اندرونِ خانہ تقرر:
سی آئی اے ان زعماء کو جو زیادہ سے زیادہ پرجوش اور اضطراری زندگی کے خواہاں ہیں اپنے زمرے میں شامل کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتی۔ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۵۹ء کے درمیان ۴۰ ہزار سے زیادہ امریکی انفرادی حیثیت میں اور کمپنیوں نے یو۔ ایس انٹیلی جنس کمیونٹی کے لیے بطور فعال ذرائع کے کام کیا۔ آیئے ذرا دیکھیں کہ سی آئی اے کہاں کہاں سے افراد (مراد سرمایہ دار) کو اپنے زمرے میں شامل کرتی ہے اور یہ بھی دیکھیں کہ ان لوگوں نے کس طرح سی آئی اے کو اہل بنایا کہ وہ ہر جرم کرنے پر مستعد ہو گئی۔
سی آئی اے نے ابتدا ہی سے بڑے سرمایہ داروں کی جانب دستِ تعاون دراز کیا اور آغاز ان لوگوں سے کیا جو مشہور کھرب پتی سرمایہ دار تھے۔ مثلاً ہووارڈ ہوگیز (Howerd Hughes) کو اپنے باپ سے وراثت میں لاکھوں ڈالر مالیت کی ٹول اینڈ ڈائی کمپنی ۱۹ سال کی عمر میں مل گئی تھی اور وہ اپنی دولت کو بڑھانے کے سلسلے میں بڑا مضطرب رہتا تھا اس نے یہ عاقلانہ فیصلہ کیا کہ اس جانب جانا چاہیے جہاں دولت ہے، یعنی حکومت۔ لہٰذا کچھ تھوڑا بہت لے دے کر اس نے ایک دفاعی کنٹریکٹ، جنگی طیارے بنانے کے لیے حاصل کر لیا۔ اس کے نتیجے میں ہوگیز ایئر کرافٹ کمپنی کا قیام عمل میں آیا اور ۱۹۴۰ء میں اس نے ٹرانس ورلڈ ایئر لائنز میں بھی اپنے قدم جما لیے۔ اس کے حکومت سے اور انٹرنیشنل ایئر لائن سے روابط کا نتیجہ یہ نکلا کہ سی آئی اے کی توجہ اس کی جانب مبذول ہو گئی اور پھر دونوں کے درمیان زندگی بھر کے لیے تعلقات قائم ہو گئے۔ ہوگیز جس کو سی آئی نے ڈَب کر کے ’’اسٹاک بروکر‘‘ کا خطاب عطا فرما دیا تھا وہ ایجنسی کا سب سے بڑا کنٹریکٹر بن گیا۔ نہ صرف یہ کہ سی آئی اے نے اس کی کاروباری فرموں کو فرنٹ کے طور پر استعمال کیا بلکہ اس نے سی آئی اے کے بے شمار آپریشنوں کے لیے سرمایہ مہیا کیا۔ شاید سب سے زیادہ شیطانی آپریشن ’’آپریشن جنیفر‘‘ تھا۔ اصل میں ایک ڈوبی ہوئی سوویت آبدوز کشتی سے نیو کلیئر کوڈز حاصل کرنے کی لاحاصل کوشش کی گئی تھی۔ ہوگیز کی سیکوریٹی کا دایاں بازو، رابرٹ ماہیو ایک سی آئی اے ایجنٹ تھا جس نے فیوڈل کاسترو کو قتل کرنے کے لیے مافیا سے سی آئی کے نمائندے کی حیثیت سے گفت و شنید کی تھی۔
سی آئی اے کے ’’بگ بزنس‘‘ (مراد سرمایہ دار) کے ساتھ روابط بڑی تیزی سے بڑھتے چلے گئے۔ ایجنسی نے انٹرنیشنل کمپنیوں، پبلک ریلیشن فرموں، میڈیا کمپنیوں، لاء آفسز، بنک، فائٹینر اور اسٹاک بروکرز سے ترجیحی بنیادوں پر تعلقات استوار کیے۔ بڑے کاروباری لوگوں کو اپنے زمرے میں شامل کرنے میں سی آئی کی سرگرمیوں کی کوئی انتہا نہ تھی۔ بسا اوقات تو سی آئی اے نے کھلم کھلا اکثر کمپنیوں کو خرید لیا یا پھر خود کمپنیاں قائم کیں۔ سی آئی اے کا ’’بگ بزنس‘‘ سے تعلقات بڑھانے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بجائے اس کے کہ وہ حکومت سے فنڈ حاصل کرے اس نے فنڈ حاصل کرنے کا ایک خفیہ ذریعہ پیدا کر لیا۔ مثلاً اسٹاک پورٹفو یسوز سے ان کے فائدوں کو دوگنا تین گنا کرنے کے لیے۔ اب یہ کہنا ناممکن ہے کہ سی آئی اے حقیقت میں مسرتوں کے کس مقام پر ہے۔ اگر کانگریس نے کبھی کسی مشن کے سلسلے میں فنڈ کو روک دیا تو بزنس بھائی چارا آسانی سے ان کی جگہ لے سکتا ہے خواہ عطیات کی شکل میں یا پھر وہ ملک جس کو ہدف بنایا گیا ہوتا ہے وہاں سود مند کاروبار قائم کردیئے جاتے ہیں۔ حقیقت میں بالکل یہی کچھ ایران کنٹرا اسکینڈل کے دوران ہوا۔ خود کو جمہوری دبائو سے مستثنیٰ کرنے کے لیے اس نے تاجر برادری سے اتحاد کیا اور اس سے فنڈز حاصل کیے۔
میڈیا:
سی آئی اے کے ایجنٹوں کو صحافت مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔ لوگ آزادی کے ساتھ صحافیوں سے بات کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایک صحافی کے بارے میں مشکوک انداز میں سوچتے ہیں لہٰذا جارحانہ انداز میں وہ ان سے اطلاعات حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اس بارے میں خاصی جستجو ہوتی ہے۔ صحافیوں کا خود بھی اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ لہٰذا سی آئی اے نے ۱۹۴۰ء کے اواخر میں ایک مشن کا آغاز کیا کہ امریکی صحافیوں کو بھی خاصے وسیع پیمانے پر اپنے حلقے میں شامل کیا جائے۔ اس مشن کا نام ’’موکنگ برڈ‘‘ تجویز کیا گیا۔ ایجنسی صحافیوں سے اس بات کی متمنی تھی کہ جو حساس قسم کی خبر ان کے ہاتھ آئی ہے نہ صرف اس پر اعتماد کیا جائے بلکہ اس کے برعکس اشتراکیت کے خلاف لکھا جائے اور جب کبھی ضرورت پیش آئے تو سرمایہ داری کی موافقت میں پروپیگنڈا کیا جائے۔
موکنگ برڈ کو اکسانے والوں میں، فرانک وزینر، اَلان ڈیویس، رچرڈ ہیلمس اور فلپ گراہم تھے۔ گراہم کیتھرائین گراہم کا شوہر اور واشنگٹن پوسٹ کا پبلشر تھا، حقیقت میں سی آئی کے ساتھ یہ پوسٹ کے تعلقات ہی تھے کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد واشنگٹن پوسٹ کی نہ صرف تیزی سے ریڈر شپ میں اضافہ ہوا بلکہ اس کے خاصے اثرات بھی قائم ہو گئے۔
موکنگ برڈ غیرمعمولی طور پر کامیاب رہا۔ بہت ہی تھوڑے وقت میں ایجنسی نے ۲۵ میڈیا آرگنائزیشنز کو سی آئی اے کے پروپیگنڈے کو پھیلانے میں اپنے زمزمے میں بھرتی کر لیا۔ اور تقریباً چار سو صحافیوں نے سی آئی اے میں شرکت اختیار کر لی۔ جو خاص خاص نام ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ قلب اینڈ کیتھرائین گراہم (پبلشر واشنگٹن پوسٹ)
۲۔ ولیم پیلے (صدر، سی بی ایس)
۳۔ ہنری لوئیس (پبلشر ٹائم اینڈ لائف میگزین)
۴۔ آرتھر ہیسز سلز برگر (پبلشر این وائی ٹائمز)
