امریکا کی اسرائیل پالیسی میں تبدیلی کا وقت آگیا؟

امریکی صدر ہیری ٹرومین نے ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کو اس کے قیام کے صرف گیارہ منٹ بعد تسلیم کرلیا تھا۔ تب سے اب تک اسرائیل کے لیے امریکی حمایت اسرائیل کی بقاء اور امریکی خارجہ پالیسی کے لیے ناگزیر رہی ہے۔ اب امریکی حکومت اپنی پالیسیاں تبدیل کر رہی ہے۔ صدر بارک اوباما عرب دنیا کو رجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت حال میں اسرائیل کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت جاری رکھنا امریکی قومی مفادات سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا امریکا کو اسرائیل سے اپنا خصوصی تعلق ختم کردینا چاہیے؟ اس حوالے سے حال ہی میں نیو یارک یونیورسٹی میں ’’انٹیلی جنس اسکوائرڈ یو ایس‘‘ کے زیر عنوان مباحثہ ہوا۔ نیو یارک ٹائم کے سابق فارن ایڈیٹر اور کالم نگار راجر کوہن اور کولمبیا یونیورسٹی میں عرب اسٹڈیز کے پروفیسر اور ۹۳۔۱۹۹۱ء کے مذاکرات میں شرکت کرنے والے فلسطینی وفد کے مشیر راشد خالدی نے امریکا اسرائیل تعلقات اور اسرائیل نواز پالیسی پر نظر ثانی کے حق میں دلائل دیے۔ یورپی یونین کے لیے سابق امریکی سفیر اور انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ اسٹیوارٹ آئزنسٹیٹ اور امریکا میں اسرائیل کے سابق سفیر اور نیو یارک یونیورسٹی میں ہبریو اور جوڈائک اسٹڈیز کے پروفیسر اتامر رابنووچ نے امریکا کی اسرائیل نواز پالیسی برقرار رکھنے کے حق میں دلائل دیے۔ اے بی سی نیوز کے جان ڈانون نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے۔ ذیل میں اس مباحثے سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں:


راجر کوہن: عملی زندگی میں جب ہم ناکام ہوتے ہیں تو ناکامی میں مزید گھسنے کو حماقت قرار دیا جاتا ہے۔ کسی بھی معیار سے اندازہ لگائیے، پیمائش کرلیجیے، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اسرائیل سے متعلق امریکی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔ ہم کسی بھی طرح امن کی منزل کے نزدیک نہیں۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں میں جتنے فاصلے اب ہیں، کبھی نہیں تھے۔ امریکا نے اسرائیل کو بے حد نوازا ہے۔ ایک عشرے کے دوران اسرائیل کو امریکا سے ۶۰ ؍ارب ڈالر سے زیادہ کا فائدہ پہنچا ہے مگر اس کے باوجود امریکا نے کبھی اسرائیل سے نقصان اٹھانے کی صورت میں اس پر تنقید کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اتنی بڑے پیمانے پر انعام و اکرام سے امریکا کے کون سے مقاصد حاصل ہوگئے؟ ۱۹۶۷ء کے بعد سے فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری جاری ہے اور اب تک چار لاکھ پچاس ہزار سے زائد یہودیوں کو فلسطینی علاقوں میں آباد کیا جاچکا ہے۔ ایک ایسی شاہراہ بھی تعمیر کی گئی ہے جو صرف آباد کاروں کی گاڑیوں کے لیے ہے۔ اس شاہراہ پر آباد کاروں کی گاڑیاں فراٹے بھرتی ہوئی گزرتی ہیں اور فلسطینی اپنی گدھا گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ یہ صورت حال صرف خرابی پیدا کر رہی ہے۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے الگ الگ ریاست امریکی حکومت کی بھی پالیسی ہے مگر اسرائیل کی ناراضی سے بچنے کے لیے امریکا وہ سب کچھ کر رہا ہے جو دو ریاستوں کے تصور کو ناممکن بنانے کے لیے کافی ہو۔

