یہ ایک واضح امر ہے کہ دنیا میں خارق العادت افعال وقوع پذیر ہوتے ہیں اور لوگ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں یا پھر ان کے بارے میں مطلع ہوتے ہیں اور ہم میں سے بہت ہی کم ایسے افراد ہوں گے جنہوں نے نہ تو کسی خارق العادت امر کا مشاہدہ کیا ہو یا اس سے مطلع نہ ہوئے ہوں۔ بلکہ حقیقتِ امر یہ ہے کہ ہر شخص اس کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے۔۔۔ تاہم ان افعال۔۔ ۔ خارق العادت اُمور۔۔۔ کے سلسلے میں مکمل تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ:
۱) ان میں سے اکثر افعال کے اسباب طبیعی و عادی ہیں یعنی خارق العادت ہونے کے باوجود ان کے اسباب ’’طبیعت‘‘ اور ’’عادت‘‘ کے دائرے سے خارج نہیں، چنانچہ ان افعال میں کئی ایسے ہیں جو ’’عادت‘‘ اور بار بار انجام دینے (مشق) کی وجہ سے انجام پذیر ہوتے ہیں مثلاً زہر۔۔۔ یا زہریلی چیزوں۔۔۔ کا کھانا، غیرمعمولی بھاری چیزیں اٹھا لینا، فضا میں لٹکی ہوئی رسی پر چلنا وغیرہ، تو یہ سب کام ایسے ہیں جن کا انجام دینا عام طور پر آسان نہیں لیکن کچھ لوگ اپنی مضبوط مشق اور بار بار انجام دے کر تجربہ حاصل کرنے کی وجہ سے آسانی کے ساتھ انہیں انجام دیتے ہیں۔
۲) ان میں سے کچھ افعال ایسے ہیں جو بظاہر غیرمعمولی یا خارق العادت معلوم ہوتے ہیں جبکہ ان کے اسباب عام لوگوں سے مخفی ہوتے ہیں اور عام لوگ ان اسباب سے آگاہ نہیں ہوتے مثلاً آگ میں کود جانا، کچھ لوگ جلتی ہوئی آگ میں کود جاتے ہیں مگر آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے ان پر اثرانداز نہیں ہوتے کیونکہ انھوں نے اپنے بدن پر ایسا تیل لگایا ہوتا ہے جس کی وجہ سے آگ بدن پر اثر نہیں کرتی، اسی طرح کچھ لوگ سفید کاغذ پر کچھ لکھتے ہیں جس کے ظاہری نشان کاغذ پر نظر نہیں آتے اور جسے لکھنے والے شخص کے علاوہ کوئی نہیں پڑھ سکتا، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسے ایسے بے رنگ مائع سے لکھا جاتا ہے جو اسی صورت میں الفاظ کو ظاہر کرتا ہے جب اسے آگ کے سامنے لایا جائے تو عام لوگ اس راز سے بے خبر ہوتے ہیں۔
۳) ان میں سے کچھ افعال ایسے ہیں جو ہاتھ کی صفائی اور بھرپور مہارت و ہوشیاری کی وجہ سے انجام پاتے ہیں اور انجام دینے والا شخص اس قدر سرعت و تیزی کے ساتھ کام کرتا ہے کہ دیکھنے والا شخص یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ کام کسی طبیعی اور معمولی سبب کے بغیر انجام پذیر ہوا ہے۔ جبکہ حقیقتِ امر یہ ہوتی ہے کہ دیکھنے والا اس کے سبب کو دیکھ نہیں پاتا ورنہ اس میں کوئی غیرطبیعی سبب کارفرما نہیں ہوتا جیسا کہ شعبدہ بازی کرنے والے حضرات غیرمعمولی کام انجام دیتے ہیں اور ان کے خارق العادت افعال کے اسباب بظاہر نظر نہیں آتے لیکن وہ سب کام اپنے طبیعی اسباب ہی سے انجام پاتے ہیں۔
۴) ان خارق العادت افعال میں سے کچھ افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں طبیعی و عادی اسباب کا مرہونِ منت قرار نہیں دیا جاسکتا مثلاً غیب کی خبریں دینا بالخصوص مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیشگوئی، یا دو آدمیوں کے درمیان محبت یا دشمنی پیدا کرنا، گرہیں کھولنا اور باندھنا، کسی پر نیند طاری کر دینا، کسی کو بیماری میں مبتلا کر دینا، روحوں کو حاضر کرنا اور مضبوط ارادے کے ساتھ کسی چیز کو حرکت میں لانا اور ان جیسے دیگر افعال کہ جو ریاضت کرنے والے افراد انجام دیتے ہیں کہ ان میں سے بعض افعال کو ہم نے خود بھی دیکھا ہے اور بعض افعال کے بارے میں ہمیں باوثوق و معتبر ذرائع سے بتایا گیا ہے، ایسے افعال انجام دینے والے اکثر حضرات آج بھی ہندوستان، ایران اور بعض مغربی ممالک میں پائے جاتے ہیں اور کوئی تحقیق اور غور و فکر کی جائے کہ جن کے سبب سے وہ۔۔۔ خارق العادت و غیرمعمولی۔۔۔ افعال انجام پذیر ہوتے ہیں اور ریاضت کرنے والے افراد کے ان محیرالعقول کارناموں اور ان کے مضبوط ارادوں کے بارے میں عملی تجربات کی روشنی میں دکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ سب کچھ قوتِ ارادہ اور اس کی تاثیر پر ٹھوس اعتقاد کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے یعنی ان تمام خارق العادت و غیرمعمولی افعال کا سرچشمہ، ارادہ کی مضبوطی اور اس کی اثر آفرینی پر بھرپور ایمان ہے اور وہ اس طرح کہ پہلے کسی چیز کے وقوع پذیر ہونے کا علم و یقین حاصل ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد اس کے بارے میں ارادہ کیا جاتا ہے اور وہ ’’ارادہ‘‘ اسی علم و یقین کی بنیاد پر اپنا اثر ظاہر کرتا ہے، البتہ تمام موارد ایک جیسے نہیں ہوتے بعض موارد میں ارادے کے ساتھ کسی قسم کی کوئی قید و شرط نہیں ہوتی جبکہ بعض میں مخصوص شرائط موجود ہوتی ہیں مثلاً دوستی یا دشمنی پیدا کرنے کے لیے مخصوص الفاظ کو خاص قسم کی چیز پر خاص قسم کی سیاہی یا پنسل سے لکھنا، یا روحوں کو حاضر کرنے کے لیے کسی مخصوص صفات کے حامل بچے کے سامنے آئینہ رکھ دینا، یا مخصوص تعویذات اور ورد وغیرہ کا پڑھنا، تو یہ سب کچھ ارادہ کی تاثیر کے مخصوص حالات اور شرائط ہیں جن کی وجہ سے خارق العادت اور غیرمعمولی افعال انجام پذیر ہوتے ہیں، بنا بریں جب کسی چیز کے بارے میں علم و یقین حاصل ہو جائے تو اس سے حواس کو ایسی قوت مل جاتی ہے جس سے انسان اس چیز کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے اور وہ چیز جس کے بارے میں علم و یقین حاصل ہوا تھا، اپنی مجسم صورت میں انسان کے سامنے آجاتی ہے، آپ خود بھی اس کو آزما سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ آپ پہلے اپنے آپ سے کہیں کہ فلاں چیز یا فلاں شخص میرے سامنے موجود ہے اور میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور اس بات کی بابت اپنے آپ کو اچھی طرح سمجھائیں، پھر عالمِ خیال میں اس طرح اس کا تصور کریں کہ اس کے بارے میں کسی طرح کا شک و شبہ باقی نہ رہے یعنی اس کے موجود نہ ہونے کا شائبہ تک نہ پایا جائے بلکہ اس کے موجود ہونے اور سامنے قرار پانے کا پختہ یقین کر لیں تو آپ اسی طرح محسوس کریں گے کہ وہ آپ کے سامنے ہے اور جس طرح سے آپ بعض حکما و اطبا اپنے مریضوں کا علاج اسی طریقہ سے کرتے تھے یعنی مریض کو صحت یابی کا اس طرح یقین دلاتے تھے کہ پھر وہ صحیح معنی میں صحت مند ہو جاتا تھا۔ لہٰذا جب یہ سب کچھ ممکن ہے اور وقوع پذیر ہو چکا ہے تو پھر یہ بات بھی خارج از امکان نہ ہو گی کہ اگر ارادہ قوی ہو تو جس طرح اس کا اثر ارادہ کرنے والے پر ظاہر ہوتا ہے اس طرح سے دوسروں پر بھی ظاہر ہو خواہ کسی مخصوص شرائط اور حالات کے ساتھ ہو یا ان کے بغیر ہو یعنی ارادہ کی تاثیر میں مخصوص حالات و شرائط کارفرما ہوں یا نہ ہوں۔
