ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں آق پارٹی کے صدر دفتر کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع تھا۔ہزاروں لوگ آق پارٹی کی جیت کا جشن منارہے تھے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں ۔ایک شخص جس نے اپنے ہاتھ میں رجب طیب ایردوان کی تصویر اور سلطنت ِ عثمانیہ کے نشان والا جھنڈا تھاما ہوا تھا وہ پکار رہا تھا کہ ’’یہ ترکی کی نئی آزادی ہے‘‘ لیکن اُس شور میں اس کی آواز کم ہی سنائی دے رہی تھی۔ایک اور شخص جو کہ اسکول کے استاد تھے ان کا کہنا تھا کہ’’ مغرب اب ہمارے ساتھ حاکمانہ رویہ اختیار نہیں کر سکتا‘‘۔
یہ ۲۴ جولائی کی شام کا منظر تھا ۔ یہ دن کمال اتا ترک کے قائم کردہ ترکی کا ممکنہ طور پر آخری دن تھا۔ یہ اس ترکی کا پہلا دن تھا جسے طیب ایردوان نیا ترکی کہتے ہیں ۔یہ ترکی عثمانی روایات اور مسلم قوم پرستی پر مبنی ہوگا۔
کانٹے دار مقابلے کی پیش گوئیوں کے باوجود طیب ایردوان، ان کی جماعت اوران کے قوم پرست اتحادیوں نے اپنے مخالفین کو زیر کردیا۔ طیب ایردوان نے صدارتی انتخابات میں ۵۳ فی صد ووٹ حاصل کیے، جب کہ ان کے مد ِمقابل محرم انجے نے ۳۱ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ پارلیمانی انتخابات میں آق پارٹی اور MHP کے اتحاد نے ۵۴ فی صد ووٹ حاصل کر کے پارلیمان کی ۶۰۰ میں سے ۳۴۴ نشستیں اپنے لیے محفوظ کر لی ہیں۔ حزبِ اختلاف کے اتحادکے حصے میں ۱۸۹نشستیں آئیں، جب کہ ۶۷ نشستیں کُرد جماعت نے حاصل کیں۔
یہ انتخابات آزاد تو تھے، لیکن یہ کئی دہائیوں میں ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ غیر منصفانہ انتخابات تھے۔ ذرائع ابلاغ پر حکومتی دباؤ موجود تھا۔ جس کی وجہ سے اس نے دو اہم صدارتی اُمیدواران، میرال آقیشنر اور صلاح الدین دیمر تاش کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ قومی ذرائع ابلاغ میں سب سے بڑے میڈیا گروپ اور اس کے ذیلی چینلوں نے طیب ایردوان کو ان کے مدِمقابل محرم انجے کے مقابلے دس گنا زیادہ ’’ائر ٹائم‘‘ دیا۔ ساتھ ہی ذرائع ابلاغ نے محرم انجے کی انتخابی مہم کے آخری دن کی گئی ریلی کو بھی نظر انداز کر دیا، جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی۔
Organization for Security and Cooperation in Europe نے اپنی ایک رپورٹ میں ۸۸ فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ کو سراہا ہے۔ لیکن یہ بات بھی واضح کی کہ طیب ایردوان اور ان کی جماعت کو حد سے زیادہ میڈیا کوریج حاصل تھی۔ انھوں نے ریاستی مشینری کا بے جا استعمال کیا اور ملک میں نافذ ایمرجنسی کو اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔
ان انتخابات کے ساتھ ہی ملک میں کمال اتاترک کا نافذ کیا ہوا حکومتی نظام ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ نیا صدارتی نظام رائج ہو جائے گا۔ جس کے بعد طیب ایردوان کی حیثیت مختار ِ کُل کی ہوگی۔ وہ اپنی مرضی کے احکامات جاری کر سکیں گے، کابینہ کی تشکیل کر سکیں گے، بیوروکریسی اور عدلیہ میں بھرتیاں کر سکیں گے اور قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے اسمبلی تحلیل کرنا بھی ان کے اختیار میں ہوگا۔
طیب ایردوان کے حامیوں کا موقف ہے کہ یہ نیا نظام فیصلہ سازی کے مرحلے کو تیز کردے گا۔ اس نظام کے بعد فوج کی سیاست میں بے جا مداخلت اور فوج کی جانب سے پارلیمان کو کمزور کرناماضی کا قصہ بن کر رہ جائے گا۔ تاہم ایردوان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ نیا نظام ملک کو جمہوریت کے بجائے بادشاہت میں تبدیل کر دے گا۔
