کردستان میں نسل کشی، ظلم و بربریت اور تنازعات دس عشروں کی مدت پوری کرچکے ہیں، اس طویل ترین مدت کے بعد آزاد کردستان کے لیے گزشتہ دنوں ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا، یہ آزاد کردستان کی جانب ایک تاریخی قدم ہے، اگرچہ اس ریفرنڈم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، نہ ہی انتظامی امور پر اس کے اثرات ہوں گے لیکن بہت ممکن ہے کہ یہ ریفرنڈم آزاد کردستان کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو۔
آزاد ریاست کے لیے کُردوں کو بہت سے مسائل سے نبرد آزما ہونا ہوگا، خاص طور پر خطے کے طاقتور ممالک ترکی اور ایران خودمختار کردستان کی مزاحمت کریں گے، بہت ممکن ہے کہ یہ ممالک فوجی طاقت بھی استعمال کریں۔
عراقی کردستان کے پڑوسی ممالک اس وقت سے مشکلات کا شکار ہیں، جب ۱۹۹۱ء میں مغرب نے شمالی عراق کو نوفلائی زون قرار دیا تھا، یہاں دو نمایاں تنظیمیں کردستان جمہوری پارٹی (KDP) اور کردستان پیٹریاٹک یونین (PUK) لوگوں میں مقبول ہیں، یہ دونوں کردستان کی آزادی کے لیے کام کر رہی ہیں، ایک مکمل ریاست جس کا اپنا سیاسی نظام بشمول انتخابی نظام، ادارے اور اپنی خارجہ پالیسی ہو۔
۱۹۹۰ء میں جغرافیائی لحاظ سے کُرد بہت کمزور تھے اور ہر طرف سے ان طاقتور پڑوسیوں میں گھرے ہوئے تھے، جن کے پاس فوجی طاقت اور وسائل تھے، یہ ممالک ایک نمایاں ہوتی کرد ریاست کو فوجی کارروائی کے ذریعے سے ختم کرسکتے تھے، ۱۹۹۲ء میں عراقی کردستان میں انتخابات کروائے گئے، یہ انتخابات آزاد کرد ریاست کی طرف پہلا قدم تھا اور آج بھی وہ اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔
انتخابات کے باوجود کردستان میں حکومت بنانا آسان نہیں تھا، کردستان کا سیاسی نظام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ کردستان کے پڑوسی ممالک (جوکہ آزاد کردستان نہیں چاہتے) جغرافیائی لحاظ سے ابھرتے ہوئے جمہوری کردستان کو دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، مقامی اور سیاسی و جغرافیائی وجوہ سے خطے کی طاقتیں بشمول ترکی، ایران، شام اور بعث پارٹی نے اپنی تمام تر توجہ اس خطے کو غیر مستحکم کرنے پر مرکوز رکھی ہوئی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے تنظیموں کے درمیان تقسیم، جوڑ توڑ اور مخالف تحریکوں کو منظم کیا۔
انقرہ اور KRG کے درمیان ۲۰۰۳ء سے سیاسی باہمی تعاون مضبوط ہے، ترکی نے آزاد کرد ریاست کے حوالے سے اپنے رویہ میں لچک پیدا کی ہے، ترکی اور بغداد کے درمیان قدرتی گیس کے وسائل اور بفرزون کا قیام انقرہ کے لیے اہم ہوگا۔ عراقی کردستان کے ہائیڈرو کاربن پر گلف سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے، کرد کسی پریشانی یا بغداد کی مدد کے بغیر خودمختار طریقے سے اسے برآمد کر سکتے ہیں۔
۱۹۹۰ء میں ترکی اور KRG کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی رو سے قومی سلامتی اور اقتصادی تعلقات میں عراقی کردستان اہم ستون کا درجہ رکھتا ہے، اس لیے ترکی اس کی شدید مخالفت سے باز رہے گا۔ ترکی نے بڑے پیمانے پر اس علاقے میں سرمایہ کاری کی ہے، ترکی نے وہاں ایک پائپ لائن بچھائی جس کے ذریعے کرد آزادانہ طور پر ہائیڈرو کاربن برآمد کرتے ہیں، ترکی نے کرد علاقے میں سرمایہ کاری کر کے دراصل کردستان کو مستحکم کیا ہے حالانکہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ ایک دن کردستان آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر نظر آئے گا۔
