جب یورپ پر ظلمت کی گھٹا چھائی ہوئی تھی

لندن ٹائمز کے مطابق حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا‘ جس سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ شمالی یورپ پر عمومی طور پر جب ظلمت کی گھٹا چھائی ہوئی تھی اور وہ قعر مذلت میں پڑا ہوا تھا‘ بس کہیں کہیں روشنی کی کرن پھوٹتی نظر آرہی تھی۔ مسلمان تسخیرِ کائنات میں مصروف تھے‘ وہ ستاروں سے آگے بھی جہانوں کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ اس نمائش کا مرکزِ توجہ عہدِ وسطیٰ سے متعلق ایک مخطوطہ (قلمی نسخہ) تھا‘ یہ بیش بہا علمی خزانہ یونیورسٹی کی بودلین لائبریری (Bodleian Library) کو دو سال قبل کہیں سے حاصل ہو گیا تھا۔ اس مخطوطے سے یہ پتا چلا کہ یہ کرۂ ارض اور آسمان اجسام فلکی کی حقیقت معلوم کرنے اور اس کا ایک نقشہ (خاکہ) تیار کرنے کی سب سے پہلی سائنسی کوشش تھی‘ اس کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نہایت قیمتی بلکہ اہم ترین اسلامی علمی و تاریخی اثاثہ ہے‘ جس کو ایک پوری صدی کا حاصل کہا جاسکتا ہے۔

اس مخطوطے کا انگریزی نام “The Book of curiosities of the Sciences and the Marvels for the eyes” دیا گیا ہے‘ یہ کتاب ۱۰۵۰ عیسوی کی تحریر کردہ ہے۔ اس کی نقلیں ۱۲۰۰ عیسوی میں تیار کی گئیں‘ یہ اس وقت کی معلوم دنیا کے نقشوں کا ایک نادر اور بیش قیمت مجموعہ ہے۔ اس میں ہمیں مشرق میں تائیوان سے لے کر مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے جزیرہ انکلتراہ (موجودہ انگلینڈ) کے نقشے ملتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سب سے پہلی کتاب ہے‘ جس میں برطانیہ کا نقشہ ملتا ہے‘ یہ کتاب اس عہد میں لکھی گئی تھی‘ جس کو مسلمانوں کا عہدِ زریں کہا جاتا ہے۔ بلاد اسلامیہ میں بہت سے ممالک شامل تھے۔ بغداد دارالخلافہ تھا۔ یہ کتاب ایک ایسے وقت میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ہے‘ جب عراق ایک بار پھر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کتاب کے ۹۶ صفحات پر دریائوں‘ شہروں اور سمندروں کے نقشے پھیلے ہوئے ہیں‘ اوقات کی تعین کے اعتبار سے بھی یہ ایک بے مثال کتاب ہے۔ فلکیات پر بھی اس میں جو معلومات ہیں‘ وہ رہنما اصولوں کی حیثیت رکھتی ہیں‘ پرانے وقتوں میں جہاز رانی میں ستارہ شناس سے مدد لی جاتی تھی‘ اس میں اجرامِ فلکی کے سلسلہ میں بھی بے حد مفید معلومات ہیں۔ اسی طرح اس میں موسمیات کے سلسلہ میں بھی بہت عمدہ معلومات پائی جاتی ہیں‘ اس میں کرۂ ارض کا ایک سرکلر نقشہ بھی ملتا ہے‘ اسی طرح آبی گزرگاہوں اور تجارتی راستوں بالخصوص بحیرۂ روم کے راستے جو تجارت ہوتی تھی‘ اس کے تفصیلی خاکے‘ دریاے نیل کے ڈیلٹا پر آباد شہر ٹنس اور تیونس کے شہر المہدیہ کی شہری منصوبہ بندی کی تصویری کہانی‘ سسلی اور قبرص کے ڈائگرام اور بازنطینی سلطنت کی بندرگاہوں کی تصویروں کے زبانی احوال ملتے ہیں۔

اس نادر و نایاب کتاب میں دنیا کے پانچ دریائوں اور ان کے آبی نظام کی تصویریں ملتی ہیں‘ ان میں نیل‘ فرات‘ دجلہ اور سندھ شامل ہیں۔ بعض کو دریاے سندھ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ مثلاً گنگا اور برہمپتر کو دریاے سندھ سے جوڑ دیا گیا ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ دریاے سندھ کا ہی حصہ ہیں‘ اس میں جو خاکے اور تصویریں دی گئی ہیں‘ ان سے یہ پتا چلتا ہے کہ گیارہویں صدی عیسوی کے مسلمان تاجر بھارت اور چین کے درمیان خشکی کے راستوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ نیل کا سرچشمہ جنوبی سوڈان میں کوہ قمر کو بتایا گیا ہے۔

(ترجمہ و تلخیص: پرواز رحمانی)

***

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*