۵۔ جیری او یئسری (واشنگٹن اسٹار)
۶۔ ہالی ہینڈ ریکس (پُلہٹ زر پرائز ونر‘ میامی نیوز)
۷۔ بیری ہنگھم سینیئر (لوٹس ویلی کوریئر جرنل)
۸۔ جیمز کویلے نیوز سروسز
۹۔ جوزف ہیری سن (ایڈیٹر، کرسچیئن سائنس مانیٹر)
۱۰۔ سی ڈی جیکسن (فارچون)
۱۱۔ والٹر پنکس (رپورٹر، واشنگٹن پوسٹ)
۱۲۔ اے بی سی
۱۳۔ این بی سی
۱۴۔ ایسوسی ایٹڈ پریس
۱۵۔ یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل
۱۶۔ رائٹر
۱۷۔ ہیئرسٹ نیوز پیپر
۱۸۔ اسکربیس ہو وارڈ
۱۹۔ نیوز ویک میگزین
۲۰۔ میوچل براڈ کاسٹنگ سسٹم
۲۱۔ میامی ہیرالڈ
۲۲۔ اولڈ سیٹرڈے ایوننگ پوسٹ
۲۳۔ نیویارک ہیرالڈ ٹریبون
شاید کوئی بھی اخبار سی آئی اے کی نگاہوں میں واشنگٹن پوسٹ سے بڑھ کر اہم نہیں ہے۔ یہ قوم کے دائیں بازو کے اخبارات میں سے ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسا مؤقر جریدہ ہے کہ جس کے توسط سے قیمتی ذاتی روابط اعلیٰ درجہ کی ذہانت کے ساتھ قائم ہو جاتے ہیں، یعنی سیاسی اور بڑی کاروباری شخصیات کے ساتھ جو اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ دوسرے اختیارات کے برعکس اس کے بیورو آفس تمام دنیا کے ارد گرد ہیں، لہٰذا اے پی وائر سروسز پر دارومدار کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے۔ اس کا مالک فلپ گراہم دوسری جنگِ عظیم میں ملٹری انٹیلی جنس پروفیسر تھا اس کے بعد وہ سی آئی اے کے موقر افراد مثلاً فرانک وزنر، ایلن ڈیویس، ڈیز منڈ فزجیرالڈ اورر رچرڈ ہیلمس (Rechard Helms) کا گہرا دوست بن گیا۔ وہ کیتھرائن گراہم سے شادی کے بعد جس کا باپ اس کا مالک تھا واشنگٹن پوسٹ کا مالک بن گیا۔
فلپ نے ۱۹۶۳ء میں خود کشی کر لی۔ کیتھرائن گراہم نے اخبار کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ کیونکہ وہ اپنے شوہر کی کار فرمایوں اور جاسوسی کے طور طریقوں سے آگاہ تھی اس نے بھی اپنے اخبار کو فروغ دینے کے لیے سی آئی اے سے تعلقات استوار کیے اس نے ۱۹۸۸ء میں سی آئی اے کے اہلکاروں سے لینگلے، ورجینیا میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ہم ایک گندی اور خطرناک دنیا میں رہتے ہیں۔ یہاں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو کہ عوام کو جاننے کی ضرورت نہیں اور انہیں جاننا بھی نہیں چاہیے۔ میرا یہ یقین ہے کہ جمہوریت اس وقت فروغ پاتی ہے جب حکومت اپنے رازوں کے تحفظ کے لیے جائز اقدام اٹھا سکتی ہو اور جب پریس یہ فیصلہ کر سکتا ہو کہ آیا جس بات کو جو وہ جانتا ہے اسے شائع کیا جائے یا نہیں‘‘۔ یہ حوالہ سی آئی اے کے ناقدین میں کلاسک حیثیت اختیار کر گیا ہے جمہوریت کو ان الفاظ نے کتنا حقیر اور جھوٹا کر دیا ہے۔ اصل میں یہ ایک سیاسی ایجنڈا ہے جو واشنگٹن پوسٹ کی سرخیوں کے پس منظر میں پوشیدہ ہے۔
ین براڈلے سرد جنگ میں کافی عرصے تک پوسٹ کا منیجنگ ایڈیٹر رہا ۔ اس نے پیرس میں واقع امریکی سفارت خانے میں ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۳ء تک کام کیا، جہاں وہ سی آئی اے اسٹیشن چیف کے ان احکامات کی بجاآوری کرتا تھا جس کا تعلق یورپین پریس کے ذ ریعے پروپیگنڈا کرانا ہوتا تھا۔ بیشتر امریکی غلیظ انداز میں یہ یقین کرتے تھے کہ بریڈلے پوسٹ کے غیر قدامت پسندانہ نقطۂ نگاہ کی مخصوص انداز میں قطعی طور پر نمائندگی کر رہا ہے اور اس نے اپنے کردار کو پینٹاگون پیپرز کی اشاعت اور واٹر گیٹ کی چھان بین کے لیے وقف کر دیا ہے۔ لیکن یہ دونوں سانحات کیا ایسے ہی تھے جیسا کہ نظر آتے تھے۔ پوسٹ نے محض پینٹاگون پیپرز اس وقت شائع کیے جب نیویارک ٹائمز ان کو پہلے ہی شائع کر چکا تھا کیونکہ اس کے نزدیک یہ مقابلے والی بات تھی۔ اب جہاں تک واٹر گیٹ اسکینڈل کا تعلق ہے تو ہمیں اس سلسلے میں سی آئی اے کی وجوہات کا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ کیوں قلیل مدت میں نکسن کے اقتدار کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ کسی نے بریڈلے سے پوچھا ’’کیا یہ بات آپ کو تکلیف دیتی ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کو مخصوص زاویۂ نگاہ رکھنے والے لبرل فکر کے حامل افراد کا مرکز نگاہ سمجھ لیا گیا ہے بجائے اس کے کہ صحافیوں کا چیمپئن سمجھا جاتا اور صرف واٹر گیٹ اسکینڈل کی بناء پر بریڈلے نے جواب دیا یہ ایک ناگوار حقیقت ہے جس کا ارتکاب اس سے ہوا۔
اس مختصر مضمون میں تفصیل بیان کرنا ناممکن ہے حتیٰ کہ ان اہم مثالوں کو بھی ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا جن کا تعلق سی آئی اے اور میڈیا سے ہے۔ سیگ میکلسن سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ وہ سی بی ایس نیوز کا ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۱ء تک صدر رہا اس کے بعد وہ ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی کا صدر رہا جو سی آئی اے پروپیگنڈے کے سرچشمے تھے۔ سی آئی اے نے خود اپنی دو میڈیا کمپنیاں خریدیں یا ان کو قائم کیا۔ یہ روم ڈیلی امریکن کا ۴۰ فیصد کا حصہ دار تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اشتراکی اطالوی انتخابات کو جیت لینے کی دھمکی دے رہے تھے تو سی آئی اے نے بیشتر ڈومیسٹک میڈیا کمپنیوں کو خرید لیا تھا۔ ایک اور نادر مثال کیپیٹل سٹیز کی ہے جنہیں سی آئی اے کے بزنس مین ولیم کیسے (جو بعد میں ریگن کا سی آئی اے ڈائریکٹر بنا) نے ۱۹۵۴ء تخلیق کیا۔ ایک دوسرا بانی لوویل تھوماس تھا جو سی آئی اے ڈائریکٹر ایلن ڈیویس کا قریبی دوست تھا۔ ایک دوسرا بانی سی آئی اے کا بزنس مین تھوماس ڈے وی تھا ۱۹۸۵ء تک کیپیٹل سٹیز اتنی زیادہ طاقتور ہو گئیں کہ انہوں نے پورا تر ٹی وی نیٹ ورک اے بی سی خرید لیا۔
