
طبقۂ امراء نے زیادہ سے زیادہ حصولِ زر کے لیے ہمیشہ نت نئے طریقے اختیار کیے ہیں۔ لیکن ۱۹۷۰ء کی دہائی کے وسط تک یہ طریقے ایک منضبط و مربوط اور کارکردگی کی حامل مشین کی صورت میں ایک دوسرے سے وابستہ نہیں ہوئے تھے۔ ۱۹۷۵ء کے بعد اس مشین کے کل پرزوں میں مزید پھیلائو اس وقت پیدا ہوا جب ایڈووکیسی گروپس کی ایک تنظیم نے مختلف حلقوں کے حامل افراد کے تھنک ٹینک کی شکل اختیار کرلی۔ اس میں کنزرویٹو، فائونڈیشنز، پی آر فرمز شامل تھیں جو ان مالداروں کو بالا ہی بالا ایک فیصد منافع دیتی تھیں۔ اس مشین کی جڑیں خاصے دلچسپ انداز میں پنجے پھیلائے ہوئے تھیں اور کھوج لگانے تک یہ سلسلہ امریکی سی آئی اے تک جا پہنچا۔ ہم یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اس مشین کا تعلق سی آئی اے کے رسمی آپریشن سے ہے جس کا ایک مخفی نام ہے اور دستخط شدہ دستاویزات بھی ہیں۔ (اس قسم کے شواہد ابھی منظرِ عام پر آنے باقی ہیں اور سابقہ دنوں میں جو تصور میں نہ آنے والے ڈومیسٹک آپریشن ہوئے مثلاً ایم کے الٹراکیاس اور موکنگ برڈ۔ (MK-Utra, Chaos and Mockingbird) ان سے سی آئی اے آپریشن کے واضح امکانات نظر آتے ہیں) لیکن جو بات ہمیں پہلے سے معلوم ہے اس کی روشنی میں امریکی سی آئی اے کا ادارہ موردِ الزام نظر آتا ہے۔ اس کے خاص تشکیل دینے والوں کے نام دلچسپی سے خالی نہیں۔ ارونگ کرسٹول، پال وے رینج، ولیم سائمن، رچرڈمیلان اسکیفے، فرانک شیکسپئر، ولیم این بکلے جونیئر، راکفیلر فیملی اور کچھ مزید افراد تقریباً اس مشین کے تمام تر تشکیل کاروں کا پس منظر امریکی سی آئی اے سے وابستہ نظرآتا ہے۔
یہ افراد ۱۹۷۰ء کی دہائی کے دوران پروپیگنڈے اور آپریشن کے طریق کار میں خاصے سرگرم رہے، اصل میں سرد جنگ کے دوران انہوں نے اپنے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور حسب ما تقدم کے طور پر ان طریقوں کو وضع کیا اور طبقاتی جنگ (Class War) میں ان سے پورا پورا فائدہ اٹھایا، لہٰذا اس بارے میں کسی حیرت اور تعجب کا شائبہ نہیں کہ اس مفروضہ مشیں کے سلسلے میں امریکی بیانات ان بیرونی خیالات سے پراسرار طور پر خاص مماثلت کے حامل ہیں جو اشتراکیت سے نبرد آزما ہونے کے لیے سوچے گئے۔ سی آئی اے کے ماہرین اور تجارتی طبقے کی جامع تنظیمیں ان خوابوں کے پورا ہونے کے بارے میں اپنی توقعات سے کہیں زیادہ کامیاب رہیں۔ ۱۹۷۵ء میں یہ مالدار ترین افراد جنہیں اصطلاح میں ریچسٹ ون پرسینٹ (Richest one Percent) تصور کیا جاتا تھا وہ ۱۹۹۲ء تک امریکی دولت کے ۲۲ فیصد کے حامل ہو گئے اور بیسویں صدی کے اختتام تک یہ شرح ۴۲ فیصد تک پہنچ گئی جو عدم توازن کا نقطۂ عروج ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتحاد کیسے شروع ہوا؟ اصل میں سی آئی اے کا ادارہ ہمیشہ قوم کے زعماء کو اپنے زمرے میں شامل کرتا رہا ہے۔ مثلاً اربوں کھربوں پتی بزنس مین وال اسٹریٹ کے بروکرز، نیشنل نیوز میڈیا کے ممبران اور آئی وی لیگ اسکالرز وغیرہ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جنرل ’’والڈبل‘‘ ڈونو وان او ایس ایس (دی آفس آف اسٹریٹجک سروسز) کا سربراہ رہا ڈونو وان نے خصوصی طور پر قوم کے مالدار اور طاقتور افراد کو اسی آئی کے زمرے میں شامل کر لیا یہ ممبران ازراہِ مذاق او ایس ایس کو اومو سوشل کہتے تھے۔
