھتا ہے نے ایک برطانوی چینل کے پروگرام‘ بگ برادر‘ کے طرز پر بگ باس‘ شروع کیا تھا اب وہ ۱۰۰% کے نام سے نیا شو شروع کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایک اور شو ’’خطروں کے کھلاڑی‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شروع کر رہا ہے۔ یہ تمام شو امریکی چینلوں کی نقل ہیں شکر ہے کہ ابھی تک ‘Temptation Island’ یا جنسی تسکین کا مسکن‘ اس امریکی شو کی ملک میں نقل نہیں کی گئی جو بے حیائی کا بدترین نمونہ ہے۔ ریالٹی شو کی اس نئی لہر پر ماہرین سماجیات متفکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تفریح کے نام پر ٹی وی چینلوں نے معاشرہ کو جنس زدہ بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں عصمت دری اور جنسی جرائم کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ماہرین سماجیات پروفیسر شیخ نجم الدین کہتے ہیں کہ ٹی وی ایک صحتمند معاشرہ کی تشکیل میں کردار ادا کر سکتا ہے لیکن اس سے منفی مقاصد کے لیے کام لیا جارہا ہے جس سے نہ صرف نوجوان نسل کا اخلاق تباہ ہو رہا ہے بلکہ ان کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ مگر چینل کے ذمہ داران اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ سونی چینل کے مارکیٹنگ شعبہ کے سربراہ دانش خان کہتے ہیں کہ انڈین ناظرین اب ہر طرح کے پروگرام کا لطف لینا چاہتے ہیں اور ہم یہ عیش فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ سچ کا سامنا کے پروڈیوسر سدھارتھ باسویہ عجیب و غریب منطق پیش کرتے ہیں کہ اس شو میں پیش ہو کر کئی افراد اعتراف گناہ کر کے خود کو ہلکا محسوس کرتے ہیں۔ اس شو میں کس طرح کے سوالات پوچھے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں: ایک مخشی اداکار سے سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ خواتین کا ٹائیلٹ استعمال کرتا ہے یا مردوں کا؟ ایک خاتون سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا شادی سے پہلے اس نے اپنے بوائے فرینڈ سے جسمانی رشتے قائم کیے ہیں۔ ایک معمر شخص سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اس نے کسی کم عمر کی لڑکی کے ساتھ۔۔۔ کیا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان پروگراموں کی کامیابی کے بارے میں مختلف توضیحات پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم وجہ شہوانی جذبات کو ابھارنا ہے۔ ان پروگراموں میں کام کرنے والی لڑکیاں اور خواتین زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ ان کا لباس عریانیت کی تمام حدوں کو پار کر گیا۔
ریالٹی شو کے علاوہ ان چینلوں پر جو پروگرام دکھائے جارہے ہیں ان میں مار دھاڑ‘ تشدد‘ جنسی جرائم‘ کے علاوہ سماجی موضوعات‘ جیسے کم سنی کی شادی‘ بالیکا ودھو‘ دختر کشی (نا آنا اس دیس) وغیرہ دکھائے جارہے ہیں۔ لیکن ان تمام پروگراموں میں اخلاقی باختگی کے علاوہ ضعیف الاعتقادی‘ توہم پرستی اور ذات پات عصبیت اور طبقاتی تفوق کو فروغ دیا جاتا ہے۔ بعض ارکان پارلیمان نے اس کے خلاف ایوان میں آواز بلند کی لیکن نقار خانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ جب کہ حکمران خود چاہتے ہیں کہ عوام لہو و لعب میں مبتلا رہیں تاکہ ان کی توجہ روز مرہ کے مسائل کی طرف نہ جائے۔
اس طرح ان چینلوں کو تفریح کے نام پر جو چاہے وہ کرنے کی آزادی ملی ہوئی ہے۔ وہ پورے زور شور کے ساتھ اس پر عمل کر رہے ہیں۔ ایک اقتصادی روزنامہ منٹ (Mint) کے مطابق ٹی وی چینل ایک پرکشش انڈسٹری ہے۔ ہندی کے نام سے چلائے جارہے ان چینلوں کی اصلی زبان اردو ہوتی ہے۔ ان چینلوں نے کاروباری لحاظ سے ان پروگراموں کی تیاری اور مارکیٹنگ پر زبردست پیسہ خرچ کیا ہے۔ جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ۵۰ فیصد زیادہ ہے۔ یہ پیسہ وہ اشتہارات کی شکل میں واپس حاصل کر سکتے ہیں۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی جن مصنوعات کا اشتہار دیتی ہیں اس کی رقم کو اپنے پراڈکٹ کی لاگت میں شامل کرتی ہیں اسی طرح اشتہاری انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق لاگت کی ۳۰ تا ۴۰ فیصد رقم اشتہار پر خرچ ہونے والی رقم ہوتی ہے۔ یعنی جو صارفین ان چینلوں کو نہیں دیکھتے ہیں ان جیسوں پر یہ بالواسطہ بوجھ پڑتا ہے۔ اور کولڈ ڈرنک‘ پیپسی یا کوکا کولا کی مثال لیں۔ اس کی ایک بوتل کی لاگت مشکل سے دو روپے ہوتی ہے لیکن اشتہار کی رقم اس کی قیمت میں شامل کر دی جائے تو مہنگائی بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ اس بے حیائی کے سیلاب پر اگر بندھ باندھنے کی فوراً کوشش نہیں کی گئی تو ہندوستانی معاشرہ کا بھی وہی حال ہو گا جو آج مغربی معاشرے کا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جرم قرار نہ دینا‘ اس کے خلاف جانے سے حکومت کا تردد‘ کس بات کی غمازی کرتا ہے۔
(بحوالہ: ماہنامہ ’’افکار ملی‘‘ لکھنؤ۔ ستمبر ۲۰۰۹ء)
Leave a Reply