انقرہ کرد ریاست کے خلاف بیانات اور دھمکیاں جاری رکھے گا کیونکہ یہ ترکی کی سیاسی پالیسی اور اس کے PKK کو حد میں رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ کرد PKK اور اس کے شام میں موجود عسکری گروپ کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ ترک حکومت اس وقت ترکی کے اندر کرد ریاست کو روکنے کی مضبوط پوزیشن میں ہے بین الاقوامی اور خطے کے ممالک بھی یہ چاہتے ہیں کہ ترکی (ڈومینو ایفکٹ) خطے کی ریاستوں کو ٹوٹنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرے، ترکی اور شام سے کرد ریاستوں کی علیحدگی مستقبل میں ریاستوں کے ٹوٹنے کے عمل کو بڑھا دے گی، کچھ حساس تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ کرد ریاستوں کی علیحدگی عراق اور دوسری ریاستوں کا اختتام ثابت ہوگی۔ دنیا میں ابھی تک اس طرح کی کوئی تجرباتی صورتحال دیکھنے میں نہیں ملی ہے، لیکن اس صورتحال کے وقوع پذیر ہونے میں مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے شدید مزاحمت سامنے آئے گی۔
کرد امریکا کے اتحادی ہیں اور ان کے پاس معاشی ترقی کے لیے بڑی مقدار میں ہائیڈرو کاربن بھی موجود ہے، ایرانیوں کے لیے یہ ایک بھیانک خواب ہے کہ کردوں کے امریکا کے ساتھ تعلقات کے علاوہ خلیجی اور پڑوسی ممالک سے بھی اچھے تعلقات ہیں، ایران اب مشکل صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، خطے میں اور عراق میں اس کی گرفت کمزور پڑرہی ہے اور دوسری طرف امکان یہ ہے کہ کرد اب ایک نئی عسکری تنظیم کی بنیاد رکھیں اور اس تنظیم میں ان لوگوں کو شامل کریں جو پچھلے کچھ برسوں سے ریاست پر حملوں میں ملوث ہیں۔
درحقیقت شام میں جنگ چھڑنے کے بعد سے کرد آزاد ریاست کی بحالی کے لیے جدوجہد میں تیزی آئی ہے، کردش جمہوری پارٹی بھی ایران کے ساتھ دشمنی اور مزاحمت میں آگے بڑھی ہے جبکہ ایران میں KDPI کو ایران دشمنی کے لیے ازسرنو اہداف دیے گئے ہیں، KDPI کو ایران کے وسائل اور اندرونی معاملات سے بہت دور رکھا گیا ہے، ایران کے اندر انہیں آزادانہ نقل و حمل کی اجازت نہیں ہے، ایران کے خلاف ان کی بغاوت ۱۹۷۹ء کے بعد سے اب اپنے زوروں پر ہے۔
ایرانی کرد علاقہ اب مزید غیر محفوظ اور تباہ حال ہے، ایران وہاں پر اب KDPI کے اڈوں کے بالکل سامنے اپنی افواج کے لیے سیکورٹی زون بنا رہا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایران اب کردوں کی نقل کر رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کسی بھی بغاوت کی صورت میں کرد علاقے کے اندر تک کارروائی کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔
KRG مذاکرات، حکمت، تدبر اورمعاملہ فہمی سے اپنے دشمنوں اور دوستوں کو یہ بتا سکتی ہے کہ آزاد کردستان دنیا کے لیے بہترین ثابت ہوگا، یہ اپنی حکمت عملی سے کردستان کی آزادی کی جنگ جیت سکتی ہے۔ ایران اس عمل کو روکنے کے لیے فوجی کارروائی بھی کرے گا اور شیعہ سنی فسادات کو بھی ہوا دے گا، ایک طرف ٹرمپ انتظامیہ ایران دشمنی کو بڑھا رہی ہے اور اگر ایران امریکا کے پسندیدہ اتحادی کردوں سے نبرد آزما ہوگا تو بہت ممکن ہے کہ امریکا کردوں کی فوجی مدد بھی کرے۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Regional implication of the Kurdish independence vote”.(“Aljazeera”. September.19, 2017)
Leave a Reply