ایک دوسرا امارت کا حامل شخص ایلن ڈللیس تھا جو ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۱ء تک سی آئی اے کا ڈائریکٹر رہا۔ ایلن وال اسٹریٹ کی فرم سولیوان اینڈ کرام ویل کا سینئر پارٹنر تھا جو راکفیلر ایمپائر اور دوسرے بڑے ٹرسٹ کارپوریشن اور کارخانے داروں کے گٹھ جوڑ کی نمائندگی کرتا تھا (یہ کارخانے دار قیمتیں بڑھانے میں اپنی مثال آپ تھے) ایلن جے ہنری اسکروڈربنک کا بورڈ ممبر بھی تھا، جس کے دفاتر وال اسٹریٹ لندن، زیورچ اور ہیمبرگ میں بھی تھے۔ جس وقت وہ سی آئی اے کا سربراہ بنا تو پوری دنیا میں اس کے مالی مفادات سودی لحاظ سے تنازع کا سبب بن گئے۔ ڈونا وان کی طرح وہ بھی خصوصی طور پر معاشرے کے زعماء کو اپنے زمرے میں شامل کیا کرتا تھا۔
سی آئی اے نے ۱۹۵۰ء کی دہائی سے ہر شعبے میں مثلاً قومی بزنس، میڈیا اور یونیورسٹیز میں اپنے ایجنٹ جن کو معقول معاوضہ دیا جاتا تھا داخل کر دیئے اور اس طرح مختلف اداروں میں ایک قسم کے اپنے ادارے قائم کر دیئے۔ جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
(۱) ایک سرکاری اہلکار نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کو ایک جانب اٹھا رکھا اور سی آئی اے کے لیے کام کرنے لگا۔
(۲) ایک اپنے پیشے سے وابستہ رہا اور اس کام کو کرنے لگا جس میں سی آئی اے کا مفاد ہوتا۔ اس قسم کا فرد پورے وقت بھی کام کرتا، جز وقتی طور پر بھی سی آئی اے کے لیے کام کرتا اور مدعو کرنے پر بھی سی آئی اے کی سرگرمیوں سے وابستہ ہو جاتا۔
(۳) ایک اور شخص جو اپنے پیشے سے وابستہ رہتا لیکن گاہے بگاہے مفید معلومات سی آئی اے کو پہنچاتا رہتا۔ کیونکہ ایجنسی اور کاروباری دنیا کے درمیان ہمیشہ گردشی دروازے کا استعمال قائم رہا ہے۔
اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو سی آئی اے اور معاشرے کے زعماء ایک اور صرف ایک ہی لوگ رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان دونوں کے مفادات اور مقاصد میں ذرّہ برابر فرق نہیں رہا ہے۔ میرے خیال میں اس ذہانت سے ہر برادری کے لیے ’’اولڈ بوائے نیٹ ورک‘‘ (یہود کی قدیم کار فرمائیاں) کی اصطلاح بڑی مناسب رہے گی، جہاں ممبران کو سوشل بنایا جاتا ہے۔ کاروباری طور طریق، موافقت کے لیے ایک دوسرے کی سننا سنانا لیکن یہ سب کچھ حکومت کے کمروں کے باہر ہوتا ہے۔
بیشتر عمومی باوصف عوامل نے اس بات کو ناگزیر بنا دیا ہے کہ سی آئی اے اور امریکا کی اجتماعی ہیّت ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو جائے اور دونوں شدید طور پر جمہوریت کو ناپسند کرنے لگیں اور ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ ان کو جمہوری قوائد و ضوابط سے آزاد ہونا چاہیے اور ان کو درخوراعتنا نہ سمجھیں دونوں اس راز داری کے کلچر میں حصے دار ہوں۔ نیز یا تو یہ اپنے کاموں کو امریکی عوام سے پوشیدہ رکھیں یا ان کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ لوگ ان کو تعریفی و توصیفی نگاہوں سے دیکھنے لگیں (مراد گندم نما جو فروش۔ مترجم) اور دونوں مکمل طور پر اس حیثیت میں ہوں کہ ایک دوسرے کی پوری طرح مدد کر سکیں۔
اب ذرا اس جانب آ جایئے کہ بین الاقوامی سطح کے کاروباری ادارے کس طرح سی آئی اے ایجنٹوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً خفیہ فنڈ کا حصول، اعلیٰ قسم کے ذرائع اور بیرونی ملکوں میں اہم روابط قائم کرنا۔ اس کے عوض سی آئی اے کا ادارہ کارپوریشنوں کو کھربوں ڈالر کے وفاقی کنٹریکٹ تفویض کرتا ہے (مثلاً جاسوس طیاروں، سٹیلائٹ اور دیگر ہائی ٹیک اسپائی کرافٹ کے حصول کے لیے) اب کاروباری حلقہ بھی جاسوسی آپریشنوں میں دلچسپی لینے لگا ہے (ظاہر ہے جب ان کے مال کی اٹھان ہو گی تو دلچسپی کیوں نہ لیں گے۔ مترجم) سی آئی اے کاروباری حلقے کو بہت حد تک تحفظ بھی فراہم کرتا ہے لیکن یہ کام ’’قومی سلامتی‘‘ کے بھیس میں کیا جاتا ہے۔ سی آئی اے کا آخری اقدام یہ ہے کہ وہ بیرونی مارکیٹوں میں امریکی کارپوریشنوں کا غلبہ قائم رکھتی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ جو حکومتیں غیر منضبط یا بے ترتیب سرمایہ کاری کے خلاف ہوتی ہیں ان کو اپنی عشوا طرازیوں سے کام لیکر ہٹا دیا جاتا ہے اور کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار میں لایا جاتا ہے جن کی تمام پالیسیاں امریکی کارپوریشنوں کے اس حد تک حق میں ہوتی ہیں کہ یہ حکمران اپنے عوام کا گلا کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