وہ لوگ جو پریس اور ریاست کی علیحدگی پر یقین رکھتے ہیں اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ سی آئی اے کے پروپیگنڈے کے یہ خفیہ سرچشمے ہیں جو تمام میڈیا پر غالب ہیں۔ آخر امریکا سی آئی اے کے جرائم جن کا ارتکاب ۱۹۴۰ء اور ۱۹۵۰ء کی دہائی میں کیا گیا ان کو کیوں فراموش کیے رہا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میڈیا بڑی امنگوں کے ساتھ ایجنسی کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا اور جو لائن میڈیا کو دی جاتی اس پر پورا پورا عمل کیا جاتا۔ آج بھی جبکہ سی آئی اے کی بد اخلاقی واضح ہونے لگتی ہے تو فوراً میڈیا پر ڈبیٹ (بحث و تمحیص) کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اس بارے میں ایک مثال توجہ کی محتاج ہے۔
’’دی سان جوس مرکری نیوز نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی کہ سی آئی اے نے وسطی امریکا میں مخالف جنگ، کنٹرا وار کے ضمن میں فنڈ مہیا کرنے کے لیے لاس اینجلس میں کوکین فروخت کی۔ ایک ماہ بعد سی آئی اے کے تین اہم میڈیا اتحادیوں یعنی واشنگٹن پوسٹ، دی نیویارک ٹائمز اور لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی گنوں کا رُخ مرکری رپورٹ کی جانب کر دیا اور ایک ہی وار میں اس کو تہس نہس کر دیا۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے آرٹیکل کس نے لکھا؟ فرمانبردار والٹرینکس نے جو ایک طویل مدت تک سی آئی اے کا صحافی رہا تھا۔ اب یہ حقائق بالکل واضح ہو گئے ہیں کہ سی آئی اے کی جڑیں ہمارے گمان سے بھی زیادہ گہرائیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اکیڈمی کے افراد:
۱۹۵۰ء کی دہائی میں ایلن ڈیو لیس نے سی آئی اے کا خصوصی عملہ آئی وی لیگ کے گریجویٹ سے اکٹھا کیا اور خاص طور پر ایلے (Yale) سے سی آئی اے کے بظاہر الگ تھلگ افراد کا گروہ مثلاً جارج بش کا تعلق بھی ایلے کی اسکل کراس بونز سوسائٹی سے تھا۔ سی آئی اے کے بھرتی کرنے والے افراد نے دیگر ہزاروں پروفیسروں کو ان کی یونیورسٹیوں میں سی آئی اے کے لیے جز وقتی کام کرنے پر آمادہ کیا، ان سب کی بھرتی کنٹریکٹ کی بنیاد پر کی گئی صرف یہی نہیں بلکہ اس ایجنسی نے بیشتر شعبے زعماء کی یونیورسٹیوں میں قائم کیے ان میں ہاورڈ رشین ریسرچ سینٹر اور سینٹر برائے انٹرنیشنل اسٹڈیز واقع ایم آئی ٹی بھی شامل ہیں۔
اگرچہ بیشتر اکیڈمیاں ۱۹۵۰ء کی دہائی میں سی آئی اے کے لیے بڑی معاون ثابت ہوئی تھیں، لیکن اکثر اس کی بداعمالیوں سے قطعی آگاہ نہیں تھیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اکیڈمیاں (تعلیمی ادارے) یہ جان کر اشتعال میں آ گئے کہ مخالف اشتراکی منتظمین مثلاً اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن وغیرہ کو حقیقت میں سی آئی اے نے قائم کیا تھا۔ سب سے زیادہ نڈر اور بے باک محاذ کانگریس فار کلچرل فریڈم تھا۔ یہ ایک ایسی تنظیم تھی جو آزاد ذہن کے لوگوں، آزاد سوچ کے حامل فنکاروں اور وہ دانشور جو اشتراکیت سے بدظن تھے، کے لیے بہرحال بڑی پرکشش تھی۔