اسرائیل کے معاملے میں امریکا نے جو پالیسی اختیار کی ہے اور جس طرح فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے تشدد کو نظر انداز کرکے اسرائیل کے محاسبے سے گریز کیا گیا ہے اس سے صرف دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔ جنہیں اسرائیل کے ہاتھوں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے وہ اسے معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے پر امریکا کو خون بھی بہانا پڑ رہا ہے ، دولت بھی بے حساب خرچ ہو رہی ہے اور ذہنی سکون بھی غارت ہوکر رہ گیا ہے تو پھر اسرائیل کی تمام خرابیوں پر کھل کر تنقید بھی ہونی چاہیے۔ اگر امریکا یہ سمجھتا ہے کہ ایک ریاست کا اصول درست ہے یعنی فلسطینیوں کی ریاست نہیں ہونی چاہیے تو فلسطینیوں کو اسرائیل ہی میں بسانا پڑے گا۔ اور بہت جلد فلسطینی اسرائیلیوں سے کہیں بڑی تعداد میں دکھائی دیں گے۔ تب صیہونی ریاست کے خواب کا کیا ہوگا؟

آئزنسٹیٹ: اگر امریکی حکومت اسرائیل سے خصوصی تعلق ختم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی اخلاقی اصولوں ہی کے منافی ہوگا۔ اسرائیل کی حمایت ترک کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں واحد قابل اعتبار، جمہوری اتحادی سے محروم ہو رہا ہے۔ ایسا کرنے سے امریکا کے دوسرے اتحادیوں کو کیا پیغام ملے گا؟ اگر امریکا اپنے تمام اتحادیوں کا ساتھ نہیں دے گا تو ہر جگہ اس کے اتحادی نہیں پائے جائیں گے۔ یہ دلیل محض نمائشی نوعیت کی ہے کہ مسلم دنیا کو گلے لگانے کی بارک اوباما کی پالیسی امریکا اور اسرائیل کے خصوصی تعلقات کے منافی ہے۔ عرب دنیا کو معلوم ہے کہ امریکا جیسا اتحادی میسر ہے تو اسرائیل کچھ نہ کچھ رعایتیں دے سکتا ہے۔ اسرائیل کی حمایت اور خصوصی تعلق سے پسپائی اس ملک کی واحد غیر جانبدار پالیسی کو موت کے گھاٹ اتار دے گی۔

خالدی: میں امریکا اور اسرائیل کے خصوصی تعلقات کے بطن سے پیدا ہونے چند مسائل کی نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی علاقوں اور پوری عرب دنیا میں پائی جانے والی رائے عامہ کو امریکا ذرا بھی اہمیت نہیں دیتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ جب بھی امریکا ثالث کا کردار ادا کرتا ہے تو کمزور فریق پر غیر معمولی دبائو مرتب کرتا ہے۔ ایک سال قبل غزہ میں اسرائیل نے جو فوجی کارروائی کی اس میں ۱۴۰۰ ؍فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ صرف ۱۴ ؍اسرائیلی باشندے مارے گئے۔ سبھی جانتے ہیں کہ امریکا اسرائیل کو اسلحے کے علاوہ مالی، اخلاقی اور سفارتی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اگر امریکا مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے حوالے سے حقیقی تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے اسرائیل سے خصوصی تعلق ختم کرنا ہوگا۔

رابنووچ: امریکا اور اسرائیل کے درمیان خصوصی تعلقات کا کیا مطلب ہے؟ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دم کتے کو ہلا رہی ہے! میں واشنگٹن میں سفیر اور مذاکرات کار رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ امریکا سے کتنے معاملات میں ہمارے اختلافات ہوتے رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اسرائیلی وزیراعظم رابن کے دوست تھے مگر جب بین الریاستی تعلقات سے متعلق امور پر بات چیت ہوتی تھی تو بل کلنٹن کھل کر دلائل دیتے تھے اور چونکہ امریکا بڑا پارٹنر تھا اس لیے رابن کو ان کی بات ماننی پڑتی تھی۔ دفاعی امور میں بھی دونوں ممالک کے تعلقات قریبی نوعیت کے ہیں مگر اسرائیل اپنی سرزمین پر امریکی فوجیوں کی موجودگی نہیں چاہتا۔ اسرائیل اس خطے میں موجود ہے تو امریکا کو اپنی فوج تعینات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ امریکا کے لیے بہت بڑا ایڈوانٹیج ہے۔ یاد کیجیے کہ القاعدہ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا پہلا سبب یہ بیان کیا تھا کہ مقدس سرزمین پر امریکی افواج تعینات ہیں۔

ڈانون: اسٹیوارٹ آئزنسٹیٹ نے یہ دلیل دی ہے کہ اسرائیل کی خصوصی حمایت ترک کرنا امریکا کے لیے غیر اخلاقی اقدام ہوگا کیونکہ اسرائیل طویل مدت سے قابل اعتماد اتحادی رہا ہے۔ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ اگر امریکا فاصلے پیدا کرے تو اسرائیل کے لیے کیا مشکلات پیدا ہوں گی؟