پارلیمان اب آق پارٹی اور MHP کے ہاتھوں میں ہے۔ MHP نے انتخابات میں ۱۱ فی صد ووٹ حاصل کیے،جو کہ توقع سے زیادہ ہیں۔ ایردوان کی آق پارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ایردوان کا ہر فیصلہ قانون بن جائے۔ MHP اور اس کے ضعیف رہنما دولت Devlet Bahceli (جو کبھی ایردوا ن کو ایک آمر کہتے تھے اور بعد میں ایردوان کے سب سے بڑے حمایتی بن گئے) ایردوان کو قوم پرستی کی طرف لے جائیں گے۔
Devlet Bahceli نے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ کُردوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے کسی بھی نئی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ صلاح الدین دیمرتاش قید میں ہی رہیں۔ انتخابات کے دو دن بعد MHP نے ایردوان سے مطالبہ کیا کہ ملک میں دو سال سے جاری ایمرجنسی کو برقرار رکھیں۔ ایردوان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایمرجنسی کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ معروف ترک تجزیہ کار Soli Ozel کا کہنا ہے کہ ایردوان صدر تو بن گئے ہیں، لیکن انھیں بیشتر مواقعوں پر Devlet Bahceli کی حمایت درکار ہو گی۔
اگر ایردوان ایمرجنسی کو ختم بھی کر دیں تب بھی اس بات امکان بہت کم ہے کہ ایردوان اپنے مخالفین کا تعاقب اور مغرب کے ساتھ محاز آرائی کو ترک کر دیں گے اور ذرائع ابلاغ سے دباؤ ختم کر دیں گے۔ جب ایردوان اور ان کی جماعت ۲۰۰۲ ء میں پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو انھوں نے تمام شہریوں خاص طور پر کُرد اقلیت کے لیے پہلے سے زیادہ آزادیوں کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اگر ایردوان نے کسی کو آزادی دی ہے تو وہ ان کے قدامت پسند ووٹر ہیں ۔مثال کے طور پر انھوں نے تعلیمی اداروں اور حکومتی دفاتر میں حجاب پر پابندی کو ختم کر دیا۔
Sao paulo یونیورسٹی کے ترک اسکالر Karabekir Akkoyunlu کا کہنا ہے کہ نیا حکومتی نظام عوام اور صدر کے درمیان سے سیکولر اشرافیہ، سرکاری اداروں اور پارلیمان کو ہٹا دے گا۔ لیکن ایردوان کے لیے اسلام پسندی، قوم پرستی اور ماضی کی عثمانی روایات کی مدد سے معاشرے کو دوبارہ تشکیل دینا ممکنہ طور پر اداروں کی تشکیلِ نو سے زیادہ مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
وہ ترکی جس پر ایردوان اب حکومت کریں گے، اس وقت منقسم ہے ۔ایک طرف قدامت پسند مسلمان اور ترک قوم پرست ہیں، جن کے لیے ایردوان خوشحالی، مذہبی آزادی اور قومی وقار کی علامت ہیں۔ دوسری طرف سیکولر اور لبرل طبقہ اور جنوب مغرب کی کُرد اقلیت ہے،جو ایردوان کوبد عنوان اور جابر حکمران تصور کرتے ہیں۔ Soner Cagaptay جنھوں نے حال ہی میں ایردوان پر ایک کتاب لکھی ہے،کہتے ہیں کہ ایردوان سے ان زخموں کو بھرنے کی امید رکھنا جن کے لیے کسی حد تک وہ خود بھی ذمہ دار ہیں ایک معصومانہ خیال ہے۔ان کی آمرانہ طرزِ سیاست کی وجہ ان کا جنون نہیں بلکہ ان کی استدلالی سوچ ہے۔ اور اس وقت ان کے لیے اقتدار پر قائم رہنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“Recep tayyip the first”.(“The Economist”. July 6, 2018)
Long live president, be careful from all non Muslim world and their puppet Muslim governments, best thing to do is justice for all Turk people Muslim or non-Muslim, this was the way of the best leader of the history, and keep keen eye on enemies.