ترکی کے عام انتخابات میں ’’جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی‘‘ (جس کے ترکی نام کا مخفف AKP بنتا ہے) کی دوسری فتح طیب ایردوان کی تیسری اہم سیاسی فتح ہے۔ ان کی پہلی سیاسی فتح حیران کن تھی۔ انھوں نے اسلام پسندوں کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر آہنی ارادے کے مالک نجم الدین اربکان کے سیاسی کیریئر کا خاتمہ کر دیا۔ اربکان کی سیاسی مہارتوں کو کم تر نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اپنی تشکیل شدہ پارٹیوں پر پے در پے پابندیاں انھیں پارٹی کے بعد پارٹی کی تشکیل سے باز نہ رکھ سکیں اور وہ بالآخر ایک ایسے گروہ کی تخلیق میں کامیاب ہو گئے جو بعد میں فوجیوں سے مزاحمت کی روش پر کاربند ہوا، اُن فوجیوں کے خلاف جو اتاترک کے سیکولر عقیدہ کے خود ساختہ نگہبان ہیں۔ اس انداز سے جہاں انھوں نے خود جرأت اور خلوص کا مظاہرہ کیا، وہیں وہ ایک ایسے فلسفہ کے حامی رہے جو لچک کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ پہلے سلیمان ڈیمریل کی انصاف نامی پارٹی سے الگ ہوئے جس پارٹی کو ترک عوام کی اکثریت عدنان مندریس کی پارٹی جمہوری پارٹی کا تسلسل سمجھتی تھی۔ اس لیے کہ انصاف پارٹی اس انتخاب میں لوگوں کے ووٹ سے برسرِ اقتدار آئی جو عدنان مندریس کی سزائے موت کے بعد پہلا انتخاب تھا۔ ۱۹۶۸ء میں انصاف پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے کے ساتھ ہی اربکان نے اپنی ایک الگ پارٹی قومی نظام پارٹی (National Order Party) کے نام سے تشکیل دے دی۔ اس پارٹی پر ۱۹۷۱ء میں پابندی عائد کر دی گئی۔ ۱۹۷۳ء میں پھر انھوں نے قومی نجات پارٹی (National Salvation Party) کے نام سے ایک پارٹی بنا ڈالی اور پارلیمنٹ میں اتنی نشستیں حاصل کر لیں جو بلند ایجوبت کی ریپبلیکنز پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے لیے کافی تھیں۔ ۱۹۷۶ء میں اربکان نے بلند ایجوبت کو گزرنے کی دھمکی دی اگر حکومت قبرص پر حملہ نہیں کرتی ہے جو بلند ایجوبت نے کر دکھایا۔ بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں اقتصادی صورتِ حال میں ابتری کے بعد فوجی سربراہ جنرل کنان ایورین نے ۱۹۸۰ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا اور تمام پارٹیوں پر پابندی لگا دی۔ جب سیاسی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوئیں تو اربکان ۱۹۸۳ء میں رفاح پارٹی بنائی جس نے ۱۹۹۵ء کے انتخابات میں ۳ء۲۱ فیصد ووٹ حاصل کر کے سبھوں کو حیران کر دیا۔ کثیرالجماعتی نظام میں یہ بہت ہی مضبوط پوزیشن تھی جس کی بنا پر اربکان وزیراعظم بنے۔ بہرحال ان کی جنرلوں سے نہیں بنی جنہوں نے بغیر کسی بغاوت کے صرف دبائو ڈال کر وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے پر اربکان کو مجبور کر دیا۔ ۱۹۹۸ء میں ایک آئینی عدالت نے ان کی پارٹی پر پابندی عائد کر دی لیکن مغلوب نہ ہونے والے اربکان نے ایک دوسری پارٹی تشکیل دے لی یعنی ورچو (نیکی) پارٹی۔ اسے بھی کالعدم قرار دے دیا گیا اور پھر انھوں نے Felicity (سرور) پارٹی تشکیل دی۔ اسے بھی ۲۰۰۱ء میں کالعدم قرار دے دیا گیا شاید یہ ان کے پیروکاروں کے لیے خصوصاً ایردوان کے لیے جو کہ استنبول کے سابق میئر ہیں بہت زیادہ پریشان کُن تھا۔ چنانچہ وہ (ایردوان) اور عبداﷲ گل اس نتیجے پر پہنچے کہ اربکان کا جنرلوں کے ساتھ براہِ راست تصادم اسلامی کاز کے حق میں مفید نہیں ہے اور یہ کہ اگر جنرلوں کو ان کی جائز حدود میں رکھنا ہے اور ترکی کی اسلامی شناخت کی واپسی کی جدوجہد کرنی ہے تو ایک نئے ایپروچ کی ضرورت ہے، خصوصاً ایسی حالت میں جہاں سیکولرزم ۱۹۲۴ء سے اقتدار میں چلا آرہا ہو اور یہ تمام سیاسی اداروں کی رگ و پے میں سرایت کر گیا ہو۔ اس کا نتیجہ پارٹی میں اربکان کے خلاف بغاوت اور انصاف و ترقی پارٹی (AKP) کے قیام کی صورت میں نکلا۔ ۲۰۰۲ء کے عام انتخابات میں ایردوان نے اپنی پارٹی کو حیران کُن فتح دلائی، اس طرح کہ ۵۵۰ کے ہائوس میں ۳۶۳ نشستیں حاصل کیں۔ دو تہائی اکثریت کے حصول میں صرف ۴ نشستیں کم رہ گئیں جس کے ساتھ ترکی کی یک مکانی (Unicameral) پارلیمنٹ میں آئین میں ترمیمی بل منظور کرنے کا مجاز ہو سکتی تھی۔ اس طرح دس برسوں میں یہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ترکی ایک ایسی حکومت کا حامل ہوا جو مخلوط نہیں تھی۔ ایردوان خود تو پارلیمنٹ سے غیرحاضر تھے، اس لیے کہ اُن پر بغاوت کا الزام تھا جس کی وجہ سے وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ بغاوت کا الزام اُن پر اس بنا پر عائد ہوا تھا کہ اپنی ایک نظم میں ایردوان نے مسجد کے گنبد کو ہیلمٹ سے اور اس کے منارہ کو رائفل سے تعبیر کیا تھا۔ عبداﷲ گُل وزیراعظم بنے لیکن انھوں نے ایردوان کو اُس وقت راستہ دے دیا جب AKP کے سربراہ نے اپنے اوپر عائد کردہ الزام کے خلاف مقدمہ جیت لیا اور ضمنی انتخاب لڑ کر کامیاب ہو گئے اور پارلیمنٹ میں لوٹ آئے۔ ایردوان نے ایسے نعروں و شعلہ بیانیوں کو چھوڑ دیا جو اربکان سے مخصوص تھے۔ سابق وزیراعظم نے یورپی یونین کو مسیحی کلب کے نام سے پکارنا شروع کر دیا اور ایسی نئی دنیا کی بات شروع کر دی جو قازقستان سے مراکش تک کے علاقوں پر محیط تھا۔ دوسری طرف ایردوان نے یہ عہد کیا کہ وہ ترکی کے سیکولر آئین کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ساتھ ہی یہ وضاحت کی کہ وہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی درخواست کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کریں گے۔ انھوں نے ایسی اصلاحات متعارف کرنے پر بھی اپنی آمادگی کا اظہار کیا جو کوین ہیگن کے معیارات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ان وسیع تر اصلاحات میں سزائے موت کا خاتمہ، اُن قوانین میں ترمیم جن سے آزادیٔ اظہارِ رائے سلب ہوتی ہو، نیز کُردوں کو ان کے ثقافتی حقوق دینا شامل تھے۔ سب سے اہم بات ایردوان کی اقتصادی کامیابی تھی۔ بیرونی سرمایہ کاری بڑھ گئی، بے روزگاری کم ہو گئی اور شرح افراطِ زر اس حد تک گری کہ یک ہندسہ ہو گئی۔ ۲۰۰۷ء کے لیے افراطِ زر کی شرح میں کمی کا نشانہ ۴ فیصد ٹھہری ہے۔ اربکان کے برعکس ایردوان نے جنرلوں کے ساتھ معاملہ بڑی ذہانت کے ساتھ کیا۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو قومی سلامتی کونسل (NSC) میں بالادستی فوج کی تھی اور اس کے فیصلوں کو ماننا حکومت پر لازم تھا۔ نام نہاد ساتویں ریفارم پیکیج کے طفیل جسے پارلیمنٹ نے جولائی میں منظور کیا تھا، فوج کا NSC پر کنٹرول ختم ہو گیا۔ اصلاحات نے NSC کو ایک ایسے مشاورتی باڈی میں تبدیل کر دیا جس کی تجاویز کا تعلق صرف فوجی اور سلامتی اُمور سے ہو گا۔ ۲۰۰۵ء تک اس باڈی کی سربراہی سویلین کرتے رہے۔
AKP کی اسلامی منابع سے وابستگی کے باوجود ایردوان نے آئین کے سیکولر کردار میں تبدیلی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور انھوں نے اس امر کی وضاحت کر دی کہ ترکی کی سمت یورپی رہے گی۔ وہ بالآخر کامیاب ہو گئے جب یورپی یونین نے اپنے اندر داخلہ دینے کے لیے ترکی کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ ۲۰۰۵ء میں کھول دیا۔