زعماء کے ساتھ سی آئی اے کا اتحاد بڑا مکروہ ثابت ہوا، ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انہیں قانون کی کوئی پرواہ نہیں رہی۔ درحقیقت سی آئی اے کی تاریخ کا جائزہ، جرائم اور سفاکیوں کا ایک ایسا مرقع ہے جس کی معقول طریقے سے مدافعت، اگر مخالف اشتراکی محرکات کا بھی نام لیا جائے تو ممکن نہیں۔ اس سے پہلے کہ اس اتحاد یا الحاق پر تفصیل سے تبصرہ کیا جائے مناسب یہ ہو گا کہ پہلے ہم سی آئی اے کی سفاکیوں اور بے اندازہ ظلم اور استبداد کی تاریخ سے واقف ہو جائیں۔
امریکی سی آئی اے کے جرائم:
دوسری جنگِ عظیم کے دوران او ایس ایس کا ادارہ پورے انہماک اور مستعدی کے ساتھ پروپیگنڈے، تخریب کاری اور دیگر غلیظ حرکتوں میں ملوث ہو گیا۔ جنگ کے بعد اور حتیٰ کہ جب ۱۹۴۷ء میں سی آئی اے کا ادارہ قائم ہوا امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے یہ سوچ کر کہ اب قومی سلامتی کو جو خطرہ لاحق تھا وہ ٹل گیا ہے لہٰذا اس کا رُخ بے ضرر اطلاعات کے اکٹھا کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی جانب کر دیا گیا۔ لیکن ۱۹۴۸ء میں سرد جنگ شروع ہو گئی اور امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی پالیسیوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی؟ لہٰذا امریکی سی آئی اے نے کورٹ ایکشن ونگ قائم کیا اور غیر موثر انداز میں جس سے کسی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اسے آفس آف پالیسی کو آرڈی نیشن کا نام دیا گیا۔ اس کا پہلا ڈائریکٹر وال اسٹریٹ کا وکیل فرانک وزینر مقرر ہوا جس کے خفیہ منشور کے مطابق اس کی ذمہ داریاں حسبِ ذیل تھیں۔
پروپیگنڈہ، اکنامک وارفیئر، ڈائریکٹ ایکشن سے احتراز بشمول تخریب کاری، مخالف تخریب کاری، انہدام اور انخلاء کے طریق، مخالف ریاستوں کے خلاف تخریبی کارروائی بشمول زیر زمین مدافعتی گروہوں کو مدد پہنچانا۔ نیز آزاد دنیا کے دھمکی یافتہ ممالک کے وہ عوامل جو اشتراکیت کے مخالف تھے ان کی مدد کرنا۔
۱۹۵۳ء تک سی آئی اے کے اس غلیظ اور مہارت سے بھرپور شعبے میں لوگوں کی تعداد سات ہزار دو سو تک پہنچ گئی اور سی آئی اے کے مجموعی بجٹ کا ۷۴ فیصد حصہ ان پر خرچ ہونے لگا۔
مندرجہ ذیل حوالہ جات اس لاقانونیت کے کلچر کی وضاحت کرتے ہیں جو سی آئی اے میں سرائیت کیے ہوئے ہے۔
پہلا حوالہ: اسٹینلے لَووِل، وائلڈ بل، ڈونووان کے لیے سی آئی اے کا ریکروٹز تھا کہتا ہے ’’جو کچھ میری ذمہ داری ہے وہ ہر امریکی سائنسدان کے وجود میں ہیک بیڈ بوائے کو اکسانا ہے (مراد یہ کہ نفس امارہ کو ترغیب دینی ہے) اور اس سے کہنا ہے ’’عمومی نوعیت کے قانون کا احترام کے تصورات کو کھڑکی سے باہر پھینک دو، مسرتوں کے جہنم کو ابھارنے کا ایک موقع میسر آیا ہے، آئو اس کو ہوا دینے میں میرا ساتھ دو‘‘۔
دوسرا حوالہ: جارج ہنٹر وائٹ اپنی سی آئی اے کی احمقانہ جسارت کے ساتھ لکھتا ہے۔ ’’میں نے انگوروں کے باغوں میں بڑی دلجوئی سے سخت محنت کی کیونکہ یہ ایک تفریح تھی، محض تفریح اور تفریح کے سوا کچھ بھی نہیں۔ نیز جہاں کہیں سرخ خون کا حامل امریکی لڑکا پڑا ملے اسے قتل کر دو، اس کے ساتھ دھوکہ کرو، چوری اور بدفعلی کا ارتکاب کرو اور اعلیٰ مقام پر فائز افراد کی مرضی اور رضامندی سے لوٹ مار کا بازار گرم کرو‘‘۔
تیسرا حوالہ: سی آئی اے ایجنسی کا ریٹائرڈ شخص جو ایک کیس ورکر تھا (معاشرتی مسائل کا مطالعہ کرنے والا) اور اسے بیس سال کا تجربہ تھا کہتا ہے ’’جو کام مجھے دیا گیا اس کے بارے میں میں نے قانونی اور اخلاقی نکتہ نگاہ سے کبھی نہیں سوچا، بس کر ڈالا۔
رازداری سے مخمور اور کانگریسی نوعیت کی فروگزاشت اور کمی کی بناء پر سی آئی اے کے آپریشن تقریباً فی الفور تیار ہو گئے۔ پروپیگنڈے کے لیے وائس آف امریکا اور ریڈیو فری یورپ کو آلہ کار بنایا گیا یہی دو مقام اصل میں پروپیگنڈہ اسٹیشن تھے۔ سی آئی اے کے ادارے نے قطعیت کے ساتھ محسوس کیا کہ وہ سبک رفتاری سے عوام کو اپنی بہتری کے لیے اپنے مفاد میں ڈھال لے۔ نشریات جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو رہی تھیں حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسٹیشن میں ان کی نقول کی اشاعت غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ یہ ایک طاقتور تنظیم کے لیے مسلم الثبوت نوعیت کا معاملہ تھا۔ طے یہ کیا گیا کہ عوام کے لیے اور ان کو سمجھانے کے لیے کون سا اقدام بہترین ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا جن طاقتوں کی بذات خود اس ادارے نے مدد کی تھی ان کو ہی برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
۱۹۴۰ء اور ۱۹۵۰ء کی دہائیوں میں بیشتر لوگ اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ سی آئی اے کا ادارہ کیا کر رہا ہے اور جو واقف تھے ان کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ سی آئی اے خاصے بہتر انداز میں اشتراکیت کے خلاف مصروفِ جنگ ہے۔ مثلا جیمز بونڈ۔ بہرحال یہ لوگ ہمیشہ کے لیے اپنے اقدامات کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے تھے لہٰذا ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں سے امریکیوں کو اس ایجنسی کے جرائم اور سفاکیوں کے بارے میں معلوم ہونا شروع ہو گیا اور جو باتیں سامنے آئیں وہ یہ تھیں کہ سی آئی اے نے یونانی، اطالیہ اور دوسری درجنوں اقوام کے جمہوری انتخابات میں بے اندازہ بدعنوانیاں کرائیں۔ نیز سی آئی اے تقریباً بیرونی ممالک کے سربراہوں، ممتاز سیاسی رہنمائوں کے قتل کے ۳۵منصوبوں میں ملوث نکلی، جو قتل کامیابی کے ساتھ کرائے گئے ان میں جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے لیڈر مثلاً چلّی کے سالویڈور ایلنڈے اور بیلجین کانگو کے پیٹرائس لوممبا شامل ہیں نیز سی آئی اے کا ادارہ آمرانہ ذہن کے حامل لوگوں کو بھی برسراقتدار لایا، جیسے ڈومینکن ری پبلک کے رافیل ٹروجیلو اور جنوبی ویتنام آنگو ڈین ڈینم، مشہور سیاسی لیڈر جی گیو وارا وغیرہ اور جن بڑے لوگوں کو قتل کرانے کے سلسلے میں ناکامی ہوئی ان میں فیڈلا کاسٹرو اور چارلس ڈیگال شامل ہیں۔ فوجی بغاوتوں کے بارے میں بھی سی آئی اے کا بڑا ہاتھ ہے، جس کے نتیجے میں جمہوری بنیادوں پر قائم ہونے والی حکومتوں کے تختے اُلٹ دیے گئے اور ان کی جگہ سفاک ترین آمر یا اقتدار کی آرزو رکھنے والی سیاسی ٹولیاں برسراقتدار لائی گئیں۔ جمہوری طریق پر جن برسراقتدار آنے والے رہنمائوں کے اقتدار کو ختم کیا گیا ان میں ایران کے ڈاکٹر مصدق، ان کی حکومت ۱۹۵۳ء میں ختم کی گئی۔ گوئٹے مالا کے اربیز ہر ۱۹۵۴ء میں اقتدار سے محروم کیے گئے۔ ایکواڈور ویلاسکو اور اروسیمینا بتدریج ۱۹۶۱ء اور ۱۹۶۳ء میں زد میں آئے۔ ڈومینکن ری پبلک کے بوسچ (Bosch) کو ۱۹۶۳ء میں دھکا دیا گیا، نیز برازیل کے گوئے لارٹ کو ۱۹۶۴ء میں ختم کیا گیا۔ انڈونیشیا کے ڈاکٹر ابراہیم سوئیکارنو ۱۹۶۵ء میں اقتدار سے محروم کیے گئے، یونان کے پاپا نڈریو ۱۹۶۷ء میں اور چلّی کے ایلنڈے ۱۹۷۳ء میں اقتدار سے محروم ہوئے۔ اس کے علاوہ اور بھی درجنوں رہنما ہیں جن کے اقتدار کے گَلوں پر سی آئی اے کی چُھری چلی۔ نیز سی آئی اے نے آسٹریلیا، گیانا، کمبوڈیا، جمائیکا اور دیگر حکومتوں کی اندر ہی اندر جڑیں کھوکھلی کیں۔ اور قاتلانہ ذہن کے آمروں کو پوری طرح شہہ دی۔ مثلاً چلّی کے جنرل پینوچیٹ، شاہ ایران اور فلپائنیز کے فرنینڈمارکوس، ہیٹی (Haity) کے پاپا ڈوک اور بے بی ڈوک، پانامہ کے جنرل بوریگا، زائرے (Ziare) کے موبوئیویسے سیکو یونان کی دارین آف دی کرنلس (Thereign of the colnels) نیز سی آئی اے نے ڈیتھ اسکاڈ اور سیکرٹ پولیس فورسز کو تربیت بھی دی اور بہرطور ان کی مدد بھی کی۔ ان ظالموں نے سینکڑوں ہزاروں شہریوں پر تشدد کیا اور انہیں موت کے گھاٹ بھی اتار دیا نیز بائیں بازو کے سیاسی مخالفین کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا۔ گوئٹے مالا، ہنڈراس، ایل سلواڈور، ہیٹی، بولیویا، کیوبا، میکسیکو، پیراگوئے، برازیل، چلّی، ویتنام، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، ایران، ترکی، انگولا اور دیگر علاقے۔
فورٹ بینگ، جارجیا میں اسکول آف دی امریکاز کو چلانے میں مدد دی گئی یہاں لاطینی امریکن ملٹری آفیسرز کو تربیت دی جاتی تھی کہ کس طرح منتخب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا جائے، اس میں تشدد، پوچھ گچھ یہاں تک کہ قتل کرنے کی تربیت بھی شامل تھی۔ مشی گن اسٹیٹ کے پروفیسروں کو تشدد کرنے کے ضمن میں سیکرٹ پولیس قائم کی گئی اور ان پروفیسروں کا استعمال صرف اس مقصد کے لیے کیا گیا کہ وہ تشدد کرنے کے طریقے اس پولیس کے افراد کو سکھائیں۔ ایک اور گھنائونی حرکت معاشی تخریب کاری کی تھی یعنی فصلوں کو تباہ کرنا، صنعت کو درہم برہم کرنا، جہازوں کو ڈبو کر غذا کا بحران پیدا کرنا، مشرقی تیمور میں دو لاکھ افراد، انڈونیشیا میں پانچ لاکھ اور کمبوڈیا میں ۱۰ سے ۲۰ لاکھ افراد کے قتل عام کا راستہ اسی ہونہار ادارے نے ہموار کیا۔
نکاراگوا، انگولا، کیوبا، لائوس اور انڈوچائنا میں خفیہ یا غیر قانونی ملٹری ایکشن یا جنگ کی صورت اسی ادارے کی کار فرمائی ہے جسے عرف عام میں سی آئی اے کہا جاتا ہے۔ جھوٹ اور فریب کاری جیسا کہ ان کی گھٹی میں شامل ہے لہٰذا مقامی میڈیا پر جھوٹی کہانیوں کو مشتہر کیا گیا اور سیاسی مخالفین پیدا کیے گئے تاکہ وہ ہر غلط عمل کو روا رکھیں۔ جن باتوں کا وجود نہ تھا ان کو پھیلایا گیا۔
کانگریشنل لاء کی نافرمانی کے ضمن میں سینکڑوں ہزاروں امریکی شہریوں پر کڑی نظر رکھی گئی۔ نازی جنگی مجرموں اور ہتھیار بنانے والے سائنس دانوں کو اسمگل کرکے امریکا لایا گیا۔ بیشتر تنظیمیں قائم کی گئیں۔ مثلاً ورلڈ اینٹی کمیونسٹ لیگ میں سابقہ نازی، نازیوں کے ہمدرد، اٹلی کے دہشت گرد، جاپانی فاشسٹ، ریشل افریقن، لاطینی امریکا کے ڈیتھ اسکاڈ کے لیڈر، سی آئی اے ایجنٹ اور دیگر دائیں بازو کے جنگجو شامل کیے گئے۔ ’’ایم کے الٹرا‘‘ آپریشن کیے گئے، یہ ایک دماغ کو کنٹرول کرنے والا تجربہ تھا جس کے تحت ایل ایس ڈی اور دیگر منشیات بے خبری میں امریکن نوجوانوں کو دے دی جاتیں، جس کے نتیجے میں اکثر نوجوانوں نے خودکشی کر لی۔ طالب علموں کی وہ تنظیمیں جو جنگ کے خلاف تھیں ان میں انتشار پھیلا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ مافیا کے ساتھ گہرے مراسم قائم کیے گئے اور ان کے ساتھ کام بھی کیا گیا۔
سی آئی اے نے اپنے آپریشنوں کے لیے فنڈ مہیا کرنے کے سلسلے میں جو مکروہ اور بھیانک ترین اقدام کیا وہ منشیات کی عالمی سطح پر فروخت ہے۔ کنٹرا کریک اسکینڈل تو اس کے نزدیک ایسا ہے جیسے پہاڑ کے مقابلے میں چوہا۔ دوسری ذلالت سے پُر مثالیں سائوتھ ایسٹ ایشیا گولڈن ٹرائی اینگل اور لوریجینا پانامہ کی ہیں کیا ان کی انگلیوں کے نشانات جان ایف کینیڈی، روبرٹ ایف کینیڈی، مارٹن لوتھرکنگ اور مالکم ایس کے قتل کے ضمن میں محسوس کیے جا سکتے ہیں اور اگر سی آئی اے ان بڑے لوگوں کے قتل کی ذمہ دار نہیں ہے ، تو یہ سوال کہ سی آئی اے ان کیسوں میں کیوں ملوث ہوئی جواب کا منتظر ہے اور پھر کانگریس کے سامنے حسب عادت تمام مندرجہ بالا واقعات کے بارے میں جھوٹ کیوں بولا گیا۔ ایک ذمہ دار ایسوسی ایشن (اے آر ڈی) نے تخمینہ لگایا ہے کہ سی آئی اے کے خفیہ آپریشنوں کے نتیجے میں ساٹھ لاکھ افراد مارے گئے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا سابقہ اہلکار ولیم بلم اگر اس کو امریکی ہولو کاسٹ کا نام دیتا ہے تو کیا غلط کہتا ہے؟
یہ بات قابل غور ہے کہ سی آئی اے ان تمام باتوں سے مُبرّہ ہے، کیونکہ یہ جمہوری حکومت کی نگاہوں میں احتساب سے مستثنیٰ ہے۔ سابقہ سی آئی اے آفیسر کلب ایجی بڑی خوبصورت توجیح پیش کرتا ہے۔ ’’سی آئی اے صدر کی خفیہ آرمی ہے‘‘ ہر ایجنسی ۱۹۷۵ء سے پہلے صرف صدر کے سامنے جوابدہ تھی۔ نیز سی آئی اے کی تمام تر سرگرمیاں خفیہ ہوتی ہیں، لہٰذا صدر کو عوامی تنقید اور دبائو کے سلسلے میں شاید ہی پریشان ہونے کی ضرورت تھی۔ لیکن ۱۹۷۵ء کے بعد چرچ ہیئرنگ کانگریس نے کوشش کی کہ کانگریشنل نکتہ نگاہ سے سی آئی اے کو فروگزاشت کے خانے میں ڈال دیا جائے لیکن وہ اپنی اس کوشش میں بری طرح ناکام رہی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریشنل اوور سائیٹ کمیٹی بس یونہی خواہ مخواہ ہے۔ یہ سرد مہر جنگجوئوں، رجعت پسندوں، بزنس مین اور حتیٰ کہ سابقہ سی آئی اے کے افراد کا ایک منصوبہ ہے۔
سی آئی اے کے جرائم کی کاروباری اصلیت؟
اگرچہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سرد جنگ کے دوران سی آئی اے کا بنیادی مقصد اصل میں اشتراکیت کی روک تھام تھا لیکن نوم چومسکی (Noam Chomksy) کی رائے اپنی جگہ ایک بَیّن حقیقت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سی آئی اے کا اصل مشن جمہوریت کو روکنا ہے، انتخابات میں بدعنوانیاں، منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنا، منتخب رہنمائوں کا قتل اور ان کی جگہ قاتلانہ ذہنیت کے آمروں کو برسراقتدار لانا۔ فی الواقعی سی آئی اے نے جمہوریت کو آمریت سے بدلا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ سی آئی اے کو بڑے تاجروں نے چلایا ہے جن کی دشمنی جمہوریت کے ساتھ ایک روایتی داستان کی نوعیت کی ہے۔ یہ بات کہ سی آئی اے نے بیشتر جمہوریتوں کا تختہ الٹ دیا اصل میں اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی رائے پالیسیوں کے مطابق دیتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں یا کاپروریشن لینڈ ریفارم، مضبوط لیبر یونین، ان کی صنعتوں کو قومیانہ، وہ اصول جو ورکرز کو تحفظ دیتے ہیں یہ کارپوریشنز ان سب عوامل کو پسند نہیں کرتیں۔ لہٰذا سی آئی اے کی سب سے بڑی کامیابی عام طور پر اشتراکیت کی مخالفت سے زیادہ ان کارپوریشنوں کی حمایت ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ اشتراکی خطرے کو بڑھا چڑھا کر سی آئی اے نے ۱۹۵۳ء میں ایران میں جمہوری اصولوں کے تحت برسراقتدار آنے والے ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، اس وقت تو کوئی اشتراکی خطرہ نہیں تھا۔ سوویت یونین کے ارکان پیچھے کھڑے ہوئے فاصلے سے اس بغاوت کا نظارہ کرتے رہے۔ حقیقت میں جو کچھ واقع ہوا وہ اس اندیشے کے تحت ہوا کہ ڈاکٹر مصدق نے ایران میں برطانوی اور امریکی تیل کمپنیوں کو قومیانے کی دھمکی دی تھی۔ نتیجے کے طور پر سی آئی اے اور ایم۔۱۶ نے مصدق حکومت کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی۔ جس کے سربراہ شاہ ایران تھے اور ان کی خونخوار خفیہ پولیس ساواک ۔ اب یہ بات کہ آیت اللہ خمینی نے تہران میں کیوں ۵۲ امریکیوں کو ۱۹۷۹ء میں یرغمال بنا لیا؟ اس کی کڑی بھی سی آئی اے کی کار فرمائی سے ملتی ہے۔ سی آئی نے ایرانی ہم وطنوں کو قتل کرنے اور ان پر بے اندازہ تشدد کرنے کے سلسلے میں ساواک کی پوری پوری مدد کی تھی۔
