
رواں سال کورونا ویکسین کی کامیابی اور کورونا وائرس پر قابو پانے کے اقدامات کے حوالے سے اسرائیل کو خوب سراہا گیا ہے۔ آج دنیا بھر میں جن ممالک نے اپنے بیشتر باشندوں کو اس وبا سے بچاؤ کی ویکسین لگوالی ہے اُن میں اسرائیل بھی شامل ہے، جہاں ویکسین لگانے والوں کا تناسب ۸۰ فیصد ہے۔ اسرائیل میں پختہ عمر کے کم و بیش تمام افراد کورونا ویکسین کی دو خوراکیں لگواچکے ہیں۔
اگر کسی ملک میں کم و بیش ۸۰ فیصد آبادی کورونا کی وبا سے بچاؤ کی ویکسین لگواچکی ہو تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں تو کورونا کی وبا پر قابلِ ذکر حد تک قابو پالیا گیا ہوگا۔ ہمیں یہی تو بتایا گیا ہے کہ کورونا کی وبا سے بچاؤ میں کلیدی کردار ویکسین کا ہے یعنی ویکسین لگواچکنے کے بعد یہ اطمینان ہو جانا چاہیے کہ اب کورونا کی وبا ہم پر حملہ آور یا اثر انداز نہیں ہوگی۔ ایک بڑی کمپنی کی تیار کردہ ویکیسن کے انتہائی موثر ہونے کی رپورٹس بھی آئی تھیں۔ کہا گیا تھا کہ اس کی تیار کردہ ویکسین ۹۸ فیصد تک کارگر ہے۔ اسرائیل میں اس بڑی دواساز کمپنی کی تیار کردہ ویکسین ہی لگائی گئی ہے۔ ایسے میں یہ سمجھا جانا چاہیے کہ اب اسرائیل اس وبا سے بہت حد تک محفوظ ہوچکا ہوگا مگر ایسا نہیں۔ زمینی حقیقت اُس کے بالکل برعکس ہے جس کی توقع کی جاتی رہی ہے۔ اسرائیل میں بیشتر افراد کو ویکسین لگائی جاچکی ہے مگر پھر بھی وہاں کورونا وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد دن رات بڑھتی جارہی ہے۔ اس وبا کے ابھرنے کے بعد سے اب تک اسرائیل میں بہت بڑی تعداد میں کیس سامنے آتے رہے ہیں۔ حال ہی میں سی این بی سی نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل میں حکومت نے کورونا وائرس میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد کے منظرِ عام پر آنے کے بعد بوسٹر شاٹس لگانے کی رفتار بھی دگنی کردی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ غیر معمولی رفتار سے اور وسیع پیمانے پر ویکسینیشن کے باوجود اسرائیل بھر میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں خطرناک رفتار سے اضافہ ہوا ہے اور جولائی سے اب تک صورتِ حال بہت سنگین رہی ہے۔ جنوری میں یومیہ کم و بیش ۱۱ ہزار ۹۳۴ افراد کورونا وائرس کا شکار ہو رہے تھے جبکہ ۲۴؍ اگست کو ۱۲ ہزار ۱۱۳ کی ریکارڈ تعداد سامنے آئی۔
یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اسرائیل کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی آبادی کے غالب حصے کو کورونا کی وبا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اور دوسری طرف یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ وہاں اوسطاً یومیہ ساڑھے سات ہزار کیس سامنے آتے رہے ہیں۔ صورتِ حال تیزی سے بگڑتی جارہی ہے۔ کورونا وائرس کی زد میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اسرائیل میں آج ہر ڈیڑھ سو میں ایک فرد کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ۱۲ سال یا اس سے زائد عمر کے ۷۸ فیصد افراد کی ویکسینیشن ہوچکی ہے اور ان میں سے بیشتر کو ایک عالمی شہرت یافتہ دواساز ادارے کی تیار کردہ ویکسین لگائی گئی ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل کا شمار اُن ممالک میں کیا جارہا ہے جو دنیا بھر میں کورونا کے وائرس کا شکار ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد کا حامل ہے۔
اس وقت اسرائیل میں وہ لوگ تیزی سے کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں جنہیں کورونا سے بچاؤ کی مکمل ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ یہ لوگ خود بھی بیمار پڑ رہے ہیں اور صحت مند افراد کو بھی مشکلات سے دوچار کر رہے ہیں۔ بوسٹر شاٹس لگائے جانے کے بعد بھی اسرائیل میں فی کس کورونا کیسز کی شرح دنیا بھر میں بلند ترین ہے۔