بہرحال اپنی حکومت کے مغرب نواز رجحان اور امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود ایردوان نے عراق مسئلے پر امریکی خط پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ علاوہ ازیں اسرائیل کے ساتھ ترکی کے دوستانہ تعلقات اور فوجی تعاون کے باوجود انھوں نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی کارروائیوں کو ریاستی دہشت گردی کا نام دیتے ہوئے ان کی پُرزور مذمت کی۔ پارلیمنٹ میں مطلق اکثریت کے ساتھ اور بطور ایک ایسی حکومت کے سربراہ کے جسے متزلزل حکومت کے علاوہ کچھ کہہ لیجیے، ایردوان بہت احتیاط کے ساتھ قدم بڑھا رہے ہیں۔ جہاں ترقی ممکن نہ ہو سکی جو کہ اُن کے اہم اہداف میں سے ایک ہے تو انھوں نے انتظار اور مصالحانہ روش کو ترجیح دی، بجائے اس کے کہ انھوں نے کوئی بحران کھڑا کیا ہو اور پھر سب کچھ کھو دیا ہو۔ صدر کے طور پر عبداﷲ گُل کے انتخاب کے معاملے میں ایردوان نے عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا جبکہ انھیں جنرلوں اور اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا تھا۔ جب آئینی عدالت نے صدارتی انتخاب کو روک دیا تو ایردوان نے عام انتخابات کا قبل از وقت انعقاد کیا اور یہ پانسا اُن کے لیی مفید رہا کہ وہ اب دوبارہ اقتدار میں ہیں، وافر اکثریت کے ساتھ یعنی ۶ء۴۶ فیصد ووٹز کے ساتھ جبکہ ۲۰۰۲ء میں انھوں نے ۳۴ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اب انھوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ آئین میں کچھ ترامیم متعارف کرائیں گے تاکہ صدر کے انتخاب میں براہِ راست ووٹنگ کا طریقہ اپنایا جائے۔ ہیڈ اسکارف کے مسئلے پر انھوں نے مصالحانہ روش اختیار کی ہے اور خواتین کو ہیڈ اسکارف کے ساتھ یونیورسٹیوں اور حکومتی اداروں میں اب بھی داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اہلیہ ایمن کو تمام سرکاری تقریبات سے باہر رہنا پڑتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ازخود یورپی یونین میں رکنیت کے مسئلے کو دھیما رکھا، یہ جانتے ہوئے کہ لوگ خواہ سیکولر ہوں یا اسلامی، یورپی یونین میں شمولیت کی تاخیر پر اور اُن توہین آمیز شرائط پر جو یورپی یونین میں شمولیت کے لیے ترکی پر عائد کر رکھی ہیں، سخت نالاں ہیں۔ شمولیت کے مسئلے کو قبرص سے مربوط کرنے کو ایردوان نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ انھوں نے برسلز کے مطالبات کے آگے جھکائو ظاہر نہیں کیا ہے جو دفعہ ۳۰۱ کی منسوخی کے لیے ہے کیونکہ یہ دفعہ ’’ترکیت‘‘ کی توہین کرنے والوں کو سزائے قید دینے پر تاکید کرتی ہے۔ اس قانون کا غصہ نوبل انعام یافتہ Orhan Pamuk اور ناول نگار Elif Shafak پر گر چکا ہے۔ AKP کی قیادت کا رویہ پاکستان کے حالات کے یکسر برعکس ہے جہاں مذہبی عناصر ملک کی اقتصادی ترقی کے حوالے سے بالکل لاتعلق ہیں۔ AKP کا رویہ یہ ہے کہ کس طرح گروہ بندی میں تقسیم معاشرے میں وہ اپنے حرکی اور حقیقت پسندانہ پالیسیوں پر کسی انتشار کو دعوت دیے بغیر عمل کر سکتی ہے۔ افسوس کہ بعض یورپی حکومتیں جمہوریت کے کاز میں ترکی کی مدد نہیں کر رہیں، اس طرح کہ وہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی راہ میں دشواریاں کھڑی کر رہی ہیں۔ یورپی یونین کے رہنما بشمول فرنچ صدر نکولس سرکوزی جس نکتے کا ادراک نہیں کر پارہے، وہ یہ ہے کہ AKP کی ناکامی کا مطلب جنرلوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
AKP ایک اسلامی پارٹی ہو سکتی ہے لیکن یہ اصلاحات کے لبرل ایجنڈے کے لیے بھی تو کوشاں ہے اور یہ بہت ہی افسوسناک بات ہو گی کہ یورپی یونین AKP کے اسلامی لیبل کو دیکھ کر اپنی رائے قائم کرے اور اس کے جمہوری ریکارڈ کو یکسر نظر انداز کر دے جس نے ترکی کے سیکولرزم کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۳۰ جولائی ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply