
اس سال مئی کے مہینے میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان ہونے والے خفیہ معاہدے سائیس پیکو کو ایک صدی مکمل ہو گئی ۔یہ معاہدہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد نئی سرحدی حدود کے تعین کے لیے کیا گیا،سرحدوں کی اس تقسیم میں تقریباً دس سال لگ گئے۔اس معاہدے کے سو سال پورے ہونے پر کیے جانے والے زیادہ تر تبصرے منفی تھے،جن میں خطے میں موجود عدم استحکام اور تنازعات کا ذمہ دار اس معاہدے کو ٹھہرایا گیا۔ لیکن یہ تجزیے نہایت مضحکہ خیز ہیں۔مارک سائیس اور فرانکوس جورجز پیکو نے یہ منصوبہ مشرق وسطیٰ میں تباہ کن دشمنی کا راستہ روکنے کے لیے بنایا تھا۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ ان کے منصوبے کی وجہ سے دو یورپی طاقتوں کے درمیان یہ خطہ کسی کشیدگی کی لپیٹ میں آنے سے بچا رہا اور تقریباً ایک صدی تک یہ معاہدہ کامیابی سے قائم بھی رہا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سائیس پیکو معاہدے میں جو سرحد بندی کی گئی، وہ خالصتاً یورپی ممالک کی آپس کی سودے بازی کا نتیجہ تھی، اس دوران نہ تو تاریخی حقائق کو سامنا رکھا گیا، نہ ہی مقامی آبادی کے تناسب کو خاطر میں لایا گیا۔ لیکن اس میں کوئی انوکھا پن نہیں۔ پوری دنیا میں بیشتر سرحدیں یا تو کسی فساد یا انارکی کے نتیجے میں بنی ہیں یا پھر اس میں جغرافیہ اور کسی خاص مقصد کو پیش نظر رکھا گیا یا پھر اچانک ہی بن گئیں، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سرحد کا تعین کیا گیا ہو۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کو ان حالات سے دوچار کرنے کے ذمے دار وہاں کے عوام اور راہنما خود ہیں۔ خطے میں موجود عدم برداشت، لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور سیاسی آزادی نہ ہونے کا الزام سائیس پیکو معاہدے پر نہیں لگایا جاسکتا۔ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں (جہاں تیل اور گیس کے ذخائر بھی نہ تھے) جنہوں نے نوآبادیاتی نظام سے نکل کراتنے ہی عرصے میں ترقی کی منازل طے کی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطیٰ کی ناکامی کے عوامل(تاریخ،مذہب اور شخصیات) کا بھر پور جائزہ لیاجانا چاہیے۔ لیکن اس وقت جب معاہدے کو ہوئے سو برس ہو چکے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کا تجزیہ کرنے کے بجائے حال کا جائزہ لیا جائے۔
مشرق وسطیٰ کے بیشتر حصے میں اجارہ داری قائم کرنے کے لیے متشدد جدوجہد کرنا ایک روایت بن گئی ہے۔خطے کے پانچ ممالک ایسے ہیں جہاں ریاست کے بیشتر حصوں میں حکومت اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔لبنان پچھلی ایک دہائی سے اس صورتحال سے دوچار ہے، عراق کو اس صورتحال کا سامنا کرتے ہو ئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا، شام، لیبیا اور یمن پچھلے پانچ برس سے اسی صورتحال میں گھرے ہوئے ہیں۔مسلح گروہ، غیر ملکی جنگجو اور دہشت گرد تنظیمیں مختلف طریقوں سے اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کرد اپنی مملکت کے قیام کاخواب سجائے بیٹھے ہیں (کردوں کی بڑی تعداد ترکی، عراق، شام اور ایران میں رہتی ہے)، دوسری طرف فلسطینیوں کے سیاسی مقاصد انہیں اس بات کی اجازت نہیں دے رہے کہ وہ اسرائیل کی حقیقت کو تسلیم کریں، جس کی وجہ سے معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ عراق اور شام کی سرحدیں اپنے مقاصد کھو چکی ہیں۔ لاکھوں خواتین، بچے اور نوجوان دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کرنا چاہیے، ایک حل تو یہ ہے کہ سائیس پیکو معاہدے کے مطابق مشرق وسطیٰ کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن دنیا کے نقشے پر موجود کسی ملک کو دوبارہ یکجا کرنا اب تقریباً ناممکن ہے۔ یہ ممالک اب ویسے نہیں ہو سکتے جیسے وہ کبھی ہوا کرتے تھے، خطے، مذہب، قبیلے، نسل اور زبان سے تعلق نے قوم پرستی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
دوسرا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ سائیس پیکو کے مشرق وسطیٰ کے بعد اب ایک نئے مشرق وسطیٰ کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ لیکن اس حل کو بھی زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ خطے میں دوبارہ سرحدیں کھینچی تو جا سکتی ہیں لیکن آنے والی چند دہائیوں تک تو ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ خطے میں ایسا کوئی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا کہ آئندہ نقشہ کیسا ہو، نہ ہی کوئی جماعت ایسی ہے جو ایسے کسی نقشے پر عملدرآمد کروا سکے اور اسے قائم بھی رکھ سکے۔ سفارت کاری زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے لیکن سفارت کاری سے زمینی حقائق تبدیل نہیں کیے جاسکتے، اور خطے میں زمینی حقائق ہی تصفیے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اس لیے ایک ہی راستہ ہے جو قابل عمل بھی محسوس ہوتا ہے، وہ یہ کہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ مستقبل میں مشرق وسطیٰ موجودہ نقشے سے کہیں مختلف ہوگا۔یہ حالات سے جان چھڑانے کا کوئی حربہ نہیں ہے، کیونکہ حالات تو جس نہج پر ہیں، وہ مزید خراب ہی ہوں گے۔ لیکن اگر حالات بہتر بنانے ہیں تو وہ حکومتیں اور تنظیمیں جو مخصوص معیار پر پورا اترتی ہیں، انہیں مضبوط کیا جائے اور جو معیارات پر پورا نہ اتریں، انہیں کمزور کیا جائے۔
لیکن کسی بھی سطح پر ہونے والی کوششیں خطے کے زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتیں، سرحدوں کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور حکومتوں کی رٹ بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ آنے والے وقت میں شام، عراق اور لیبیا صرف نام کے ممالک رہ جائیں گے، ان ممالک کے اہم حصے خودمختار حیثیت اختیار کر لیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترکی، ایران، سعودی عرب، اسرائیل، روس اور امریکا سب اپنے اپنے مقاصد کے لیے کام کر رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی کسی قانونی جواز کے بغیر بھیانک مستقبل کی بہتری کے لیے کوئی رائے دینا نہیں چاہتا۔
مشرق وسطیٰ سائیس پیکو معاہدے سے پہلے والی صورتحال کی طرف پلٹ رہا ہے، بس اس دفعہ یہاں خلافت عثمانیہ نہیں۔ اس لیے مشرق وسطیٰ کو اس صدی میں شاید پہلے سے بھی زیادہ بُری صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمیں سائیس پیکو معاہدے کی یاد دلائے گی۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Reconciling with Sykes-Picot”. (“project-syndicate.org”. May 26, 2016)
Leave a Reply