اب ۱۹۶۰ء کے اواخر اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ایک ایسا وقت آیا جب سی آئی اے کے جرائم اور اس کی سفاکیوں کی رپورٹ نے اکیڈمیوں کو سی آئی اے سے برگشتہ کر دیا اسکالرز کو یہ جان کر مزید پریشانی لاحق ہو گئی کہ سی آئی اے اسٹوڈنٹ اینٹی وار گروپوں میں بھی داخل ہو گئی ہے اور ان میں انتشار پیدا کر دیا ہے۔ بزنس اور میڈیا کے قطعی برعکس اکیڈمیوں نے بہت حد تک سی آئی اے کو ویتنام کی جنگ کے بعد ہدفِ ملامت بنانا شروع کیا۔ آخر کار اس بات نے سی آئی اے کو مجبور کر دیا کہ اپنے تجزیہ نگار اور اسکالرز کو دوسری جگہوں سے تلاش کرے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ اہم ذریعہ قدامت پسند تحریک کا فکری حلقہ تھا جس کو فروغ دینے میں سی آئی اے نے ان کی اعانت کرنا شروع کر دی۔
رومن کیتھولک چرچ:
اگرچہ سی آئی اے زیادہ تر پروٹسٹنٹ تنظیم کے طور پر وجود میں آئی تھی، لیکن جلد ہی رومن کیتھولک تیزی کے ساتھ ۱۹۴۸ء میں نیو کورٹ ایکشن ونگ میں غالب آ گئے یہ سب کے سب سختی کے ساتھ قدامت پرست تھے، شدت کے ساتھ اشتراکیت کے مخالف اور معاشرتی طور پر بڑے لوگ تھے۔ ان میں سے چند ایک مستقبل کے سی آئی اے ڈائریکٹرز بھی بنے مثلاً ولیم کول بائی، ولیم کازی اور جوہن میکون وغیرہ۔ اس دور کی ایک دوسری مشہور شخصیت ولیم ایف بکلے جونیئر، ایڈیٹر نیشنل ریویو کی ہے۔ بعد میں اس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ میکسیکو میں سی آئی اے کے ایجنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتا رہا ہے۔
کیتھولک زعماء جس کثرت سے سی آئی اے میں داخل ہوئے اس کی کئی ایک وجوہات تھیں پیلے وزنر (جو خود بھی وال اسٹریٹ کا وکیل تھا) اور اس کے دوستوں کا ایک شاندار حلقہ تھا۔ اس حلقے سے وہ ایسے دوست حاصل کر سکتا تھا جو سی آئی اے کے لیے برضا و رغبت کام کر سکتے تھے۔ دوسری وجہ یہ کہ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں اطالیہ مستقلاً جنگِ عظیم دوم کے دوران اور اس کے بعد بھی بحران کا شکار رہا۔ اس تمام تر مشکل عرصے کے دوران امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کا سب سے بڑا اتحادی رومن کیتھولک چرچ تھا، اور اس میں شک نہیں کہ رومن کیتھولک چرچ دنیا میں اشتراکیت کی انتہائی مخالف تنظیموں میں سے ایک تھا۔ مارکس کا دہریت کا عقیدہ کیتھولک مذہبیت کے لیے ایک بہت بڑی دھمکی تھی۔ نیز اشتراکیت کی مساوات کا نظریہ رومن کیتھولک چرچ کے لیے سمِ قاتل سے کم نہیں تھا۔ چرچ کا روایتی قسم کا اقتدار اور آمریت پسندی وہ بھلا اشتراکیت کو کہاں برداشت کر سکتا تھا۔ جس وقت ہٹلر نے اشتراکی روس پر حملہ کیا تو ویٹی کن نے واضح طور پر اس کو سراہا۔ جیسویٹ مائیکل سیرافین رقم طراز ہے ’’اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ پوپ پیس یاز دہم (Pius XII) کے قریبی مشیر نے کچھ وقت کے لیے ہٹلر کی آرمرڈ ڈویژنوں کو خدا کے دستِ راست سے تعبیر کیا۔ لیکن اسی دست راست نے کیتھولک کی جانب بھی دستِ استبداد اسی انداز میں دراز کیا اور بالآخر چرچ کو امریکیوں کی جانب دھکیل دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ویٹی کن کا ایک خفیہ معاہدہ ۱۹۴۳ء میں او ایس ایس کے چیف ڈونووان کے ساتھ ہوا جو خود بھی ایک پرخلوص اور سچا کیتھولک تھا۔ لہٰذا اطالیہ میں ’’ہولی سٹی‘‘ اتحادی جاسوس آپریشنوں کا مرکز بن گیا۔ ڈونووان نے چرچ کو اپنے ذہین افراد میں شمار کرتے ہوئے عالمی سطح پر کُھل کھیلنے کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے رکنیت اور رابطوں کی بھی اجازت دے دی اس نے اس اتحاد سے یہ فائدہ اٹھایا کہ امریکا کے انتہائی باوقار کیتھولک کو ویٹی کن روانہ کیا تاکہ ہم آہنگی پیدا ہو اور اتحاد قائم ہو۔
جنگ کے بعد تقریباً نصف یورپ اشتراکی کنٹرول میں آ گیا اور ۱۹۴۸ء میں اطالیہ میں اشتراکی پارٹی کے انتخابات جیتنے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے۔ کیتھولک چرچ کے مرکز میں اشتراکی اقتدار کے امکانات نے ویٹی کن کو بہت زیادہ خوفزدہ کر دیا۔ ایک بار پھر امریکی انٹیلی جنس نے اپنے انتہائی باوقار اور بااثر کیتھولک کو ویٹی کن کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط اور مربوط کرنے کے لیے جمع کیا کیونکہ یہ نیوکاورٹ ایکشن ڈویژن کا پہلا مشن تھا اور امریکی کیتھولک ایجنٹوں نے جلد ہی قوت پکڑ لی اور باقی ماندہ سرد جنگ کے دوران کاورٹ آپریشنوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔
عوامی سطح پر امریکی حکومت نے ۳۵۰ ملین ڈالر معاشرتی اور عسکری امداد کے طور پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے اطالیہ پہنچا دیے۔ نیز خفیہ طور پر وزنر نے دس ملین ڈالر بلیک بجٹ فنڈ کے لبادے میں لپیٹ کر ان انتخابات میں سرقہ کرنے کے لیے خرچ کیے۔ اور یہ سب کچھ بائیں بازو کے سیاست دانوں کو شکست دینے، رائے دہندگان کو خوفزدہ کرنے اور بائیں بازو کی پارٹیوں میں خلل ڈالنے کے لیے کیا گیا۔ ظاہر ہے ان سب کارروائیوں کے لیے سرمائے کی تو ضرورت تھی۔ ان گندی حرکتوں نے اپنا رنگ دکھایا، اشتراکی ہار گئے اور امریکی کیتھولک نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ انہوں نے سی آئی اے میں مستقل طور پر قوت پکڑ لی۔۔۔ جاری ہے!
{}{}{}
Leave a Reply