
یہ بات درست ہے کہ ماضی میں علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کے باعث ایران اور ترکی کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کبھی ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ مفادات کا ہونا ہے۔ یہ دونوں ممالک بہت سے اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی دفاعی اور معاشی ضرورت بھی ہیں۔ ایک طرف جہاں ترکی ایران کے لیے مغربی ممالک تک رسائی کا ذریعہ ہے تو وہیں توانائی سمیت مختلف شعبوں میں ایران بھی ترکی کی ضرورت ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر تجارتی تعلقات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک ہمیشہ اپنے تعلقات میں موجود تناؤ کی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے متحرک نظر آتے ہیں۔ انہی تمام وجوہات کے باعث علاقائی سطح پر ترکی کے سب سے بڑے اتحادی سعودی عرب کے دباؤ کے باوجود وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے ایران کا سرکاری دورہ کیا ہے۔ ترک وزیراعظم کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری تھا۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان شام میں ہونے والی حالیہ پیش رفت اور شام کی مجموعی صورتحال پر کافی تشویش پائی جاتی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان شام اس وقت نقطہ اعتراض بن چکا ہے اور شام کے حوالے سے دونوں ممالک مختلف موقف اور رائے رکھتے ہیں۔ تاہم شام کے مستقبل کے حوالے سے دونوں ممالک فکرمند نظر آرہے ہیں اور اپنے تحفظات سے ایک دوسرے کو آگاہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔ شام کی حالیہ خانہ جنگی کی صورتحال کے بعد ترکی کی داخلی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں، اور انقرہ میں اس حوالہ سے کافی تشویش پائی جاتی ہے اور ساتھ ہی شام کے مختلف علاقوں میں کردوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے باعث ترکی میں موجود کرد اقلیت پر اس کے اثرات نے بھی ترکی کو گہری سوچ و فکر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دوسری طرف ایران اور شام کے درمیان کوئی مشترکہ سرحد موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام کی صورتحال پر ایران کے خدشات کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ ایران خطہ میں شام کو فلسطینی مزاحمت کی ایک مضبوط بنیاد کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔
یہ دونوں ممالک ترکی اور ایران شام میں ایک ایسی حکومت کا قیام چاہتے ہیں، جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ ایران شام میں اس وقت ایک وفاقی حکومت کا خواہش مند ہے، جو مستقبل میں قومی سطح پر انتخابات بھی کروا سکے۔ اس سلسلے میں ایران کو روس کی مدد اور تائید حاصل ہے۔ دوسری طرف ترکی اور اس کے مغربی و عرب اتحادیوں کا موقف اس کے بالکل مختلف ہے۔ انقرہ کا کہنا ہے کہ شام کی موجودہ حکومت نااہل اور غاصبانہ ہے۔ اس معاملہ پر دونوں ممالک کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم ترک وزیراعظم کا حالیہ دورہ ایران ایک مثبت پیش رفت ہے۔
ایرانی ایٹمی معاہدہ (JCPOA) کے بعد اب ایران کو آگے بڑھ کر ملکی ترقی اور مفاد کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اور اسلامی جمہوریہ ایران کو ۲۰ سالہ منصوبہ جس کے مطابق ۲۰۲۵ء تک ایران کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوگا، کے بارے میں سوچنا اور اس پر توجہ دینی چاہیے۔ ترک وزیراعظم نے اپنے دورۂ ایران سے حکومت ایران کو پیغام دیا ہے کہ ترکی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری چاہتا ہے اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کے لیے بھی تیار ہے۔ لہٰذا اب ایران کو چاہیے کہ وہ ترکی کو اس کا مثبت جواب دے تاکہ دونوں ممالک خطہ میں اپنے تعلقات کو فروغ دے سکیں۔ ایران کو چاہیے کہ بات چیت اور تبادلہ خیال سے دونوں ممالک کے درمیان موجود خلیج کو کم کرے۔ اور ایسی حکمت عملی ترتیب دی جائے، جس سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آسکیں اور اپنی خارجہ پالیسی میں متعین اہداف کو بھی حاصل کر سکیں۔
(ترجمہ: وسیم سجاد)
“Expansion of strategic relations between Iran and Turkey a necessity”.
(“iranreview.org”. March 8, 2016)
Leave a Reply