یہ سوال بہت سے ماہرین کو انتہائی پریشانی سے دوچار کیے ہوئے ہیں کہ جب آبادی کے بہت بڑے حصے کو حکومت نے کورونا وائرس سے بچاؤ کی انتہائی معیاری ویکسین لگادی ہے تو پھر کورونا وائرس کی زد میں آنے والے افراد کی تعداد بڑھتی کیوں جارہی ہے۔ چاہے جتنا غور کیجیے، نتیجہ بالآخر یہی برآمد ہوگا کہ اسرائیل میں ۱۲ سال اور اس سے زائد عمر کے ۷۸ فیصد سے زائد افراد کے لیے کورونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے جس ویکسین کا انتخاب کیا گیا تھا وہ ڈھنگ سے کام نہیں کرسکی یعنی جس مقصد کے لیے اُسے تیار کیا گیا ہے وہ اُس مقصد کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ عالمگیر شہرت یافتہ دواساز کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کا ناکام ہو جانا اُس کمپنی کی ناقص تحقیق کا آئینہ دار ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو بیشتر ماہرین سے ہضم نہیں ہو پارہی۔
کیا اسرائیل کی حکومت کو اس صورتِ حال کی اصلیت کا احساس نہیں؟ کیوں نہیں؟ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ عالمگیر شہرت کی حامل دواساز کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کام نہیں کر پارہی۔ اسرائیل میں ۳۰ جولائی سے بوسٹر شاٹس لگانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اس ویکسین کی اصل خوراکیں موثر ثابت نہیں ہوئیں۔ اسرائیلی وزارتِ صحت کی جانب سے بوسٹر شاٹس لگانے کی اجازت کا دیا جانا اس امر پر مہرِ تصدیق ہے کہ کورونا ویکسین اپنا کام کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اسرائیلی وزارتِ صحت کے حکام نے تسلیم کیا ہے کہ جس عالمی شہرت یافتہ مغربی دواساز ادارے کی تیار کردہ ویکسین لگائی گئی ہے وہ معیاری ویکسین تیار کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ ویکسین صرف ۶ ماہ میں غیر موثر ہو جاتی ہے اور پھر بوسٹر شاٹ لگوانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس کے ہرزوگ اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کوبی ہویو کہتے ہیں کہ ان کے اسپتال میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے والوں کا تناسب ۸۵ تا ۹۰ فیصد رہا ہے۔ ایسے غیر معمولی تناسب سے ویکسین لگائے جانے پر بھی کورونا وائرس کی زد میں آنے والوں کی تعداد کا بڑھنا انتہائی خطرناک ہے اور اس سے صرف یہ تصدیق نہیں ہوتی کہ یہ ویکسین غیر موثر رہی ہے بلکہ اس ویکیسن کے لگوانے والوں کے مزید بیمار پڑنے کا امکان بھی زیادہ توانا ہو جاتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال میں کسی کے خطرناک حد تک بیمار پڑنے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ جو لوگ قدرتی عمل کے ذریعے اپنے جسم میں بیماریوں سے بچاؤ کے لیے اینٹی باڈیز پیدا کرتے اور پروان چڑھاتے ہیں اُن کے مقابلے میں اسرائیل میں ویکسین لگواچکنے والوں کے کورونا وائرس کی زد میں آنے کا خطرہ ۲۷ گنا ہے۔
اسرائیلی حکومت اس بات کا کریڈٹ لیتی رہے ہے کہ اس نے اپنی آبادی کے بہت بڑے حصے کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگادی ہے۔ اب تمام معاملات بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ویکسین کی ناکامی اسرائیل کے لیے عالمی برادری میں شرم کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔ جو اعداد و شمار ہمارے سامنے ہیں اُن کی روشنی میں یہی بات سامنے آتی ہے کہ مغرب کے ایک بڑے دواساز ادارے کی تیار کردہ ویکسین مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