آئزنسٹیٹ: ایسی صورت میں امریکا عرب دنیا کے حوالے سے اسرائیل کو رعایتیں دینے پر مجبور نہیں کرسکے گا۔ اور ایسی حالت میں اسرائیل مکمل طور پر اکیلا رہ جائے گا۔ اگر امریکا نے اسرائیل کا ساتھ چھوڑا تو یورپ اور دیگر خطوں میں تمام امریکی اتحادی شدید خوف محسوس کریں گے۔ ہر اتحادی یہی سوچے گا کہ اب اس کی باری ہے۔

کوہن: یہاں اس بات پر بحث نہیں ہو رہی کہ امریکا کسی بھی اعتبار سے اسرائیل کو اتحادی سمجھنا ترک کردے۔ جب بارک اوباما کہتے ہیں کہ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری رکنی چاہیے اور بستیوں کی تعمیر جاری ہی رہے تو اس کے کچھ نہ کچھ تو منفی نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ بارک اوباما نے عربوں سے زبانی کلامی تو بہت کچھ کہا ہے مگر جب عمل کی بات آتی ہے تو انہیں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا۔ حماس کے منشور میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا وجود ختم ہو جانا چاہیے۔ یہ بات یکسر ناقابل قبول ہے۔ مگر کیا ہم امن کی طرف بڑھ سکتے ہیں اور روایتی سانچوں سے ہٹ کر بھی کچھ سوچ سکتے ہیں؟

رابنووچ: آپ جانتے ہیں کہ صدر اوباما اسرائیل سے فاصلہ پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ انہیں توقع تھی کہ عرب اور مسلم دنیا ان کی اس پالیسی کو سراہے گی مگر جو ردعمل سامنے آیا وہ یہ تھا کہ ہمیں مزید دو، ہم مصالحت نہیں کریں گے۔ اسرائیل کو ہمارے حوالے کردو۔ حماس کے بارے میں روایتی سانچوں سے ہٹ کر کس طرح سوچا جاسکتا ہے؟ فتح جیسی سیکولر تنظیم سے تو بات ہوسکتی ہے مگر حماس جیسی انتہا پسند مذہبی تنظیم سے گفت و شنید ممکن نہیں۔

کوہن: ہماری اب تک کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔ اسرائیل سے متعلق امریکی پالیسی میں کسی بھی قسم کی ایڈجسٹمنٹ بہت مشکل ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کانگریس کے ایک یہودی رکن نے صدر اوباما سے کہا ہے کہ اگر ہیلتھ بل منظور کرانا ہے تو اسرائیل سے متعلق پالیسی میں لائی جانے والی تبدیلیاں منسوخ کی جائیں۔

آئزنسٹیٹ: یہ تو خاصی مضحکہ خیز بات ہے۔ امریکا میں یہودی آبادی کا دو فیصد ہیں اور یہ بتایا جارہا ہے کہ انہوں نے امریکی خارجہ پالیسی کی گردن دبوچ رکھی ہے۔ اسرائیل سے متعلق امریکی پالیسی غیر جانبداری کے اصول پر مبنی ہے۔ اس پالیسی کو امریکی عوام کی حمایت اس لیے حاصل ہے کہ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کی اور یہودیوں کی اقدار ایک ہیں۔ دونوں کے معاشی مفادات میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔

رابنووچ: آپ کو الاسکا سے صدر منتخب کرنا چاہیے جہاں یہودی نہیں ہیں۔

خالدی: (ہنستے ہوئے) آپ تو یہی چاہیں گے۔

(اس مباحثے سے قبل کیے گئے سروے میں ۳۳ فیصد رائے دہندگان نے اسرائیل سے تعلقات پر نظر ثانی کے حق میں رائے دی تھی جبکہ ۴۲ فیصد نے پالیسی برقرار رکھنے کی حمایت کی اور ۲۵ فیصد کسی فیصلے تک پہنچنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ مباحثے کے بعد کیے گئے سروے میں اسرائیل کے لیے امریکی پالیسی میں تبدیلی کی حمایت کرنے والوں کا تناسب ۴۹ فیصد تھا۔ ۴۷ فیصد نے ایسا کرنے کی مخالفت کی اور ۴ فیصد کسی نتیجے تک پہنچنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔)

(بحوالہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۲ فروری ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*