سی آئی اے کی دوسری مکروہ کامیابی کا تعلق ۱۹۵۴ء میں گوئٹے مالا سے ہے جیکابو ارینز جمہوری طریقے پر برسراقتدار آیا تھا۔ اس بار بھی اشتراکیوں کی جانب سے کسی خفیف خطرے کا شائبہ نہیں تھا۔ حقیقی خطرہ یہ تھا کہ گوئٹے مالا کی یونائیٹڈ فروٹ کمپنی رائفلز کی ملکیت تھی۔ جس کے اسٹاک ہولڈروں میں سی آئی اے کا ڈائریکٹر ایلن ڈیویس بھی تھا۔ ارینز نے اس کمپنی کو قومیانے کی دھمکی دے دی لیکن اس کے ساتھ ساتھ کمپنی کو کچھ فیاضانہ سہولتیں بھی دے دیں، اس کے جواب میں سی آئی اے نے یہاں بغاوت کرا دی آربینز کے ہاتھوں سے اقتدار جاتا رہا اور اس کی جگہ خونی اور سفاک آمر کاسٹیلو برسراقتدار آ گیا جو مسلسل چار دہائیوں تک مسلط رہا۔ سی آئی اے کے حمایت یافتہ آمروں نے سینکڑوں ہزاروں بائیں بازو کے افراد یونین کے ممبروں اور دیگر افراد کو جو ملک کے ذرائع کو مساویانہ طور پر تقسیم کرنے کے خواہش مند تھے ان پر بے اندازہ تشدد کیا اور قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔
سی آئی اے کی ریشہ دوانیوں سے متعلق مزید ایک اور داستان کا تعلق چلّی سے ہے۔ ۱۹۷۳ء میں سلویڈور ایلنڈے جمہوری نظام کے تحت منتخب ہو کر اقتدار میں آیا۔اور بیرونی ملکیت کے حامل مفادات کو قومیا لیا مثلاً منفعت بخش تانبے کی کانیں اور ٹیلی فون، انٹرنیشنل ٹیلی فون اور ٹیلی گراف (آئی ٹی ٹی) کمپنی نے ایلنڈے کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سی آئی اے کو ایک ملین ڈالر کی پیشکش کی لیکن سی آئی اے نے مبینہ طور پر اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ اس کے برعکس اس کے (مراد ایلنڈ) سیاسی مخالفین کو ۳ لاکھ ۵۰ ہزار ڈالر (اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے) ادا کیے۔ سی آئی اے کو جلد ہی اس رقم کی ادائیگی کا جواب مل گیا۔ اچانک اس کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس کو قتل کر دیا گیا اور ایک انتہائی سنگدل اور سفاک شخص جنرل آگسٹو پینوچیٹ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو گیا، اس ظالم شخص نے ہزاروں کی تعداد میں بائیں بازو کے ارکان، یونین کے ممبران اور سیاسی مخالفین کو قتل کرا دیا۔
جس وقت حقیقی اشتراکی خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ سی آئی اے نے سب سے پہلے زعماء ( بڑے سرمایہ داروں) کی جانب دھیان دیا۔ ۱۹۵۰ء کے اوائل میں کانگریس کو شہادتیں اور ثبوت مہیا کیے گئے، سوویت یونین کی عسکری صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور مصنوعی طور پر اس غبارے میں خوب خوب ہوا بھری۔ اس ضمن میں ایک شیطانی مثال ’’بومبر گیپ‘‘ کی ہے۔ جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ یہ محض مبالغہ اور صرف مبالغہ آرائی کا نام تھا، دوسری مثال اور اصطلاح ’’ٹیم بی‘‘ کی ہے۔ یہ ایک عقابی نگاہیں رکھنے اور تجزیہ کرنے والے سی آئی اے سے منسلک افراد کا گروہ ہے۔ اس گروہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ سوویت یونین کے مبینہ عسکری حقائق (ڈیٹا) کو اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس بے بنیاد خوف کی عیارانہ تدبیر نے خوب خوب کام کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس نے ایک بہت بڑا دفاعی کنٹریکٹ یو ایس ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو دے دیا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ سوویت یونین انتشار کا شکار ہو کر زوال پذیر ہو گئی اور امریکی دفاعی کنٹریکٹ خاک میں مل گیا لیکن سی آئی کے بانکے ان واقعات کے باوجود زعماء کی اعانت اور ان کا ساتھ حاصل کرنے پر کمربستہ رہے۔ ایک ممتاز صحافی رابرٹ ڈریفس لکھتا ہے:
’’سرد جنگ کے خاتمے کے وقت سے واشنگٹن اس گفت و شنید میں مصروف رہا ہے کہ سی آئی اے کو معاشی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جائے۔ پرتکلف اندازِ تحریر یا بات چیت کو ایک طرف اٹھا کر رکھ دیا جائے۔ معاشی جاسوسی کا مطلب یہ کہ امریکی جاسوس بیرونی کمپنیوں کو ہدف بنائیں۔ مثلاً ٹیوٹا، نیسان اور ہنڈا وغیرہ اور پھر خفیہ طریقے پر سرقہ شدہ تجارت کے راز اور ٹیکنالوجی کو امریکا کے کارپوریٹ کے ذمہ داروں (ایگزیکٹو) کو پہنچا دیے جائیں۔ لیکن اس ضمن میں ایک مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ سی آئی اے اس ٹیکنالوجی کو ہر ایک آٹو سے متعلق امریکی کمپنی کے حوالے نہ کرے بلکہ صرف تین بڑے ڈیلروں کو یعنی فورڈ، کرسلر اور جنرل موٹر کو یہ ٹیکنالوجی دی جائے۔
سی آئی اے کے ایک سابق ایجنٹ فلی ایجی نے ۱۹۷۵ء میں ایک انٹرویو میں ایجنسی سے متعلق اپنے ذاتی مشاہدوں کے تحت کہا: ’’وہ لوگ جو اس کے لیے کام کرتے ہیں وہ سی آئی اے کو کمپنی کے نام سے جانتے ہیں، اس بڑی کاروباری ذہنیت نے ہر چیز کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے۔ مثال کے طور پر ایجنٹوں کو اثاثے (Assets) کہا جاتا ہے اور جو شخص یونائیٹڈ کنگ ڈم کی نشست کا انچارج ہے اس کو یوکے اکائونٹ کہا جاتا ہے۔
امریکن ملٹی نیشنل کارپوریشن تمام دنیا میں بڑے بھاری مفادات کی حامل ہیں۔ آپ یہ دیکھ کر اپنا سر پیٹ لیں گے کہ جہاں کہیں آپ امریکا کے کاروباری مفادات پاتے ہیں وہاں آپ سی آئی اے کو بھی پائیں گے۔ یہ ملٹی نیشنل کارپوریشن وہاں پر امن صورتحال کی خواہاں ہوتی ہیں جہاں انہوں نے اپنا سرمایہ لگایا ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح ان کو بغیر کسی رکاوٹ یا خلل کے سستا خام مال، سستی محنت اور مستحکم مارکیٹیں ان کی تیار کردہ مصنوعات کے لیے مل جاتی ہیں۔ بہتر صورت حال بینکر کے لیے بھی مناسب ہے کیونکہ ایک تو ان کا سرمایہ محفوظ ہو جاتا ہے اور پھر اضاف مضاف ہوتا رہتا ہے اور بہتر صورتحال ان بیرونی چھوٹے حکمراں گروہوں کے لیے مناسب ہے جنہیں سی آئی اے سہارا دیتی رہتی ہے کیونکہ وہ معاشی اور معاشرتی بلندیوں پر بسیرا کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اپنے عوام کی اکثریت کو نشیب میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا آپ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اس نشیب میں رہنے سے کیا مراد ہے، جیسا کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ’’جہالت ہے‘ مفلسی ہے، بیماری اور فاقوں کی بناء پر وقت سے پہلے موت کا آ جانا ہے۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ سی آئی اے کا ادارہ صدر کا آلہ کار ہے۔ یہ صرف پالیسیوں پر عملدرآمد کرتا ہے اور ہر ایک کی مانند صدر کو معاشرے میں ان قوتوں کو جواب دینا ہوتا ہے جن کی رہنمائی وہ درست سمت میں کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ امریکا میں قوت سے بھرپور طاقت ’’بگ بزنس‘‘ ہے اور امریکا کی یہ بگ بزنس سرد جنگ میں اپنے مفادات رکھتی ہے۔۔۔ جاری ہے!
{}{}{}
Leave a Reply