جو کچھ اسرائیل میں ہوا ہے اُس کی حقیقت پر غور کرنے والوں کی تعداد کم ہے کیونکہ اُن کی برین واشنگ کرکے یہ باور کرادیا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی صرف ایک صورت ہے … یہ کہ ویکسین لگوائی جائے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے ویکسین کو جادو کی پُڑیا ثابت کرنے میں مصروف افراد اپنے پروپیگنڈے میں کامیاب ہوچکے ہیں، یعنی انہوں نے لوگوں کو یہ باور کرادیا ہے کہ کورونا ویکسین نہیں تو کچھ نہیں، زندگی بھی نہیں۔
وہ لوگ واقعی قابلِ رحم ہیں جو غیر موثر ویکسین تیار کرنے والی کمپنی ہی کے تیار کردہ بوسٹر شاٹس لگانے کے لیے قطار بند ہیں۔ یہ سب کچھ بھیڑ چال جیسا ہے۔ کوئی بھی نہیں سوچ رہا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ کیوں کر رہا ہے، اور اُس کا اُسے کیا فائدہ پہنچے گا۔ کم و بیش ڈیڑھ سال سے کورونا وائرس کے بارے میں اتنا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اب لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دم توڑنے لگی ہے۔ حد یہ ہے کہ اب وہ بالکل سامنے کی بات کو بھی سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی صلاحیت تک سے محروم ہوچکے ہیں۔
ستم صرف یہ نہیں ہے کہ یہ ویکسین غیر موثر ہے۔ اب دنیا بھر سے یہ رپورٹس مل رہی ہیں کہ کورونا سے بچاؤ کے نام پر لگائی جانے والی ویکسین کے بہت سے ضمنی اثرات بھی ہیں، جو صحتِ عامہ کے لیے شدید نوعیت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ صحتِ عامہ کے ماہرین پر مشتمل گروپ ’’اسرائیلی پیپلز کمیٹی‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ مغربی دواساز کمپنی کی تیار کردہ کورونا ویکسین جسم کے مختلف حصوں اور نظاموں کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنی ہے۔ مرکزی ادارۂ شماریات اور وزارتِ صحت کے مرتب و فراہم کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں اس گروپ نے بتایا ہے کہ ویکسین کے ہاتھوں موت کا شکار ہونے والوں کا تناسب پانچ ہزار میں ایک ہے یعنی ایک ہزار سے زائد اسرائیلی شہری کورونا سے بچاؤ کے نام پر لگائی جانے والی ویکسین کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔
آبادی کے غالب حصے کی کورونا ویکسینیشن کروانے والے ملک میں کورونا وائرس پر نہ صرف یہ کہ قابو نہیں پایا جاسکا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وبا دن بہ دن توانا تر اور پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟ بالکل سامنے کی بات بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ ہم بہت سے حقائق سے اچھی طرح باخبر ہونے پر بھی عملاً کچھ نہیں کر پارہے۔ کورونا ویکسین لگوانے پر چونکہ مجبور کیا جارہا ہے اس لیے اس حوالے سے سوچنا اور میدان میں نکلنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے کیس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ مغرب کے ایک نمایاں دواساز ادارے کی تیار کردہ کورونا ویکسین مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اسرائیل میں ناکام ہونے والی ویکسین کو امریکا کے ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے سب سے پہلے گرین سگنل دیا تھا۔ اب لازم ہے کہ اس ویکسین کے تمام ممکنہ مضمرات پر غور کیا جائے، اس حوالے سے کھل کر بات کی جائے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Recognizing the obvious: Hard data from Israel reveals vaccine failure”. (“globalresearch.ca”. September 06, 2021)
Leave a Reply