مذکورہ بالا مطالب سے جو اہم نکات واضح ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:
پہلا نکتہ۔ قوتِ ارادہ کی اثر آفرینی میں یہ معیار ملحوظ ہو گا کہ خارق العادت کام انجام دینے والے شخص کو اس چیز کے بارے میں علم و یقین حاصل ہو جو اس کے مدنظر ہے لیکن یہ ضروری نیہں کہ اس کا یہ علم و یقین اصل حقیقت کے مطابق بھی ہو مثلاً جو لوگ ستاروں کو مسخر کرتے ہیں، وہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ آسمانی تاروں کے ساتھ کچھ روحیں وابستہ ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ تو عین ممکن ہے کہ ان حضرات کا یہ نظریہ اصل حقیقت سے مطابقت نہ رکھتا ہو لیکن چونکہ وہ اس کی بابت اپنے تئیں علم و یقین رکھتے ہیں، اس لیے ان کا ارادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا کہ روحانی علوم کے ماہرین اور عملیات و اوراد کرنے والے حضرات جن مخصوص فرشتوں اور شیاطین کے ناموں کے ذریعے اپنے مخصوص انداز میں دعائیں اور عملیات کرتے ہیں، وہ بھی اسی زمرے میں ہوں (یعنی جس طرح ستاروں کی تسخیر کرنے والے حضرات مفروضہ روحوں کی ستاروں کے ساتھ وابستگی کا نظریہ قائم کرتے ہوں) روحوں کو حاضر کرنے والے حضرات کا نظریہ بھی ایسا ہی ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ روحوں کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں جبکہ ان کے پاس سوائے اس کے اور کوئی دلیل ثبوت ہی نہیں کہ یہ روحیں ان کے عالمِ خیال یا عالمِ حِس میں حاضر ہوتی ہیں (یعنی ان کا دعویٰ ہی ان کی دلیل ہے ورنہ اس کے علاوہ کوئی دلیل موجود نہیں) تو اَب دیکھنا یہ ہے کہ آیا واقعتا کچھ روحیں ایسی ہیں جو ان کے سامنے ہوتی ہیں اور وہ انھیں دیکھتے ہیں یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ اگر ان کی بات صحیح ہوتی تو یقینا ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی روحوں کا مشاہدہ کر سکتے کیونکہ ہر شخص عالم خیال و عالم حِس رکھتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف چند افراد کے عالمِ حِس ہی میں روحیں جلوہ فگن ہو سکیں۔ لہٰذا یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ایسے افراد بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جن کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں یعنی ستاروں کی تسخیر کرنے والے وغیرہ، بنابریں روحوں کے حاضر کرنے کی بابت یہ چار شبہات و غلط فہمیاں بھی دور ہو جاتی ہین:
۱۔ بعض اوقات لوگ اس شخص کی روح کو حاضر۔۔۔ کرنے کا دعویٰ۔۔۔ کرتے ہیں جو زندہ ہے اور اپنے کام میں مصروف ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کی روح کو کسی جگہ حاضر کیا گیا ہے، حالانکہ ہر انسان کی ایک ہی روح ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ زندہ ہے، نہ یہ کہ ایک روح اس کے ساتھ رہتی ہے اور دوسری کو کسی جگہ حاضر کیا جاسکتا ہے۔
۲۔ کہا جاتا ہے کہ روح تو مجردات میں سے ہے اور زمان و مکان سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں لہٰذا اسے کسی خاص جگہ حاضر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۳۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ہی شخص کی روح دو مختلف افراد کے سامنے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔
۴۔ کہا جاتا ہے کہ جو روحیں حاضر ہوتی ہیں، وہ یا جھوٹی خبریں دیتی ہیں یا پھر ایک دوسرے کی تکذیب کرتی ہیں۔
بہرحال یہ چار قسم کے شبہات۔۔۔ غلط فہمیاں۔۔۔ روح کے احضار کی بابت موجود ہیں لیکن ان سب کا جواب ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ روح صرف اسی شخص کے عالم خیال و حِس میں ظاہر ہوتی ہے جو اسے حاضر کرنے کا عمل کرتا ہے نہ یہ کہ وہ (روح) عام مادی اشیا کی طرح ظاہر بظاہر ہمارے مشاہدہ میں آنے والی چیزوں کی مانند ہے کہ جسے ہم اپنی حِسی قوتوں کے ذریعے دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں (کیونکہ اگر روح، عام مادی اشیا کی مانند ہوتی تو ہر شخص اسے محسوس یا اس کا مشاہدہ کر سکتا جبکہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ صرف اسی شخص کے عالم خیال و حِس میں آتی ہے جو اسے حاضر کرنے کا عمل کرتا ہے اور اس کے حاضر ہونے کے مخصوص حالات و شرائط وہی ہیں جو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں)۔
دوسرا نکتہ۔ اپنے مضبوط و قوی ارادہ کی بنیاد پر خارق العادت۔۔۔ غیرمعمولی۔۔۔ کام انجام دینے والا شخص یا تو اپنے ارادے میں اپنی ہی روحانی قوت کا سہارا لے گا جیسا کہ ریاضتیں کرنے والے اکثر افراد کا معمول ہے۔ تو لامحالہ اس کی قوتِ ارادہ اور اس کی اثر آفرینی محدود ہو گی اور یا وہ اپنے ارادے میں اپنے پروردگار۔۔۔ خدائے متعال۔۔۔ کی ذات کا سہارا لے گا جیسا کہ انبیا و اولیاے الٰہی اور خدا کے نیک و صالح صاحبانِ یقین کا معمول ہے کہ وہ جس چیز کا ارادہ کرتے ہیں، وہ صرف خدا کے لیے اور خدا ہی کی مدد و سہارے پر چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کسی چیز کا ارادہ کرتے ہی نہیں۔ اس لیے ان کا ارادہ خدائی ارادہ کہلاتا ہے جو کہ نہ محدود ہے اور نہ مقید۔ اور یہ ارادہ اس قدر پاک و پاکیزہ ہے کہ اس میں کوئی نفسانی قوت کارفرما نہیں ہوتی بلکہ جس ’’نفس‘‘ سے یہ صادر ہوتا ہے، اسے اس پر کسی طرح کا کنٹرول نہیں ہوتا اور وہ صرف ذاتِ حقِ تعالیٰ کے سہارے پر قائم ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے ربانی ارادہ سے موسوم کیا جاسکتا ہے لہٰذا اگر وہ تحدی یعنی مخالفین کی طرف سے چیلنج کے مقام میں اپنی اثر آفرینی کرے جیسا کہ اکثر انبیا علیہم السلام کی بابت منقول ہے تو اس کا اثر ’’معجزہ‘‘ کہلاتا ہے اور اگر ’’تحدی‘‘ کے مقام میں نہ ہو تو اسے کرامت یا استجابت دعا۔۔۔ جبکہ دعا بھی اس کے ساتھ ہو۔۔۔ کہلاتا ہے، لیکن پہلی قسم والا ارادہ کہ جس میں ارادہ کرنے والا شخص صرف اپنی روحانی قوت کا سہارا لیتا ہے نہ کہ خدا کا، تو اگر اس کا اثر۔۔۔ اور عمل۔۔۔ جن یا روح وغیرہ کی مدد سے ظاہر ہو تو اسے اصطلاح میں ’’کہانت‘‘ کہا جاتا ہے اور اگر دعا، ورد وغیرہ کے ساتھ ظاہر ہو تو اسے ’’جادو‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تیسرا نکتہ۔ چونکہ ان خارق العادت افعال کا دار و مدار ارادہ کی قوت پر ہے، لہٰذا ارادے میں قوت و ضعف کی نسبت سے ان افعال میں بھی فرق پایا جائے گا اور یہ بات ممکن ہو گی کہ ان میں سے بعض افعال دوسرے بعض کا ابطال کر دیں۔۔۔ جن کا ارادہ قوی و مستحکم ہے جیسا کہ تنویم یعنی کسی کو سلا دینے (اس پر نیند طاری کر دینے) اور روح کو حاضر کرنے کے اعمال میں دیکھا گیا ہے۔
(بحوالہ: المیزان فی تفسیر القرآن)
Leave a Reply